آہ مولانا عبدالسلام مدنی رحمہ اللہ بھی آج بتاریخ ۱۶/ جولائی ۲۰۱۸ء تقریبا ساڑھے پانچ بجے اس دار فانی سے رخصت ہوگئے، جب بھی آپ کانام آتا، حفظہ اللہ لکھتا آج پہلی بار آپ کو رحمہ اللہ لکھتے ہوئے انگلیاں کانپ رہی ہیں، تصور میں آپ کا پر نورچہرہ بار بار گھومنے لگتا ہے، پرسوں ہی آپ کا آخری دیدار کرکے آیا تھا، اعضاء رئیسہ جواب دے چکے تھے، آپ کے بچوں کے چہرے پر مایوسی جھلک رہی تھی، بار غم سے وہ بوجھل تھے، قریب گیا آپ کے صاحب زادے عبد النور نے آوازیں دیں کہ ابا دیکھیے بنارس سے مولانا قاسم آئے ہیں، ہاتھوں میں حرکت تھی، لیکن غشی کی کیفیت تھی، ہونٹ ہل رہے تھے، اضطراب اور بے چینی بہت زیادہ تھی، کوئی جواب نہ دے سکے، سبھی جان چکے تھے کہ آخری وقت آن پہنچا ہے، پھر بھی آخری سانس تک یہی امید رہتی ہے کہ اللہ کی ذات سے بعید نہیں ہے کہ وہ نئی زندگی دے دے، وہ تو مردوں میں جان پہنانے والا ہے،
ڈاکٹروں نے فیصلہ کردیا تھا کہ مولانا کومہ میں چلے گئے، دوچار گھنٹوں کے مہمان ہیں، معلوم ہوا کہ سنیچر کی شب ہی مولانا کے صاحب زادے ان کو وطن ٹکریا بستی لے کر چلے گئے، مولانا کی وصیت تھی کہ ان کے گاؤں ہی میں ان کی تدفین کی جائے۔تھک تھک کر اس راہ میں آخر اک اک ساتھی چھوٹ گیا، جامعہ کے قدیم اساتذہ میں چند ہی رہ گئے ہیں اللہ انھیں صحت و عافیت کے ساتھ حیات دے۔
یہ اجل کبھی قریب سے گزر جاتی ہے، کبھی تڑپا تڑپا کر مارتی ہے، کبھی اچانک بے سان و گمان ایسے اچک لے جاتی ہے کہ صبر و شکیب کا دامن بھی چاک ہوجاتا ہے،چند ماہ قبل ابن القیم مسجد شاہین باغ اوکھلا میں مغرب کی نماز پڑھ کر جوں ہی نکلنا چاہا، پیچھے سے کسی نے کر تا کھینچا، میں چونک گیا، مڑکر دیکھا تو استاذ محترم کھڑے مسکرارہے تھے، کئی سالوں کے بعد ملاقات ہوئی، معانقہ اور مصافحہ کے بعد وہیں بیٹھ گئے، یہ اتفاق تھا کہ مولانا کے دو اور ساتھی مولانا فضل الرحمان اور شیخ عبد القدوس( مقیم ریاض) بھی تشریف فرما تھے، مولانا عبدالقدوس نے جامعہ سلفیہ میں مجھے مشکوۃ جلد ثانی پڑھایا تھا، اچھی خاصی محفل جم گئی، استاد محترم بہت کمزور اور نحیف ہوگئے تھے، مگر ہشاش بشاش تھے، کچھ عرصہ قبل دل کا آپریشن ہوا تھا، معمول کا چیک آپ کرانے دلی آئے ہوئے تھے۔کسے معلوم تھا کہ تین ماہ کے اندر ہی بیماریاں جان لیوا بن جائیں گی، آج آپ کی موت کی خبر آئی تو تیس بتیس سال کی رفاقت کا پورا دور نگاہوں کے سامنے پھر گیا،مولانا کے تعلیمی اور تدریسی دونوں ادوار میں نے دیکھے ہیں، جامعہ رحمانیہ کے آخری طلبا میں سے تھے، ۱۹۶۶ء میں جامعہ سلفیہ میں تعلیم کا آغاز ہوا تو رحمانیہ سے فراغت کا کورس ختم کردیا گیا اور طلبا سلفیہ چلے آئے، رحمانیہ میں صرف مولوی رابع تک تعلیم ہونے لگی ، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے پہلے جن چار طلبا کے لیے منظوری آئی ان میں سے ایک آپ بھی تھے، غالبا جامعہ میں دو تین ماہ ہی پڑھنے کا موقع ملا،۱۹۷۱ء میں وہاں سے لیسانس کی ڈگری حاصل کرکے آئے تو آپ ، مولانا عبد الحمید رحمانی اور مولانا عبد الرحمان لیثی کی تقرری جامعہ میں ہوگئی، مولانا عبد الحمید رحمانی سال بھر بعد مرکزی جمیعۃ اہلحدیث میں چلے گئے، مولانا لیثی طب کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے علی گڈھ چلے گئے، لیکن استاد محترم نے پوری زندگی سلفیہ میں ہی گزاردی، غالبا ڈیڑھ سو ماہوار پر تقرری ہوئی تھی۔
چالیس سال تک جامعہ میں پڑھانے کے بعد ۲۰۱۱ء میں اپنے وطن ٹکریا بستی چلے گئے، مولانا عبد الوحید رحمانی ڈاکٹر مقتدی حسن ازھری اور مولانا محمد رئیس ندوی کے بعد صرف آپ کی بزرگ ہستی تھی جو جامعہ کی علمی رونق اور دل کشی کا سبب تھی،علم حدیث میں مرجع تھے، جامعہ کے منتظمین شائد اصرار کرتے تو طلبائے جامعہ کچھ اور سالوں تک آپ سے استفادہ کر لیتے، آپ نے جامعہ توچھوڑ دیا لیکن جذباتی وابستگی کم نہ ہوئی، بے ہوشی میں بھی جامعہ کے بارے میں ہی جملے نکلتے۔
حدیث پڑھانے کا ایک خاص انداز تھا، جامعہ میں آئے تو مشکوة جلد ثانی کی تدریس سے عملی زندگی کا آغاز کیا، سنن نسائی اور بخاری شریف ساری زندگی پڑھاتے رہے، حدیث کی تدریس آپ کا میدان تھا، فنون کی کتابیں بھی پڑھائیں، لیکن حدیث پڑھانے کا ملکہ خدا داد تھا، ہمیشہ اس کا حق ادا کرتے رہے، مولانا جو بھی کتاب پڑھاتے باقاعدہ اس کے نوٹس بناتے، اس طرح مشکوة جلد ثانی کی مختصر شرح آپ نے تیار کردی جو “ التعلیق الملیح” کے نام سے شائع ہوئی، سنن نسائی کے نوٹس کو بھی مرتب کرلیا تھا، مشکوة جلد اوّل کا کام بھی جاری تھا، تکمیل کےمرحلے میں تھی کہ قضا آن پہنچی، اصول حدیث کی مشہور کتاب “نزھة النظر “ آپ کی تصحیح کے ساتھ جامعہ سے شائع ہوئی۔
افتا کی ذمہ داری بھی عرصۂ دراز تک بحسن و خوبی انجام دیتے رہے، مسائل پر آپ کی گہری نظر تھی،افتا کے پیچیدہ اور الجھے ہوئے مسئلوں کو چٹکی بجاتے حل کر دیتے، درس میں طلبا باقاعدہ آپ سے مباحثہ کرتے، آپ جواب دیتے اور ان کے سوالات کا کبھی برا نہ مانتے، آپ کی یہ کوشش ہوتی کہ طلبا خود ہی جواب کی تہ تک پہنچ جائیں۔
جماعت کے بہترین مقررین میں آپ کا شمار ہوتا تھا، میں نے بارہا جا مع مسجد اہلحدیث (طیب شاہ) اور دیگر مساجد میں آپ کے خطبے سنے، سماج کی برائیوں اور ان کی اصلاح کے طریقوں کو بر سر منبر بیان کرتے،جامعہ میں بھی اساتذہ کو بھی ان کی غلطیوں پر ٹوک دیتے ، آپ کی تقریریں پر تاثیر اور رقت انگیز ہوتیں، مدنپورہ اور دیگر علاقوں میں آپ کے معتقدین اور احباب آج بھی آپ کا ذکر کرتے ہیں، عرب مشائخ کی اردو میں ترجمانی زیادہ تر آپ ہی کرتے،۱۹۸۰ء میں جو عظیم الشان کانفرنس ہوئی تھی اس میں امام حرم شیخ سبیل کی تقریر کی ترجمانی آپ ہی نے کی تھی۔
تدریس، افتا اور دیگر ذمہ داریوں کی وجہ سے آپ کو لکھنے کا موقع کم ملتا لیکن محدث میں درس حدیث آپ ہی لکھتے اس سلسلے کے آپ کے دروس شائد کتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں۔
۱۹۷۱ سے ۲۰۱۱ تک آپ کے ہزاروں تلامذہ علمی اور عملی شعبوں میں سر گرم ہیں، جس نے بھی آپ سے کسب فیض کیا اسے فخر ہے کہ میں محترم استاد کا شاگرد ہوں، آپ نے زندگی اپنے اصولوں کے مطابق گزاری تھی، جس بات کو حق سمجھا اسے برملا کہہ دیا اور ہمیشہ اس پر اٹل رہے، سلفیہ کی مٹنگوں میں جب بھی بولنے کی بات آتی تو ہم جونیر اسا تذہ مولانا کی طرف دیکھتے، خوش اخلاق ملنسار تھے، مجھے یاد ہے کہ آپ مٹر پھلی کے موسم میں اساتذۂ جامعہ کو عصرانہ کی دعوت دیتے، اللہ نے آپ کو بے پناہ علم سے نوازا تھا، آپ نے اسے تقسیم کرنے میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا، ان شاء اللہ یہ خدمت جلیلہ آپ کے لیے صدقۂ جاریہ ہوگی،
ماشاء اللہ پانچوں بچوں کو عالم دین بنایا، عصری علوم سے آراستہ کیا،ان میں سے تین بچے ڈاکٹر بنے،
۷/ فروری ۱۹۴۴ کو آپ پیدا ہوئے اس طرح آپ نے چوہتر سال کچھ مہینوں کی عمر پائی، اللھم اغفر لہ وارحمہ
آپ کے تبصرے