کہا جاتا ہے جاپان میں ٹرین دیکھ کر گھڑی کا ٹائم سیٹ کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہندوستان میں اس کے برعکس ٹرین کے سلسلے میں لیٹ لطیفی مشہور ہے، اکثر ٹرینیں تاخیر سے چلتی ہیں۔ یہاں تک کہ سپرفاسٹ ٹرینیں بھی کئی کئی گھنٹے تاخیر سے چلتی ہیں اوریہ بہت ہی پرانی ریت ہے جس سے کوئی بھی حکومت مستثنیٰ نہیں چاہے وہ یو پی اے کی ہو یا این ڈی اے کی ۔ ہندوستانی ریلوے نظام پوری دنیا میں چوتھا سب سے بڑا ریلوے نیٹ ورک ہے جس کے امور ایک مخصوص وزارت کے تحت انجام پاتے ہیں۔ کروڑوں مسافر روزانہ نقل و حمل کرتے ہیں اور ہمارے یہاں ممبئی میں لوکل ٹرین کو لائف لائن کہا جاتا ہے۔ کوئی سیاح اگر ممبئی کے سفر پر ہو اور ممبئی کے لوکل ٹرین میں اس نے سفر نہیں کیا تو مانو اس نے ممبئی دیکھی ہی نہیں ہے۔
ابھی حال ہی میں گورکھپور سے لوک مانیہ تلک ٹرمنس (ایل ٹی ٹی) تک کا سفر کرنے کا موقع ملا، 12541 سپرفاسٹ ٹرین اپنے وقت متعینہ سے ساڑھے تین گھنٹے تاخیر سے رات اڑھائی بجے کے بعد نکلی اور ممبئی صبح چار بجے پہنچنے کے بجائے دوپہر ساڑھے بارہ بجے پہنچی۔ وقت کے معاملے میں شمال مشرقی ٹرینیں کافی پیچھے ہیں، گورکھپور سے چلنے والی اکثر ٹرینیں اپنے وقت سے نہیں چھوٹتی ہیں۔ آپ کو بتادیں کہ اسی روٹ سے اکثر آنا جانا ہوتا ہے اس لیے حال و احوال کافی بہتر طریقے سے معلوم ہیں ۔ باندرہ ٹرمنس سے گورکھپور کے لیے چلنے والی اودھ ایکسپریس کو عرف عام میں بیل گاڑی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جتنی بار بھی اس ٹرین سے سفرکرنے کا موقع ملا شاید کبھی وقت پر پہنچی ہو۔ گزشتہ ۸؍مئی کی بات ہے مذکورہ ٹرین پورے بارہ گھنٹے تاخیرسے چل رہی تھی، یعنی دیڑھ بجے دن میں چھوٹنے کے بجائے رات دیڑھ بجے چھوٹی تھی۔ یہ صرف ایک دو ٹرین کا مسئلہ نہیں بلکہ بیشتر ٹرینوں کا حال ایسا ہی ہے۔ جب کہ ریلوے کے ویب سائٹ پر جلی لفظوں میں لکھا ہے ’’حفاظت، سیکوریٹی اور وقت کی پابندی‘‘ Safety, Security, Punctuality اب اندازہ لگا سکتے ہیں وقت کی پابندی کے معاملے میں ہم کس مقام پر ہیں ۔
یہ تو ٹرین کی بات ہے، ہمارے ملک کا ہوائی نظام بھی وقت کا پابند نہیں ہے۔ حالیہ برطانوی سروے کے مطابق ہمارے ملک کے انٹرنیشنل ایئرپورٹس سب سے بدترین صورت حال سے دوچار ہیں۔ برٹش ایوئیشن انٹلیجنس فرم نے ۵۱۳؍ہوائی اڈوں کا وقت کی پابندی سے متعلق سروے کیا ہے جس میں جاپان نے پہلا اور تیسرا مقام حاصل کیا ہے جب کہ حیدرآباد، چنئی، بنگلور، کولکتا، دہلی اور ممبئی نے بالترتیب ۲۴۶، ۲۵۵، ۲۶۲، ۲۷۰، ۴۵۱، ۵۰۹واں رینک حاصل کیا ہے۔ ان سب میں زیادہ بدتر حالت ممبئی ایئر پورٹ کی ہے جس نے سب سے گری پوزیشن حاصل کی ہے۔ اب آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وقت کی پابندی کے سلسلے میں ہماری حالت کتنی خستہ ہے اور کتنے قیمتی اوقات برباد ہورہے ہیں۔
دوسری اہم بات جو قابل ذکر ہے کہ شمال مشرقی ٹرینیں جو ممبئی، دہلی، چنئی، سورت یا دیگر صنعتی شہروں کو جوڑتی ہیں ان میں ٹکٹ کے لیے ہمیشہ دقتوں کا سامنا رہتا ہے۔ مخصو ص سیزنس تو دیگر ہیں، عام دنوں میں بھی گورکھپور سے ممبئی کے لیے ٹکٹ بک کرنا ناکوں چنے چبانے جیسا ہے۔ ایجنٹ ایک ٹکٹ پر دیڑھ سے دوہزار بطور رشوت زیادہ وصول کرتے ہیں، عام مسافروں کو ہمیشہ تتکال ٹکٹ کی بکنگ کافی مشکل ہوتی ہے۔ عام طور پر معینہ مدت ۱۲۰؍دن پہلے ٹکٹ ریزرو کیا جاسکتا ہے لیکن اکثر و بیشتر یہاں کی ٹرینیں ہاؤس فل ہوتی ہیں۔
مرکزی حکومت اور وزارت برائے ریلوے ترقی اور سہولیات کے چاہے جتنے بھی دعوے کرلے تاہم یوپی اور بہارسے چلنے والی ٹرینیں ہمیشہ اوور لوڈ ہوتی ہیں۔ ایک ٹکٹ پر کئی کئی مسافر پنالٹی دے کر مجبوراً سفر کرتے ہیں۔ ممبئی سے یوپی، بہار کو جانے والی یا یوپی، بہار سے ممبئی کو آنے والی ٹرینوں کا سروے کیا جائے تو حالات دگرگوں ملیں گے۔ سلیپر کلاس میں پیر رکھنے کی جگہ نہیں ہوتی ہے، ایسی دھکم پیل کہ سفر کرنے سے آدمی کان پکڑ لے۔ بیت الخلاء یا واش بیسن تک جانے کے لیے گیلری میں جگہ نہیں ہوتی ہے۔ ان سب کے وجوہات کسی سے مخفی نہیں ہیں۔ کیونکہ ان روٹوں پر ٹرینیں کم مقدار میں چلائی جارہی ہیں مسافروں کی تعداد حد سے زیادہ ہے ۔ ساتھ ہی حکومت کی عدم توجہی کے سبب ایجنٹ مسافروں سے خوب پیسہ اینٹھتے ہیں ۔
ہرسال ریل بجٹ میں حکومت نئی ٹرینوں کا اعلان کرتی ہے کوشش ہونی چاہیے کہ شمالی مشرقی روٹوں پر مزید ٹرینیں چلائی جائیں تاکہ بھیڑ پر قابو پایا جاسکے اور عوام کو سہولت میسر آسکے۔ عام شہری اس قابل نہیں ہوتے ہیں کہ ہوائی سفر کریں۔ روزینہ کمائی کرنے والے کم قیمت میں بامشقت سفر کرتے ہیں لیکن وہاں بھی دھاندلی اور کرپشن کا بول بالا ہوچکا ہے۔ جیساکہ مذکور ہے شادی بیاہ کے دنوں میں چار مہینہ قبل ہی ٹکٹ بکنگ ختم ہوجاتی ہے۔ دلال اور ایجنٹ ایک ٹکٹ پر ہزاروں روپئے وصولتے ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے جہاں وہ ترقی کے لاکھ دعوے کرتی ہے وہیں کوئی ایسا نظام قائم کرے کہ مسافروں کو آسانی ہو۔ یہ ایک دن یا ایک مہینہ کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ آئے دن یہی مسائل درپیش ہوتے ہیں ۔
آخری بات یہ ہے کہ اگر بفرض محال ایک ٹرین کم سے کم ایک گھنٹہ تاخیر سے چلتی ہے اور اس میں ایک ہزار مسافر سفر کر رہے ہوں تو کل ملا کر ایک ہزار گھنٹے برباد ہوئے۔ اس حساب سے آپ آنکڑا لگا سکتے ہیں کہ روزانہ ٹرینوں کی تاخیر سے ہندوستانیوں کے کتنے قیمتی اوقات ضائع ہو رہے ہیں، اس کا ذمہ دار کون ہوگا حکومت یا بھولی بھالی عوام؟ کیا حکومت کے پاس اس کا کوئی حل موجود نہیں ہے؟ کیا اس کا کوئی بدل نہیں تیار کیا جاسکتا ہے کہ ٹرینیں تاخیر سے نہ چلیں؟ حکومت کرپشن کی روک تھام کے خوب دعوے کرتی ہے، کیا ریلوے میں ہورہے کرپشن پر حکومت کی جوابدہی بنتی ہے؟ آخر کیوں ٹکٹ دستیاب نہیں ہوپارہے؟ کیوں زیادہ مصروف روٹس پر ٹرینیں نہیں بڑھائی جارہی ہیں؟ کیوں عوام کو تکلیفیں پہنچائی جارہی ہیں ؟ آخر یہ سب حکومت اور وزارت ریل کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ اس میں سدھار لائے؟ عوام بے بس ہوچکی ہے اس کے پاس اب کوئی چارہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ دھکامکی کھا کر سفر کرے ۔ اس لیے امید کی جاتی ہے کہ ان مسائل کے حل کے لیے کوئی طریقہ نکالا جائے گا اور عوام کو سہولت بہم پہنچائی جائے گی۔
آپ کے تبصرے