خود بدلنے کے لیے

ابوالمیزان منظرنما

انسان‌ کو یہ شعور آتے آتے کئی سال لگ جاتے ہیں کہ جہاں اس کا جنم ہوا وہ گاؤں یا شہر جغرافیائی اعتبار سے کس حیثیت کا مالک ہے، اس کے والدین کیسے ہیں، اس کا گھر کیسا ہے، اس کے عزیز، رشتے دار، دوست اور پڑوسی کیسے کیسے ہیں۔
ہوا، پانی، مٹی، موسم، غذا، صحبت، سب مل کر بچے کو ایک کردار میں ڈھالتے ہیں۔ اس کردار میں دین، اخلاق اور طریقۂ کار سب شامل ہیں۔ سچا دین، اچھے اخلاق اور سیدھے طریقے بتادیے گئے ہیں، اصول پر چلنے میں معاشرتی خیر ہے، انفرادی مفادات کو اصولوں سے بیر ہے۔
گھر، شہر، والدین اور احباب چاہے جیسے ملے ہوں انسان اپنے افکار، عقائد اور اعمال سے اپنا پرسنل اسپیس، اپنا گردوپیش بنا بھی سکتا ہے اور بگاڑ بھی سکتا ہے۔ اشیاء کی سمجھ کے ساتھ انتخاب کے لیے سوجھ بوجھ دی ہے اللہ نے، اختیار کی صلاحیت دے دی ہے بندے کو۔ آگ لگانے سے چیزیں جل کر راکھ ہوں گی خاک ہوں گی، بیج بونے سے پانی دینے سے پیٹ کی آگ بجھے گی، سروں کو سایہ ملے گا، سانسوں کو راحت نصیب ہوگی۔ ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم
ایک کھیت میں اگے ہوئے اناج، ایک باغ میں آئے پھل، ایک فیکٹری میں بنے ہوئے کپڑے کتنے آس پاس کھپ جائیں گے، کتنے مسافروں کے ساتھ جائیں گے اور کتنے ایکسپورٹ ہوجائیں گے کسی کو نہیں پتہ۔ کتنے بیج اگنے سے پہلے سڑ جائیں گے، کتنے اگنے کے بعد کیڑے کھا جائیں گے اور کتنے سرد و گرم جھیلنے کے بعد باقی رہیں گے اور کتنے پیا ہوجائیں گے اس کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔
یہی حال انسانوں کا بھی ہے، ماں کی کوکھ میں پڑے ایک ناپاک قطرے کا سفر کیسا ہوگا، کوکھ میں تخلیق کے مراحل طے کرنے کے بعد ولادت کیسی ہوگی، اعضاء و جوارح صحیح سالم ہوں گے کیا، تربیت کیسی ہوگی، تعلیم کے کیا مواقع ہوں گے، تعلیم کتنی اور کہاں ہوگی، تجارت یا ملازمت کے لیے کہاں کہاں جانا پڑے گا، ذریعۂ معاش کیا ہوگا، صرف شہر بدلے گا یا ملک بھی بدل جائے گا، اللہ کے سوا کسی کو کچھ بھی نہیں پتہ۔
دنیا میں موجود تمام اشیاء کا دائرہ اثر لکھ دیا گیا ہے۔ صرف انس و جن کو اختیار دیا گیا ہے۔ راہیں اور منزل بتادی گئی ہیں، انتخاب کا اختیار دے‌ دیا گیا ہے۔ کسی کا بیٹا ہونا، کسی کا باپ ہونا یا کسی خاندان سے ہونا بنیادی طور پر تعارف کی بات ہے، طینت میں نیکی ہے تو ایک وجہ ہے شرف کی مگر یہ باقی تبھی رہے گی جب نیک طینتی سلوک میں برتی جائے۔ نام کوئی اور رکھتا ہے مگر اپنی نیک نامی کا سبب بندہ خود بنتا ہے۔ ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم
اصولوں کی پابندی میں نیتوں کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ نیتوں کی دھار سے دھارنائیں بھی بدل جاتی ہیں۔ اصول پسندی آسان کام نہیں ہے کیونکہ انسان جلد باز مخلوق ہے۔ خُلِقَ الْإِنسَانُ مِنْ عَجَلٍ سَأُرِيكُمْ آيَاتِي فَلَا تَسْتَعْجِلُونِ۔ اللہ نے انسانوں کا عام رخ بتادیا ہے، جس راہ کی منزل کامیابی ہے اس پر چلنے کے لیے صبر ضروری ہے، بندوں کو جلدی ہوتی ہے۔ كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَتَذَرُونَ الْآخِرَةَ۔ انبیاء عظیم ہوتے تھے، عام ڈگر سے بلند، بلندی پائیدار بنیادوں کے بنا ممکن نہیں ہے۔ اخلاق و کردار کی بلندی کے لیے علم و حلم، صبر و ضبط اور ایمان و ایقان کی بنیادیں ضروری ہیں۔ سمجھوتے ٹریک سے ہٹا دیتے ہیں۔
نیتوں میں جب کجی نہ ہو تو نتائج مینیج کرنے کی فکر نہیں ہوتی، دھارنا کیا ہے اس سے بھی فرق نہیں پڑتا۔ بس ایک دھن ہوتی ہے، ایک دھیان ہوتا ہے، دھارنائیں اسی دھن اور دھیان کے ادھین ہوتی ہیں۔
نیت و عمل میں یک رنگی سے انسان اپنے ناپسندیدہ گردوپیش میں رہ کر بھی نیک نام ہوسکتا ہے۔ بدلنے کا آئیڈیا سیدھا سادہ ہے مگر آسان کام نہیں ہے، جیسا عمل ہوگا ویسا اثر ہوگا، جیسا امتحان ہوگا ویسا نتیجہ نکلے گا۔ خود بدلنے کے لیے اپنا اخلاق اور طور طریقہ بدلنا ہے، ساری مخالفتوں، تمام اعتراضات اور سب کراہتوں کے باوجود بدلاؤ پر باقی رہنا ہے، اگے کہیں بھی پودا پہنچے گا وہاں جہاں کے لائق ہوگا۔
ار (عراق) میں ولادت ہوئی تھی، سترہ سو کلو میٹر دور پہنچ کر ایسا کارنامہ انجام دیا جو قیامت تک باقی رہے گا۔ بت گر باپ کے گھر پیدا ہونے اور بت پرست قوم میں رہنے کے باوجود شرک اور بتوں سے نفرت نے بطحاء پہنچادیا۔ نمرود کی آگ بھی روکنے میں ناکام رہی۔ وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ

آپ کے تبصرے

3000