نوجوانی میں اپنا مقام پیدا کر (طلبہ وطالبات کے لیے سبق آموز واقعات)

آصف تنویر تیمی تعلیم و تربیت

تحصیل علم کو کسی خاص وقت یا عمر سے جوڑا نہیں جاسکتا۔ کسی بھی عمر میں علم حاصل کیا جاسکتا ہے۔ بے شمار ایسے دلائل اور واقعات موجود ہیں کہ لوگوں نے عمر کے آخری حصہ میں تحصیل علم کا آغاز کیا اور وہ اپنے مقصد میں پورے طور پر کامیاب ہوئے۔ عرب ملکوں میں آج بھی ہر عمر کے لوگ شوق سے دینی وعصری مدرسوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات ضرور ہے کہ جس سہولت اور آسانی اور فارغ البالی سے بچپنے اورنو جوانی میں تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے وہ ادھیڑ عمر یا بڑھاپے میں نہیں۔ حصول تعلیم کے لیے جتنا زیادہ جسم اور ذہن صحت مند ہو اتنی ہی جلدی اور بہتر طریقے سے تعلیم حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ بچپن میں ذہن رساں رہتا ہے اور امراض واسقام کا خدشہ کم سے کم ہوتا ہے، اس لیے پوری یکسوئی سے آدمی تعلیم حاصل کر پاتا ہے۔ گھریلو اور عائلی ضروریات بھی عام طور سے اس عمر میں اس سے وابستہ نہیں ہوتیں۔ اسی وجہ سے پڑھنے لکھنے والے افراد کم سنی سے سن بلوغت تک تحصیل علم کی بھر پور جتن کرتے ہیں۔ اسکول اور کالج میں بھی چھوٹے بچوں کی تعلیم کا بندوبست ہوتا ہے۔ ذیل میں چند ایسے مشاہیر علماء کا مختصرا تذکرہ کیا جارہا ہے جنھوں نے علمی اور عملی میدانوں میں عین نوجوانی میں کمال اور مقام پیدا کیا:

(۱)عبد اللہ بن عباس: آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں۔ آپ کا علمی مقام ومرتبہ اہل علم وفضل سے مخفی نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے وقت آپ کی عمر تیرہ برس تھی۔ آپ نے اللہ کی توفیق اور اپنی ذاتی محنت و لگن سے علم کا وافر حصہ حاصل کیا تھا۔ آپ کو ترجمانِ قرآن کا لقب دیا جاتا ہے۔ مشہور صحابی عبد اللہ بن مسعود کہتے تھے: ابن عباس قرآن کے عمدہ ترجمان ہیں۔ آپ کی علمی مہارت اور توسع کو دیکھ کر آپ کے شاگردان آپ کو ’حبر‘ (بڑے مولانا) کہتے تھے۔

آپ رضی اللہ عنہ اپنے شوق تعلیم کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’مجھے کسی کے پاس حدیث کا پتہ چلتا تو میں اس کے دروازہ تک پہنچ جاتا،کبھی کبھار وہ(صاحب حدیث) قیلولہ کررہے ہوتے تو میں اپنی چادر کو تکیہ بنا کر ان کی چوکھٹ پر لیٹ جاتا۔ ہوا چلنے کی وجہ سے میرا چہرہ گرد وغبار سے اٹ جاتا۔ جب وہ(صاحب حدیث) بیدار ہوتے، میرے اوپر نگاہ پڑتی تو کہتے: اے! عم زاد رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) آپ نے یہ زحمت کیوں کی، کسی سے مجھے بلوا لیا ہوتا۔ میں جواب دیتا: صاحب علم کے پاس میں آنے کا زیادہ حقدار ہوں۔ پھر میں حسب منشا وہ حدیث ان سے سنتا۔‘‘(البدایہ والنہایہ لابن کثیر رحمہ اللہ:12\86)۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ علم تفسیر، علم قرآن، علم حدیث، شاعری اور لغت میں کامل دسترس رکھتے تھے۔ آپ نے مختصر مدت میں جس مقدار میں علوم وفنون کو جمع کیا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت تھی۔

(۲)معاذ بن جبل: آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی ہیں۔ آپ کے بے شمار علمی وعملی کمالات سیرت وتاریخ کی کتابوں میں درج ہیں۔ اٹھارہ سال کی عمر میں آپ نے اسلام قبول کیا۔ آپ کے حق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ گواہی دی کہ قیامت میں علماء صحابہ میں سب سے اونچا مقام آپ کو حاصل ہوگا۔ امام مالک کے قول کے مطابق آپ کی موت محض اٹھائیس سال کی عمر میں ہوگئی۔ اس طرح صرف دس سال کا عرصہ آپ نے اسلام قبول کرنے کے بعد گزارا جن میں مدرسہ نبوی کے طالب علمی بھی شامل ہے۔ مگر ان سالوں میں آپ نے اس محنت اور لگن سے تعلیم حاصل کیا کہ علماء کے مقتدا اور پیشوا بن گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”أعلمکم بالحلال والحرام معاذ بن جبل۔۔۔۔”(صحیح الجامع للألبانی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مکمل قرآن کریم کو آپ نے حفظ کرلیا تھا ۔

(۳)زید بن ثابت: گیارہ سال کی عمر میں آپ نے اسلام قبول کیا۔ شوق شہادت کی غرض سے جنگ بدر میں شریک ہونا چاہتے تھے مگر کم سنی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس کردیا۔ حافظ قرآن تھے۔ آپ حد درجہ ذہین وفطین اور محنتی انسان تھے۔ آپ کے شوق علم کو دیکھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”یا زید تعلم لی کتاب یہود، فإنی واللہ ما آمنہم علی کتابی”(مسند احمد:21619)زید بن ثابت کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کے پیش نظر میں پندرہ دن سے کم میں یہود کی زبان کا ماہر ہوگیا۔

آپ صحابہ میں سب سے بڑے فرائض کے جانکار تھے۔ آپ نے سقیفہ بنی ساعدہ میں اس بات کا اعتراف کیا کہ قیادت کے حقدار مہاجرین ہیں۔ یہ سن کر سیدنا ابوبکر نے آپ کی تعریف کی۔ آپ چار بڑے قاضیوں میں سے ایک تھے۔ چار میں سیدنا عمر، علی اور ابن مسعود شامل ہیں۔ علمی اعتبار سے آپ اس رتبہ پر فائز تھے کہ امام المفسرین سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما آپ کی سواری کا لگام تھامتے اور جب آپ سے چھوڑنے کے لیے کہتے تو آپ گویا ہوتے: ”ہکذا نفعل بعلمائنا وکبرائنا” (ہم اپنے علماء واکابرین کے ساتھ ایسا ہی(بہتر) برتاؤ کیا کرتے ہیں)۔جب زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی موت ہوئی تو محدث عظیم سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’مات حبر الأمۃ،ولعل اللہ أن یجعل فی ابن عباس منہ خلفا‘‘(اخرج ابن سعد بسند صحیح) اس امت کا عالم وفات پاگیا، امید ہے کہ ابن عباس ان کے جانشین ثابت ہوں گے۔

(۴)ربیعۃ بن ابو عبد الرحمن: آپ ربیعہ بن فروخ ہیں۔ لیکن ربیعۃ الرأی کے نام سے مشہور ہیں۔ بڑی کم سنی میں مدینہ منورہ میں مسند حدیث اور فقہ پر آپ متمکن ہوگئے۔ آپ کے درس میں امام مالک، امام ابو حنیفہ، امام سفیان ثوری، امام اوزاعی اور امام لیث بن سعد جیسے اساطین علم وفضل شامل ہوا کرتے تھے۔

(۵)امام شافعی: آپ کا نام محمد بن ادریس ہے۔ 150ہجری میں آپ غزہ(فلسطین) کے اندر پیدا ہوئے۔ اسی سال امام ابو حنیفہ کی وفات ہوئی تھی۔ آپ کی والدہ شروع میں آپ کو یمن لے کر گئیں پھر وہاں سے مکہ معظمہ چلی گئیں۔ روزانہ آپ حرم جاتے علماء ومشائخ کے دروس کو نوٹ کرتے اور گھر واپس آجاتے۔ دروس کے نوٹس سے جب آپ کا گھر بھر گیا تو ایک دفعہ یہ عزم کرکے اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیا کہ جب تک ان اوراق کو حفظ نہیں کرلیں گے گھر سے نہیں نکلیں گے۔

دس سال سے کم عمر میں آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کو قبیلہ بنی ھذیل کے پاس بھیج دیا تاکہ آپ ان کے اشعار یاد کریں، اس طرح آپ بیس ہزار اشعار کے حافظ بن گئے۔ مکہ میں سن بلوغت کو پہنچنے سے پہلے آپ نے حدیث کی مشہور کتاب موطا کو یاد کرکے چالیس نشستوں میں مدینہ کے امام اور کتاب کے مصنف امام مالک بن انس کو سنا دیا۔ 56 سال کی عمر میں آپ وفات پا گئے۔ لیکن اس دوران اپنے علم وورع سے دنیا کو مبہوت کردیا۔

(۶)امام احمد بن حنبل: آپ اہل سنت والجماعت کے مشہور امام ہیں۔ آپ کا نام احمد والد کا نام محمد اور دادا کا نام حنبل ہے۔ آپ اپنے والد کی بجائے دادا کی طرف منسوب ہو کر احمد بن حنبل سے مشہور ہیں۔ علم حدیث اور علم فقہ میں ید طولی رکھتے تھے۔ یتیم ہونے کے باوجود 16 سال کی عمر میں علم حدیث میں مہارت حاصل کرچکے تھے۔ اور آپ کے علم وفضل کا شہرہ پوری دنیا میں تھا۔ آپ کے تعلق سے یہ بات مشہور ہے کہ پندرہ سال کی عمر میں آپ کسب علم سے فارغ ہوچکے تھے۔

(۷)امام بخاری: امام بخاری کا نام اور ان کا مقام محتاج تعارف نہیں۔ سارے مسلمان ان کے علمی مقام وشان سے واقف ہیں۔ آپ کی مشہور زمانہ تصنیف صحیح بخاری ہے جو قرآن کریم کے بعد دنیا کی دوسری سب سے صحیح کتاب سمجھی جاتی ہے۔ آپ کا مبلغ علم 16 سال کی عمر میں اتنا ہوچکا تھا کہ آپ عبداللہ بن مبارک اور وکیع بن الجراح جیسی قد آور علمی شخصیات کی کتابیں پڑھا کرتے تھے۔ آپ نے اپنی دوسری مشہور کتاب ”التاریخ الکبیر” جب لکھی اس وقت آپ کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ مکتب سے ہی آپ نے احادیث یاد کرنا شروع کردیا تھا۔ امام بخاری کا قول ہے کہ میں سند کے ساتھ ایک صحیح حدیث اور دو لاکھ غیر صحیح حدیث کا حافظ ہوں۔ نعیم بن حماد کہتے ہیں: محمد بن اسماعیل اس امت کے فقیہ ہیں۔

(۸)مولانا ابوالکلام آزاد: سرزمین ہندوستان میں مختلف افکار وخیالات کی ان گنت عظیم شخصیات پیداہوئی ہیں۔ لیکن مولانا ابوالکلام آزاد جیسی پہلو دار،متنوع علوم وفنون، اعلی فکر وخیال کی حامل شخصیت ہندوستان میں بہت کم پیدا ہوئی۔ آپ کی گوناگوں خصوصیات وکمالات تمام مذاہب کے لوگوں میں مسلم تھی۔ مشہور مؤلف اور آزاد کے قدرداں مالک رام کے بقول آزاد ’’نابغہ روزگارشخصیت اور ہمہ گیر صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ان کی سرگرمیوں کے متعدد میدان تھے اور وہ ہرجگہ منفرد مقام کے حامل۔ وہ صحافی تھے، ادیب اور انشاپرداز تھے، عالم دین تھے، مفسر قرآن تھے، مفکر تھے، سیاستداں تھے، تحریک آزادی کے ممتاز سپاہی تھے، حکومت ہند کے وزیر تعلیم کی حیثیت سے انھوں نے آزاد ہندوستان کی تعلیمی پالیسی کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا۔‘‘(ایوان اردو کا مولانا ابوالکلام آزاد نمبر،10)

خواجہ حسن نظامی نے آزاد کے بارے میں لکھا: ’’مولانا ابوالکلام آزاد موجودہ ہندوستان کے لیے سیاسی سورج ہیں اور سیاسی چاند ہیں۔ ان کو سیاسی چراغ بھی کہا جاسکتا تھا، اگر دوسرے سیاسی چراغوں کو روشن کرسکتے جس کی کوئی مثال نظر نہیں آتی۔ بظاہر سفید ڈاڑھی کے بوڑھے آدمی ہیں مگر مزاج کی شوخی اور بذلہ سنجی کہتی ہے کہ اب تک نوجوان اور زندہ دل ہیں۔‘‘(حوالہ سابق،16)

مولانا آزاد علیہ الرحمۃ نے نوجوانی میں اپنا نام اور مقام پیدا کیا۔ 17؍اگست 1888ء میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ چار سال کی عمر(1892)میں رسم بسم اللہ کی۔ 1918ء میں کلکتہ سے ماہنامہ’’نیرنگ خیال‘‘ کا اجرا کیا۔ 1901ء میں ہفتہ وار ’’المصباح‘‘ کا اجرا عمل میں آیا۔ 1902ء میں ہفتہ وار’’احسن الاخبار‘‘ کی ادارت سنبھالی۔ 1903ء میں درس نظامی سے فراغت حاصل کرلی۔ 1903ء میں ماہنامہ ’’لسان الصدق‘‘ جاری کیا۔ 1905ء میں ’’الندوہ‘‘ لکھنؤ کے معاون مدیر بنے۔ 1912ء میں ہفتہ وار ’’الہلال‘‘ جاری کیا۔ 1915ء میں ہفتہ وار ’’البلاغ‘‘ کا اجرا عمل میں آیا۔ 1919ء میں ’’تذکرہ‘‘ جامع الشواہد فی دخول غیر المسلم فی المساجد‘‘ جیسی شاہکار تصانیف منظر عام پر آئیں۔ قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں شریک ہوئے۔ اپنے خطابات وتقاریر سے ہرطبقہ کے لوگوں کو متاثر کیا۔ یعنی محض تیس بتیس سال کی عمر میں اتنا کام کرڈالا جتنا سو(100)سال میں بھی نہیں ہوسکتا۔ بڑے بڑے لوگ کبھی آپ کی زبان، آپ کی تقریر، آپ کی تحریر اور کبھی آپ کی عمر اور جسم کو دیکھتے تو یقین نہیں کرپاتے کہ آپ آزاد ہیں جو الہلال اور البلاغ جیسے اخبار کی ادارت کرتے ہیں۔

مدارس وجامعات کے طلبہ وطالبات کو ایسی باکمال شخصیات کو اپنا رول ماڈل بنا کر علمی وعملی میدانوں میں ترقی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ طلبہ وطالبات کی اکثریت اپنے بچپن اور جوانی کی عمر کو ضائع کرتی ہے۔ اس سنہری عمر میں تحصیل علم کے لیے جتنی محنتیں کرنی چاہیے اتنی محنت نہیں ہوتی۔ جبکہ ہمارے اسلاف نے محنت اور شوق سے کم عمری میں دنیا میں اپنا نام اور مقام پیدا کیا ہے۔ بلا محنت ومشقت کے عروج واقبال کا خواب دیکھنا بے سود ہے۔ امید ہے کہ ہماری اس تحریر سے طلبہ وطالبات کی جماعت کو فائدہ ہوگا، وہ کاہلی سے بچیں گے اور اپنے روشن مستقبل کے لیے مشقت برداشت کریں گے۔

آپ کے تبصرے

3000