نام کتاب: یتیم اسلام کی نظر میں
مؤلف: شیخ احمد خلیل مدنی
تعارف وتبصرہ: رفیق احمد رئیس سلفی
اللہ کے محبوب دین کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ اس کی شریعت ہر پہلو سے مکمل ہے ۔ انسانی زندگی جن مراحل سے گزرتی اور جن مسائل سے دوچار ہوتی ہے، ان کا ایک ایسا حل وہ پیش کرتی ہے جس سے دل بھی مطمئن ہوتا ہے اور جس پر عقل بھی صاد کرتی ہے۔ اس شریعت کے زیر سایہ سماج کے تمام طبقات اپنی سعی وجہد اور توفیق الٰہی کے مطابق عروج وارتقا کی منزلیں طے کرتے ہیں، عدل ومساوات سے فیض یاب ہوتے ہیں ، انھیں اپنے حقوق کے لیے تشدد کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کیوں کہ یہ شریعت رعایا اور حکمرانوں کے حقوق وفرائض کی درجہ بندی کرنے میں ہر لحاظ سے کامیاب ہے۔اسلامی شریعت اس دعوی کے ساتھ میدان میں آئی ہے کہ اب دنیا میں کوئی ایسی شریعت نہیں جس کے پاس زندگی کے ہر مسئلے کی شاہ کلید ہو ، یہ امتیاز صرف اسے حاصل ہے ۔ اس کی جامعیت ہی اس کے دوام وبقا کی ضمانت ہے ـ زندگی کے دور دراز گوشے بھی اس کی ضیابار کرنوں سے روشن ہیں، اس کے دائرے میں دور دور تک کوئی تاریکی نہیں ہے۔ سب کچھ واضح اور روشن ہے۔
اسلامی شریعت کے اساسی ماخذ قرآن اور احادیث صحیحہ ہیں۔ اسلامی تاریخ کا فقہی سرمایہ اسی ماخذ کی تشریح، تعبیر اور تطبیق ہے۔ خود قرآن مجید اور احادیث نبویہ کی شرح وتفسیر میں جو علمی سرمایہ ملت کے پاس ہے ، وہ اتنا مفصل اور جامع ہے کہ اس کی گرفت سے انسانی زندگی کا کوئی مسئلہ باہر نہیں ہے۔
آج کی دنیا میں اسلامی شریعت کا موازنہ کسی دوسرے مذہب کی شریعت سے کیا ہی نہیں جاسکتا۔ دنیا کے دوسرے تمام ادیان ومذاہب انسانی زندگی کا کوئی ایسا خاکہ نہیں بناسکتے جس کا ہر خانہ اپنی طبیعت اور مزاج کی رنگوں سے آراستہ ہو۔ خالق کائنات جب اپنے اس محبوب دین کی تکمیل اور اپنی نعمت کے اتمام کا اعلان کرتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اب جو کچھ ہے، بس یہی ہے، اس کے علاوہ سب کچھ محض راکھ کا ڈھیر ہے خواہ اس پر کتنی ہی ملمع سازی کیوں نہ کی گئی ہو۔ یہ محض دعویٰ نہیں بلکہ اس کے ثبوت میں سیکڑوں دلیلیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
اس وقت قارئین ذی احترام کے ہاتھوں میں جو کتاب ہے، وہ خود اس کی ایک دلیل اور اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ یتامیٰ انسانی سماج کی ایک ایسی حقیقت ہیں جن کے وجود سے سماج کا کوئی طبقہ اور دنیا کا کوئی خطہ انکار نہیں کرسکتا۔ لیکن کیا کسی مذہب میں ان کے تعلق سے تفصیلی احکام وقوانین موجود ہیں؟
جدید دنیا نے اپنے علم، تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں قوانین وضع کیے ہیں، کیا ان قوانین میں سماج کے اس لازمی حصے کے حقوق وفرائض کی تفصیلات موجود ہیں۔ ایک باخبر انسان اس کا جواب نفی میں ہی دے گا۔ ان کے مقابلے میں اسلام نے یتیموں کے لیے از اول تا آخر تمام تفصیلات بیان کردی ہیں، جن میں کوئی خفا نہیں ہے۔ میری خوش نصیبی یہ ہے کہ محترم جناب مولانا احمد خلیل مدنی حفظہ اللہ کی عنایت سے اس کتاب کو حرفاً حرفاً دیکھنے کی مجھے سعادت حاصل ہے۔ پوری کتاب دیکھنے کے بعد مجھے حیرت تھی کہ مصنف حفظہ اللہ نے بظاہر ایک چھوٹے سے مسئلے کو کتنی ذمہ داری کے ساتھ اس قدر تفصیل سے ذکر کیا ہے کہ کوئی پہلو تشنہ نہیں رہ گیا۔ یتیموں کے حقوق وفرائض سے متعلق پیدا ہونے والے تمام سوالوں کا جواب یہ کتاب دیتی ہے، ہر شبہ کا ازالہ کرتی ہے اور ہر قسم کے اعتراضات کو رفع کرتی ہے۔
فاضل مصنف نے اس سے پہلے دو کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔ والدین کے حقوق اور پڑوسیوں کے حقوق۔ موخر الذکر کو بھی اسی طرح بالاستیعاب دیکھنے کا مجھے موقع ملا تھا۔ شاید یہ میری بدقسمتی تھی کہ میں اس کتاب کے تعلق سے اپنے خیالات واحساسات کا اظہار نہیں کرسکا لیکن آج جب زیر مطالعہ کتاب کے حوالے سے کچھ لکھنے بیٹھا ہوں تو یہ ضرور عرض کروں گا کہ فاضل مصنف کا تصنیفی انداز منفرد ہے اور اپنی علاحدہ شناخت رکھتا ہے ۔وہ تصنیف وتالیف کے لیے بیانیہ اسلوب نہیں اپناتے اور نہ کسی دینی مسئلے کو بغیر حوالے کے ذکر کرتے ہیں۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ موضوع پر قلم اٹھانے سے پہلے اس پر غور کرتے ہیں، موضوع سے متعلق تمام قدیم و جدید لٹریچر ان کے زیر مطالعہ آتا ہے ۔ وہ مصنّفین کو آنکھیں بند کرکے نہیں پڑھتے بلکہ ان کا مطالعہ ناقدانہ ہوتا ہے۔ اپنے لیے مفید مواد کی تلاش میں وہ ہر وادی کی سیر کرتے ہیں۔ کتب تفاسیر، کتب احادیث، شروح احادیث، کتب فقہ، فقہ مقارن، لغات ومعاجم وغیرہ ان کے سامنے ہوتی ہیں۔ ان کے یہاں ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اپنی کسی تصنیف کی تکمیل میں عجلت سے کام نہیں لیتے ۔ جب وہ خود مطمئن ہوجاتے ہیں، تب ان کی کتاب کمپوزنگ کے مرحلے میں داخل ہوتی ہے۔
یتیموں سے متعلق یہ کتاب ایک مختصر انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے ۔میرے ناقص علم کے مطابق اردو زبان میں اس طرح کی کوئی مفصل علمی وتحقیقی کتاب موجود نہیں ہے بلکہ شاید عربی میں بھی اس طرح کی کوئی تفصیلی کتاب مشکل سے دستیاب ہو۔ فاضل مصنف نے اپنے مشاہدات وتجربات کی روشنی میں کتاب کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ اسلامی تعلیمات سے بے خبری اور دین سے غفلت کے نتیجے میں مسلم معاشرے میں بھی یتیموں کا حال کچھ اچھا نہیں ہے۔ ان پر ظلم کیے جاتے ہیں، ان کی پرورش اور تربیت میں کوتاہی کی جاتی ہے، ان کی زمین جائیداد پر غاصبانہ قبضے کیے جاتے ہیں اور ان کی بیوہ ماں خوف اور دہشت کے سایے میں بے رنگ زندگی گزارنے پر خود کو مجبور پاتی ہے۔ اس بے حسی اور غفلت کو دور کرنے کی ضرورت ہے اور ایسا اسی وقت ممکن ہے جب ہمارے عوام وخواص کو یہ معلوم ہو کہ اسلام نے یتیموں کے کیا حقوق متعین کیے ہیں اور ان کے سلسلے میں کیا تفصیلی ہدایات دی ہیں۔ موجودہ بگڑے ہوئے سماج میں یتیموں کی حالت زار سے پردہ اٹھانے اور معاشرے کے اس دبے کچلے طبقے کو اس کے حقوق دلانے کے لیے مصنف نے یہ کتاب عوام اور علماء کی تعلیم وتذکیر کے لیے تصنیف فرمائی ہے۔ مزید اس کتاب سے اسلامی تعلیمات کی جامعیت وکاملیت کا بھی یقین پختہ ہوتا ہے۔ غیر مسلم دنیا کو اس کتاب سے ضرور یہ پیغام جائے گا کہ یتیموں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اسلام نے جو ہدایات دی ہیں، وہ ہر لحاظ سے قابل عمل اور لائق تحسین ہیں۔
کتاب کے باب اول میں فاضل مصنف نے یتیم کی لغوی اور شرعی وضاحت کی ہے اور بتایا ہے کہ اسلام کی نظر میں اصلاً یتیمی کا اطلاق کس عمر کے بچے پر ہوتا ہے- کیا صرف والد کے فوت ہونے پر اس کا بچہ یتیم کہلاتا ہے یا والدہ کی وفات کے بعد بھی اسے یتیم کہا جاسکتا ہے؟ اسی طرح جس بچے کے ماں باپ دونوں اس کے بچپن میں وفات پا جائیں، اس پر یتیم کا اطلاق ہوتا ہے۔ اہل لغت اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں، کتاب وسنت میں اس لفظ کا اطلاق کس بچے یا بچی پر ہوتا ہے، فقہائے کرام اور شارحین شریعت اسلام کا اس سلسلے میں کیا نقطۂ نظر ہے؟ اس بحث کو پڑھنے کے بعد ہر قسم کے سوالوں کا جواب مل جاتا ہے اور یتیم کی صحیح تشریح و تعبیر سامنے آجاتی ہے۔
عہد جاہلیت میں یتیم کی صورت حال کیا تھی؟ کس طرح اسے تمام انسانی حقوق سے محروم کردیا گیا تھا اور کس طرح اس کے تمام سماجی ومعاشرتی حقوق پامال کیے جارہے تھے؟ اسلام نے کس طرح اس کے یہ سارے حقوق بحال کیے اور کس طرح سماج ومعاشرہ میں اس کی حیثیت اور مقام کی تعیین کی؟ ان تمام گوشوں پر کتاب کا دوسرا باب روشنی ڈالتا ہے۔ مصنف محترم نے اپنی تمام گفتگو نصوص کے حوالے سے کی ہے، واقعات بیان کیے ہیں اور عہد جاہلیت کی پوری تصویر کھینچی ہے۔ اسلام نے اس سلسلے میں نہ صرف قوانین وضع کیے بلکہ ترغیب وترہیب کا اسلوب اپنا کر دل ودماغ کو بھی اس کار خیر کے لیے آمادہ کیا۔ یہی اسلام کی سب سے بڑی خوبی اور اس کا امتیاز ہے کہ وہ صرف قانون کے ڈنڈے کا استعمال نہیں کرتا بلکہ پہلے ذہن سازی کرتا ہے، بشارت سناتا اور خوش خبری دیتا ہے، برے انجام سے ڈراتا اور آخرت کی جواب دہی کا خوف پیدا کرتا ہے۔ مجرم انسان محض قانون کے ڈر سے راہ راست پر نہیں آتا بلکہ اس کی ہدایت کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اندرون کو جھنجھوڑا جائے اور اس کے جرائم کی سنگینی اور اس کے برے اثرات ونتائج سے اسے آگاہ کیا جائے۔ یتیموں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اسلام نے یہ تمام وسائل استعمال کیے ہیں اور اندر سے انسان کو بدلنے کی کوشش کی ہے۔
کتاب کا تیسرا باب یتیم کے معاشی حقوق سے بحث کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی ضرورت کھانا پینا اور پہننا اوڑھنا ہے۔ اس باب میں وہ اپنے سرپرست کا ہی محتاج ہے۔ اگر اسے غذا نہ ملے یا اس کی ضرورت کے مطابق اسے کھانا پینا نہ میسر آئے تو اس کی سانسیں رک جائیں گی اور وہ زندگی جیسی بڑی نعمت سے محروم ہوجائے گا۔ اس کا باپ اگر زمین جائیدا چھوڑ گیا ہے تو اس کی حفاظت کرنا ولی کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری اس قدر نازک ہے کہ اسلام نے اس کے مال کو اپنے مال سے الگ رکھنے کی تاکید کی ہے، لیکن اگر ولی غریب ہے، یتیم کی سرپرستی اور اس کی دولت کی دیکھ بھال کے لیے وہ اپنا قیمتی وقت لگاتا ہے تو معروف یعنی چلن کے مطابق وہ اپنی محنت کا معاوضہ لینے کا مجاز ہے۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے کے بعد یتیم کو اس کا مال واپس مل جانا چاہیے تاکہ وہ اپنی مرضی اور صوابدید سے اس میں تصرف کرسکے۔ قرآن یہ بھی تاکید کرتا ہے کہ یتیم کو آزماتے رہو کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوگیا؛ یا نہیں۔ اگر وہ سادہ لوح،ناسمجھ اور بے وقوف ہے تو ایسی صورت میں اس کی دولت وجائیداد کے سلسلے میں کیا رویہ اپنایا جانا چاہیے،فاضل مصنف نے ان تمام پہلووں پر شرح وبسط سے روشنی ڈالی ہے۔
یتیم بچہ یا بچی ازدواجی زندگی گزارنے کا حق اسی طرح رکھتے ہیں جس طرح معاشرے کے دوسرے افراد ۔یتیموں کی ازدواجی زندگی اور اس تعلق سے ان کے حقوق پر گفتگو کتاب کے چوتھے باب میں کی گئی ہے۔یتیم بچوں پر ان کے جوان ہونے پر شادی بیاہ کے لیے کوئی جبر نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ان کا استحصال کرنا جائز ہے۔یتیموں کے سرپرستوں کا یہ خیال درست نہیں کہ انھوں نے چوں کہ ان کی سرپرستی کی ہے ،ان کو پالا پوسا اور پروان چڑھایا ہے تو وہ اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ ان کی مرضی کے بغیر جہاں چاہیں،ان کا رشتہ طے کرسکتے ہیں۔یہ صورت حال بڑی پیچیدہ ہوجاتی ہے جب یتیم کوئی بچی ہو۔وہ اللہ کی بندی بے زبان ہوتی ہے ،ولی کی سرپرستی کی محتاج ہوتی ہے، اسے طرح طرح کے اندیشے لاحق ہوتے ہیں ،اس کی اس کمزوری کا بعض سرپرست ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنے مفاد کی خاطر اس کی شادی اس کی مرضی کے خلاف کردیتے ہیں۔ فاضل مصنف نے ان نازک مباحث کو نصوص کی روشنی میں بہت اچھی طرح اٹھایا ہے اور اس سلسلے میں پیش آنے والی ہر مشکل کا حل تجویز کیا ہے۔شادی کے سلسلے میں جبر واکراہ اسلام کے اس تصور آزادی سے متعارض ہے جو وہ ہر مکلف انسان کو دیتا ہے۔ عورتوں کے تعلق سے بھی اس کا حکم یہی ہے کہ ان کا نکاح ان کی مرضی کے خلاف نہیں کیا جاسکتا۔عورتوں کے لیے ولی کی شرط محض انھیں تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہے اور اس بے لگامی پر روک لگانا ہے جو جذبات کے زیر اثر بسااوقات نوجوانوں میں پیدا ہوکر ان کی زندگی کو مشکلات سے دوچار کردیتی ہے۔
یتیم بچے جب تک ناسمجھ ہیں اور ابھی عقل وشعور کی دہلیز پر انھوں نے قدم نہیں رکھا ہے، اس وقت تک انھیں اپنی دولت میں تصرف کرنے کی آزادی نہیں دی جاسکتی، اور نہ خرید وفروخت کرنے کا حق انھیں دیا جاتا ہے البتہ اگر وہ اپنی اس عمر میں کسی جائیداد کے وارث ہورہے ہوں تو انھیں وارث بننے کا پورا پورا حق ہے۔ جس طرح ان کی دیگر جائیدادوں کی حفاظت ان کا سرپرست کرتا ہے،اسی طرح اس کی بھی کرے گا۔اس طرح یتیموں کے مالی حقوق کے تمام چھوٹے بڑے مسائل پر گفتگو فاضل مصنف نے کتاب کے پانچویں باب میں کی ہے ۔یتیموں کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی عام طور پر ان کے مال کے تعلق سے ہی کی جاتی ہے۔زمانۂ جاہلیت میں تو اس کو اس کے باپ کی جائیداد کا بھی وارث بننے کا حق حاصل نہیں تھا۔اسلام نے جب اسے یہ حقوق عطا کیے تو بے دین سماج نے اس کی دولت کو ہتھیانے کا ایک دوسرا طریقہ یہ نکال لیا کہ اس کے جوان ہونے سے پہلے پہلے اس کی دولت پر کسی طرح سے قبضہ کرلیا جائے یا اسے خرد برد کردیا جائے۔اسلام نے واضح طور پر یتیموں کے مال کھانے کو پیٹ میں آگ بھرنے جیسا قرار دیا ہے۔ احادیث میں بھی اس تعلق سے سخت وعیدیں آئی ہیں۔اس باب کے مطالعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام نے جس دولت کو زندگی کی بقا کا ذریعہ کہا ہے،اس کے تحفظ پر اس نے کتنا زور دیا ہے۔ قرآن کی آیات،احادیث نبوی اور فقہائے اسلام کی وضاحتوں پر مشتمل مدلل بحث اس باب میں ہمیں نظر آتی ہے۔
کتاب کا باب ششم کئی ایک مسائل کی تحقیق وتنقیح پر مشتمل ہے۔یتیم اگر اپنی یتیمی کی عمر میں کسی ایسے جرم کا ارتکاب کرتا ہے جس پر اسلام نے حد مقرر کی ہے تو کیا یتیم پر بھی حد جاری کی جائے گی؟یا اس کی عمر کو دیکھتے ہوئے حد کا نفاذ نہیں ہوگا؟اسی طرح جو بچے زنا اور حرام کاری کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں ،ان کے سلسلے میں اسلام کی تعلیمات کیا ہیں؟سماج میں ان کی کیا حیثیت ہے؟اگر ایسے بچے یتیم ہوجائیں تو ان کی سرپرستی کیسے کی جائے گی اور یہ سرپرستی کون کرے گا؟بعض بچوں کے باپ غائب ہوجاتے ہیں ،کیا ایسے بچوں کو بھی یتیم کے زمرے میں شامل کیا جائے گا؟اسی طرح جن بچوں کی مائیں ان کے بچپن میں مطلقہ ہوجاتی ہیں ،ان کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟کب تک وہ اپنی والدہ کے پاس رہیں گے ؟ان کی حضانت کے مسائل کیا ہیں؟ کس حساب سے ان کے باپ کو ان کا نان نفقہ دینا ہے؟ایک اہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا کافروں کے بچوں پر بھی اس وقت یتیم کا اطلاق ہوگا جب ان کے باپ بچپن میں فوت ہوجائیں اور یتیم کی حیثیت سے انھیں وہی شفقت ومحبت حاصل ہوگی جو مسلمان یتیم بچوں کو حاصل ہوتی ہے؟ان تمام سوالوں کا جواب اس باب میں دیا گیا ہے اور فاضل مصنف کا ہر جواب دلائل وبراہین سے آراستہ ہے۔
یہ ہے وہ بیش قیمت کتاب جو اس وقت زیر مطالعہ ہے۔اس کے ان مباحث سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مصنف نے کتنی عرق ریزی سے اسے ترتیب دیا ہے ۔کتاب کے حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے اسلامی تراث کے عظیم سرمایے کو کھنگال ڈالا ہے اور جہاں جہاں ان کو یتیموں کے تعلق سے بحثیں ملی ہیں،سب سے انھوں نے استفادہ کیا ہے۔ کتاب کے مطالعہ کے بعد آپ کو محسوس ہوگا کہ یتیموں کے تعلق سے اسلامی تعلیمات ہر پہلو سے نہ صرف مکمل ہیں بلکہ ان کے تعلق سے اٹھنے والے ہر سوال کا جواب ان میں موجود ہے۔میں مصنف کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے اپنی زندگی کے کئی بیش قیمت ماہ وسال صرف کرکے یہ مفصل تحقیقی اور علمی کتاب تصنیف فرمائی جسے بجا طور پر مختصر دائرۃ المعارف کہا جاسکتا ہے۔
آج کی دنیا جو خود کو مہذب دنیا کہتی ہے،اس میں انسانی حقوق کے بڑے چرچے ہیں۔ جگہ جگہ انسان کے مختلف طبقات کے حقوق کی حفاظت اور ان کی نگرانی کے لیے بڑے بڑے ادارے قائم ہیں۔حیرت ہوتی ہے کہ اس قسم کے زیادہ تر ادارے ان ممالک میں کام کرتے ہیں جن کی حکومتیں کمزور ممالک کے وسائل معیشت پر کنٹرول باقی رکھنے کے لیے ان پر جنگیں مسلط کرتی ہیں ۔ان جنگوں کے نتیجے میں ہزاروں اور لاکھوں بچے یتیم اور بے سہارا ہوجاتے ہیں۔گزشتہ کئی سالوں سے اعدائے اسلام نے مسلم ممالک کو میدان جنگ بنارکھاہے۔آتشیں اسلحے اوپر سے برسائے جاتے ہیں، اسکول، اسپتال اور عبادت گاہیں تک محفوظ نہیں ہیں۔ معصوموں کا خون بھی بہتا ہے اور وہی در در کی ٹھوکریں کھانے کے لیے بھی مجبور ہوتے ہیں۔اس کے بعد انہی ممالک کے رفاہی ادارے کیمپوں کا انتظام کرتے ہیں اور بے سہارا افراد کو کھانا پانی فراہم کرتے ہیں۔اس تضاد پر اہل خرد انگشت بدنداں ہیں کہ خود کو مہذب کہنے والی دنیا یہ کون سا طرز عمل اختیار کیے ہوئے ہے۔اسلام جو عدل ومساوات اور انسانیت دوستی کا مذہب ہے، اسے دہشت گردی کے حوالے سے اس قدر بدنام کیا جارہا ہے کہ کوئی اس کی بات سننے کے لیے تیار نہیں۔اہل مغرب کے ان تضادات کو جو حضرات نمایاں کرتے ہیں ،ان کو قدامت پرست کہہ کر ان کی باتیں رد کردی جاتی ہیں لیکن جو آگ انھوں نے اہل اسلام کے لیے لگائی ہے ،اس کی لپٹ دیر سویر ان تک بھی پہنچے گی ،دیکھتے ہیں،اس وقت ان کا رویہ کیا ہوتا ہے۔
حقوق انسانی کے سلسلے میں اسلام کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کے لیے اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ اقوام متحدہ سمیت دنیا میں کام کرنے والی تمام تنظیموں اور اداروں کی کارکردگی پر نظر رکھی جائے ۔ان کے کام کرنے کا انداز کیا ہے،اس سے حقوق انسانی کا تحفظ کس طرح ہوتا ہے ،کہیں ایسا تو نہیں کہ اس معاملے میں بھی یہ تنظیمیں اور ادارے ترقی یافتہ ممالک کے زیر اثر کام کرتے ہیں۔جہاں چاہتے ہیں ،حقائق کو چھپالیتے ہیں اور جہاں چاہتے ہیں،بات کا بتنگڑ بناڈالتے ہیں۔ یتیموں اور بے سہارا عورتوں اور مردوں کی گزربسر کے لیے جو عطیات جمع کی جاتی ہیں ،ان کی تقسیم کس طرح عمل میں آتی ہے۔دنیا کی قساوت قلبی دیکھیے کہ آفت زدہ،ستم رسیدہ اور بھوک پیاس سے نڈھال بچوں اور عورتوں کو ملنے والی عطیات میں بھی کرپشن کی خبریں پڑھنے کو مل جاتی ہیں۔دنیا کی اس بے اعتدالی اور ظلم وناانصافی کے اس ہنگامے میں اہل اسلام کی ذمہ داری ہے کہ پوری بصیرت اور صبر کے ساتھ اپنی باتیں پیش کرتے رہیں،اندھیروں میں چراغ جلائے رکھیں ،آخر کب تک تاریکیاں دنیا پر مسلط رہیں گی ،کبھی تو انسان جاگے گا اور اسے روشنی کی تلاش ہوگی ۔یتیموں کے تعلق سے یہ کتاب اسی قسم کی ایک روشنی ہے۔ اسے تو دنیا کی تمام زندہ زبانوں میں بھی پیش کرنے کی ضرورت ہے خاص طور پر انگریزی میں تاکہ اہل مغرب کو پتا چلے کہ حقوق انسانی کے تحفظ کے سلسلے میں اسلام کا نقطۂ نظر کیا ہے اور وہ یتیموں کے چھوٹے بڑے مسائل کو کس خوش اسلوبی سے حل کرتا ہے۔مجھے امید ہے کہ جب اس پہلو سے آپ اس کتاب کو پڑھیں گے تو معلوم ہوگا کہ اسلام واقعی دین رحمت ہے اور یہی سب سے سچا اور مکمل دین ہے۔ ایک بار پھر میں فاضل مصنف کو اس اہم کتاب کے لیے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس طرح کے اہم اور حساس موضوعات پر آیندہ بھی وہ قلم اٹھاتے رہیں گے اور اپنے علم وتحقیق سے ہمیں مستفید کرتے رہیں گے۔
کتاب برادر عزیز عبدالقدیر سلفی صاحب نے اپنے نئے اشاعتی ادارے
”مرشد پبلی کیشن” نئی دہلی سے شائع کی ہے،
کتاب کے صفحات کی تعداد ۶۲۴ /ہے ،
قیمت چار سو روپے رکھی گئی ہے،
کتاب کی کمپوزنگ اور طباعت معیاری اور دیدہ زیب ہے۔
مجھے امید ہے کہ ناشر شیخ احمد خلیل مدنی حفظہ اللہ کی باقی کتابیں بھی اسی آب وتاب سے شائع کریں گے۔
کتاب ملنے کا پتہ:
https://www.facebook.com/murshidpublication
آپ کے تبصرے