ایک جینوئین لیڈر کی تلاش اس وقت تک ذرا مشکل ہے، جب تک مقصد نہ طے ہوجائے۔ ہم مسلمانوں کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آزادی کے ستر سال گزر جانے کے باوجود بھی آج تک ہم یہ نہیں جان پائے ہیں کہ ہندوستان میں ہمارا مستقبل کیا ہو، کیا پاکستان کی طرح ایک بار پھر آزاد اسلامی ریاست کے قیام کا خواب، یا پھر ہندوستانی کانسٹیٹیوشن کو سامنے رکھ کر Multi-Religious اور Multi-Cultural سوسائٹی میں امن و سکون کے ساتھ رہنا؟
دیکھیے کسی بھی اسٹرکچر کے لیے پروسیس بہت اہم معنی رکھتا ہے، ہم اسٹرکچر تو چاہتے ہیں، مگر پروسیس کی طرف ہمارا دھیان نہیں ہے، ہمیں آخر لیڈر کیسا چاہیے، آدھے لوگوں کو یہ گھٹی پلا دی گئی ہے کہ خلافت کا قیام ہی ایک مرد مؤمن کا مقصود و مطلوب ہے، اس وجہ سے وہ کسی ایسے لیڈر کو ہضم ہی نہیں کرپاتے ہیں جو سیکولرزم کی باتیں کرتا ہو، کانسٹیٹیوشن کی حفاظت کی باتیں کرتا ہوں، تمام لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کا وعدہ کرتا ہو، بغیر معاملے کو کمیونلائز کیے اپنی باتیں رکھ جاتا ہو، خواہ مخواہ اسلام کے نام پر جذبات کی تجارت نہ کرتا ہو، تو ایسے شخص کو لیڈر نہیں مانا جاتا ہے؟ ایسا کیوں؟
پہلے تو ہم یہی ڈیسائڈ کرلیں کہ ہمیں ہندوستان میں کیا چاہیے۔ پھر اسی سمت میں کوشش کریں، تو محنتیں رنگ بھی لائیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ ہر فریق الگ الگ آئیڈیالوجی کے ساتھ جی رہا ہے تو لیڈر کے نام پر اتحاد کیسے ہو؟ مسلمانوں میں جو مولوی طبقہ ہے، اس کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو آج بھی ناشتہ لاہور میں کرتی ہے، ان کے فیسبک وال کا دورہ کریں تو پاکستان کو مشورے تھوک کے بھاؤ میں دیتے نظر آئیں گے؟ بس چلے تو عمران خان کو خلیفہ ہی تصور کرلیں، مگر معاملہ یہ ہے کہ عمران کو بھی اپنے ملک کی اقتصادی حیثیت معلوم ہے، اس لیے ان کے ارمانوں پر فی الحال پانی پھیرتا نظر آرہا ہے۔ پھر جو بچے کھچے ہیں انھیں نئے اسلامی اسٹیٹ کی تلاش ہے جہاں وہ اپنی مذہبی سپریمیسی کو Establish کرسکیں۔ اور ادھر ایک طقبہ ایسا ہے جسے بی جے پی آرایس ایس سے اس قدر محبت ہے کہ وہ ان کے اسلام دشمن آراء پر بھی ناک بھوں نہیں چڑھاتے، بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر رقیبوں کی طرح جاجاکر رپٹ لکھواتے ہیں کہ یہ دیکھو یہ فلاں وہابی آئیڈیالوجی کے ماننے والے لوگ ہیں جو تنگ نظر ہوتے ہیں، جہادی ہوتے ہیں، ایسی صورت میں اتحاد کہاں سے ہو؟ ارے بھائی اتحاد ہونے کے لیے کوئی نقطہ اتصال بھی تو ہو۔
نقطہ اتصال یہ ہے کہ ہندوستان ہمارا ہر دلعزیز ملک ہے، اس کے ہم باعزت شہری ہیں، کانسٹیٹیوشن نے ہم مسلمانوں کو سارے حقوق عطا کیے ہیں، ہمیں کانسٹیٹیوشن کے فریم ورک کے تحت ہی کام کرنا ہے، ہمارے حقوق کو اگر کوئی پولیٹکل پارٹی سلب کرنے کی کوشش کرتی ہے تو ہم اس سے کانسٹیٹیوشن کے ذریعہ لڑیں گے۔ لیکن ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم تو انھیں بھی اتنی اہمیت نہیں دیتے جو مسلمانوں میں سے ماہرین قانون ہیں، اب جیسے فیضان مصطفی سر، کتنے لوگ ہیں جو انھیں جانتے ہیں؟ حالانکہ ہندوستانی قانون کے ساتھ اسلامی قوانین، اور دنیا بھر کے مختلف کانسٹیٹیوشنز پر گہرے مطالعے کی حامل شخصیت کا نام فیضان مصطفی ہے۔ لیکن ہم مولویوں کے درمیان ان کی کوئی حیثیت نہیں، کیونکہ وہ ہماری طرح ٹوپی کرتا نہیں پہنتے۔
یہ صرف ایک مثال ہے، ایسی بہت ساری مثالیں ہمارے اردگرد بکھری پڑی ہیں، بھئی غزالی اور رومی کہیں باہر سے آئیں گے نہیں، وہ ہمارے ہی درمیان پیدا ہوں گے۔ پہلے آپ بطور ہندوستانی مسلمان اپنا کنفیوژن تو دور کیجیے، اپنا مقصد تو متعین کیجیے کہ ہمیں ایک سیکولر ہندوستان چاہیے۔ اسی موجودہ کانسٹیٹیوشن کے ساتھ، یا ہم اپنے آئیڈنٹٹی کے ساتھ ایک نئی سمت میں اڑان بھریں جو کہ میرے خیال سے محض تباہی کا راستہ ہے، کیونکہ فی الحال نہ آپ اس پوزیشن میں ہیں، نہ آنے والے آئندہ پچاس سالوں میں اس قابل ہوسکیں گے کہ اسٹیٹ کے مقابل کھڑے ہوسکیں۔ آپ ایک جہت متعین کیجیے کہ ہاں اسی جہت میں کام کرنا ہے، صلاحیتوں کو پہچانیے، ان کا اعتراف کیجیے، پھر دیکھیے کوئی نہ کوئی ایسا لیڈر آپ ضرور پروڈیوس کرنے کے قابل ہوجائیں گے جو کمیونل نہیں ہوگا، جذباتی باتیں نہیں کرے گا، جو مجبوروں اور مقہوروں کی آواز بنے گا، جو انصاف کے حصول کے Within the Constitutional Framework کام کرنے کی کوشش کرے گا۔
میرا اپنا ماننا ہے آپ اپنی Legitimacy اسی وقت کھودیتے ہیں جب آپ ہندوستان میں جے شری رام کے مقابلے میں اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہیں، جب آپ الیکشن لڑ رہے ہوتے ہیں تو آپ لال قلعہ فتح کرنے کے لیے چڑھائی نہیں کر رہے ہیں، بلکہ آپ وہ الیکشن لڑ رہے ہوتے ہیں جس کا حق آپ کو کانسٹیٹیوشن نے دیا ہوتا ہے۔ لیکن آپ ہوتے ہیں کہ ہراول دستے کی قیادت ہی چاہتے ہیں، اگر آپ سیاست کو اسلامائز کرتے ہیں تو آپ میں اور ان میں کیا فرق ہوتا ہے جو اس کو ہندووائز کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ محض مذہب ہی کی نا؟ ورنہ لوگوں کو مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر توڑنے کا کام تو آپ دونوں کر رہے ہوتے ہیں؟
دیکھیے ہندو شدت پسندی کا مقابلہ اسلامی شدت پسندی سے اسی وقت کیا جاسکتا ہے نا جب موجودہ ارینجمنٹ یعنی دستور کا خاتمہ کردیا جائے، ہر مذہبی گروپ اپنی مذہبی سپریمیسی قائم کرنے کے لیے لڑنے لگے، لیکن ابھی فی الحال ایسے ہی لیڈر کی تلاش ہونی چاہیے جو بلا تفریق مذہب و ملت ظلم کو ظلم کہہ سکتے، کانسٹیٹیوشن کی حفاظت اور اس کی بقاء کے لیے کام کرسکے، ورنہ بغیر ہدف کے تعین کے یونہی پوری مسلم قوم مزید ستر سال کنفیوزن کا شکار رہے گی کہ آیا وہ ہندوستان کو بطور SOVEREIGN SOCIALIST SECULAR DEMOCRATIC REPUBLIC OF INDIA اپنالیں، یا مزید الٹی سیدھی بحثوں پڑے رہ کر ستر سال اور ضائع کردیں، اور یہی گنگناتے رہیں کہ
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
نادان سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے، لیکن یہ سیکولرزم مذہب مخالف نہیں ہے، جیسا کہ اکثر لوگ سیکولر کے معنی میں اسی شخص کو لیتے ہیں جو مذہب بیزار ہو، ہرگز نہیں، ہندوستانی کی سیکولرزم اور مغرب کی سیکولرزم میں بہت فرق ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کی اکثریت مذہبی ہے، اس لئے ہندوستانی سیاق میں سیکولرزم کی تشریح مذہب اور اسٹیٹ کے درمیان Complete Separation کی نہیں جاتی ہے، بلکہ اس کا معنی یہاں Equal Treatment of All Religion بتایا جاتا ہے، اس سیکولرزم میں گنگا جمنی تہذیب کی خوشبو شامل ہے. فرقہ وارانہ ہم آہنگی، اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان بھائی چارے کا مفہوم ہے، اس کے مطابق ایک لیڈر مذہبی تو ہوسکتا ہے، مگر اس کی پالیسیاں کسی خاص مذہب کے تئیں Discriminatory نہیں ہونی چاہئے، اگر میں اسے ایک جملے میں کہوں تو شاید یوں ہو کہ آپ کا لیڈر ابو الکلام آزاد ہونا چاہئے، جناح نہیں، اور آپ کی پولیٹیکس ملک کو جوڑنے کے لئے ہونی چاہئے، نہ کہ ایک بار پھر خلافت خلافت اور اسلامی ریاست کے نعرے میں پوری مسلم جنریشن کو دوبارہ غرق کردینے کے لئے.
ہندوستانی قانون کا Preamble بہت شاندار ہے، ایک بار اسے ہر کسی کو پڑھنا چاہیے تاکہ اسے معلوم ہوسکے کہ اسے کس قسم کا لیڈر چاہیے۔
WE, THE PEOPLE OF INDIA, having solemnly resolved to constitute India into a SOVEREIGN SOCIALIST SECULAR DEMOCRATIC REPUBLIC and to secure to all its citizens JUSTICE, social, economic and political; LIBERTY of thought, expression, belief, faith and worship; EQUALITY of status and of opportunity.
سب سے پہلے تو عزیر بھائی کو سلام عقیدت کہ انھوں نے جماعت اسلامی کے نظریے کا کاؤنٹر کرتے ہوئے ہندستانی مسلم نوجوانوں کے ذہنوں میں پل رہے خدشات اور سوالات کا کافی تشفی بخش جواب دیا ہے. ہمارے یہاں یہ بڑی مصیبت ہے کہ مسلم لیڈر کا نام آتے ہی لوگوں کے ذہنوں میں کسی “مذہبی شخصیت” کا ہیولی گھومنے لگتاہے. اور پھر اسلامی شریعت کے اصولوں پر جانچنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور انجام کار بحث اس نقطے پر پہونچتی ہے کسی کو اپنا لیڈر تسلیم کرنے سے پہلے ہمیں ایک ایسا لیڈر تلاش کرنا چاہیے جس… Read more »
بالغ سوچ! ملک کے لئے سوچنا، لکھنا اور پڑھنا دین کی خدمت ہے. دینی سوچ کا معنی بچوں اور ذہنی طور پہ نابالغ کی طرح اناپ شناپ بکتے رہنے کا نام نہیں.
عزیر صاحب کا یہ مضمون ہمیں غور وفکر کی دعوت دیتا ہے۔ملک کے موجودہ حالات میں ملت اسلامیہ کا طرز عمل اور اس کا منہج فکر کیا ہونا چاہئے،اس کی طرف انھوں نے ہماری توجہ مبذول کرائی ہے۔مضمون کے بعض الفاظ اور اس کی کئی ایک سخت تعبیرات غیض وغضب کا اشارہ دیتے ہیں۔میرے خیال میں اس سے ذرا پرہیز کرنا چاہئے۔ملک کے دستور اور اسلام کے مصادر میں ہم آہنگی کی صحیح صورت کیا ہوگی،اس کی وضاحت ضروری ہے۔اسی طرح ملک کا ذمہ دار شہری بننے کے لیے ہمیں کتاب وسنت کی کن کن چیزوں سے دست بردار ہوجانا… Read more »