لہر در لہر

ابوالمیزان

سلفیت سے متعلق محترم رفیق احمد رئیس سلفی حفظہ اللہ کے مضمون کا تنقیدی جائزہ لینے والی ایک تحریر پر ادارتی نوٹ

نیت موافق کی ہو یا مخالف کی، اس پر شک کرنا گھاٹے کا سودا ہے۔ اگر رفیق صاحب نے سنی سنائی باتوں کو بنیاد بناکر سعودی عرب کے بارے میں غلط بیانی کی جبکہ تصدیق کرسکتے تھے وسائل موجو د ہیں۔تو زیر نظر مضمون میں شعبان بیدار صاحب نے بھی وہی کام کیا۔ خلافت وملوکیت کے بارے میں رفیق صاحب کے موقف کی بنا مجہول راویوں پر رکھ دی جبکہ وہ بھی ایک منٹ میں فون پر تصدیق کرسکتے تھے ۔
ایک معین شخص جو عالم بھی ہے اور آپ کا استاذ بھی، قلمی محسن بھی ہے آپ کا اور جسے آپ سلفی بھی تسلیم کرتے ہیں، اگر اپنا مقدمہ مضبوط کرنے کے لیے اس کے متعلق سنی سنائی بات پر فیصلہ صادر کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے جبکہ آپ بڑی آسانی سے اس کی تصدیق بھی کرسکتے تھے۔ تو آپ کوبنا توثیق ایسا کیوں لگتا ہے “حضرت مظلوم” سعودی عرب کے بارے میں اپنے بیان میں ہمیشہ جھوٹا ہی ہوتا ہے۔ کیا جرح وتعدیل کے یہی پیمانے ہیں سلفیت کے؟

ممکن ہے دونوں صاحبان کا بیان سچا ہو۔ سعودی عرب میں غیر ملکیوں کے ساتھ کچھ معاملات میں ناانصافی بھی ہوتی ہو اور رفیق صاحب کو “خلافت وملوکیت” سے اتفاق بھی ہو۔ بنا تحقیق ان دونوں بیانات کی تصدیق ٹھیک ہے نہ تکذیب۔ بڑا مسئلہ کسی فرد یا ملک کی جرح کا ہے۔ جرح کی بنا کا ہے۔ اگر کسی ملک کی جرح کا رفیق صاحب کا طریقہ غلط ہے تو رفیق صاحب کی جرح کا یہ کون سا صحیح طریقہ ہے؟

سعودی ہو یا کوئی اور ہمارا ہم عقیدہ ملک، اس سے محبت، اس کی حمایت اور اس کا دفاع سب ہمارے ایمان کا حصہ ہے ۔مگر ہم اس کے بظاہر غلط اقدامات کی خوبصورت تاویل کرنے کے پابند نہیں ہیں۔ اگر ہم سب ایک دوسرے کو واقعی سلفی سمجھتے ہیں تویہ سب کیا ہورہا ہے؟ آخر نیتوں پر حملہ کرنا کون سی سلفیت ہے؟ قابل گرفت تقریر وتحریر اور اعمال پر رد کرنے کے بجائے دل چیر کر غیر سلفی لہریں دریافت کرنے کا عمل کس قسم کی سلفیت نے سکھایا ہے؟
زیر نظر مضمون میں زبان کی دھار کسی بھی تیز تلوار سے تیز تر ہے۔ ذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔ اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ اس کی زد میں ہمیشہ وہی چیزیں آئیں جن کے کٹنے میں ہی خیر ہو۔

رفیق صاحب کے سلفیت والے مضمون پر ملاحظات کے سلسلے کی یہ ایسی کڑی ہے جس میں تمام ادارتی نوٹس کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ فاروقی صاحب کے مضمون میں طرز بیان اور انداز دشمنان کا شکوہ تھا، رفیع صاحب کے مضمون میں اس اجمال کی تفصیل ہے جس کو مجمل رکھنا ان کے مطابق خطا کے زمرے میں آتا ہے اور اب شعبان صاحب کے اس مضمون میں ان غیر مرئی لہروں کی دریافت اور نشاندہی ہے جنھیں اس سلفی عالم نے قصداً چھپا رکھا ہے۔
کمنٹ اور لائک کے زمانے میں یہ وہ گنتی کے تاثرات ہیں جو قسطوں میں پوسٹ کا درجہ پاگئے ہیں ۔ پھر بھی مطلع ابرآلود ہے۔
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے!

ایڈیٹر



مضمون نگار کی فرمائش پر مضمون ہٹا دیا گیا ہے

2
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
1 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
Ubaid

فرمائش پر یا احتجاج پر؟

مکرم نیاز

شاید احتجاج پر۔ اور احتجاج بجا بھی ہے۔ ادارتی نوٹ کا لب و لہجہ درست نہیں ہے۔