وقت کتنی ہی تبدیلیاں اختیار کرلے، زمانے میں کتنا ہی تغیر و تبدل پیدا ہوجائے لیکن کچھ ایسے درخشاں ستارے اردو زبان و ادب کے افق پر نمودار ہوئے ہیں جو ہمیشہ تابناک رہیں گے۔ مولانا ڈاکٹر حامد الانصاری انجم کا پیدائشی نام عبدالحمید تھا، لیکن آپ مولانا ڈاکٹر حامد الانصاری انجمؔ کے نام سے جانے گئے۔
آپ کی پیدائش 15مئی 1932 موضع لوہرسن بازارکرن جوت ضلع بستی اترپردیش میں ہوئی۔ سخاوت اور شجاعت میں لاثانی، وہ آفتابِ اردو جس کی روشنی ادبی دنیا کو روشن اور تابناک بنائے ہوئی تھی، جس کی کرنیں ذرے ذرے کو چمکنے کی صلاحیت و شعور بخشتی تھیں اس آفتاب کا نام مولانا ڈاکٹر حامد الانصاری انجم ہے یعنی یہ نام ایک عالم باعمل کا نام ہے۔ غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مصلح نظر رکھنے والا قوم کی فکر میں ڈوبے رہنے والا شخص اور اتنی سادگی سے زندگی جینے والے کے دل میں قومیت کا درد کس قدر بھرا تھا جب یہ پتہ چلا تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔
جو آدمی شاعر اسلام کے نام سے معروف ہوا کیا وہ اردو زبان و ادب کے فروغ اور اس کے ارتقاء کا بھی حصہ رہا ہے، یہ جاننے کی جب کوشش کی گئی تو کئی ایسے روشن پہلو سامنے نکل آئے جن سے ہمارا سامنا پہلی مرتبہ ہوا، اور یہ تاثرات قلم بند کرنے کا شوق مزید پختگی اختیار کرتا چلا گیا۔ آپ کی دینی تعلیم کے زمانے کا دَور جس میں مولانا شمس الحق ( شاگرد علامہ شبیر احمد عثمانی) شیخ الحدیث مولانا عبد السلام بستوی، اور مشہور عالم دین مفتی کفایت اللہ سے استفادہ کی بات ہو کہ طبیہ کالج قرول باغ دہلی میں طب کی تعلیم کا ذکر جس میں حکیم اجمل خاں، حکیم مظہر الدین، اور حکیم محمد مبین کے اسماء گرامی شامل ہیں آپ نے فیض پایا، اور اس سے قوم کو فیض بھی پہنچایا۔ باقاعدہ طب کی سند لے کر بھی اس پیشہ کو زندگی جینے کا ذریعہ نہیں بنایا، آپ عالم دین بھی بنے اور حکیم و ڈاکٹر بھی، دوسرے میدانوں میں بھی آپ نے اپنی شخصیت کے جوہر دکھائے، موعظت و عظمت کا ملنا سب کے نصیب میں کہاں؟ آپ کی پہچان بنی تو ایک ایسے روشن ستارے کی مانند بنی جس کی تابانی رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔
ڈاکٹر حامد الانصاری انجمؔ دین اسلام کے داعی بھی تھے اور مبلغ و خطیب بھی اور کئی دینی اداروں کے آپ بانی بھی تھے، مساجد کے موسس بھی، اللہ رب العزت کے فضل سے جو عزت و شہرت اور عظمت آپ کو آپ کی زندگی میں ملی وہ بہت کم لوگوں کو ملتی ہے، اردو زبان وادب کے ہمہ جہت قلمکار ہونے کے علاوہ دین مبین کے مبلغ بھی تھے، اسی نے آپ کو ارتفاع نصیب کیا۔ مولانا گوناں گوں متنوع الجہات شخصیت تھے، درج ذیل سطروں میں آپ کے ذریعے کی گئی اردو صحافت پر روشنی ڈالنے کی سعیئ ناکام کرنے کا ارادہ ہے۔ وہ لوگ جو اردو دنیا کے جوہر قابل شمار کیئے جائیں، جن کی ذہانت و فطانت، قابلیت و علمیت، زبان دانی اور مہارت لسانی کا شہرہ چہار سو ہوتا ہو کم ہیں۔ اب مولوی عبد الحق، سید سلیمان ندوی، جوش ملیح آبادی، نیاز فتح پوری، نوح ناروی اور ناہی مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا محمد عثمان فارقلیط ہونے والے اور ناہی مولانا ڈاکٹر حامد الانصاری انجمؔ کی شکل میں کوئی دوسرا انجم ؔ تاباں ہونے والا، اگر ہوا بھی تو قدر مختلف ہی ہوگا۔ کیونکہ کوئی دین کا داعی ہوسکتا ہے، کوئی شاعر رسول ہوسکتا ہے، کوئی اردو کاخادم و صحافی بن سکتا ہے، تو کوئی ملک و قوم کا رہبر یا سیاسی نمائندہ تو کوئی ان تمام خوبیوں کا مجمع لیکن اصلاح تربیت معاشرہ کا فریضہ جس خلوص کے ساتھ آپ نے انجام دیا وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ یاد رکھئے صحافت وہ دنیا ہے جہاں تپتے ہوئے ریگرزاروں میں آبلہ پا ہونا پڑتا ہے، جہاں سنگلاخ چٹانوں پر بسیرا کرناپڑتا ہے، جہاں دار و رسن کی آزمائش سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔
اگر آپ کی صحافتی خدمات کاجائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ جرائتمند، بیباک، بے خوف، بے لاگ اور حق گو صحافی تھے۔ سچ بات کہنے میں کبھی کسی قسم کا خوف محسوس نہیں کیا، اور نہ ہی کبھی مصلحت کوشی کو دامن گیر ہونے دیا۔ آپ کی تحریریں کیا ہیں بس یہ سمجھئے کہ دل کے غنی اور فکر وآگہی کے دھنی نے جوہرؔ لٹائے ہیں۔ صحافت کی بات کی جائے تو آپ کی تحریروں میں فصاحت وبلاغت کے ساتھ نفاست، لطافت، سادگی و سلاست، بلندئی فکر و نظر، ندرت افکار کے اشاریہ صاف طور پر جھلکتے ہیں۔ اس کے علاوہ حسن ترتیب کا مہذب اہتمام، لفظ و معنی میں باہم دروبست، سماجی شعور، سیاسی بصیرت، نیز جذبات واحساسات کے اظہار کی خوش سلیقگی وغیرہ کون سے ایسے فنی وصف سے نثرِ انجمؔ متصف نہیں ہے جو صحافت کے اعلیٰ و ارفع مقام کے لئے لازمی جز کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کے دَور میں معاشرے میں بہت سی ایسی رسمیں رواج پاچکی تھیں جن سے بچنا بہت ہی مشکل سا لگنے لگا تھا، ان کی فکر میں صحافت کے ذریعے ڈاکٹر حامد الانصاری انجمؔ نے ایسی کمر کسی کہ ان کادائرہ تنگ ہوتا چلا گیا اور محدود دائرے میں انہیں قید ہوتا دیکھ ان کے خاتمے کی تدبیریں بھی کیں۔
ایسا اس لئے بھی ضروری تھا کہ ماحول کے تعلق سے آپ کا گہرا مطالعہ تھا، افسردہ اور مضطرب انسانوں کے آنسوؤں کی نمی نے اور آہوں کراہوں کی حرارت نے سنگِ خارا سے آئینے تراشنے کا عمل انجام دلایا۔ جس کی مثال دی جانے لگی۔ آپ نے بدعت اور ضلالت سے معاشرے کو پاک کرنے کی جیتے جی کوشیں کرنے کاسلسلہ جاری رکھا۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ دین حق سے وابستگی آج ان کی اولاد کاخاصہ ہے، اور کم و بیش ہر ایک معاملہ میں سنت نبوی کی پیروی کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ مولانا ابو الکلام آزاد کی شخصیت سے آپ بے حد متاثر تھے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ جب آپ نے صحافت میں قدم رکھا تو مولانا آزاد کے اخبار ’’الہلال ‘‘کے نام سے ہی اپنا ایک مجلہ نکالا۔ مانا کہ ڈاکٹر حامد الانصاری انجمؔ کا الہلال معاشی تنگ دستی اور ایک طرح سے اقتصادی مسائل کی نذر ہوکر رہ گیا، مگر الہلال ثانی کی صورت میں آپ نے ہمت نہیں ہاری۔ دوماہی خبر نامے کے توسط سے قوم کی اصلاح اور ملکی حالات کو عوام کے سامنے لانے کی خدمت کے جذبے کو جریدے کی شکل دی، افسوس وہ بھی چند سال نکل سکا۔ ایک تیسرا رسالہ بھی جاری کیا جس کا نام ’’ المّؤتمر‘‘ تھا مگر وہ بھی اس جہان رنگ میں زیادہ دنوں تک اپنی خوشبو نہ بکھیر سکا، یعنی المؤتمر معتبر کے ساتھ گمرہی کی شکار ہوتی جارہی دنیا میں اپنی علمی ضوفشانیاں کچھ زیادہ نہیں پھیلا سکا۔
جیسا کہ ہم لکھ چکے ہیں کہ آپ مولانا آزاد سے بے حد متاثر تھے، اس کے بعد جس دوسرے صحافی سے بہت زیادہ متاثر نظر آتے ہیں وہ مولانا محمد عثمان فارقلیط کی شخصیت ہے۔ وہ تہذیب اور اقدار جو ہمارا خاصہ سمجھی جاتی ہے، اس کی داغ بیل اپنے گھر سے ڈالنے والے مشفق باپ نے اولاد کی کس انداز سے تربیت کی ہوگی یہ محسوس کئے جانے کی بات ہے لکھنے کی نہیں۔ صحافی ہونے کے ناتے الہلال اخبار و دیگر دونوں رسالوں سے جو کام لئے وہ قوم کی رہبری کے زمرے میں آتے ہیں۔ الہلال کے پہلے شمارے کے قلمکاروں میں غور کیجئے مولانا علی میاں ندوی، مولانا مشیر الحق بحری آبادی، مولانا تاج الدین رام نگری، مولانا عارف سراجی، جناب شبنم ریاضی، آپ کا استعاراتی نام ہے، حیرت بستوی، اورڈاکٹر انجم جمال اثری قابل ذکر ہیں۔ آپ نے صحافتی اصولوں کی دس سطری زنبیل میں جن اغراض و مقاصد کا تذکرہ رسالہ الہلال جاری کرنے سے قبل کیا تھا وہ اگر نقل کررہے ہیں تو صر ف اس نقطئہ نظر سے کہ اردو صحافی آج اپنے مشن کو جان لیں پہچان لیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہئیے۔ الہلال کے لئے حرف آغاز کے عنوان سے لکھے گئے اداریے میں آپ نے اس رسالے کی دس غرض و غایت اور اہداف و مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ؎
1- الہلال کتاب وسنت کا بے باک علم بردار ملت اسلامیہ کا عظیم المرتبت داعی، امت مسلمہ کا بے مثال سچا رہنما ہوگا۔
2- الہلال علوم اسلامی کاحامل، شریعت حقہ کا پیغامبر اور احکامات دین کا ناشر ہوگا۔
3- الہلال دینیات، سیاسیات، اخلاقیات و اقتصادیات اور معیشت و معاشرت کا بہترین معلم ہوگا۔
4- الہلال اسلامی انقلاب کا امام ہوگا، احقاق اور ابطال باطل اس کا فرض اولین ہوگا۔
5- الہلال الحاد و لادینیت، کفر و ظلمت اور شرک و بدعت کے خلاف محاذ آرائی کرے گا۔
6- الہلال عالم اسلام کا عموماََ اور ساڑھے چار کروڑ ہندی مسلمانوں کا خصوصاََ صحیح اور سچا ترجمان ہوگا۔
7- الہلا ل اسلامی زندگی کے نقوش کو اجاگر کرے گا اور مخالفین اسلام کادنداں شکن جواب دے گا۔
8- الہلال درد اضطراب میں ڈوبی ہوئی دنیا کو امن و سکون اور چین و اطمینان کی زندگی عطا کرے گا۔
9- الہلال کاروان انسانیت کو منزل مقصود تک پہنچانے کے لئے مینار روشنی، مشعل راہ اور سنگ میل کا کام دے گا۔
10- ہندی مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور جملہ ترقیات کے لئے ہر امکانی جد وجہد اور کوشش کرے گا۔
یہ وہ نکات تھے جن پر چلنا بہت ہی مشکل تھا لیکن خدا کے فضل خاص سے بھلے ہی کچھ دنوں ماہ و سال مولانا ڈاکٹر حامد الانصاری انجمؔ چلے ۔
آپ ایک صحافی ہونے کے ساتھ واعظ کے طور پر بھی پہچانے جاتے تھے، کئی ایک موقعوں پرخطابت کے دوران ایسے اعمال اور مختلف فضیلتوں کا تذکرے آپ نے اپنی تقاریر میں کئے جن سے جہل کی تاریکی بڑی حد تک کم ہوئی، آپ بلا تحقیق کے کبھی کوئی بات نہیں کرتے تھے۔ ہمارا ماننا ہے کسی بھی کام کے متعلق ہو یا پھر کوئی سوال اس کی تحقیق ضرور کرنی چاہیئے اور حوالہ ضرور دیکھنا چاہیئے، خصوصاََ ایسے اعمال جن میں شرک یا ابہام شرک پیدا ہونے کا خوف ہو، ان باتوں کا ڈاکٹر حامد الانصاری انجمؔ نے اپنی روز مرہ کی زندگی میں بہت زیادہ خیال رکھا۔ تاریخ میں ہمیں ایسے متعدد داعی اور خطیب تلاشنے پر مل جائیں گے جو شعلہ بیانی اورجذبات کی روانی میں عوام الناس کو بہالے جانے میں ماہر سمجھے گئے ہوں، لیکن صاحب علم اور نیک سیرت کے ساتھ مدبر و فاتح کوئی ہو یہ مشکل ہے۔
ڈاکٹر حامد الانصاری انجمؔ کی آنکھوں میں اندیشہ ہائے دور دراز کی لہریں موجزن تھیں۔ قوم کی فکر اور گناہوں سے بچانے کی تدبیروں نے وہ وہ کام کرائے جس کی مثال آج کے زمانے میں ممکن نہیں۔ خطاکاروں کو متنبہ کرنے اور غلطی کرنے والوں کو روکنے کی طاقت رکھنے کا مظاہرہ کرنے کے علاوہ درگزر کی صلاحیت سے بھی آپ مامور تھے۔ منصف مزاج خطیب اور اخلاق و کردار کے اعتبار سے متقی و پرہیز گار انسان ہونا سب کے لئے آسان نہیں۔ آپ نے زندہ دل صحافی ہونے کی مثالیں کئی جگہ پیش کیں انجم ؔ تاباں کے صفحہ نمبر 146 پر ہماری نظر ہے آئیے اسے پڑھتے ہیں، مثلاََ اپنی ایک تحریر میں آزادی کے بعد ملک ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہی زیادتیوں پر اظہار افسوس کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ؎
مسلمانوں نے ہی جنگ آزادی شروع کی تھی اور انہوں نے ہی اس آگ کو بھڑکایا تھا جو آگے چل کر آزادی کاشعلہ جوالہ بن گئی، لیکن جب بھی مجاہدین آزادی کا ذکر ہوتا ہے تو مسلمانوں کو فراموش کردیا جاتا ہے۔ انہیں بھلا دیا جاتا ہے اور محض چند ناموں کے علاوہ اور کسی کا نہ تو نام لیا جاتا ہے اور ناہی ان کی قربانیوں کو یاد کیا جاتا ہے۔ یہ صورت حال نہ تو ملک کے لئے اچھی ہے اور نہ ہی اہل وطن کے لئے۔ لیکن اسے کیا کیا جائے کہ ایک طبقہ جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیوں کو تاریخ کے صفحات سے مٹادینے پر تلا ہوا ہے۔
اس بارے میں اظہار افسوس کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ؎
اس ملک کو اتفاق واتحاد اور یکجہتی کی طاقت ہم نے بخشی ہے۔ انداز گویائی اور طرز جہاں بانی کاسبق ہم نے پڑھایا ہے۔ اس ملک کو غلامی کی دلدل سے ہم نے نکالا ہے۔ اہل وطن کے گلے سے طوق غلامی ہم نے اتارا ہے۔ جنگ آزادی کی قیادت ہم نے کی ہے۔ دشمنوں کو شکست فاش ہم نے دی ہے۔ لیلائے آزادی کے عشق میں دارورسن کا استقبال ہم نے کیا ہے۔ کالا پانی کی سزا ہم نے جھیلی ہے۔ احمد نگر اور دسرے شہروں کی جیلوں کو ہم نے آباد کیاہے۔ ظالم انگریزوں کی ہیبتناک عدالتوں میں ہم نے بے خوف و خطر مجاہدانہ کردار پیش کیا ہے۔ فرنگی جابروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر موت کو خوش آمدید ہم نے کہا ہے۔ اپنے ہی قتل کے محضر نامے پر دستخط ہم نے کیے ہیں۔ اس کے باجود ہم سے یہ گلہ کہ ہم وفادار نہیں۔
اتنا کہ دینا کافی نہیں کہ وہ شاعر ِاسلام تھے یا دین کے داعی، یا ایک اردو کے سپاہی اور صحافی تھے، اس قسم کی بات کرکے آپ کی ذات کادائرہ محدود کرنا سراسر ناانصافی ہوگی۔ بعض اقدامات کی تائید اور مخالفت میں لمبی لمبی بحثیں کی جاسکتی ہیں لیکن ایسی مجموعی ایک بات جو سب کے لئے قابل قبول ہو وہ بھاری بھیڑ میں مرد مجاہد کی طرح ڈاکٹر حامد الانصاری انجمؔ کہنے کی قدرت رکھتے تھے، جتنا علم تھا اس پر عمل کرنے کی کوشش میں زندگی بھر لگے رہے۔ آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ مولانا ڈاکٹر حامد الانصاری انجمؔ کی تخلیقات مثلاََ حمد و نعت، غزل اور نظم، فروغِ اردو، صحافت، فکرِقوم، دینی خدمت، ادب ِاطفال، وطن پرستی جیسے موضوعات پر جب نظر جاتی ہے تو آپ کی خدمات سے ذہن کا قائل ہونا لازمی ہے۔ سحر البیانی اور انشاء پردازی کے ساتھ صحافت کی جو نظیریں یا مثالیں ہمارے سامنے ہیں ان سے نقشِ راہ کا کام لیا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے متعلقین مولانا ڈاکٹر حامد الانصاری انجمؔ کے وہ تمام خواب شرمندہ تعبیر کرے، جو مرحوم کے کارناموں کو زندہ و تابندہ رکھنے کے لئے دیکھتے ہیں۔
آپ کے تبصرے