امن کا امکان

عزیر احمد

انسان کس حد تک گرسکتا ہے اس کا اندازہ شاید ہم میں سے ہر کسی کو گزشتہ کچھ دنوں میں ہوگیا ہوگا، ہندوستان میں بہت دردناک حادثہ ہوا، “پلوامہ” میں تقریبا 43 سی آر پی ایف کے جوانوں کی زندگی پل بھر میں کسی خون آشام درندے کے ہاتھوں چھین لی گئی۔ ابھی یہ غم تازہ ہی تھا کہ ایک نئی خبر نے پوری دنیا میں شاک کی لہر دوڑا دی، نیوزی لینڈ میں ایک دہشت گرد نے مسجد میں گھس کر 49 نمازیوں کو حالت رکوع و حالت سجود میں شہید کردیا۔ اس خبر نے ہر دردمند دل کو تڑپا دیا، ہر انسانیت نواز کو سوچنے پر مجبور کردیا کہ آخر انسان اس قدر وحشی کیسے ہوسکتا ہے کہ پل بھر میں کئی خاندانوں کی خوشیاں خاک میں ملا دے، اور اس کے ہاتھ میں ذرہ برابر بھی لغزش نہ ہو، بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کے درمیان بنا تفریق کے ہر کسی کو خاک و خون میں لٹا دے، اور اس پر اسے افسوس بھی نہ ہو؟

“پلوامہ حملہ” اور “نیوزی لینڈ حملہ” دونوں میں ایک بات قدرے مشترک تھی، وہ یہ کہ “کچھ بیمار ذہنیت” کے لوگوں کا سوشل میڈیا میں خوشی منانا، دل والے لائیک دینا، انسانی اقدار مخالف کمینٹس کرنا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ پلوامہ حملے کے معا بعد ٹیوٹر پر “ہاؤ واز دی جیش” کے ٹرینڈ چلانے والے اور نیوز پورٹلوں پر ہنسنے والے یا دل کی ایموجی لگانے والے مسلمان تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم انھیں یہ کہہ کر پلڑا جھاڑ لیں کہ وہ پاکستانی تھے یا کشمیری، جو شاید ایک دہشت گردانہ واقعے پر نہیں بلکہ ہندوستان مخالف جنگ جیت جانے کی خوشی میں ایسا کر رہے تھے، جب کہ انھیں ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ کیونکہ یہ اسلامی تعلیمات کے بالکل منافی ہے کہ جنگ و حالت جنگ کی تفریق کیے بغیر اس طرح سے قتل عام کرکے خوشی منائی جائے، لیکن کیا کرسکتے ہیں، ذہنیت ہی ایسی بنا دی گئی ہے کہ کافروں کے قتل پر خوش ہونا ہی عین اسلام ہے۔

پتہ نہیں، کس اسلام کے ماننے والے یہ لوگ ہیں۔ میرا اسلام تو وہ ہے جو ساری دنیا کے لیے نعمت ہے، میرا نبی تو وہ ہے جو ساری دنیا کے لیے رحمت ہے، میرا رب تو وہ ہے جو ساری دنیا کا پالنہار ہے، میرے آئیڈیل تو وہ خلفاء راشدین ہیں کہ جو جب بھی فوجوں کو روانہ کرتے تھے انھیں نصیحتیں کرتے تھے کہ دیکھو کسی بچے، بوڑھے پر ہاتھ نہیں اٹھانا، کسی غیر محارب کو قتل مت کرنا، بستیاں مت جلانا، معابد کو مت گرانا، کھیتیاں مت تباہ کرنا، دشمن ہتھیار ڈال دے، امن کی مانگ کرے تو انھیں پناہ دے دینا، ان کی حفاظت کرنا، ان کے دل سے خوف نکال دینا، انھیں اپنے اخلاق سے اس طرح متأثر کرنا کہ وہ بغیر کسی جبر کے دامن اسلام میں کھنچے چلے آئیں۔

پر ہائے افسوس، جب خودکش حملہ کرکے جان لینے میں اسلامی تعلیمات کو نہیں بخشا گیا، تو پھر اس پر ہنسی کیونکر روکی جاسکتی تھی، سو خوب ہنسا گیا، اس کے بعد جب نیوزی لینڈ کا حادثہ ہوا، تو وہی لوگ جو ہنسنے والے تھے وہ روتے ہوئے نظر آئے کیونکہ حادثہ ان کے مذہب کے ماننے والوں پر ہوا تھا، اور کچھ تو ایسے بھی تھے جنھوں نے فرد کی غلطی کو پوری سوسائٹی کی غلطی قرار دینے میں ذرا بھی دیر نہیں لگائی، بالکل وہی ری ایکشن جو کبھی مغربی میڈیا ہر حملے کے بعد دیا کرتا تھا کہ “اسلام دہشت گردی کا مذہب ہے”، اسی طرح ان کا بھی ری ایکشن تھا کہ پورا یوروپین کلچر دہشت گردی پر مبنی ہے۔ وہیں دوسری جانب ہندوستانی سنگھی اور رائٹ ونگ خیالات کے حامی یوروپینز تھے، جنھوں نے اس پر نہ صرف خوشی کا اظہار کیا، بلکہ آسٹریلیا کے سینیٹر نے اس کا بھی ذمہ دار اسلام ہی کو ٹھہرایا۔

اب معاملہ یہ ہے کہ جب میں ان سب چیزوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے یہی محسوس ہوتا ہے کہ شاید ان سارے حادثات کے پیچھے کچھ لوگ ہیں جو اپنے مفاد کے لیے پوری انسانیت کو تہذیبی تصادم کی طرف ڈھکیل رہے ہیں، شاید کچھ لوگ، افراد، تنظیمیں، جماعتیں ہیں جو پوری دنیا میں “مذہبی شناختوں” میں ٹکراؤ چاہتی ہیں، تبھی تو وہ مذہب کا استعمال اپنے سیاسی مفاد کے لیے دھڑلے سے کر رہی ہیں۔ اسی وجہ سے “آزادئ اظہار رائے” کے نام پر ایسے لوگوں کو کھلا چھوٹ دیا جاتا ہے جو دوسرے مذاہب کے خلاف لوگوں کو بھڑکا سکیں، انھیں مجموعی طور پر اپنا دشمن باور کرادیں، اس کے لیے وہ ہر ممکنہ ذرائع اختیار کر رہے ہیں، جس میں سب سے اہم اپنے آپ کو “مذہب کا محافظ” کے طور پیش کرنا ہے، انسانیت کو خطرہ انہی سوکالڈ مذہب پرستوں سے ہے چاہے وہ سنگھی ہوں یا مسلمان، عیسائی ہوں یا یہودی، جو اپنے اپنے مذہب کے خول میں اس طرح سے بند ہیں کہ اپنے مخالف مذہب سے وابستہ افراد کو اپنا دشمن سمجھ بیٹھے ہیں، جن سے مقابلہ کرکے زیر کردینا ہی ان کے نزدیک مسئلے کا حل ہے۔

شاید ہر کوئی میری بات سے متفق ہوگا کہ ایک نہ ایک دن تہذیبوں کا تصادم ہوکر رہے گا، لیکن وہ دن ہوگا اور اس کے بعد پھر قیامت، اس لیے اس تہذیبی تصادم میں جتنی دیر ہو انسانیت کے لیے وہی بہتر ہے۔ اس کے لیے مسلمانوں کو سب سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ معاملہ یہ ہے کہ اسلام واقعی امن عالم کے لیے ایک بہترین حل ہے۔ اس سے عمدہ اور اس سے زیادہ Divine کوئی نہیں، لوگ قریب تو آئیں، ہم مسلمان اکثر کہتے رہتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، لیکن اس مکمل نظام حیات کو ہم لوگوں کے سامنے پیش کہاں کر رہے ہیں، ہم تو محض اس کا ایک “سیلیکٹیو پارٹ” چاہتے ہیں کہ کسی طرح پوری دنیا پر حکمرانی ہوجائے۔ ہمارے لیے “وقاتلوا حتی لا تکون فتنة” کا مطلب یہی ہوچکا ہے کہ کسی طرح سارے مذاہب کو دنیا سے Eliminate کردیا جائے، حالانکہ ہم بھول جاتے ہیں کہ اگر ختم کرنا ہی مقصد ہوتا تو اللہ رب العالمین سارے لوگوں کو مسلمان ہی بنادیتا:

“وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَن فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا ۚ أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّىٰ يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ”۔

غلبہ اسلام کے طریقے ہر زمانے میں مختلف ہوسکتے ہیں، اس وقت ساری دنیا امن کی تلاش میں ہے، اس کے لیے مختلف تجاویز اور مختلف طریقے اختیار کیے جارہے ہیں۔ زمانہ قدیم سے لے کر عصر حاضر تک جتنے بھی فلاسفر ہوئے ہیں سب کی تحریروں میں حصول امن کے ذرائع ڈھونڈے جارہے ہیں، “عدل” (Justice) اور “امن” (Peace) کے لیے نجانے کیسے کیسے تھیوریز کو عمل میں لایا جارہا ہے، پھر بھی نہ امن قائم ہوپارہا ہے، نہ عدل و انصاف عام ہورہا ہے۔

میں جب خونِ مسلم کی ارزانی دیکھتا ہوں، اور ہندوستان میں بالخصوص اور پوری دنیا میں بالعموم اسلاموفوبیا کے درخت کو پنپتے اور تناور ہوتے دیکھتا ہوں تو مایوس ہوجاتا ہوں۔ اور پھر جب نیوزی لینڈ جیسا حادثہ پیش آجاتا ہے کہ مذہب سے نفرت کی بنیاد پر 49 معصوموں کو ان کی عبادت گاہ میں ہی قتل کردیا جاتا ہے، تو مایوسی میں مزید اضافہ ہوتا ہوا مجھے دکھائی دینے لگتا ہے۔ مگر جس طریقے سے نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ کرتی ہیں، اور جس محبت اور اپنائیت کے ساتھ وہاں کے غیر مسلم آکر ڈرے سہمے مسلمانوں کا ہاتھ تھامتے ہیں، انھیں اپنی حمایت کا پورا یقین دلاتے ہیں، یہاں تک کہ ایک بوڑھی عورت جو چلنے پھرنے سے معذور مگر حوصلے اس کے جواں آفر کرتی ہے کہ مجھے مسجد کے گیٹ پر کھڑا کردیا جائے، تاکہ پھر اگر کوئی حملہ کرنے کی کوشش کرے تو وہ کم سے کم چیخ پکار کرکے لوگوں کو متوجہ تو کرسکتی ہے، بھلے اس کے ایسا کرنے کی وجہ سے حملہ آور پہلے اسے ہی کیوں نہ مار دے۔ اسی طرح ایک بانکا نوجوان بھرے محفل میں اس آسٹریلین سینیٹر کے سر پر جس نے حملہ آور کے حملے کو جسٹیفائی کیا تھا انڈا پھوڑ کر اسی پوری دنیا میں رسوا کردیتا ہے، تو ایسـا لگتا ہے کہ گویا تاریکی میں اچانک روشنی دکھائی دے گئی ہو، یا پھر جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا مل گیا ہو، ایک ظالم فرد کا قتل و خوں ریزی مچانا اور اس کے بعد سوسائٹی کا اس کے خلاف لیے گئے اسٹینڈ سے ایک بات واضح ہوجاتی ہے کہ ابھی ابھی انسانیت زندہ ہے، ابھی بھی ایسے افراد باقی ہیں جو “Clash of Civilisations” کے بجائے “Alliance of Civilisations” میں یقین رکھتے ہیں، جنھیں “کثرت میں وحدت” عزیز ہے، جن سے مل کر اس دنیا کو پر امن اور بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

اسلام محض ایک رواج (Tradition) نہیں ہے جو گزشتہ چودہ سو سالوں سے چلا آرہا ہے، بلکہ ایک طریقہ حیات ہے، ایک ضابطہ زندگی ہے، اس میں ظلم و جبر سے کراہ رہی دنیا کے لیے بہت ساری رہنمائیاں ہیں، اس میں اعلی انسانی اقدار کے حصول کے لیے تعلیمات ہیں، اخلاقیات ہیں، فرد اور خالق کے درمیان تعلق اور فرد اور فرد کے درمیان تعلق کے سلسلے میں روشن ہدایات ہیں۔ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس کے ذریعہ سوسائٹی اور فرد کے آپسی ریلیشن کو بہت اچھے طریقے سے واضح کیا جاسکتا ہے، اس کے ذریعہ ایک مثالی معاشرے کا قیام (Establishment of an Ideal Society) عمل میں لایا جاسکتا ہے جو نظام حیات کے جدید اصولوں جیسے عدل (Justice)، برابری (Equality)، بھائی چارگی (Fraternity)، آزادی اظہار رائے (Freedom of Expression), آزادی مذہب (Liberty of Faith) وغیرہ پر مبنی ہوں۔ اس کے ذریعہ امن عالم (World Peace) کے خواب کو بھی حاصل کیا جاسکتا ہے کہ جس کی تلاش میں پوری دنیا دو عظیم جنگوں کے بعد سے اب تک بھٹک رہی ہے، اور امید بر آتی ہوئی نہیں دکھائی دیتی۔

پلوامہ اور اس کے بعد مسلم سوسائٹی کا ری ایکشن، اسی طرح نیوزی لینڈ اور اس کے بعد عیسائی کمیونٹی کے ری ایکشن نے ہمیں ایک موقع فراہم کیا ہے کہ ہم تحمل اور رواداری کی طرف آئیں، دیگر کمیونیٹیز سے رابطے قائم کریں، ہم انھیں بتائیں امن عالم کا حصول اسلامی تعلیمات کے ذریعہ ممکن ہے۔ لیکن یہ اس طرح نہیں کہ سارے لوگوں کو مسلمان بنادیا جائے، پھر ان پر امن قائم کیا جائے، نہیں نہیں، بلکہ اسلامی تعلیمات اس قدر شاندار ہیں کہ اگر کسی کو محض ان اخلاقیات (Ethics) سے روشناس کرادیا جائے جو اسلام نے پوری انسانیت کی حفاظت کے لیے بیان فرمائے ہیں تو شاید لوگوں کی حیرت اور تعجب انتہا نہ رہے۔ میں جس قدر اسلام بحیثیت امن پڑھتا جاتا ہوں، اسی قدر مجھے میرے مذہب پر فخر ہوتا جاتا ہے، بس ہم لوگوں کو قریب تو لائیں، اسلام کا مقصد کبھی یہ نہیں رہا ہے کہ دنیا کو دو گروہوں (مسلم و غیر مسلم) میں بانٹ کر ایک مستقل جنگ (Constant War) میں لوگوں کو مبتلا رکھا جائے، نہیں بلکہ اسلام نے ایک نظام حیات دیا ہے جس کو تمام شعبہ ہائے جات پر منطبق کیا جاسکتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ اسکالرز کی وجہ سے اس کے Political Aspect پر اس طرح فوکس کردیا گیا ہے کہ اسلام کے دیگر زاویے تقریبا چھپ کر رہ گئے ہیں، باوجود اس حقیقت کے کہ وہ جس طرح کا نظام چاہتے ہیں وہ خود اسلامی اسکالرز کے درمیان مختلف فیہ ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اسلامی تعلیمات جو امنِ عالم کے اصول و ضوابط، انسانی جان و مال کی حفاظت، دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ تعامل، رواداری، تحمل وغیرہ کے ساتھ ساتھ معاشی، سماجی، سیاسی، عائلی، عالمی وغیرہ تمام مسائل کے حل پر مبنی ہوں ان سے روشناس کرایا جائے جس میں ہم کہیں نہ کہیں بہت پیچھے رہ گئے ہیں، اور اپنی کافی انرجی غیر ضروری چیزوں میں ضائع کرچکے ہیں۔

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
رفیق احمد رئیس سلفی (علی گڑھ)

قصور عزیزم عزیر احمد سلمہ کا نہیں بلکہ اس وقت ایک فیشن بن گیا ہے کہ کسی حادثہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے اسی سے ملتے جلتے کئی ایک حادثات کا حوالہ دے کر تحریر کو متوازن بنایا جائے اور خود کو غیر جانب دار اور قابل تعریف حد تک روادار۔ہمارے کچھ جدید اسکالرس جو بحمد اللہ دینی مدارس کا پس منظر رکھتے ہیں،کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ مذہبی رواداری کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے حقوق انسانی کے عالمی اداروں،اقوام متحدہ ،اس کے ویٹو پاور یافتہ ممالک کے کردار اور ناٹو فوج کی کارکردگی پر ضرور گفتگو… Read more »

عزیر احمد

محترم جناب رفیق احمد رئیس سلفی صاحب، عالمی اداروں کو چھوڑئیے، میرا کہنا یہ ہے کہ ان اداروں کو جب خوشنما نعروں سے مزین کردیا گیا، اور انہیں نعروں کو پوری دنیا میں “ثقافت” کے طور پر پیش کیا گیا کہ جس کی پیروی تیسری دنیا پر لازم قرار دے دی گئی، یا جس کا اتباع کرنا ہی ماڈرن ازم قرار دے دیا گیا، تو آخر انہیں جدید نعروں کا استعمال کرتے ہوئے ہم دنیا کو یہ کیوں نہیں بتاسکتے کہ اسلام عالمی اداروں کے ڈھکوسلے نعروں سے کہیں زیادہ بہتر آپشن ہے، اس کے پاس تھیوریز بھی ہیں، اور… Read more »