رمضان المبارک کا آخری عشرہ ، پہلے دو عشروں کے مقابلے میں زیادہ باعظمت ہے۔ اس کی اہمیت و فضیلت اور اس میں عبادت الہٰی کے اہتمام بلیغ کے متعلق بطور خاص حدیثیں منقول ہیں۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
أن النبی کان یجتھد فی العشر الأواخر مالا یجتھدفی غیرھا( نبی اکرمﷺ (رمضان کے) آخری عشرہ میں (عبادت الہٰی کے اندر) جس قدر محنت اور کوشش کرتے وہ اس کے علاوہ دیگر عشروں میں نہیں کرتے تھے)
اور آپﷺکا یہ اہتمام و اجتہاد صرف اپنی ذات تک محدود نہیں ہوتا تھا بلکہ آپ اس بات کے بھی غایت درجہ حریص ہوتے تھے کہ اس عشرہ کی فضیلت سے آپ کے اہل و عیال بھی فیضیاب ہوں اور اس کی مبارک راتوں کو عبادت اور ذکر و تلاوت میں جاگ کر گذاریں۔ کیونکہ ایسے بابرکت ایام ولیالی اور حصول خیر کے مواقع ہمیشہ میسر نہیں ہوتے۔ اس لیے عقل مند اور خیر اندیش وہی ہے جو ان ساعتوں کی قدر کرے اور انھیں غفلت میں نہ گذارے۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحیحین میں روایت ہے وہ فرماتی ہیں:
كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا دخل العشر شد مئزره، وأحيا ليله، وأيقظ أهله( جب آخری عشرہ داخل ہوجاتا تو نبی ﷺ (عبادت کے لیے) کمر بستہ ہوجاتے (اور اعتکاف کرنے کے سبب بیویوں سے علاحدگی بھی اختیار کرلیتے۔ کمر کس لینا، ترک مجامعت سے کنایہ بھی ہے) اور اس عشرہ کی راتوں کو جاگ کر بسر کرتے اور اپنے اہل کو بھی جگاتے۔
حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ پوری شب جاگتے اور رات کے مختلف حصوں میں مختلف عبادتیں مثلاً نماز کی تیاری، طہارت اور وضو پھر نماز تہجد ذکر و اذکار ، تلاوت قرآن ، سحری تناول کرنا وغیرہ انجام دیتے۔ نہ یہ کہ پوری رات نماز میں مشغول رہتے۔ کیونکہ صحیح مسلم میں ایک دوسری روایت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ان کے علم کے مطابق آپﷺنے کبھی بھی پوری رات نماز میں مشغول ہوکر نہیں گذاری ۔ بہر حال رمضان المبارک کے آخری عشرہ کے اندر آپﷺصبح صادق تک دنیاوی مشاغل سے کنارہ کش ہوکر یکسوئی کے ساتھ عبادت الہٰی میں مصروف ہوجاتے تھے ۔ ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے نبی اکرمﷺکی اقتدا میں اس عشرہ میں عبادت کے لیےفارغ ہوں یا کم از کم دنیاوی مشاغل کو کم کردیں اور زیادہ سے زیادہ نوافل اور ذکر و تلاوت کا اہتمام کرکے اجر و ثواب کے حق دار بنیں اور اپنی ذات کے ساتھ اپنے بال بچوں کی بھی عبادت الہٰی کے لیے تربیت کریں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں سے صرف فرائض کے متعلق سوال کرے گا،لیکن ہمیں اپنی ان غلطیوں کا بھی احساس کرنا چاہیے جو رات دن ہم سے سرزد ہوتی ہیں۔ کیا یہ فرائض ہماری تمام غلطیوں اور کوتاہیوں کا کفارہ ہوسکیں گے؟ اورکیا یہ فرائض ہم سے مطلوبہ طریقہ پر انجام بھی پاتے ہیں کہ ہمیں اپنی کامیابی کی گارنٹی ہو؟ وہ ذات اقدس جس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیے گئے تھے اور جو رب کی بندگی انتہا درجہ اخلاص و تواضع کے ساتھ بجا لاتے تھے وہ فرائض کے ساتھ نوافل کے بھی حد درجہ پابند ہوں، آخری عشرہ میں عبادت کے لیے چاق و چوبند ہوتے ہوں اور اجروثواب میں بال بچوں کو بھی شریک کرتے ہوں اور ہم ان کی امت کہلاکر نوافل تو کیا فرائض تک سے پہلو تہی کریں ، تن آسانی کو راہ دیں اور لہو ولعب میں مشغول ہوکر یا سوکر ان مبارک راتوں کو گذاردیں ، نہ اپنا خیال ہو نہ بچوں کا احساس۔ واللہ یہ نہایت بے حسی اور ہماری حرمان نصیبی ہے۔ شیطان ہمیں اللہ کے راستہ سے روک رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری غفلتوں کو دور فرمادے اور شیطان کے زور اور تسلط سے محفوظ رکھے۔
رمضان کے آخری عشرہ کی چند خصوصیات:
(۱)اعتکاف:
نبی اکرم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ کا تاحین حیات اعتکاف کرتے رہے اورآپ کی رحلت کے بعد ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن نے اعتکاف کیا، جیسا کہ صحیحین میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔ اعتکاف کی سنت پر قرآن مجید بھی دلالت کرتاہے۔ ارشاد ربانی ہے:
ولا تباشروھن وأنتم عاکفون فی المساجد (البقرہ:۱۸۷) اور اپنی عورتوں سے مباشرت نہ کرو اس حال میں کہ تم مسجدوں میں معتکف ہو۔
اعتکاف کا مقصد ہی لوگوں کے عام میل جول اور دنیاوى مشاغل سے کٹ چھٹ کر اللہ کی طاعت و بندگی کے لیے فارغ ہونا ہے، تاکہ معتکف اس عشرہ کی فضیلت و ثواب سے بہرہ ور ہوسکے اور خاص کر لیلۃ القدر کا حصول اس کے لیے ممکن اور آسان ہوجائے ۔ لہٰذا معتکف کو لایعنی باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے اور ذکرو قرأت اور نماز و عبادت کے اندر زیادہ سے زیادہ مشغول رہنا چاہیے۔ ضرورت اور مصلحت کے پیش نظر جائز اور کار آمد باتیں اپنے اہل و عیال اور دیگر لوگوں سے کرنی جائز ہیں۔
(۲)لیلۃ القدر:
اس عشرہ کی دوسری بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے اندر لیلۃ القدر مخفی ہے۔ اور جفت راتوں کے مقابلہ میں طاق راتیں اس کا محل ہیں۔ اور دلائل پر غائرانہ اور منصفانہ نظر کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی ايك رات میں متعین نہیں بلکہ منتقل ہوتی رہتی ہے۔ کبھی اکیسویں شب میں تو کبھی تئیسویں شب میں اور کبھی پچیسیویں شب میں تو کبھی ستائیسویں اور انتیسویں شب میں ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مخفی فرماکر بندوں پر بڑا احسان کیا ہے تاکہ بندے متعدد راتوں میں نماز، ذکر و اذکار اور تلاوت وغیرہ کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ ثواب اور اللہ سے قربت حاصل کرسکیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے پوشیدہ فرماکر اس شب کی تلاش و جستجو میں رغبت رکھنے والوں اور سستی و کاہلی کا مظاہرہ کرنے والوں کے مابین تمیز کرنا چاہتا ہو۔ بہر حال مخلص اور سچی طلب رکھنے والے بندوں کے لیے اس کا حصول بفضل اللہ تعالیٰ مشکل نہیں ہے۔
اس رات کی عظمت کو اجاگر کرنے کے لیے قرآن مجید کی ایک سورت ہی اس کے نام سے موسوم ہے، چنانچہ سورۃ القدر پر غورکرنے سے اس کی فضیلت چند طریقوں پر ثابت ہوتی ہے:
۱۔دنیائے انس و جن کی ہدایت اور دنیوی و اخروی سعادتوں کا سرچشمہ قرآن مجید اسی رات میں نازل ہوا۔
۲۔اس رات کی عبادت اور اس کا قیام ( تراویح و تہجد) ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔
۳۔ملائکہ اور ملائکہ کے سردار جبریل امین علیہم الصلاۃ و السلام اس رات میں دنیا میں تشریف لاتے ہیں اور ان کا نزول برکت و رحمت کا ضامن ہے۔
۴۔یہ رات سلامتی کی رات ہے عبادت کرنے والے بندوں کے حق میں عذاب و عقاب سے سلامتی مقدر کردی جاتی ہے۔ اس رات کی فضیلت میں صحیح بخاری و مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مشہور حدیث منقول ہے:
من قام ليلة القدر إيمانا وإحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه(ایمان و ثواب طلبی کی نیت سے جس نے لیلۃ القدر میں قیام ( تراویح اور تہجد) کیا تو اس کے ماقبل کے (صغائر) گناہ معاف کردیے جاتے ہیں ۔
ماہ رمضان میں قیام کر نے کی بھی یہی فضیلت حدیث میں بتلائی گئی ہے۔ یہ اللہ کا فضل عظیم ہے کہ اس نے لیلۃ القدر کے قیام کو سابقہ گناہ صغائر کا کفارہ بنا دیا ہے۔
(۳) صدقہ فطر:
اس عشرے کے اختتام سے ایک ہم فریضہ ’صدقہ فطر‘ بھی متعلق ہے جو ایک طرف روزہ داروں کے لغو و رفث (بیہودہ بکواس اور غلط حرکات) کا کفارہ اور روزوں کی قبولیت کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف فقراء و مساکین کے ساتھ احسان و رواداری اور عید الفطر کی خوشیوں میں انھیں شریک کر نے کا اہم سبب ہے، ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی نعمت توفیق جو بندہ کو دن میں روزہ رکھنے، شب میں قیام کر نے اور دیگراعمال حسنہ کی بجاآوری کی شکل میں حاصل ہوئی ہے۔ اس کا شکریہ بھی ہے اس لیے گھر کے ہر فرد کی جانب سے ایک صاع (چار مد) غلہ جو آدمی کی عام خوراک ہو عید گاہ جانے سے قبل نکال دینا اور فقراء اور مساکین کے حوالہ کر دینا ضروری ہے۔
ماہ صام کے اختتام پر ہر شخص کو اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ اگر کسی کو ایسا معلوم و محسوس ہو کہ اس نے بفضلہ تعالیٰ اس ماہ مبارک کے حقوق کی بہت حد تک بجا آوری کر دی ہے تو وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے کہ اسی کی توفیق سے یہ سب کچھ ممکن ہوسکا ااور پھر نیک عملوں پر ہمیشگی کرے اور اگر معاملہ اس کے برعکس نظر آئے تو اللہ کی طرف پلٹے اور اپنی کوتاہیوں کی اس سے معافی مانگے اور اپنا عذر پیش کر کے آئندہ اسلامی زندگی شروع کر نے کا اس سے عہد کرے توبہ کا دروازہ موت سے پہلے تک کھلا ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے ہم اپنی اور تمام مسلمانوں کی کوتاہیوں اور غفلتوں کی معافی چاہتے ہیں اور ٹوٹی پھوٹی بندگیوں کی قبولیت اور مستقبل میں حسن عمل کی توفیق کی دعا کرتے ہیں۔
والحمد لله رب العالمين وصلى الله وسلم على نبينا محمد وآله صحبه أجمعين
آپ کے تبصرے