یوگی حکومت کی مسلم دشمنی اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ظالمانہ رویہ

ہلال ہدایت

ڈومریاگنج پارلیمانی حلقہ سے اترپردیش کے وزیراعلی یوگی ادتیہ ناتھ کا گہرا تعلق ہے، ڈومریاگنج (سدھارتھ نگر) نیپال سرحد سے متصل ایک مسلم اکثریتی ضلع ہے۔ یہاں ۳۰؍فیصد شرح آبادی مسلمانوں کی ہے جوانتخابات میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ گورکھپور سے متصل ہونے کی وجہ سے یوپی کے وزیراعلی یوگی ادتیہ ناتھ اکثر وبیشتر یہاں پر پہلے اور آج بھی اپنی جماعت ہندویواواہنی کے پروگراموں میں شرکت کے لیے آیا کرتے ہیں، جس جماعت کی مسلم دشمنی عیاں ہے۔ گزشتہ ۸؍مارچ کو ’یوم خواتین‘ کی مناسبت سے بھی انھوں نے سدھارتھ نگر کا ہی انتخاب کیا اور اپنی حکومت کی کارکردگی اورخواتین میں بیداری لانے کے لیے خاص تقریب کا انعقاد کیا۔ انھوں نے چند برس قبل اپنے ایک متنازع بیان میں کہا تھا کہ’اگر مسلم سماج کا کوئی لڑکا ایک ہندو لڑکی کو لے جائے گا اور اس کا مذہب تبدیل کرے گا تو ہم ان کی سو لڑکیوں کو لائیں گے‘۔ دوسرا بیان یہ تھا کہ ’سرحدی علاقوں میں موجود مدارس دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں، ان کی فنڈنگ بیرون ممالک سے ہورہی ہے جس کی جانچ ہونی چاہیے‘۔ ملک عبدالنورنملی کے بقول ’’اب جبکہ خود اقتدار میں ہیں یوگی حکومت نے گزشتہ دنوں نیپال سے متصل اتر پردیش کے سرحدی اضلاع بہرائچ، سراوستی، سدھارتھ نگر، بلرامپور، سنت کبیر نگر، مہراج گنج اور گورکھپور کی ۲۵۷؍مساجد و مدارس کی لسٹ ٹیرر فنڈنگ کے سلسلے میں ایجنسیوں کو دی ہے اور ان سے کہا گیا ہے کہ پوری تفصیل کھنگال کر یہ پتہ لگایا جائے کہ ان سارے اداروں اور مساجد کے اخراجات کہاں سے پورے ہو رہے ہیں؟ اور کون کون اس میں فنڈنگ کررہا ہے؟ یا کن کن ملکوں سے اس میں پیسہ آرہا ہے؟ ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم کیا جائے ان اداروں کی ایکٹویٹیز کیا ہیں۔ اس حکم نامہ سے مسلم دشمنی اور فرقہ پرست ذہنیت کی غمازی ہوتی ہے‘‘۔

ابھی حال ہی میں انھوں نے دہلی الیکشن کے موقع پر مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی، شاہین باغ کو دہشت گردی سے جوڑا، سی اے اے کے خلاف ہورہے مظاہروں کو لے کر مسلم خواتین کو نشانہ بنایا، یہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ اشتعال انگیز بیانات اور مسلم مخالف نظریہ ہی کی بنیاد پر بی جے پی کے اعلی کمان نے یوگی کو یوپی جیسے حساس ریاست کی کرسی سونپی تھی۔اب جس کےرگ وپے میں مسلم دشمنی سمائی ہوئی ہو وہ بھلا اقتدار حاصل کرنے کے بعد انصاف کیسے کرسکتا ہے! ہرگز نہیں۔ ملک نے دیکھا کہ کس طرح انھوں نے جانوروں کے ذبیحہ پر پابندی لگائی اور مدارس میں مقرر سائنس اساتذہ کی تنخواہیں روکی۔

اب آتے ہیں حال میں ہوئے یوگی حکومت کی مبینہ ظالمانہ کاروائیوں کی طرف جس میں یوپی پولیس نے شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف جمہوری طرز پر ہورہے پرامن مظاہرے کی آڑ میں مسلم نوجوانوں کو ہراساں کیا، مظاہرین کو جیل میں ڈالا، دو درجن سے زائد شہری گولی سے ہلاک ہوئے اور جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر املاک کو ضبط کیا جس کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ جبکہ خود مبینہ طور پر یوپی پولیس نےگھروں کو نقصان پہنچایا، املاک کولٹوٹا اور گاڑیوں میں توڑ پھوڑ مچائی، پوری ریاست میں جو خوف وہراس کا ماحول قائم ہے کہیں نا کہیں اس کی ذمہ دار یوگی انتظامیہ ہے۔ یوگی نے جس دھمکی آمیز لہجے میں احتجاجیوں سے بدلہ لینے کی بات کہی وہ آئینی عہدے پر مامور کسی شخص کی زبان نہیں ہوسکتی بلکہ ہندویواواہنی کے اسی فرقہ پرست لیڈر کی زبان ہے جو ماضی میں پوروانچل میں اپنی اسی شبیہ کی بنیاد پر معروف تھا۔
سی اے اے کے خلاف پورے ملک میں پرامن احتجاجات ہوئے اور شہریوں کا یہ بنیادی حق ہے کہ حکومت کے کسی بھی قانون کے خلاف پرامن جمہوری احتجاج کریں جس میں پولیس اور انتظامیہ کا تعاون ہونا چاہیے لیکن یوپی پولیس اور انتظامیہ نے مظاہرین کے خلاف انتقامی کاروائی کی اور حد تو تب ہوئی جب چوک چوراہوں پر ان مظاہرین کی تصاویر چسپاں کی گئیں، ان کی تفصیلات اس طرح آویزاں کی گئی مانو مفرور ملزم ہوں۔ یوپی حکومت اس کالے کرتوت سے اس وقت بھی باز نہیں آئی جب لکھنؤ میں اس نے ۵۰؍سے زائد مقتدر شخصیات اور لوگوں کی تصاویر لگائی جس پر ازخود الہ آباد ہائی کورٹ نے نوٹس لیتے ہوئے اتوار کو تعطیل ہونے کے باوجود دوبار شنوائی کی۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس گووند ماتھر اور جسٹس رمیش سنہا کے دو رکنی بینچ نے عوامی مقامات پر شہریوں کو ذلیل کرنے کے لیے ان کے لگائے گئے پوسٹر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے صاف لفظوں میں کہا کہ ’’جب شہریوں کے آئینی حقوق واختیارات سلب کیے جائیں گے، ان کی آزادی پر قدغن لگایا جائے گا تو عدالت خاموش نہیں رہ سکتی، حکومت کا کوئی حق نہیں ہے کہ وہ شہریوں کی ذاتی معلومات عام کرے، پوسٹر اور بینر غیر ضمانتی وارنٹ کی صورت میں مفرور ملزمین کے خلاف لگائے جاسکتے ہیں وہ بھی عدالتی حکم کے بعد۔ یہ معاملہ بالکل الگ ہے اس لیے ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن نے جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ غیر آئینی ہونے کے ساتھ باعث تشویش ہے‘‘۔ پیر کو الہ آباد ہائی کورٹ نے یوپی حکومت کو سخت احکامات دیتے ہوئے پوسٹر ہٹانے اور اس کی اطلاع ۱۶؍مارچ تک کورٹ کو دینے کو کہا تھا۔ کورٹ نے کہا کہ’’ایسے معاملات میں کورٹ کو انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کوئی آئے اور انصاف کے لیے عدالتی دروازہ کھٹکھٹائے، عدالتوں کا مقصد انصاف دینا ہے اور کوئی بھی عدالت اس وقت آنکھ نہیں بند رکھ سکتی جب اس کے سامنے ہی عوام کے ساتھ صریح ناانصافی ہورہی ہو۔ جہاں جمہوری قدروں کو پامال کیا جاتا ہو، عوام کو ہراساں کیا جاتا ہو اور قانون کی صریح خلاف ورزی کی جارہی ہو وہاں عدالت کو ازخود نوٹس لینے کا مکمل اختیار ہے‘‘۔

اتنا سخت لب ولہجہ اور پھٹکار کسی بھی حکومت کی ہزیمت کے لیے کافی ہے تاہم یوپی حکومت ۱۹؍دسمبر کو ہوئے فسادات اور آگ زنی سے نقصانات کی بھرپائی انہی متاثرین سے کروانے پر بضد ہے۔ یوپی میں لگائے گئے متنازعہ پوسٹر معاملہ کو یوپی حکومت نے جمعرات کو سپریم کورٹ میں پیش کیا جہاں خود اسے منہ کی کھانی پڑی۔ معاملہ کی سماعت جسٹس یو یو للت اور جسٹس انیرودھ بوس کے بنچ نے کرتے ہوئے یوپی حکومت ہی پر سوال کھڑے کیے اور سخت سرزنش کی۔حیرت کا اظہار کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ’’ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یوپی حکومت نے مبینہ ملزمین کے پوسٹر لگانے کا فیصلہ کیسے لیا؟ جبکہ ابھی تک ایسا کوئی قانون نہیں ہےجس کے ذریعہ فساد میں مبینہ طور پر ملوث ملزمین کی تصاویر ہورڈنگ میں لگائی جائے اور جس کی بنیاد پر آپ کے اس اقدام کو جائز ٹھہرایاجاسکے‘‘۔ اس سے پہلے بھی الہ آباد ہائی کورٹ نے یوپی حکومت کو پھٹکار لگاتے ہوئے کہا تھا کہ فسادات میں ملوث خاطی پولیس اہلکاروں کے خلاف سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر شناخت کرکے سخت کاروائی کی جائے اور پولیس کو اس طرح کے سنگین حالات سے نپٹنے کے لیے پیشہ وارانہ ٹریننگ دی جائے۔

شہریت ترمیمی قانون کے نفاذ کے بعد سے یوپی میں تناؤ کا ماحول ہے مبینہ طور پر حکومتی شہ پر ریاستی پولیس من مانی کرتی نظر آرہی ہے جس سے نہ ان کی جوابدہی طے ہورہی ہے اور نہ ہی وزیراعلی یوگی ادتیہ ناتھ اور ان کی انتظامیہ کے رویے میں کوئی تبدیلی آئی۔ جب نفرت کی تخم ریزی نس میں ہو تو کسی آئینی عہدے کا وقار اور تنظیمی ڈھانچے کا عہد وپیمان کہاں پنپ سکتا ہے لیکن پھر بھی ایک شہری ہونے کے ناطے ہمیں امید یہی رکھنی چاہیے کہ انصاف سے کام لیا جائے گا۔ اور عدلیہ جسے انصاف کا مندر کہا جاتا ہے جب تک برقرار ہیں ناانصافی نہیں ہوسکتی ہے۔ مذکورہ دونوں فیصلے اور ریاستی حکومت کے خلاف برہمی اور سخت احکامات نے ایک بار پھر عدالتی وقار کو عوام کے دلوں میں جاگزیں کردیا ہے۔ یوپی حکومت کو چاہیے کہ وہ تحمل برداری سے کام لے، جمہوری اقدار اور آئینی حقوق کی پاسداری کرے۔ عام شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائے اور ریاست میں امن وامان کی فضا قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے۔

آپ کے تبصرے

3000