بٹن شرٹ اور کُرتے میں ایسے ہی ہے جیسے گھر میں چٹخنی۔ بٹن کھلا رہے تو لوگ دیوانہ سمجھیں گے یا پھر پاگل۔ البتہ فیشن کے نام پر کچھ سر پھرے کھلے بٹن اپنے بدن کی نمائش کرتے ہیں۔
اب گریباں چاک کا مطلب بتانے کے لیے
کھولنے پڑتے ہیں اکثر آستینوں کے بٹن
آج مارکیٹ میں مختلف قسم کے بٹن موجود ہیں، یہاں تک کہ یوٹیوب اور بدنام زمانہ ٹک ٹاک بھی اپنے یوزرز کو متعینہ سبسکرائبر اور فالورز ہوجانے پر بٹن تحفے میں دیتا ہے۔ ایک اور قسم کا بٹن ہوتا ہے جیسے پنکھے کا بٹن، بلب کا بٹن۔ لیکن اس کا زاویہ الگ ہوتا ہے اور استعمال بھی۔ بٹن کُرتا اور شرٹ کی زندگی سنوارتا ہے جس طرح کپڑا آدمی کی۔ اب اگر بچپن کی یاد کو کُریدیں تو بٹن سے بہت ساری یادیں وابستہ ہیں جو ذہن میں آجاتی ہیں۔ کبھی دوستوں سے دست و گریباں ہونے کی وجہ سے گریبان چاک ہوکر بٹن کا ٹوٹنا، جیب کا پھٹنا اور کبھی بٹن نیچے اوپر بند کرکے دوستوں میں رسوا ہونا تو کبھی بار بار بٹن ٹوٹنے کی وجہ سے والدہ کا رنگ برنگے بٹن کا ٹانکنا غرضیکہ بٹن ہماری عزت اور وقار سے جڑا ہے۔
ہمارے ایک استاد محترم ہیں جن کے کپڑوں کے بٹن دیکھ کر آپ عش عش کریں گے جس طرز کا کُرتا اسی طرز کا بٹن، بڑھاپے کی اس دہلیز پر جبکہ پیٹ کا کچھ حصہ باہر کی طرف لٹک چکا ہے ان کے گلے اور سینے پر ٹانکا خوبصورت بٹن بڑا دلکش معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح کچھ رنگین نما لوگ بھی اپنے کپڑوں میں خوبصورت ڈیزائن کے بٹن ٹکواتے ہیں جس سے ان کی نفاست کا اندازہ ہوتا ہے۔ اور کچھ لوگ تو یونہی؛ درزی نے جو جی میں آیا ٹانک دیا وہی ان کی پسند بن جاتا ہے۔ ریڈیمیڈ کپڑوں میں بٹن اسی حیثیت سے لگائے جاتے ہیں جس حیثیت کے وہ کپڑے ہوں، لیکن ہمیں ان کپڑوں اور ان کے بٹن پر جانے کی ضرورت نہیں۔ پسند اپنی اپنی۔۔۔۔
درس تقویٰ دینے والے کی قبا پر دیکھیے
سونے چاندی اور چمکیلے نگینوں کے بٹن
ہوا یوں کہ زیارتِ بیت اللہ کے موقع پر پہلے دن لاکھ کوشش کے باوجود حجر اسود تک نہیں پہنچ سکا، بس ہاتھ کو حجر اسود تک پہنچا کر دو تین بار پھرایا تاہم ازدحام کے باعث قربت نصیب نہیں ہوئی، اس کے بعد طواف کرتے وقت بس دور ہی سے بھیڑ دیکھ کر ہمت ہار جاتا۔ ہر روز بس چند قدم کی دوری سے دیدار حجر جنت نصیب ہوتی رہی۔ حجر اسود کو چومنے کے لیے ہمہ وقت لوگوں کا ازدحام ایک جیسا ہوتا ہے۔ 3/اکتوبر بروز جمعرات ہم لوگ اپنے 15/روزہ ٹور سے مکہ مکرمہ پہنچے تھے اور رات میں میرے کچھ دوست مدینہ منورہ سے عمرہ و ملاقات کی غرض سے آئے۔ میرے بچپن کے دوست اشتیاق کے بقول جو کہ فی الحال مدینہ کے منحل واٹر کمپنی میں کام کرتا ہے رات دو سے تین بجے کے درمیان اس نے حجر اسود کو بوسہ دیا لیکن بھیڑ ہونے کی وجہ سے کافی دقت ہوئی، اللہ اللہ کرکے وہاں تک جب پہنچا تو سر اندر کرکے بوسہ لینے لگا لیکن اب سر نکالنے کا کوئی چانس نہیں تھا، لوگ دھکا دے رہے ہیں اور اس کا سر باہر نہیں نکل رہا ہے اور جب نکلا تو پھر بھیڑ کی وجہ سے وہاں سے باہر نکلنا بڑا مشکل ہوگیا بالآخر لوگوں کے اوپر سے گزر کر کنارے لگا جیسے کسی بھنور میں پھنس گیا ہو۔ بھیڑ سے الگ ہوکر دس منٹ تک ہانپتا رہا حالانکہ بندہ ہٹا کٹا نوجوان ہے، قد کاٹھ بھی ہریانوی ہے، اگر اس کی جگہ پر کوئی بزرگ ہوتے تو آپ گمان کر سکتے ہیں کیا حالت ہوتی۔ ایک بات تجربے کی بتادوں کہ جس وقت عمرہ پر تھا حجاج کی واپسی ہوئی تھی اور دنوں کے مقابلے حرم میں بھیڑ کم تھی اس لیے طلوع آفتاب سے لے کر تقریباً دس گیارہ بجے تک عموما بھیڑ کم رہتی تھی۔ اسی طرح عشاء کے بعد بھی کچھ ایسی ہی کیفیت رہتی تھی، دیگر اوقات کے مقابلے میں حجر اسود تک پہنچنا آسان ہوتا تھا اور طواف میں بھی وقت کم لگتا تھا۔
یہ دھکم پیل سن اور دیکھ کر میری ہمت اور جواب دے چکی تھی تاہم طوافِ وداع کے موقع پر میرے بڑے بھائی نے کہا کہ میں ابھی حجرِ اسود کو بوسہ دے کر آرہا ہوں اور چل تو بھی میرے ساتھ۔ میں نے معذرت چاہی لیکن اس کے اصرار پر سوچا اللہ نے آج اس مقدس سر زمین پر مقدس گھر کی زیارت کا موقع عطا فرمایا ہے کل کا کیا بھروسہ۔ پھر اپنے بھائی کے ساتھ حجر اسود کو چومنے کے لیے کمر بستہ ہوکر نکل گیا۔ اب وہ مجھے پیچھے سے دھکا دے رہا ہے میں سیلاب میں ڈوبتے شخص کی طرح ہچکی لے لے کر آگے بڑھ رہا ہوں پھر ایک ہلکورہ آتا ہے اور میرے قدم پیچھے کو ہٹ جاتے ہیں، منزل مقصود سامنے ہے دل کی کیفیت عجیب سی ہوگئی ہے پھر کوشش کرکے آگے بڑھتا ہوں، لوگ بڑھ رہے ہیں اور میں بھی بڑھ رہا ہوں، اب حجر اسود کے چاروں اور موجود گولائی پر ہاتھ پہنچ گیا، غلاف کعبہ پکڑنے کی کوشش ہوتی ہے، پھر اچانک ایک تھپیڑا آتا ہے اور پاؤں جم نہیں پاتے بالآخر غلاف کعبہ ہاتھ میں آجاتا ہے اور منزل بالکل قریب نظر آنے لگتی ہے پیچھے سے بھائی کا ہاتھ پشت پر ہے اور اب میں حجر اسود کو بوسہ دینے کے لیے جھک جاتا ہوں، چہرہ اندر ہے، ہاتھ گولائی پر اور خوشبوؤں میں بسے جنتی پتھر پر پیشانی رگڑتا یہ روسیاہ بندہ۔ اپنے پروردگار سے اپنی مغفرت کا طلبگار ہے۔ کچھ دیر تک منہ پیشانی اور گال کا کچھ حصہ حجر سے لمس کررہا ہے اور ہونٹ بوسہ دے رہے ہیں۔ اس وقت تو بالکل دنیا و مافیہا سے الگ، دلی کیفیت کو زیر قرطاس لانا بس میں نہیں۔ انسان جب خانہ کعبہ کو دیکھ لیتا ہے تو وہی کیفیت ہوتی ہے کہ
کعبہ پے پڑی جب پہلی نظر
کیا چیز ہے دنیا بھول گئے
حقیقت بھی یہی ہے۔ حجر اسود کا بوسہ لینا میں اپنی زندگی کا سب سے سعادت مند کام سمجھتا ہوں۔ اب واپسی پر پھر ایک ریلے اور تھپیڑے کا انتظار تھا کہ اچانک عوامی سیلاب آیا اور چند سیکنڈ میں یہ بندہ عاجز باہر کھڑا تھا۔
باہر آکر دیکھتا ہوں کہ شرٹ کے سارے بٹن کھلے ہیں، یہ کب کھل گئے کچھ بھی پتہ نہیں۔ بس یہی چاہ تھی کہ کسی طرح حجر اسود تک پہنچا جائے۔ جلدی جلدی بٹن بند کررہا تھا کہ اچانک ہاتھ کی انگلی سے اندازہ ہوا کہ میرا ایک بٹن شہید ہوچکا ہے، اِنّاللہ پڑھ کر آگے بڑھ گیا۔ آج جب وہی شرٹ زیب تن کرنے کے لیے نکالا تو اچانک پھر وہی منظر اور دلی کیفیت ہے۔ اللہ قبول فرمائے۔ آمین
آپ کے تبصرے