ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے صدقۂ فطر میں صرف غلہ نکالنے کی بات ہی ثابت ہے، رہی بات ان کی طرف منسوب قول کی تو در حقیقت وہ تمام اقوال جن میں قیمت نکالنے کی بات ہے تو وہ سب کے سب مال کی زکاۃ سے متعلق ہیں نہ کہ صدقۂ فطر سے متعلق۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے وہ تمام اقوال جو ”زکاۃ میں قیمت“نکالنے سے متعلق ہیں درج ذیل ہیں:
وَيَجُوزُ إخْرَاجُ الْقِيمَةِ فِي الزَّكَاةِ لِعَدَمِ الْعُدُولِ عَنْ الْحَاجَةِ وَالْمَصْلَحَةِ مِثْلُ أَنْ يَبِيعَ ثَمَرَةَ بُسْتَانِهِ أَوْ زَرْعَهُ فَهُنَا إخْرَاجُ عُشْرِ الدَّرَاهِمِ يُجْزِئُهُ وَلَا يُكَلَّفُ أَنْ يَشْتَرِيَ تَمْرًا أَوْ حِنْطَةً[الفتاوى الكبرى لابن تيمية:۵/۳۷۲]اگر حاجت و مصلحت نظر انداز نہ ہو رہی ہو تو زکاۃ میں قیمت نکالنی جائز ہے، جیسے کہ کوئی شخص اپنے باغ کا پھل بیچے یا اناج فروخت کرے، تو ایسی صورت میں درہم کا دسواں حصہ نکالنا کافی ہوگا، اسے کھجور یا گیہوں خریدنے کا مکلف نہیں کیا جائے گا۔
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں کہ:
وَالثَّالِثُ: أَنَّهُ لَا يُجْزِئُ إِلَّا عِنْدَ الْحَاجَةِ، مِثْلَ مَنْ يَجِبُ عَلَيْهِ شَاةٌ فِي الْإِبِلِ وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ[القواعد النورانية:ص۱۳۶]اور (زکاۃ میں قیمت نکالنے کے مسئلے میں) تیسرا قول یہ ہے کہ ایسا کرنا حاجت کے وقت جائز ہوگا، مثال کے طور پر کسی کے اوپر اونٹ کی زکاۃ میں ایک بکری واجب ہوئی ہو اور اس کے پاس بکری نہ ہو۔ٍ
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بطور مثال جن امور کو ذکر کیا ہے ان سے صاف واضح ہے کہ وہ اس زکاۃ کی بات کر رہے ہیں جو سالانہ طور پر نکالی جاتی ہے، کیوں کہ مال کا دسواں حصہ زمین سے نکلنے والے اناج پر یا پھلوں پر واجب ہوتا ہے۔
اسی طرح اونٹ میں جس زکاۃ کا وجوب ہے وہ مال کی زکاۃ ہے، صدقۂ فطر نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ جب انھوں نے صدقۂ فطر کے مسئلہ پر بات کی تو قیمت نکالنے کا کہیں بھی کوئی ذکر نہیں کیا بلکہ غلہ نکالنے کو ہی واجب کہا ہے۔
ملاحظہ کریں صدقۂ فطر کے سلسلے میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اقوال:
وَلِهَذَا أَوْجَبَ اللَّهُ طَعَامًا كَمَا أَوْجَبَ الْكَفَّارَةَ طَعَامًا[الفتاوى الكبرى لابن تيمية:۲/۴۹۱]اور اسی لیے اللہ رب العالمین نے (صدقۂ فطر میں) غلہ واجب کیا ہے جس طرح سے کفارہ کی ادائیگی میں غلہ واجب کیا ہے۔
(واضح رہے کہ یہ بات ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے صدقۂ فطر کے باب میں کہی ہے)
ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
جَعَلَهَا طُعْمَةً لَهُمْ يَوْمَ الْعِيدِ يَسْتَغْنُونَ بِهَا، فَإِذَا أَخَذَ الْمِسْكِينُ حَفْنَةً لَمْ يَنْتَفِعْ بِهَا وَلَمْ تَقَعْ مَوْقِعًا[الفتاوى الكبرى لابن تيمية:۲/۴۹۲]اور اسے (صدقۂ فطر کو) مساکین کے لیے کھانے کی چیز بنائی جس کے ذریعہ وہ (مانگنے سے) بے نیاز ہو سکیں، لہذا اگر مسکین ایک مٹھی لے گا تو نہ ہی وہ اس سے کوئی فائدہ اٹھائے گا اور نہ ہی صدقہ کی ادائیگی کا مقصد پورا ہوگا۔
اسے بھی ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے صدقۂ فطر کے باب میں بیان کیا ہے۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس قول سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ان کے نزدیک ’طعمۃ‘ سے مراد غلہ ہے، کیوں کہ انھوں نے کہا کہ ’’اگر مسکین مٹھی بھر لے۔۔۔۔۔‘‘، اور ہم یہ جانتے ہیں کہ جو چیز مٹھی بھر دی جاتی ہے وہ غلہ ہے نہ کہ قیمت۔
بلکہ انھوں نے اگلى سطر میں اس کو اور بھی واضح کرتے ہوئے کہا کہ:
حفنة من الحنطة( مٹھی بھر گیہوں)
ایک تیسرے مقام پر فرماتے ہیں:
وَصَدَقَةُ الْفِطْرِ وَجَبَتْ طَعَامًا لِلْأَكْلِ لَا لِلِاسْتِنْمَاءِ، فَعُلِمَ أَنَّهَا مِنْ جِنْسِ الْكَفَّارَاتِ[الفتاوى الكبرى لابن تيمية:۲/۴۹۲]اور صدقۂ فطر غلہ کی صورت میں اس لیے واجب ہوا تا کہ (فقیر) اسے کھائے نہ کہ اس سے (اپنا مال) بڑھائے، یہی وجہ ہے کہ وہ کفارات کی جنس سے ہے۔
ان تمام امور سے یہی واضح ہوتا ہے کہ صدقۂ فطر کے مسئلے میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول بھی جمہور کے قول کے موافق ہے۔ واللہ اعلم
یہی تحقیق دکتور محمود ابراہیم الخطیب رحمہ اللہ کی بھی ہے۔[ مجلة الجامعة الإسلامية: العدد، ٢٤-١٤٢٤]
آپ کے تبصرے