کیا اہلحدیثیت نے اپنی ترجیحات بدل دیں؟

کیا اہلحدیثیت نے اپنی ترجیحات بدل دیں؟

ایم اے فاروقی

استاذ فاروقی حفظہ اللہ کی زیر نظر تاثراتی تحریر شیخ رفیق احمد رئیس سلفی کے مضمون “سلفیت اپنے مداحوں اور مخالفین کے نرغے میں” پر ایک استدراک نما ہے۔ اگر دونوں تحریروں کی موضوعیت کا فرق نظر میں نہ ہو تو قارئین کنفیوزن کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اور اصل مسئلہ قارئین کا ہی ہے۔ مناظرین اپنی اپنی رایوں پر ڈٹے رہتے ہیں اور ناظرین پالے بدل لیتے ہیں-

زیر نظر موضوع علماء کے مابین خلط مبحث کا شکار ہوگیا ہے۔ رفیق صاحب کا مضمون ہندوستانی اہل حدیثوں کے ذریعے سلفیت کو برتنے کے طریقے کا تجزیہ تھا اور استاذ فاروقی کے تاثرات اس سلفیت کے دفاع میں ہیں جو علماء سلف کی کتابوں میں درج ہے۔ نقد عمل کو نقد متن پر محمول کرلینے کا ذہن غیر ضروری بحثوں کو راہ دیتا ہے، حزبیت کی پرورش کرتا ہے اور کسی بھی تنقید کو نقطہ نظر کے اختلاف کے بجائے مخالفت باور کراتا ہے – تکلیف دہ بات یہ ہے کہ مسلکی محاذ پر جدال کی خو نے علماء اہل حدیث کو عمومی طور پر مجادلے کا عادی بنادیا ہے-

سلفیت عین اسلام ہے اس کا انکار کوئی طالب علم بھی نہیں کرسکتا اساتذہ کرام اور علماء عظام نے تو خیر ہمیں یہی سکھایا پڑھایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہندوستانی اہل حدیث کیا اس سلفیت کی مکمل نمائندگی کرتے ہیں؟ اگر نہیں کرتے تو کیا سلفیت کے متروکہ شعائر کی نشاندہی کرنا اخوانی اور تحریکی ہونا ہے؟

آخر کیا ہوگیا ہے ہمارے علماء کرام کو جو انچ ٹیپ اور لیبل لے کر گھومتے رہتے ہیں۔

ایڈیٹر



مولانا رفیق احمد سلفی کا ایک مضمون “سلفیت اپنے مداحوں اور ناقدین کے نرغے میں” سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔ مولانا کے اس مضمون سے متعدد غلط فہمیاں پیدا ہورہی ہیں۔ان کی نیک نیتی پر شبہ نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن جس انداز سے انھوں نے پوری تاریخ اہلحدیث کو مطعون کرنے کی کوشش کی ہے وہ ایک خاص فکر کی زبان ہوسکتی ہے، مگر منہج سلف کی ترجمان نہیں ہوسکتی ہے۔
سب سے پہلی بات کہ میں سلفیت کو تحریک نہیں سمجھتا ہوں، سلفیت کو جب ہم عین اسلام سمجھتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اسے تحریک کا نام دیں ، اس کے علم برداروہ طائفۂ منصورہ ہے جو ان شاء اللہ ہر زمانے میں موجود رہے گا جنھیں اہل السنة والجماعة، اھل الحدیث اور سلف کہا گیا۔
دوسری بات یہ کہ اس وقت سلفیت ایک ایسی اصطلاح بن گئی ہے جو بہت وسیع معنی رکھتی ہے، دنیا بھر کی تنظیمیں اپنا رابطہ سلفیت سے جوڑتی ہیں اور اسے اپنا آلۂ کار بناتی ہیں۔ داعش، اخوان المسلمین، حنبلی اور اہلحدیث سب سلفیت کے دعوے دار ہیں، عالمی طور پر سلفیت کو موضوع بحث بنانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔
مولانا کو شکوہ ہے کہ سلفی علما فکری موضوعات پر نہیں لکھتے،وہ فکری موضوعات کی تعیین کردیتے تو بہتر ہوتا۔ یہ بات اس حد تک درست ہے کہ ان کی تحریروں میں تفلسف اور نام نہاد تفکر کا  بگھار نہیں ہوتا۔
مولانا ایک بہترین قلمکار ہیں، جب وہ لکھتے ہیں تو الفاظ صف بستہ قطار در قطار کھڑےرہتے ہیں، روانی اور تیزی اس قدر ہے کہ جیسے سیلاب زدہ ندی اپھان پر ہو اور قاری اس میں غوطہ کھاتے بہتا چلاجائے، لمحہ بہ لمحہ موضوع بدلتے ہیں اور کبھی گلعذاروں کی کبھی خارزاروں کی سیر کراتے ہیں۔
زیر نظر مضمون کے مقصد کا انکشاف انھوں نے اپنے دوسرے مضمون میں کیا، یہ ان کا کمال ہے کہ سینکڑوں مسائل کا ذکر ایک ہی مضمون میں کردیا، لیکن حل کہیں نہیں بتلایا۔ کبھی وہ عالمی سلفیت سے مخاطب ہوتے ہیں اور پھر چھلانگ لگاکر مرکز پہنچ جاتے ہیں۔ مرکز کے اختلافات اور اس کی نالائقی کا رونا روتے ہیں پھر اڑان بھرتے ہیں، اور سعودیہ کے ایرپورٹ پر اترتے ہیں، سلمان کے اقدامات کے فوائد بتلاتے ہیں اور سلفیوں کی قدامت پرستی کا رونا روتے ہیں ، نیند کا کچھ غلبہ ہوتا ہے آنکھ کھلتے ہی عبادات کے بے روح ہونے کا شکوہ کرتے ہیں گویا یہ بھی سلفیوں کا کیا دھرا ہو۔
بات مکمل ہونے سے قبل پٹری بدلتے ہیں ہندوستانی سلفیت کو جھنجوڑتے ہیں کہ تم نے اپنا آئیڈیل سعودیہ کے حنبلیوں کو بنالیا ہے تم ان کے طفیلی بن چکے ہو ۔مطلب یہ ہے کہ کتاب و سنت کے معاملے میں ان کے ہمنوا کیوں ہو۔ پھر سعودیہ کا رخ کرتے ہیں اس پر تنقیدی نظر ڈالتے ہیں،ان کے جبر و ظلم و ستم کی ہولناک داستان سناتے ہیں، ان کی ملوکیت میں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہونا چاہیے عوام کو حکومت پر تنقید کا حق نہیں ہے، وہاں سے چھلانگ لگاتے ہیں قبروں میں سوئے ہوئے ماضی کے علما کی خبر لیتے ہیں کہ سب کے سب بے بصیرت تھے۔ اہلحدیثیت کا پاجامہ پہن کر خاموشی سے کسی کونے بیٹھے رہتے، مناظروں کے بازار میں کود کر فروعی مسائل ، تقلید اور عقائد اور شرک و بدعات کی کیوں کھالیں کھینچتے رہے آخر اپنی بے بصیرتی کو تماشا بنادیا نا اور فرنگیوں کےبچھائے ہوئے دام میں پھنس گئے۔ تقلید کا بھرم توڑدیے توکیا تیر مار لیا؟ دعوت کی راہ میں تکلیفیں جھیلے تو یہ تمھارا مقدر اور تمھاری بے بصیرتی کا ثمرہ تھا، تمھاری کوششوں سے لا کھوں لوگ اہلحدیث ہوئے تو کیا ہوا، لگ گیا ہوگا تکا ٹہرے تو تم بے بصیر ت، اور پھنس گئے مناظروں کے بھنور میں ، معافی مانگ لیتے مخالف فریق سے اور بھنور سے نکل جاتے۔
کیسے تم بے بصیرت ہو کہ مغلیہ حکومت کا زوال ہورہاتھا اے اسماعیل تم کو تو عقل ہی نہیں ہے کہ دہلی میں بیٹھ کر امتناع النظیر اور امکان کذب باری تعالی پر مناظرے میں لگے رہے تمھاری کوئی ذمہ داری نہیں بنتی۔
مولانا کا قلم اب رکنے والا نہیں ہے آج قلمدان سے باہر ہی رہے گا۔ چلیے ذرا تحریک شہیدین کی خبر لے لیں ارے ان سب کے اندر ادراک اور شعور تھا ہی نہیں، یہ مسلمانوں کی عظمت رفتہ کیا دلائیں گے یہ تو دشمن کی چالوں کو بھی نہیں پہچانتے ، کٹا دیا نا مسلمانوں کو، کیا بگاڑ سکے انگزیزوں اور سکھوں کا، چلے تھے جہاد کی روح کو زندہ کرنےلڑتے رہے سینکڑوں سال کوئی کامیابی ملی؟ اس تحریک کے اثرات اور ثمرات کا کیا ذکر ، دیکھی تو ظاہری کامیابی ہی جاتی ہے، اب کیا بتاؤں صحابۂ کرام بھی ادراک سے عاری تھے منافقین کے فریب کا ادراک نہ ہوسکا، غزوۂ موتہ اور جنگ حنین میں بھی انھیں کافروں کی چالوں کا ادراک نہیں ہوا۔
کون دیکھتا کہ اس تحریک کی بدولت ہی آج اہلحدیثوں کی تعداد کروڑوں سے زیادہ ہے، سلفیت کے اب دو ہی کام ہیں سعودیہ کے ہر اچھے برے کام کی تعریف کرنا اور اخوانی تحریکی اور ایران کی مذمت کرنا۔ یہ جو شخصیت پرستی اور مردہ پرستی کے خلاف تقریریں کرتے ہیں خود مردہ پرست ہوگئے ہیں مرے ہوئے علما پر سیمینار کرتے ہیں، ان کے کارناموں کو منظر عام پر لاتے ہیں ، ان کے کتبے تلاش کرتے ہیں،ان کی کتابوں کی تحقیق کرتے ہیں ، بھلا بتاؤ یہ بھی کوئی کام ہوا حال کا اجالا ماضی کی تاریکیوں میں کہاں ملے گا۔
مولانا کا دوسرا مضمون صفائی میں آگیا ہمیں تو یہی نہیں پتہ چلا کہ صفائی کس چیز کی اور کیا دے رہے ہیں۔
مشین گن کی نال جماعت اسلامی کی طرف گھمادی، دو چار صلواتیں انھیں بھی سنادیں۔ اہلحدیثوں کے کلیجے میں ٹھنڈک پڑجائے گی اللہ اللہ خیر صلا۔
ان سب کے باوجود وہ اپنے پہلے مضمون کی وضاحت سرے سے نہیں کرسکے، سلفی علما کو جھنجھوڑنے کا کیا یہی طریقہ ہے، یہ انداز و بیاں یہ باتیں سلفیت کی عکاس تو قطعا نہیں ہوسکتی ہیں۔

آپ کے تبصرے

3000