بندوق باز بابو موشائے ٹائپ کے مولویوں کے نام

عزیر احمد

نوٹ:
زیر نظر مضمون میں علماء کے مقابلے مولوی ؛ علماء سو کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے

ایڈیٹر



پہلے تو میں اپنے مضمون کے عنوان کے لیے معذرت خواہ ہوں مگر چونکہ میں سمجھتا ہوں کہ علماء اور مولویوں کے درمیان فرق ہے اس لیے کسی کو اس پہ چیں بہ جبیں نہیں ہونا چاہیے۔ علماء کرام اس دنیا کی سب سے باعزت مخلوق ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کو دین اسلام کی سمجھ عطا کی گئی ہے، جنھیں فقہیات و الہیات کے علم سے نوازا گیا ہے، جنھیں اس دنیا میں لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے بھیجا گیا ہے۔ یہی لوگ یقینی طور پر باعزت مقام و مرتبہ والے ہیں جو دنیا میں بھی سرخروئی حاصل کرنے والے اور آخرت میں بھی کامیابی سے سرفراز ہونے والے ہیں۔

ایک طرف جہاں یہ علماء کرام ہیں، وہیں دوسری طرف انہی سے تعلق رکھنے والی ایک اور جماعت بھی پائی جاتی ہے جنھیں دنیا “مولویوں” کے نام سے جانتی ہے، جن کے بارے میں غیر مسلم تو غیر مسلم، خود مسلمان بھی تحفظ کا شکار رہتے ہیں، ان کا مذاق اڑاتے ہیں، ان سے نفرت کرتے ہیں۔

یہ قسم اپنے آپ کو مذہب کا ٹھیکیدار سمجھتی ہے، ہندو ازم کی برہمنیت اس کے اندر کچھ یوں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے کہ بس کسی نے زبان کھولا، ادھر تلوار اس ناہجاز کا سر قلم کرنے کے لیے تیار۔ علماء کرام اور مولویوں کے درمیان سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ علماء کرام مخالفین کی عزت کرتے ہیں، متضاد نقطہ نظر کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرتے ہیں، اور علمی اسلوب میں اگر رد کرنے کی ضرورت ہو تو رد کرتے ہیں۔ مگر اختلاف میں شائستگی اور تواضع کو ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دیتے ہیں، جذباتیت انھیں چھو کر نہیں گزرتی ہے، اپنی بات دلائل کے ساتھ معروضی انداز میں رکھتے ہیں اور اس بات کا انتظار نہیں کرتے کہ مخالف کے حلق میں اسے ڈال کر یقین کرنے پر مجبور کریں کہ جو وہ کہہ رہے ہیں وہی برحق ہے، اپنی بات پیش کردیتے ہیں اور خاموشی کے ساتھ آگے بڑھ جاتے ہیں۔ انھیں بخوبی معلوم ہے کہ وہ کسی پر نگراں اور ذمہ دار نہیں بنائے گئے ـ
جبکہ مولوی طبقہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے، جذباتیت سے پر، بات بات میں ہائپر ہوجانے والا، مخالف کا رد کرنے کے بجائے گالی گلوچ پہ اتر آنے والا، تنقیص اور سطحیت کا مارا ہوا، متضاد نظریے کے حامل افراد کو جب تک “ماں بہن کی گالیوں” یا ” اس کو اس کے خاندان کی…”  یاد نہ دلا دے چین اور سکون سے نہیں بیٹھنے والا ہوتا ہے۔

اور کمال کی بات یہ ہے کہ ایسا کرنے کے بعد بھی اسے لگتا ہے کہ اس نے میدان مار لیا، اپنے مسلک یا اپنے نظریے کو “فتح مبین” سے ہمکنار کرا دیا۔ حالانکہ وہ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ مخالفین کی عناد میں مزید شدت پیدا کرنے والا ہے، اس سے کوئی ان کی بات تسلیم نہیں کرے گا ہاں وہ مزید اس کا یا اس کے نظریے کا دشمن ہوجائے گا۔

میں بہت سالوں سے سوشل میڈیا پہ ہوں، بلکہ اس وقت سے ہوں جب کہ میں ایک لفظ بھی لکھنا نہیں جانتا تھا، اس وقت سے لے کر اب تک مجھے بہت سارے تلخ واقعات کا سامنا کرنا پڑا، بہت ساری گالیاں بھی میں نے سنیں، لیکن مجھے کبھی اس کی پرواہ نہیں رہی کہ کون میرے بارے میں کیا سوچتا ہے، کیا کہتا ہے، کیا لکھتا ہے، میری نظر میں اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔ کیونکہ مجھے ہمیشہ سے یہی لگتا آیا ہے کہ منزل بہت دور ہے، اور اس تک پہنچنے کے لیے اگر ہم ہر کسی سے الجھنے لگے تو منزل تک پہنچنا دور کی بات بلکہ راستہ ہی بھٹک جائیں گے، اس لیے میں کبھی غنڈہ ٹائپ مولویوں کی باتوں پہ دھیان ہی نہیں دیتا ہوں۔

لیکن کچھ وقتوں سے میں دیکھ رہا ہوں کہ نام نہاد مولویوں کی بدتمیزی کی شکایت ہر چہار جانب سے ہونے لگی ہے۔ کچھ عرصہ ہوا، مشہور صحافی جناب ایم. ودود ساجد صاحب بھی ان مولویوں کے طرز عمل سے بہت نالاں نظر آئے تھے، اس کا انھوں نے اظہار بھی کیا تھا بلکہ ان کے وال پہ جو بدتمیزی کی گئی اسے لے کر انھوں نے ایف.آئی.آر تک درج کرانے کے بارے میں سوچا تھا، پھر وقت گزرا تو مشہور صحافی زین شمسی صاحب نے بھی شکایت کی، ابھی تین چار دن پہلے محترم غزالی خان نے بھی لکھا کہ پہلے جب میں انگریزی میں لکھتا تھا تو مجھے کبھی اتنی تنقیصوں یا بد تمیزیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تھا جتنا کہ اردو میں لکھنے کی وجہ سے کر رہا ہوں۔

یہ صرف کچھ مثالیں ہیں، ایسے بہت سارے نام ہیں جو خود ساختہ دینی دانشوروں کی ذہنی آوارگی کے تشدد کے شکار ہیں۔ پڑوسی ملک کی حالت یہ ہے کہ وہاں کا ایک بہت بڑا طبقہ مولویوں سے بے اتھاہ نفرت کرتا ہے، بلکہ وہاں کے ایک طالب علم نے ایک بہت ہی شاندار کتاب “مجھے مولویوں سے بچاؤ” کے عنوان سے لکھا ہے۔ اس میں نام نہاد مولویوں کے خلاف جم کے لکھا ہے، اور خوب لکھا ہے، یہ نفرت یوں ہی نہیں ہے، بلکہ اس میں مولویوں کے اعمال کا بہت ہی بڑا حصہ ہے، جس کا انکار صرف عصبیت کی بنیاد پہ کیا جاسکتا ہے، حقائق کی بنیاد پہ بالکل نہیں۔

یہ جاہل اور اکھڑ نما مولوی حضرات نہ صرف عوام میں علماء کرام کے تئیں بدگمانیوں میں معاون ثابت ہورہے ہیں بلکہ امت کے کریم اور پڑھے لکھے طبقے کو بھی اسلام اور اسلام کے حقیقی رہنماؤں سے بد ظن کر رہے ہیں۔ یہ سوچتے ہیں کہ یہ اپنی بد زبانیوں سے کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دے رہے ہیں، یقینی طور پر یہ لوگ سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، نخلستان کے بارے میں تو سوچ رہے ہیں پر حقیقت میں وہ دھوکا کے سوا کچھ نہیں۔

سوشل میڈیا پہ موجود میرے پیارے بھائیو! زبان اور قلم اللہ رب العالمین نے آپ کو بطور نعمت عطا کی ہے، اس کی قدر کرنا سیکھیں، آپ کا ہر ہر لفظ آپ کی تربیت، آپ کی ثقافت، آپ کی تہذیب کا آئینہ دار ہے۔ علماء بنیے مولوی نہیں، دین کی سمجھ لوگوں کو سمجھانے کے لیے حاصل کیجیے، برہمنی ازم کو بڑھاوا دینے کے لیےنہیں، مخالف نقطہ کا احترام کیجیے، علمی دلائل کے ساتھ شائستہ جملوں میں  رد کیجیے۔یہ مت سوچیے کہ آواز کرنے اور شور و غوغا کرنے سے آپ کامیاب ہوجائیں گے، شورو غوغا ہمیشہ کوے کیا کرتے ہیں، سنجیدہ افراد جب بھی بولتے ہیں ان کے ہر ہر جملے، ہر ہر لفظ سے سلیقہ مندی اور متانت جھلکتی ہے اور وہی ان کی کامیابی ہے۔

4
آپ کے تبصرے

3000
4 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
Kashif shakeel

یار تسی گریٹ ہو
بہت اچھا مضمون عزیر بھائی
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

زید احمد

بہت خوب

ام ھشام

عمدہ تجزیہ ہےبارک اللہ… بس ایک موضوع تحریر کے ہیروز سے میچ نہیں کھارہا.. بابو مشائے ….کا مطلب جینٹلمن ہوتا ہے اور جینٹلمن میں ظاہری شباہت کے ساتھ ساتھ ذہانت بھی پائی جاتی ہے جو اس طبقہ میں مفقود ہے اور اسی بات کا تو رونا ہے – یہاں سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ لگانے کے بعد صورت حال بہت گھمبیر بن جاتی ہے اس طرح کے ناقدین کچھ ایسا جذباتی انداز اختیار کرتے ہیں کہ صاحب پوسٹ کا اپنی پگڑی سنبھالنا بھی مشکل نظر آنے لگتا ہے – علم و اخلاق کی کمی کے باعث بحث و مباحثہ کا… Read more »

Mohammed Naseem

بھائی تحریر میں تو بہت دم ہے