فلم پرستی کا بڑھتا خمار

رشید سمیع سلفی سماجیات

اسلام روحانیت، تقوی، پاکیزگی، اصول، معیار، قربانی اور پابندی سے عبارت ہے، اسلام انہی قدروں کے ساتھ اپنے حقیقی پیرایے میں نظر آتا ہے، مگر اسلام “سیعود کما بدأ” کے مصداق گذرتے دن رات کے ساتھ اجنبیت کی راہ پر گامزن ہے، وقت اور زمانے کی ہواؤں کے زور پر سوچ وفکر میں تبدیلی کا عمل جاری ہے، سب کچھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، ایک مادہ پرست اور مریض ذہنیت ہے جو ایک نئے انداز اور نئی نفسیات کی خوگر ہے، الحاد‌ و انحراف کا ملا جلا اثر ہے، یہ ایک ایسے متبادل دین اور طرز فکر کا خواہشمند ہے جس میں آزادی ہو، مطلق العنانی ہو، حد درجہ رعایت اور من مانی ہو، وہ اسلام کی صاف ستھری تعلیمات کو اپنے مذاق کے تابع کرنا چاہتے ہیں اور یہ اچانک نہیں ہوا ہے بلکہ برسوں سے لوگ جو پڑھ رہے تھے اس کا نشہ اب چڑھ رہا ہے۔
یہ اصل اسلام کی نمائندگی اور ترجمانی کرنے والوں سے پرخاش رکھتے ہیں، کیونکہ وہ ان کے ہر دلیل ومنطق کے کھوٹ کو ظاہر کردیتے ہیں اور قدیم اسلوب پر اصرار کرتے ہیں، صحابہ اور سلف صالحین کا پیمانہ لے کر چلتے ہیں، وہ کتاب وسنت کی گائیڈ لائن سے ذرا بھی سرکنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں، یہ لوگ دقیانوس، رجعت پسند اور بنیاد‌پرست کہلاتے ہیں، ان کے خلاف محاذ بنانا، ان‌کا مذاق اڑانا، آئے دن ان پر طنز کرنا اور پھبتی کسنا جاری رہتا ہے، یہ ایک الگ ذہنیت ہے جو ایک خاص ماحول میں پروان چڑھی ہے، ان کا بیانیہ الگ ہے، ان کا طرز استدلال الگ ہے، یہ طرز مغرب کے دلدادہ ہوتے ہیں، ان کا پورا سرمایۂ فکرونظر لبلرزم سے مستفاد ہوتا ہے، ان کا ذہنی سانچہ کارگہ مغرب سے ڈھل کر آیا ہے، یہ اپنے قول وفعل کے لیے ویسٹرن کلچر کی ہم آہنگی چاہتے ہیں، یہ اسلام کے مجموعے کو چاروں طرف سے قطع و برید کرکے جدید فریم میں فٹ کرنا چاہتے ہیں، جی ہاں وہ خود ساختہ فریم جس کے کسی گوشے میں ان کی خواہشات اور مرضیات کے لیے گنجائش ہو، اس میں اس قدر لچک ہو کہ موم کے ناک کی طرح اس کو جدھر چاہیں موڑ دیں۔
یہ روز روز نئے نئے شوشے لاتے ہیں، قدیم‌ طرز میں خامیاں نکالتے ہیں، سچ کہوں تو فکری استحکام اور دینی روح سے عاری ذہن اسلام کے ملبے پر اپنے مزعومہ اور لچکدار اسلام کی تعمیر چاہتا ہے، بات لمبی ہورہی ہے، میں اصل نکتے پر آتا ہوں، یہ لمبی چوڑی تمہید ایک مخصوص روہے کے پس منظر میں ہے جو فلم، ڈرامہ، سیریل، اداکار اور آرٹ کے بارے میں نرم گوشہ رکھتا ہے، وہ قباحتیں جو اسلام اور اسلامی روح سے ذرہ برابر میل نہیں کھاتی ہیں بلکہ اسلام کی تعلیمات کو نقصان پہنچانے والی ہیں، یہ ان سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں، یہ اپنا پورا زور قلم انہی کو مزین کرکے پیش کرنے میں صرف کرتے ہیں، ان کے شر اور شناعت کو چند ظاہر فریب بیانیوں کے ذریعہ کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا [الكهف: 104] یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنی تمام تر کوشش دنیا کی زندگی کے لیے ہی کھپا دیں پھر وہ یہ بھی سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ بڑے اچھے کام کر رہے ہیں۔
یہ کون نہیں جانتا کہ سماج و معاشرہ کی اخلاقی بربادی میں فلموں کا بہت بڑا رول ہے، جرائم وکرائم کے فروغ میں سینمابینی کا بہت بڑا دخل ہے، جنسی بے راہ روی، فحاشی، اخلاقی انارکی، لوٹ کھسوٹ، نشہ، آوارگی، غفلت ودین بیزاری جیسے فتنوں کو معاشرے میں فروغ دیا ہے، اس ہمہ گیر خرابات کے پیچھے فلموں کے اداکار ہیں، ایکٹر ہیں، یہ سماج کے ہیرو نہیں بلکہ ویلن ہیں، فلموں سے ان کا مقصد زراندوزی ہے، کسب مال ہوتا ہے، پیسوں کے لیے ہر حد سے گزر جانا چاہتے ہیں، تخریب وفساد میں ایک مقابلہ جاری رہتا ہے، شر کے ان بیوپاریوں کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، ان سے سماج کے دینی طبقے کو باز رکھنے کی ضرورت ہے۔
سب سے زیادہ ہمارے نونہالوں پر فلموں کا‌خطرہ منڈلا رہا ہے، خام‌ ذہنوں‌ کو ظاہری چمک دمک کے فتنے سے کیسے روکا جائے؟ اس پر غور کرنےکی ضرورت ہے، ان کو بتایا جائے کہ یہ اولیاء الشیاطین ہیں، یہ شر وبدی کے علمبردار ہیں تاکہ ہماری نسلیں ان کے فریب سے محفوظ رہیں اور ان سے دلی وابستگی نہ رکھیں، مگر برا ہو فتنہ پرداز طبعیتوں کا جو جانے انجانے میں ان کو آئیڈیل اور ہیرو سمجھ بیٹھے ہیں، ان کے مداح اور حامی ہوتے ہیں، ان‌ کی‌ زندگی کے بارے میں اندر تک معلومات رکھتے ہیں، یہاں تک کہ ان کی پسند وناپسند ڈشوں اور پہناؤوں کے بارے میں بھی جانتے ہیں، بڑے فخر سے خود کو ان کا فین قرار دیتے ہیں، ان کی پرسنل زندگی میں تجسس رکھتے ہیں، اپنی پروفائل میں ان کی تصاویر لگاتے ہیں، ان کی فلموں کے پرموشن کے لیے پوسٹ لگاتے ہیں، ان کی ایک جھلک پالینے کو سب سے بڑی کامیابی تصور کرتے ہیں، ان کے ساتھ ایک سیلفی کو زندگی کا سب سے بڑا اعزاز خیال کرتے ہیں، فلمی دنیا ان کو کسی جنت سے کم نظر نہیں آتی ہے، بدقسمتی سے موجودہ دور میں مسلمانوں کے ایک طبقے کا یہی رجحان ہے، کسی بھی تنازعہ میں یہ ان کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں، ان کی ہمدردی اور پشت پناہی صرف اسلامی نام کی بنیاد پر ہوتی ہے، مذہب کے حوالے سے ہوتی ہے، جب بھی مسلم ایکٹر کسی تنازعہ کی زد میں آتے ہیں تو یہ لوگ مورچہ سنبھالنے کے لیے نکل پڑتے ہیں، وہ اسے دین ومذہب کی مقدس لڑائی سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔ یاد رہے فلمی دنیا کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے، ایکٹر وہ سب کام کرتے ہیں جو ان کے کیریر کا تقاضا ہوتا ہے، اسلامیوں کو فلم اور ایکٹروں کو دین سے جوڑ کر نہیں دیکھنا چاہیے، جی ہاں وہ دین جسے وہ پرِکاہ کی بھی حیثیت نہیں دیتے، ہم ان کے بارے میں دینی تعلیمات کے حوالے سے بات کریں تو یہ ایسے ہی ہے جیسے طوائفوں کے بارے میں برقعے کی بات کرنا، ظاہر سی بات ہے کہ ننگوں کے شہر میں لباس کی ضرورت کسے ہے؟ یہ فلمی دنیا ہے جو گلیمر، شہرت، ٹی آر پی اور پیسے پر یقین رکھتی ہے، مذہب کا استعمال کبھی کبھی ٹشو پیپر کے طور کرلیتی ہے، ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے، ان‌کو دینی طور پر موضوع بحث بنانا اور فتوے کے میزبان پر تولنا ایک لا یعنی عمل ہے۔
ان کی فلم کے ہٹ ہوجانے سے اسلام کی جیت نہیں ہوتی ہے، ان کی فلم کے کامیاب بزنس کرنے سے اسلام کے کاز کو تقویت نہیں پہنچتی ہے، ان کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ سے اسلام کی نیک نامی نہیں ہوتی ہے، ان کو کوئی کافر کہہ رہا ہے؟ ان کو کوئی مومن کہہ رہا ہے؟ یہ بحث سطحی قسم کے فلمی دیوانے کرتے ہیں جو فلموں میں ہی جیتے ہیں، ایک شخص کسی فلم میں کافر بنتا ہے تو کسی فلم میں مسلمان بن جاتا ہے، وہ ایک فلم میں کسی کو اپنی بہن بنالیتا ہے تو اسی کو دوسری فلم میں ہیروئین چن لیتا ہے، یہ اداکار کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں، ان کے پاس کوئی غیرت بھی نہیں ہوتی ہے، ان کی اولادیں بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عصمت دری کے مناظر فلماتی ہیں اور قدم قدم پر بےحیائی کو بڑھاوا دیتی ہیں، باپ بیٹی کی فلمیں انجوائے کرتا ہے اور مزید حد سے گزر جانے کا متمنی ہوتا ہے، آخر کس پہلو سے ان پر مذہبی اینگل سے بات کرنا چاہیے؟ ان کو اگر کوئی کچھ کہتا ہے تو ہمارے خون میں ابال کیوں آتا ہے؟ ان کو لوگ ٹرول کریں تو ہمارے جذبات میں اتھل پتھل کیوں ہوتی ہے؟ کیا اس وقت ان کے بھی جذبات میں تلاطم پیدا ہوتا ہے جب ملک میں مسلمانوں پر کوئی افتاد نازل ہوتی ہے؟ کیا یہ پورا ہنگامہ صرف اسلامی نام کا تقاضا ہے؟ اسلامی نام سے دوسرے مظلوموں کے لیے رگ حمیت کیوں نہیں پھڑکتی؟ کیا صرف اسلامی نام رکھ لینا کافی ہے؟ یہ کتنی بڑی دیدہ دلیری ہے کہ فلمی اداکار اسلام کے بارے میں بھی اپنی ناقص معلومات کے اظہار سے نہیں چوکتے، کوئی کہتا ہے روزہ غریبوں کے لیے ہے، کوئی کہتا ہے مذہب انسان کا پرائیویٹ معاملہ ہے، عبادت کرنا ہے تو کیسے بھی کرلو، نماز کیا ضروری ہے؟ کوئی کہتا ہے کہ مذہب سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں، ہم صرف ایک مذہب پر یقین رکھتے ہیں اور وہ ہے انسانیت۔۔۔۔
ان کی لائف سٹائل غیروں کو اسلام کے بارے میں کنفیوز کرتی ہے، ان کی مثالیں دے کر دوسرے مسلمانوں کو طعنہ دیاجاتا ہے کہ وہ بھی تو مسلمان ہیں، وہ تو ہمارے تہوار مناتے ہیں، وہ تو ہماری مورتیوں کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوجاتے ہیں، وہ ٹیکہ بھی لگا لیتے ہیں، ان کا تو دھرم نشٹ نہیں ہوتا ہے، دوسرے مسلمان آخر کیوں کٹر بن جاتے ہیں، کیوں اذان اور حجاب پر ضد کرلیتے ہیں، اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والوں کو ان کی وجہ سے شدت پسند اور کٹر سمجھا جاتا ہے، اس لیے مومنوں کو ان کو معیار بنانے کی ضرورت نہیں ہے، ہمارے لیے ہیرو وہ ہیں جو اسلامی شناخت کے ساتھ شاندار اخلاقی کردار رکھتے ہوں، جو عبادالرحمن کی صفات سے متصف ہوں، جنھوں نے موجودہ دور میں دفاع اسلام کا محاذ سنبھال رکھا ہے، ہمارے ہیرو وہ ہیں جنھوں نے اسلام کی نشرواشاعت میں کارہائے نمایاں انجام دیے، جنھوں نے باطل سے ہردور میں لوہا لیا، شرک وبدعت کے اندھیاروں کے خلاف جہاد کیا، پھر ہمارے سب سے بڑے آئیڈیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، وہ عظیم الشان شخصیت جو اللہ کے بعد سب سے زیادہ قابل عزت ہیں، جن کے اعلی اخلاقی کارنامے اداکاری نہیں حقائق ہیں، جو گفتار کے نہیں کردار کے غازی تھے، جنھوں نے دنیا کو شرم‌وحیا، عفت و پاکدامنی، تقوی وپارسائی، حسن‌کردار وحسن معاشرت، خدمت خلق اور انسانیت نوازی کا درس دیا، جو سکرین نہیں زمین کے ہیرو تھے، وہ پردے کے نہیں بڑے جگر گردے کے انسان تھے، وہ صرف انسانوں کے محبوب نہیں اللہ کے بھی محبوب تھے، وہ مرکر بھی کروڑوں انسانوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور رہیں گے۔ صلی اللہ علیہ و سلم

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Wafa

بہت خوب اللہ ہم تمام کو اس فتنے سے محفوظ رکھے آمین