آج کے دور میں مغرب کی تشریح کردہ فیمینزم، مساوات، برابری، حقوق نسواں جیسے غلط افکار و نظریات نے لوگوں کے دل و دماغ پر کچھ اس طرح سے قبضہ جما لیا ہے کہ ان کے ذہنوں سے مذہب اور مذہب سے وابستگی کو نسیا منسیا کردیا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کرنے کے لئے ”دیندارکو چننے کا” حکم دیا تھا، اب دیندار کی تو بات ہی چھوڑئیے، نوبت ایں جاں رسید کی غیر مسلم بھی اب لائف پارٹنر بننے لگے ہیں۔
میرے سامنے انڈین ایکسپریس کی خبر ہے، ایک تئیس سالہ مسلم لڑکی نے ایک غیر مسلم لڑکے سے شادی کرلی ہے جس کے بعد سے اسے گھر والے مسلسل دھمکی دے رہے ہیں، کورٹ نے ان کی حفاظت کی یقین دہانی کرائی ہے-
اسی طرح کچھ دنوں پہلے دہلی کی خبر تھی کہ ایک مسلم نے ایک غیر مسلم لڑکے کا گلا بلیڈ مار کر کاٹ دیا تھا کیونکہ اس کی بیٹی اس لڑکے کے ساتھ ریلیشن شپ میں تھی، یہ اور اس جیسی بہت سی خبریں ہیں جنہیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بہت ہی افسوسناک صورتحال ہے، مسلم لڑکیاں غیر مسلموں سے شادی کر رہی ہیں، نجانے کس قسم کے ماں باپ ہوتے ہیں، کیسی وہ لوگ تربیت کرتے ہیں، اگر لڑکی اپنی ہی پسند کے مطابق کسی مسلم لڑکے سے شادی کرلے تو بات سمجھ میں آتی ہے، لیکن غیر مسلم سے شادی، یہ بات تو ذہن سے پرے معلوم ہوتی ہے، لیکن کیا کریں جب خبروں کو دیکھیں تو یقین کرنا ہی پڑتا ہے۔
جب لڑکی گھر سے باہر نکلتی ہے تو ماں باپ کو کوئی پرواہ ہی نہیں ہوتی ہے کہ وہ کہاں جاتی ہے، کس سے ملتی ہے، کیا کرتی ہے، پھر جب وہ اس طریقے کا کوئی غلط قدم اٹھالیتی ہے، تو وہی ماں باپ اسے مارنے کے در پہ آجاتے ہیں، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جتنی ذمہ دار لڑکی ہے، اس سے کہیں ذمہ دار اس کے ماں باپ ہیں، آخر وہ کیوں اپنی بیٹی کی اتنی بھی تربیت نہیں کرسکے کہ وہ مسلم اور غیر مسلم میں فرق کرسکے، اسے اپنے مذہب کے بارے میں بنیادی باتیں تو معلوم ہوں تاکہ وہ اپنے اور غیر میں تمیز کرسکے۔
ایک غیر مسلم کے ساتھ کسی مسلم لڑکی کا شادی کرنا نہایت ہی افسوسناک امر ہے، اور مزید اس پہ اپنے مذہب کو ترک کرکے ہندو مذہب کو اختیار کرلینا، اس کے اہم وجوہات میں سے گھر میں دینی ماحول کا نہ ہونا ہے، ظاہر سی بات ہے جب گھر والوں کو خود نہیں معلوم ہوگا کہ وہ کس مذہب کے ماننے والے ہیں، یا اگر معلوم بھی ہوگا تو ان کے اعمال اس بات کی بالکل بھی گواہی نہیں دیں گے کہ وہ مذہب اسلام سے تعلق رکھتے ہیں، بس پیدائشی مسلمان یا صرف ان کا نام مسلمانوں جیسا ہوگا تو بیٹیوں سے اس کے سوا اور کیا امید کی جا سکتی ہے، انہیں کیا فرق پڑے گا چاہے اس مذہب کو مانیں یا اس مذہب کو، الا من رحم ربی۔
دوسرا اہم سبب جو مجھے سمجھ میں آتا ہے وہ ہے وقت پہ شادی نہ ہونا، آج کل ایک عجیب و غریب ٹرینڈ بن گیا ہے کہ مسلم معاشروں میں بھی لڑکیوں کی شادی اس وقت تک نہیں کی جاتی ہے جب تک وہ لڑکوں کی طرح اپنے پیروں پہ کھڑی نہ ہوجائیں، خود کمانے نہ لگیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ستائیس اٹھائیس سال تک ان کی شادی نہیں کی جاتی ہے، فرسٹریشن کی وجہ سے اکثر وہ بیس سال کے بعد کی عمر کسی کے ساتھ لیو ان ریلیشن شپ میں گزارتی ہیں، یا کوئی غلط قدم اٹھا کے کسی کے ساتھ بھاگ جاتی ہیں، یا پھر وہ برائیوں میں ملوث ہوجاتی ہیں، اس کا سیدھا سادا حل یہ ہے کہ لڑکی کے بالغ ہونے کے بعد اگر اس کا رشتہ کہیں پر کر دیا جائے بھلے ہی نکاح نہ پڑھا جائے تو بھی دل میں اپنے ہونے والے شوہر کے تئیں ایک قسم کی وفاداری کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے، اور یہ بہت حد تک برائیوں سے روکنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔
اسلام نے اتنا اچھا نظام دیا ہے، مگر اسلام کے پیروکاروں نے اسی کو ترک کر رکھا ہے، اس مادیت کی دنیا میں ہر کوئی اپنی مشغولیت میں اس قدر ڈوبا ہوا ہے کہ نہ اس کے پاس اپنے والدین کے لئے وقت ہے، اور نہ ہی بچوں کے لئے، جس کی وجہ سے خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے، باپ بھی کام کرنے والا ہے، ماں بھی کام کرتی ہے، پھر جب بچیاں اپنے آپ کو آزاد پاتی ہیں، یا انہیں والدین کی جانب سے وہ توجہ یا محبت نہیں مل پاتی ہے جو کہ انہیں ملنی چاہئے تو اس کی تلاش وہ باہر شروع کردیتی ہیں پھر چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم۔
تیسرا اہم سبب جو مجھے نظر آتا ہے وہ ہے مخلوط تعلیم کا نظام، ہم خود یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں، اپنی روزمرہ کی زندگی میں بخوبی دیکھتے ہیں کہ مسلم لڑکیاں کس طرح غیر مسلموں کے ساتھ گھومتی ہیں، یا ان کے ساتھ رہتی ہیں، اسی طریقے سے ٹیوشن یا کوچنگ سینٹروں میں بھی معاملہ ہے، چھوٹی چھوٹی بچیاں بچپن سے ہی بوائے فرینڈ گرل فرینڈ کے رشتے سے واقف ہوجاتی ہیں، حالانکہ مخلوط تعلیم کا جو رواج ہے معذرت کے ساتھ اس میں ہمارے اکابرین اور زعماء وقائدین کی بھی غلطی ہے، انہوں نے لڑکوں کے لئے تو مدارس بنا دئیے، یہاں تک کہ ان کے لئے کالجز اور یونیورسٹیاں بھی قائم کردئیے، مگر انسانیت کی نصف آبادی کی تعلیم و تربیت پہ کوئی دھیان نہیں دیا گیا، ان کے لئے الگ سے اسکول اور کالجز نہیں بنوائے گئے ،اب ظاہر سی بات ہے لوگ تو پڑھائیں گے ہی، ایسا بالکل نہیں ہوگا کہ لوگ اپنی بچیوں کو تعلیم نہیں دلائیں گے، پھر جب بچیوں کے لئے علیحدہ انسٹیٹیوشنز کی سہولیات نہیں میسر ہوں گے تو مخلوط تعلیم ہی دلائیں گے، اس کے سوا اور چارہ بھی کیا ہے؟
میں ایک مرتبہ ایک محترمہ کو مخلوط تعلیم کے مضرات پہ لیکچر دینے لگا، وہ کافی دیر تک بڑے صبر و سکون کے ساتھ میری باتیں سنتی رہیں، پھر جب میں خاموش ہوگیا تو گویا ہوئیں کہ ”جناب، جس دن لڑکیوں کے لئے جامعہ اور اے.ایم.یو کی طرح شاندار یونیورسٹی قائم کردینا، اس وقت آ کے مخلوط تعلیم کے نقصانات پہ لیکچر دیجئے گا، اگر آپ چاہتے ہیں کہ لڑکیاں مخلوط اداروں میں تعلیم نہ حاصل کریں تو ان کے لئے بھی گرلس کالجز، الگ انسٹیٹیوشنز اور یونیورسٹیاں کیوں نہیں کھولتے ہو؟”
ہمارے ساتھ واقعی یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم کسی چیز کو حرام اور ناجائز تو بڑی آسانی سے کہہ جاتے ہیں، مگر اس کا متبادل کیا ہو، کبھی پیش کرنے کی کوشش نہیں کرتے، اب عورتوں کی تعلیم ہی کا مسئلہ لے لیجئے، مخلوط تعلیم کی حرمت پہ ہزاروں فتوے مل جائیں گے، مگر عورتوں کے لئے الگ اور بہتر انتظام کرنے کے وجوب پہ ایک بھی فتوی نہیں ملے گا۔
میں نے اپنے ایک ساتھی سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے ہندو لڑکیاں یونیورسٹیوں میں مسلم لڑکوں کو پسند کرتی ہیں، تو اس نے کہا کہ ایسا صرف کسی ایک مذہب کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ اگر مسلم لڑکیاں بھی مخلوط اداروں میں تعلیم حاصل کریں گی، جہاں ہندو مسلم سب ساتھ میں پڑھتے ہوں، تو وہ بھی ہندو لڑکوں کو پسند کرنے لگیں گی، جس کا ہم آئے دن مشاہدہ بھی کرتے رہتے ہیں، کہ فلاں مسلم لڑکی فلاں ہندو کے ساتھ بھاگ گئی، اور پھر جس طریقے سے مسلم معاشرے میں تعلیم کے تئیں رجحان بڑھتا جارہا ہے، اگر عورتوں کے لئے الگ انتظام اداروں کا انتظام نہیں کیا گیا تو مستقبل بڑا ہی بھیانک ہوگا۔
ہماری قوم ملت کے پاس اتنا سرمایہ ہے کہ اگر وہ صحیح طریقے سے اس کا استعمال کریں تو عورتوں کی اسلامی طریقے سے تعلیم و تربیت کا بندوبست کیا جاسکتا ہے، بھائی آپ پورے ملک میں مدارس کا جال بچھا سکتے ہو، تو اللہ کی ان بندیوں کے لئے ادارے کیوں نہیں کھول سکتے ہو، جہاں وہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم و فنون میں بھی مہارت حاصل کریں، آخر وہ باہر آ کے مخلوط اداروں میں تعلیم حاصل کرتی ہیں، جس کا اثر ان پہ کچھ یوں پڑتا ہے کہ ان میں سے بیشتر فیمینزم کے حملوں سے خود کو بچا نہیں پاتی ہیں، اور ان کے غلط پروپیگنڈوں کا شکار ہوکر دین دھرم کے اصول و مبادیات پہ ہی حملہ کرنے لگتی ہیں-
تو کیوں نہ ہماری جماعتیں، جمیعتیں اور تنظیمیں قدم آگے بڑھائیں، اور ان کے لئے اعلی تعلیم کا بندو بست کریں، کیونکہ اتنا تو دھیان میں رکھیں کہ صرف فتوی دینے سے لوگ اپنی بیٹیوں کو تعلیم دلانے سے باز نہیں آئیں گے، چاہے انہیں کسی بھی طریقے سے تعلیم کیوں نہ دلانا پڑے۔
اس لئے اگر ہم معاشرے میں بڑھتی ہوئی برائیوں کے تئیں سچ میں فکرمند ہیں ، توہمیں ان جہتوں میں بھی قدم بڑھانا پڑے گا، ورنہ یوں ہی واقعات و حادثات روز پیش آتے رہیں گے ، مسلم لڑکیاں بے راہ روی کا شکار ہوتی رہیں گی اور ہم صرف بیٹھ کے وا حسرتا کے نعرے لگاتے رہیں گے۔
ایک اور وجہ جس کی جانب آپ کا ذہن نہیں پہنچا وہ یہ ہے کہ مسلم لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیتے رہنے کی وجہ سے آج مسلم لڑکیاں تعلیم کے میدان میں لڑکوں سے آگے بڑھ گئی ہیں اور جب وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوجاتی ہیں تو انھیں ان کے برابر تعلیم یافتہ اور اچھی پوزیشن والے لڑکے نہیں ملتے۔ اسی وجہ سے مسلم لڑکیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد غیر شادہ شدہ ہے۔ یہ سب ایسے سماجی اور معاشرتی مسائل ہیں جن کی جانب مجموئی طور پر شعوری اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے لیکن ہم تعلیم کے… Read more »