کچھ دنوں پہلے سری لنکا میں جب حادثہ ہوا، تو قناة العربیة اور قناة الحدث نے صحافتی اخلاقیات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک فیبریکیٹیڈ تصویر شئیر کی اور اس کے تار کو القرضاوی اور سلمان ندوی سے جوڑنے کی کوشش کی، جو کہ یقینی طور پر نہایت ہی واہیات عمل تھا، مجھے لگا کہ سلمان صاحب کا اس پر جو ری ایکشن آئے گا وہ تھوڑا میچیور ہوگا، جذباتیت نہیں ہوگی، الزام تراشی نہیں ہوگی، بلکہ بہت ممکن ہے کہ سلمان صاحب جواب ہی نہ دیں، مگر افسوس ہوا یہ دیکھ کر کہ الزام تراشی میں جس شدت پسندی کا مظاہرہ ان دونوں چینلوں نے کیا، سلمان صاحب نے تو اپنے انٹرویو میں اس سے بڑھ کر کیا، ان چینلوں نے تو محض سلمان صاحب کو نشانہ بنایا تھا، مگر سلمان صاحب نے تو ماشاء اللہ سب کو نشانہ بناڈالا، محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے ساتھ مل کر پہلی سعودی اسٹیٹ کے قیام سے لے کر اب تک کسی کو بھی نہیں چھوڑا، اب مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ان دونوں میں فرق کیا رہ گیا؟ اگر العربیہ نے غلطی کی تو کیا سلمان صاحب نے بھی وہی غلطی نہیں کی؟ سلمان صاحب کی 16:34 منٹ کی یہ ویڈیو اگر محمد بن سلمان، سعودی حکومت، اس کے ٹی وی چینل، اور اس کی پالیسیوں تک ہی محدود رہتیں تو شاید بہتر ہوتا، مگر سلفیت اور شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ وغیرہ کو لے کر جس طرح کی الزام تراشی اور ہرزہ سرائی کی گئی ہے اس طرح تو خیر شیعہ بھی نہیں کیا کرتے ہیں، بہرحال ان کے بعض مواقف اور اس پر میرے خود کے ملاحظات کو لکھنے کی کوشش کرتا ہوں، اور اس میں ان کے تناقضات کو بھی بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں.
پہلے تو سلمان صاحب نے جم کر سعودی چینلوں کے خلاف دل کی بھڑاس نکالی ہے، اور اسے مکمل جھوٹ کا خوگر بتایا گیا، یہ تو خیر ان کا حق ہے، وہ اس طرح کی باتیں صرف سعودیہ کے بارے میں کیا پوری دنیا کی چینلوں کے بارے میں بول سکتے ہیں، ہم ان سب باتوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ان کے دل کے چھپے بغض و عداوت کی طرف بڑھتے ہیں، سلمان صاحب اپنی بھاری بھرکم عربی میں فرماتے ہیں کہ “حقوق انسانی کی تنظیمیں، یوروپ، امریکہ، ایشین ملکوں کی ہیومن رائٹس آرگنائزیشنز، یہ ساری تنظیمیں اس وقت مملکہ کی مخالف ہیں، خاص کرکے خاشقجی کے قتل کے بعد” یقینی طور پر اس میں کوئی شک نہیں کہ خاشقجی کا قتل مملکہ کے لئے بہت ہی Disastrous ثابت ہوا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ آپ کو ان تنظیموں سے کیا لینا دینا، ان کے اعمال کو بطور استشہاد کیونکر پیش کرنا؟ خاص کرکے اس وقت جب آپ کی ساری سیاست کا محور ہی امریکہ اور یوروپ کی مخالفت ہو؟ پھر ان کے پرسیپشن کو دلائل کے طور پر کیونکر بیان کرنا؟ یا پھر آپ ان کی اداؤں کے قائل ہی نہیں قوّال بھی ہیں، اور آپ کی ساری سیاست محض مفاد کے لئے ہے؟ یا مسلمانوں میں Prominence ڈھونڈنے کے لئے؟
مزید فرماتے ہیں “سعودیہ نے خاشقجی کے معاملے میں بار بار جھوٹ بول کر اسلام اور مسلمانوں کی شہرت کو بٹہ لگایا، مملکہ کو حرمین کی دیکھ بھال کا ذمہ دار بنایا گیا، اور پوری امت مسلمہ حرمین کو نہایت ہی تقدس کی نگاہ سے دیکھتی ہے” ان کی اس بات سے مکمل اتفاق ہے، پوری امت مسلمہ کی آنکھیں حرمین پر ٹکی رہتی ہیں، سو جو بھی اس پر نگراں ہوگا، اس کے لئے دل میں ایک قسم کی محبت بیٹھ ہی جاتی ہے، یہ ایک Natural Phenomena ہے، جس سے انکار بالکل نہیں، مگر آگے جو وہ فرماتے ہیں کہ “لوگ اسی وجہ سے سعودی بادشاہوں کو احترام کی نظر سے دیکھتے تھے، لیکن ایسے واقعات و حوادث ہوگئے جس نے سعودی بادشاہوں کی شہرت کو بہت نقصان پہونچایا” سوال یہ ہے کہ کس زمانے میں لوگوں نے سعودی بادشاہوں کی عزت کی ہے، جب سے مملکہ کا قیام ہوا ہے، برصغیر کا پورا لٹریچر اٹھا کر دیکھ لیجئے کس قدر سعودی دشمنی پر مبنی ہے، سعودیہ کی جو تاریخ تحریکیت، شیعیت اور بریلویت کے زیر اثر لکھی گئی ہے، اسے پڑھ کر اگر کسی کے دل میں مملکہ کے لئے ذرہ برابر بھی ہمدردی ہوجائے تو سمجھ لیجئے کہ دنیا میں سعودی بادشاہوں سے بھی کرامات کا ظہور ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے مخالف لٹریچر کے ذریعہ بھی لوگوں کو متأثر کرلے جاتے ہیں.
سلمان صاحب فرماتے ہیں کہ “سعودیوں نے وہابی موومنٹ کی بنیاد ڈالی، جس نے ہزاروں لوگوں کا نجد، درعیہ، اور حجاز وغیرہ علاقوں میں قتل کیا، اسی وجہ سے یہ لوگ قتل کے عادی ہوگئے ہیں، تکفیر کے عادی ہوگئے ہیں، اور علماء کو شرک اور کفر سے متہم ٹھہرانے کے عادی ہوگئے ہیں، ان کی حکومت نے محمد بن عبدالوہاب کے ساتھ مل کر لوگوں کا قتل کیا، انہیں ٹکڑے ٹکڑے کیا، ان کے اوپر کفر و شرک کا الزام لگایا، اور اس کے بعد انہیں قتل کردیا، اسی طرح ان کے تاریخ کی شروعات ہوئی، وہ اپنی تاریخ میں اس طرح کے افعال کے ذریعہ جانے جاتے ہیں، اسی وجہ سے انہوں نے داعشی نوجوانوں کی تربیت کی، ان کی تخریج کی، ہزاروں ایسے نوجوان ہیں جن کی پرورش و پرداخت متشدد عقائد اور تکفیری مواقف کے ذریعہ سعودیہ نے کی، اگر آپ محمد ابن عبد الوہاب اور وہابیوں کی کتابوں کا مراجعہ کریں، آپ اس میں شیعوں، بریلویوں، دیوبندیوں اور عام مسلمانوں کی تکفیر پائیں گے، انہوں نے ایسے نوجوانوں کو گریجویٹ کیا جو دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل گئے اور لوگوں کو مختلف گروہوں اور جماعتوں میں بانٹ دیا”
ساقی پرانی شراب کو نئی بوتلوں میں کب تک پروستا رہے گا؟ کچھ تو نیا لے کر آ، دل اُچاٹ سا ہوگیا ہے، وہی گھسی پٹی باتیں، وہی طعن و تشنیع، ان سب باتوں کے جواب میں کتنا کچھ لکھا جاچکا ہے، مگر پھر بھی کھونٹا ہے کہ وہیں گڑے گا، خیر اگر ان سب باتوں کو مان بھی لیں، تو کیا فرق پڑتا ہے، جو بھی شخص محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے دور سے واقف ہوگا، اس وقت عربوں کی حالت زار سے آشنا ہوگا، قبائلی عصبیتوں، نسلی لڑائیوں اور پاور کے لئے مسلسل ہونے والی جنگوں کا جانکار ہوگا، اس وقت کی مملکتوں، خود مختار ریاستوں اور قومی و عالمی سطح پر ہورہے تغیرات کا قاری ہوگا تو اسے خود معلوم ہوجائے گا کہ اگر بفرضِ محال مان بھی لیں کہ اس قدر قتل و غارت گری ہوئی ہے جیسا کہ مبالغہ آرائی کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے، تو شاید ممکن ہے کہ وہ ناگریز امر رہا ہو، ورنہ کسی کو کیا پڑی تھی کہ ایک اصلاحی دعوت کے لئے تلوار اٹھائی جائے؟ ابن تیمیہ، محمد بن عبد الوہاب رحمہما اللہ اور سلفیت پر اکیڈمکس میں بھی اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ اس کا شمار ممکن نہیں، ابھی جامعہ سلفیہ ہی کے ایک لائق اور قابل قدر فرزند نے جے.این.یو کے انٹرنیشنل اسٹڈیز میں اپنا پی.ایچ.ڈی کا مقالہ سلفیت پر ہی لکھا ہے، اور نہایت ہی دقیق اور باریک بینی کے ساتھ اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ آخر سارے الزامات و ہفوات کا رخ سلفیت کی طرف ہی کیوں کیا جاتا ہے؟
رہی بات داعشی نوجوانوں کی تربیت اور پرورش و پرداخت کی، تو بھئی سعودیہ سے پڑھے لکھے نوجوانوں میں سرِفہرست سلمان ندوی صاحب بھی ہیں😊، بہرحال سعودیہ بھی تو اعتراف کرتا ہے کہ 1979 کے واقعہ کے بعد سعودی سیاست میں ایک Drastic تبدیلی آگئی تھی، شدت پسند علماء علم و فضل کی کرسیوں پر قابض ہوگئے، اور انہوں نے طلباء کے سوچنے کا زاویہ ہی بدل دیا، اسی وجہ سے اب کوششیں کرکے ایسے انتہا پسند علماء کو سائیڈلائن کیا جارہا ہے، حالانکہ سعودیہ کا یہ عذر لنگ ہے، جو کہ کم سے کم مجھے پسند نہیں، لیکن بات نکلی ہے تو سلمان صاحب سے پوچھ لیتے ہیں کہ جس شدت پسندی کا آپ الزام سعودیہ پر رکھتے ہیں، اسی شدت پسندی کا سہارا لے کر اب وہ کریک ڈاؤن کررہا ہے تو اس پر تو آپ کو خوش ہونا چاہئے کہ سعودیہ اپنی شبیہ درست کرنے کی طرف چل پڑا ہے، لیکن اس پر بھی آپ کو غصہ ہے، تو بتائیے ذرا، کرے تو کیا کرے؟ آپ جیسے لوگوں کے الزامات کو تہِ دل سے قبول کرکے خاموش بیٹھا رہے، یا اس سے غلطی کہاں ہورہی ہے؟ آخر اسے شدت پسندی کا جڑ کیوں کہا جارہا ہے؟ کیوں ہر کوئی اسے ہی دہشت گردی کا ملجأ و مأوی سمجھتا ہے؟ کیوں انگریزی اخباروں اور انگریزی کتابوں میں ماڈرن جہاد کا بانی وہابی موومنٹ کو مانا جاتا ہے؟ اسے معلوم کرکے اس کی درستگی کا کام کرے؟ آخر آپ کسی پل تو چین لینے دیں گے؟ یا چٹ بھی آپ کی ہوگی؟ پٹ بھی آپ کی ہوگی؟ اور پھر حضرت کیا آپ بتانے کی زحمت گوارا کریں گے کہ خوش ہوکر داعش کو خط کس نے لکھا تھا؟ علماءِِ سعودیہ نے؟ حکومت سعودیہ نے؟ یا آنجناب عالیجاہ حضرت مآب سلمان ندوی نے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ اپنے دامن پر لگے چھینٹوں کو صاف کرنے کے لئے سلفیت یا محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کو مشق ستم بنارہے ہیں؟
سلمان ندوی صاحب نے بڑے آرام کے ساتھ تکفیر کا الزام سلفیت پر رکھ دیا، حالانکہ تکفیر کا مسئلہ تحقیق کا متقاضی ہے کہ آخر کون سی جماعت ہے جو افعال کے بجائے اشخاص پر حکم لگاتی ہے، میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ تکفیر ہونی چاہئے، لیکن اس کا حکم افراد پر نہیں، بس افعال پر ہو، کیونکہ اگر ہم غلط کو غلط نہیں کہیں گے تو صحیح کی تبلیغ کیسے کریں گے، اگر ہم لوگوں کو نہیں بتائیں گے کہ قبروں کو سجدہ کرنا اسلام میں حرام ہے، تو ہم کیسے انہیں توحید کے معانی و مطالب سے آگاہ کرسکیں گے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اٹھتے بیٹھتے ہر کسی کی تکفیر کرتے پھریں، میں افراد پر حکم لگانے کا قائل ہی نہیں ہوں، کیونکہ اس سے ہم انہیں سیدھے راستے کی طرف بلانے کے بجائے متنفر کردیتے ہیں، ہمیں داعی بننا ہے قاضی نہیں، بہرحال تکفیر کے مسئلے کو ہم کبھی کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں، سرِدست ہم سلمان ندوی صاحب پر فوکس کرتے ہیں، سلمان صاحب مزید اپنی تعریف میں ارشاد فرماتے ہیں “اور رہی بات میری، یعنی سلمان حسینی الندوی کی، تو الحمد للہ میں نے ہیومن ویلفئیر بورڈ کا قیام کیا ہے، میں نے اس آرگنائزیشن کی تأسیس کی ہے، اور اس کی قیادت بھی میں ہی کررہا ہوں، اس آرگنائزیشن کا قیام اس وجہ سے عمل میں لایا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ مسلمانوں، ہندؤوں، جینیوں، سکھوں، بدھسٹوں وغیرہ کے درمیان تعلقات میں بہتری لائی جاسکے، اور ان کے درمیان وطنی اخوت و محبت اور بھائی چارگی کو بڑھاوا دیا جاسکے، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے پاس بھی “حلف الفضول” جیسا معاہدہ ہو، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شرکت کی تھی، تاکہ ہم لوگ بھائی چارہ اور محبت کے ساتھ رہ سکیں، اسی وجہ سے میں نے مطالبہ کیا تھا کہ بابری مسجد کو دوسری جگہ منتقل کردیا جائے تاکہ ہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان جنگ نہ ہوسکے، لاکھوں ہندؤوں نے مجھے سنا، اور میرے اس پروجیکٹ سے راضی بھی ہوئے جسے میں نے پیش کیا، حنبلی مسلک، حنفی مسلک، اور خصوصا امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس بات کے قائل ہیں کہ مسجد کا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جانا ممکن ہے، میں نے مسلمانوں اور اسلامی جماعتوں کو اس چیز کی طرف اشارہ کیا، بالکل اسی طرح جس طرح ابو الحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ نے ۱۹۹۱ میں کیا تھا، انہوں نے ہندو سادھو سنتوں سے ملاقات کی تھی تاکہ مسلمانوں اور ہندؤوں کے درمیان صلح ہوسکے، اور وقف کی زمین جو بابری مسجد کے تابع ہے اس پر رام مندر بنایا جاسکے، اس وقت بابری مسجد موجود تھی، لیکن انتہائی متشدد قسم کے لوگ جو اپنے آپ کو وہابی یا سلفی کہتے تھے، جنہیں سعودیہ نے پروڈیوس کیا، انہوں نے سختی برتی، اس سے پہلے وہ مختلف ناموں سے جانے جاتے تھے، وہ ابو الحسن کے آڑے آئے، اور انہوں نے ان کے صلح کی بہترین رائے کو قبول نہیں کیا، اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بابری مسجد ڈھا دی گئی، اور ہزاروں مسلمان قتل کردئیے گئے، اسی وجہ سے اب میں چاہتا ہوں کہ ابو الحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ کی سیرت کو اپناؤں، کیونکہ ہندوستان کی حالت اور پوری دنیا کی حالت مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان باہمی امن و امان اور Peaceful Co-Existence کا متقاضی ہے، اسی وجہ سے اب میں مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ ہندؤوں کو دیکھیں کہ وہ بھی ایشور (اللہ) پر ایمان رکھتے ہیں، اور وہ بھی اصل میں مؤحد ہیں، لیکن وہ شرک میں مبتلا ہوگئے، جیسے زمانہ جاہلیت میں دیگر اقوام شرک میں مبتلا ہوگئے، اور اب ہم چاہتے ہیں کہ “كلمة سواء” پر متفق ہوجائیں، جیسے کہ اللہ رب العالمین نے ارشاد فرمایا “تعالوا إلى كلمة سواء” تو آؤ ہم کلمہ توحید پر ایمان لے آئیں، ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، اور ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں جن کا نام لیتے ہو مثال کے طور پر ایشور، یا جسے عیسائی “Lord” یا “God” کہتے ہیں، یہ ایک ہی معبود کے مختلف نام ہیں، مناسب ہے کہ ہم اس پر متفق ہوجائیں، اور ہم مختلف ادیان کے لوگوں کا احترام کریں، اور انہیں گالی نہ دیں، اور نہ ہی ان کے درمیان تفریق کریں، تو مسلمانوں اور غیر مسلموں میں تفریق جائز نہیں ہے، خاص کر جب وہ ہم وطن ہوں اور ساتھ میں رہتے ہوں، یہی ہماری دعوت ہے، اور یہی ہماری دعوت سری لنکا میں بھی ہے”.
(یہ ندوی صاحب کی عربی تقریر کی ترجمانی ہے)
اس ٹیکسٹ میں کئی باتیں قابل غور ہیں، سب سے پہلی بات یہ ہے کہ سلمان صاحب نے جس بورڈ کا قیام کیا ہے، اس جیسے کئی بورڈز اور تنظیمیں تعایش، اور امن و سلامتی کے نام پر عرب مملکتوں نے قائم کررکھا ہے، اور باقاعدہ ملین بلین ڈالرز “مساعدة”، “اغاثة” اور “عالمی امن و امان” کے نام پر خرچ کررکھا ہے اور کررہے ہیں، تو جس طرح اس سے یہی نہیں ثابت ہوتا کہ وہ انسانیت کے چمپئن ہیں، اسی طرح ندوی صاحب کے بورڈ کے قیام سے یہ بھی ثابت نہیں ہوجاتا کہ وہ ہندو مسلم اتحاد کے چمپئن ہیں، خیر وہ کیا کرتے ہیں کیا نہیں، اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں، البتہ سوال یہ ہے کہ ابو الحسن علی میاں ندوی کے پروجیکٹ کے مخالف وہابی یا سلفی کیسے تھے؟ وہ تو بابری مسجد میں فریق بھی نہیں تھے، نہ ہیں؟ بلکہ امت کی متحدہ مفاد کی خاطر وہ اول دن سے مسلم پرسنل بورڈ کے ساتھ ہیں، تو ابو الحسن علی میاں ندوی کی مخالفت انہوں نے کیسے کردی؟ یا سلمان صاحب نے یہاں وہابی سے دیوبندی مراد لے لیا ہے؟ یا مسلم پرسنل لاء بورڈ کو انہوں نے سلفیوں یا وہابیوں کی آرگنائزیشن سمجھ لیا ہے؟
ٹھیک ہے آپ اپنا دفاع کیجئے، دفاع سے کوئی منع نہیں کرتا، مگر دفاع کے نام پر اس طرح گندگی تو مت پھیلائیے، دوسری بات جس “مواطنہ اور معایشہ” کی آپ بات کررہے ہیں، اور جن بنیادوں پر آپ مذاہب کو یکساں قرار دے رہے ہیں، انہیں بنیادوں پر امارات نے اپنے یہاں مندر بنانے کی اجازت دے دی ہے، کیونکہ امارات میں ہندؤوں کی اچھی خاصی تعداد آباد ہے، تو کیا اس بنیاد پر ان کا یہ عمل قابل تحسین قرار پائے گا کہ انہوں نے ایسے کلمے کی طرف لوگوں کو بلایا جس پر تمام ادیان متفق ہیں، اور یہ کہ اس مندر میں ایشور ہی کا نام لیا جائے گا جو کہ الہ واحد کے مختلف نام ہیں؟ “نعوذ باللہ من ذلک”، آپ کے قول کے مطابق غور کریں تو کوئی حرج نہیں، کیونکہ آخر وہ بھی اسی دنیا کے باسی ہیں، جس طرح آپ مختلف قومی بندشوں میں جکڑے ہیں، اسی طرح وہ بھی مختلف عالمی بندشوں میں جکڑے ہیں، نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ، مندر کی تعمیر کو کسی بھی صورت میں جسٹیفائی نہیں کیا جاسکتا، چاہے اسے یو.اے.ای میں کیا جائے، یا ایودھیا میں کسی مسجد کی زمین پر، اب آپ مجھے بھی شدت پسند ہونے کے خطاب سے نواز سکتے ہیں.
سلمان صاحب مزید فرماتے ہیں کہ “سری لنکا میں جو بم دھماکہ ہوا، اس میں وہی لوگ ملوث ہیں جنہوں سعودیہ پروڈیوس کرتا ہے، اور انہیں بناتا ہے، کیونکہ میں نے داعش کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے کہ داعش کے نوجوانوں کی تربیت سعودیہ نے کی ہے، انہیں پڑھایا بھی سعودیہ نے ہے، تقریبا بیس ہزار سعودی نوجوان ابوبکر بغدادی کے ساتھ تھے، وہ عراق میں تھے، شام میں تھے،”. خیر اس پر کچھ نہیں کہنا، کیونکہ جس طرح سعودی اخبارات نے آپ نے الزام لگایا، آپ نے ان پر الزام لگایا، لیکن بات گمبھیر اس وقت ہوجاتی ہے جب آپ آگے مزید گویا ہوتے ہیں کہ “میں ہندوستانی حکومت سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ ان لوگوں کی نگرانی کرے جو سعودیہ سے مدد لیتے ہیں، اور جو سعودی فنڈنگ یا سعودی سفارت خانے کی فنڈنگ کے ذریعہ مدارس قائم کرتے ہیں، ان لوگوں کی نگرانی ضروری ہے، جو سعودی سفارت خانے میں جاتے ہیں، اور جنہیں سعودی حکومت کے ذریعہ ہندوستان میں مختلف جمعیتوں اور تنظیموں میں کام پر رکھا گیا ہے، ان کی نگرانی ضروری ہے، کیونکہ اگر انہیں چھوڑ دیا گیا، تو وہ داعشی ہوجائیں گے، وہ ہندوستان کو اڑا ڈالیں گے، وہ کرمنل ایکٹیویٹیز انجام دیں گے”.
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اعلیحضرت اتنی بڑی بات یونہی بلاسوچے سمجھے کیسے فرماگئے، شاید اعلیحضرت کی خصوصیت یہی ہے، جذباتیت، منافقت، رونا دھونا، ذرا غور کیجئے کہ ان ہندوستانی مدارس پر الزام لگایا ہے جو سعودی فنڈنگ ریسیو کرتے ہیں کہ وہ داعشی ہوجائیں گے، بھائی صاحب تو الزام تراشی میں رضوی سے بھی آگے نکل گئے، یہی بات رضوی کہتا تو اسے پتہ نہیں کن القاب سے نوازا جاتا، چونکہ اعلیحضرت نے فرمایا ہے اس لئے مستند ہے، اب کوئی بتائے کہ بھائی کون سا مدرسہ ہے جو سعودی فنڈنگ کا فیضیاب نہیں ہے، چاہے وہ حکومت کے ذریعہ ہو، یا مڈل ایسٹ کی رفاہی تنظیموں کے ذریعہ، یا پھر شخصی تبرعات و نفقات کے ذریعہ، خود ندوہ اور اس کے علاوہ اعلیحضرت کی سعودی فنڈنگ کی پوری ایک داستان ہے، پڑھائی سے لے کر کٹولی میں مدرسہ اور کالج کے قیام تک، اس کی عمارتیں آج بھی ان پیسوں کی گواہ ہیں، تو کیوں نہ یہ سمجھا جائے کہ جن الزامات کی برسات انہوں نے دوسروں پر کرنے کی نازیبا کوشش کی ہے، اس میں وہ خود پہلے سے بھیگے ہوئے ہیں، سچ ہے جب آدمی کے پاس شرم و لحاظ نام کی کوئی چیز نہ ہو، تو وہ کچھ بھی بول سکتا ہے.
آپ کے تبصرے