بدن میں کہیں چوٹ لگے اور خون نکل جائے تو درد جلدی چلا جاتا ہے۔ ریکوری بھی تیز ہوتی ہے اگرچہ کٹنے کا نشان دیر تک رہتا ہے۔ چوٹ لگنے پر خون نہ نکلے تو متاثرہ خون پہلے جمع ہوکر لوتھڑا بنتا ہے، پھر دھیرے دھیرے کالا پڑ جاتا ہے اور ایک دن جسم سے الگ ہوجاتا ہے۔ یہ نشان بھی نظر آتا ہے مگر پہلے سے الگ ہوتا ہے۔ ہلکے نشان مٹ جاتے ہیں اور گہرے باقی رہتے ہیں۔
چوٹ دماغ پر لگتی ہے تو سوچنے، محسوس کرنے اور خواہش کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ یہ چوٹ ظاہری بھی ہوتی ہے اور معنوی بھی۔ معنوی چوٹ کا گھاؤ کتنا گہرا ہے اس کا اندازہ ایکسپریشن سے لگا پانا بہت مشکل ہے۔
کسی چوٹ پر ایک سی سے کام چل جاتا ہے اور کبھی چیخ سے کم کا ری ایکشن نہیں چلتا۔ کچھ چوٹ تو اتنے شدید ہوتے ہیں کہ بدن ہو یا دماغ سن ہوجاتے ہیں، کچھ بھی ری ایکٹ نہیں کرتے۔ ایکسپریشن دیکھ کر صرف حیرت نہیں ہوتی، کوئی وجہ بھی سمجھ میں نہیں آتی کہ صاحب معاملہ اتنا نارمل کیسے ہے؟
خبر ایسی الگ سی تھی کہ اگلے بہتر گھنٹے کی بھوک پیاس مٹاگئی، اس بیچ جو کچھ بھی حلق سے نیچے اترا اس کا ذائقہ معلوم نہیں پڑا۔ چوتھے دن صبح سب وے کی ویج سینڈوچ پینتیس روپے کی لگ رہی تھی حالانکہ ساڑھے تین سو ادا کرنے پڑے۔
خبر انتیس اپریل رات دس بجے کی ہے، دو ہفتے ہوگئے ذائقے سارے بحال ہوچکے ہیں مگر رگوں میں ارتعاش کا سلسلہ جاری ہے، آنکھوں میں نمی اور پھر کچھ دیر تک جلن کا احساس ہوتا رہتا ہے مگر پلکیں نہیں بھیگتیں۔
ہر سانس کی طرح ہر تعلق کا ایک دورانیہ ہوتا ہے۔ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ۔ جس طرح ہر ایک سانس سے عمر گھٹتی چلی جاتی ہے اسی طرح ہر انسان سے تعلق رکھنے والی دنیا کی ہر چیز یکے بعد دیگرے فنا ہوتی جاتی ہے۔ اسی لیے جس فانی شے سے جتنا گہرا تعلق ہوتا ہے اس کے فنا ہونے کی خبر سے اتنا ہی درد ہوتا ہے۔
درد سے آنسو نکل جانا درد کی شدت کا اظہار ہے۔ درد میں سن ہوجانا گہرے صدمے کی علامت ہے۔ صدمے کا اثر ہوتا ہے، پہلے زیادہ بعد میں کم ہوتا ہے۔ كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الموت۔ ہر جان کی ایک عمر مقرر ہے۔ ایک کیفیت لکھ دی گئی ہے دنیا میں آنے اور دنیا سے جانے کی۔ آمد و رفت دونوں خبریں بنتی ہیں خوشی اور غم کی، خبر سے پہلے نہ کسی کو علم ہوتا ہے نہ اندازہ۔
عطائیں رب کی ان گنت اور بے شمار ہیں۔ وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً خَيْرًا وَأَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ۔ سب سے بھلی اور وسیع عطا صبر ہے۔ صبر نہ ہو تو سب کم لگے۔ ما لِعَبْدِي المُؤْمِنِ عِندِي جَزاءٌ، إذا قَبَضْتُ صَفِيَّهُ مِن أهْلِ الدُّنْيا ثُمَّ احْتَسَبَهُ، إلَّا الجَنَّةُ۔ صبر ہو تو بندہ سب کچھ کھوکر بھی جنت پالے۔
تین بیٹوں اور ایک سب سے چھوٹی بیٹی میں سے سب سے عزیز، سب سے قریب اور سب سے محبوب تیسرے نمبر کی اولاد ساڑھے تین سال کا بیٹا کھونے کے بعد اگر والد صبر کرتا ہے، اپنے گھر دہلی سے تقریباً آٹھ سو کلومیٹر دور اپنی سسرال ضلع سدھارتھ نگر کے ایک گاؤں لوکیا میں اپنے لخت جگر سے محروم ہونے کے بعد تعزیت کرنے والوں کی خبرگیری میں لگا رہتا ہے، گمبھیر سچویشن اور نڈھال متعلقین کو سنبھالنے میں آگے آگے رہتا ہے، دن ہو یا رات چیزوں کو مکس نہیں کرتا، آس پاس کے حالات، متاثرین کے معاملات، ان کی ضروریات کا نہ صرف خیال کرتا ہے بلکہ اپنے غم پر متعلقین کی خوشی کو ترجیح دیتا ہے۔
اپریل کے انتہائی گرم موسم میں، دن میں جہاں ٹمپریچر چالیس سے نیچے نہ اترے، ٹھنڈا پانی پینے کے بعد بھی جہاں پیاس نہ بجھے صرف پیٹ بھر جائے، ہوائیں لپٹوں جیسی لگیں، بدن کا جو حصہ کھلا ہو وہ جلے جو ڈھکا ہو وہ تپے وہاں ایک معصوم بچہ تھوڑے سے پانی میں ڈوب جائے تو ایک عاجز انسان کیا سوچے اور کیا سمجھے۔ صبر ہی سے انسان راستے سے نہیں بھٹکتا۔
ایسی سچویشن میں والد اگر سب سے ہوش مند انسان ثابت ہوتا ہے تو حالات قابو میں رہتے ہیں مگر عام تجربے کی بنیاد پر بڑا تعجب ہوتا ہے۔
تیسرے دن ایک شادی کے موقعے پر ساتھ میں کھانا کھاتے ہوئے جب میں نے کہا کہ مجھے کوئی ذائقہ نہیں معلوم پڑرہا ہے تو عابد نے بتایا کہ اکیلے میں ہچکی بندھ گئی تھی۔
جب بھی عابد کی یہ بات یاد آتی ہے جبڑے میں درد محسوس ہوتا ہے۔ آج سے ٹھیک ایک مہینہ پہلے دہلی میں سولہ اپریل کی رات کو دس بجے اسی بچے نے مصافحہ کرتے ہوئے کہا تھا: میرا نام عمر ہے۔
اللہ صبر جمیل عطا فرمائے