جب میں اپنی زندگی کا منفی طریقے سے جائزہ لیتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ کافی عرصے سے میں ہارتا چلا جارہا ہوں، بہت ساری چیزیں ہار چکا ہوں، بہت ساری چیزیں ہار رہا ہوں، شومئی قسمت رہی ہے کہ کچھ چیزیں ہاتھ میں آنے کے بعد بھی چھوٹ گئیں، کچھ چیزیں ہاتھ آئیں ہی نہیں، نجانے ہارنے کا یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا، کب زندگی کی کشتی کسی ساحل سے جا لگے گی، ناکامیاں اتنی ہاتھ لگ رہی ہیں کہ کامیابی اگر مل بھی جائے تو ان ناکامیوں کے بھیڑ میں چھپ کے رہ جائے.
میری سب سے بڑی ہار اب تک کی یہ رہی ہے کہ میں اپنا جنون کھوچکا ہوں، جیتنے کا وہ جنون جو کبھی مجھ میں ہوا کرتا تھا، نجانے کیوں عنقا ہوکر رہ گیا ہے، ایک عجب سی اداسی رگ و پے میں سرایت ہوکر رہ گئی ہے، اس اداسی کو مجھ سے کچھ ایسا عشق ہوا ہے کہ چھوڑنے کا نام نہیں لیتی.
ایسا مجھے محسوس ہوتا ہے جیسے میرا ذہن کمزور ہوگیا ہے، جیسے خود میرے اندر کچھ کر دکھانے کی صلاحیت کا فقدان ہوچکا ہے، جیسے مجھے کسی چیز کی ضرورت یا خواہش ہی نہیں، مجھے نہیں معلوم کہ ایسا کیوں ہورہا ہے، شاید اس عمر میں ایسا ہی ہوتا ہے، یا پھر شاید دور ہی ایسا چل رہا ہے، بے یقینی کا دور، جس میں کچھ بھی یقینی نہیں ہے، سب کچھ دھواں دھواں سا، بس اک خلا ہے، اور ان خلاؤں میں بھٹکتے ہوئے ہم جیسے بے شمار حضرت انسان، ایک دوسرے سے ٹکرا تو رہے ہیں، مگر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر روشنی کی تلاش میں آگے نہیں بڑھ رہے ہیں، ارد گرد کا ماحول بھی بے حس بنا رہا ہے، حکومت، کارندے، میڈیا، نیوز پیپر غرضیکہ ہر کوئی اس عدم الیقین میں اضافہ ہی کر رہا ہے.
باوجود یکے کہ لا ابالی پن مجھ میں زیادہ ہے، مگر پھر بھی مستقبل کا خوف عفریت کی طرح منہ پھاڑے سامنے کھڑا جو نظر آرہا ہے وہ آنکھوں کے سامنے چھائے ہوئے اندھیرے کی تاریکی میں مزید اضافہ ہی کر رہا ہے، اندھیرا ہے کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے، ہر گزرتا دن اندھیرے کی بڑھتی ہوئی حکمرانی کا پیغام سنا رہا ہے، دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ چاروں طرف انسانی بھیڑ بھی اندر کی تنہائی، بے حسی اور ناکامی کے احساس کو ختم نہیں کرپارہی ہے، ایسا لگتا ہے جیسے خواب اور فکر پر برف کی تہیں جم گئی ہوں، یا پھر ایک تاریک کنویں کی تہہ میں ہوں اور نکلنا چاہتے ہوں مگر اس کی کوئی سبیل نظر نہ آتی ہو.
کہتے ہیں زندگی یہی ہے، اگر زندگی میں مسائل نہ ہوں تو پھر جینے کا مزہ کیا ہے، مگر ہارے ہوئے لوگوں کو اکثر یاد آتا ہے کہ یہ صرف باتیں ہیں محض باتیں، ان کے لئے تو زندگی بس ایک مفلس کی قبا ہے جس میں ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں، زندگی کو اتنی بھی مشکل نہیں ہونی چاہئے کہ اسے جینے والوں کو لگے کہ ایک دن مرنے کے لئے آخر اتنا اور اس طرح سے جینا کیوں پڑ رہا ہے.
کبھی کبھار ایسا لگتا ہے جیسے ہم سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، یا پھر اس بیکراں سمندر میں سفر کر رہے ہیں جس کا کنارہ ملنے کی امید ہی نہیں، انرجی ختم ہوجائے گی، امیدیں دم توڑ جائیں گی مگر منزل مقصود کا نام و نشان نہیں ملے گا، اور ملے بھی کیسے، نہ منزل کا نشاں، نہ رستوں کا پتہ، ہوا کے دوش پہ بہہ رہے ہیں، جدھر چاہے لے جائے، ایک ایسا راہی جس کا وجود عدم ہے، جس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے، جو آج تک اپنے ہونے کے فلسفے کو نہیں سمجھ سکا ہے.
مقصد حیات کیا ہے، زندگی کیونکر ہے، خوشی کیسے ملے، بہت سارے فلسفیوں نے لکھا ہے، ان بنیادی سوالات کے جواب میں لائبریریوں کی لائبریریاں بھر گئی ہیں، ہر ایک نے “Happiness” کے حصول کے لئے الگ الگ طریقے بتائے ہیں، پر ان طریقوں کا فائدہ کیا جنہیں پڑھ کر آدمی مزید الجھن کا شکار ہوجائے، آدمی خوش تو اسی وقت رہ سکتا ہے نا جب اس کے خواب پورے ہوں، اس کی آرزؤئیں خاک میں نہ ملیں، اس کا دل کسی ایسی چیز کی حصولیابی پہ رشک کرنے لگے جس کے نہ ہونے، نہ ملنے یا چھوٹ جانے سے دل رنجیدہ ہو، شفق کی سرخی ماتم اور گریہ وزاری کی وجہ سے مزید سرخ معلوم ہونے لگی، رات پریشاں ہوجائے، صبح کی سپیدی بھی غمناک لگے، اس وقت تو کوئی بھی فلسفہ کام نہیں آسکتا نا.
ہم بہت سارے خواب دیکھتے ہیں، اور ان خوابوں میں اپنا دل کچھ یوں لگا لیتے ہیں کہ انہیں خوابوں میں زندگی گزارنے لگتے ہیں، پھر جب وہ خواب ٹوٹتے ہیں تو ایسا لگتا تھا بس زندگی یہیں تک تھی، اس سے آگے تو صرف کھائی ہے، ایک بھیانک کھائی، جس کی تہہ میں موت وحشیانہ رقص کرتی رہتی ہے.
حقیقت یہ ہے کہ زندگی ایک الجھی ہوئی ڈور کے مانند ہے، جتنا سلجھانے کی کوشش کرو مزید وہ الجھتی ہی چلی جاتی ہے، پڑھنا لکھنا، رشتے ناطے، مستقبل محبت، سب ان الجھی ہوئی ڈوروں کے سرے ہیں، کسی ایک سرے کو پکڑو تو دوسرے سرے چھوٹ جاتے ہیں، اور بسا اوقات سارے سرے ایک دوسرے میں یوں گڈ مڈ ہوجاتے ہیں کہ تلاش کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ ہم کس سرے کو پکڑ کر الجھی ہوئی ڈور کو سلجھائیں.
مندرجہ بالا ساری باتیں زندگی کا صرف ایک پہلو ہیں، دوسرا پہلو تو خوبصورت ہی ہے جہاں محنتوں کے بقدر نوازا جاتا ہے، کبھی دیر، کبھی سویر، جہاں حکمت و فراست اپنا ڈیرا ڈالے رہتی ہے، جہاں کچھ بھی الجھا ہوا نہیں ہوتا ہے، جس میں مشکلات کا ڈٹ کر سامنا کیا جاتا ہے، ہمت، حوصلہ، بہادری، محنت سب اس کے بنیادی اصول ہیں جو کامیابی کی ضمانت ہوتی ہیں، جس میں ہارنے کا مطلب کندن میں تپا کر سونا بنایا جانا ہوتا ہے، غرضیکہ دوسرا پہلو بہت ہی حوصلہ افزا ہوتا ہے، اب یہ انسان کے اوپر ہے کہ وہ اپنی زندگی کو کس پہلو سے دیکھتا ہے، اگر وہ ہمیشہ ہارتا ہی رہتا ہے تو اس کے دل و دماغ پہ منفی پہلو غالب آجاتا ہے، بلکہ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو پہلی مرتبہ ہارنے پر بھی ہمیشہ کے لئے ہار مان لیتے ہیں اور کوشش کرنا بند کردیتے ہیں، حالانکہ ضرورت صرف اتنی ہوتی ہے کہ ہار کے اسباب کا جائزہ لیا جائے، انہیں ختم کیا جائے اور جیت کے اسباب کو اپنا کر کامیابی کے منازل طے کئے جائیں کہ یہی تو زندگی ہے، یہاں ہارنا بھی ہے، یہاں جیتنا ہے، بس نہیں ہارنا ہے تو ہمت، کیونکہ وہی تو بنیاد ہے، وہی ہار گئے تو پھر جیتنے کے لئے کچھ بچے گا ہی نہیں.
زندگی کو منفی نظر سے دیکھنے کی پریشانی صرف میرے ساتھ یا ایک دو لوگوں کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ یہ مسئلہ بے شمار لوگوں کا ہے، حالانکہ اگر ہم اسلامی نقطہ نظر سے دیکھیں تو پریشانیاں آتی ہی ہیں آسانیاں لانے کے لئے، “إن مع العسر يسرا”، رات کی تاریکی ہمیشہ صبح کی نوید جانفزا لے کر آتی ہے، خوشی اور غم، پریشانی اور آسانی سب زندگی کا حصہ ہیں، ایک مسلمان کا قضاء و قدر پر ایمان رکھنے کا مطلب ہی ہوتا ہے “لکیلا تأسوا على ما فاتكم ولا تفرحوا على ما آتاكم” خوشیوں میں اللہ رب العالمین کا شکر ادا کرے اور پریشانیوں میں اس کی طرف رجوع کرے، روئے، گڑگڑائے، اپنے گناہوں کی معافی مانگے، یقینا پریشانیوں کے بادل چھٹ جایا کریں گے، خوشیوں کے پھول ایک بار پھر کھل اٹھیں گے، کوئی اپنے رب کی طرف پلٹ کر تو دیکھے، کوئی اپنا لو کائنات کے مالک حقیقی سے لگا کر تو دیکھے اسے بخوبی معلوم ہوجائے گا کہ حقیقی سکون کس میں ہے، حقیقی خوشی کیسے ملے گی، جب چہار سو نا امیدوں کا سایہ پھیل جائے، مایوسیاں گھیرے میں لے لیں، اس وقت کامیابی وہی ہے کہ نا امید ہو کر بھی نا امیدی کا اس قدر شکار نہ ہوں کہ کوشش کرنا ہی چھوڑ دیں، زندگی تو جد و جہد سے عبارت ہی ہے، اصل تو یہ ہے کہ آدمی تھک کر نہ بیٹھے، بلکہ کوشش کرتا رہے یہاں تک کہ وہ اپنے ہر جائز مقصود و مراد کو حاصل کرلے.
بہترین تحریر
بہت عمدہ لاجواب ہے بہت اچھی تحریر ہے زندگی کے دونوں پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے حقیقت یہ ہے کہ زندگی ایک الجھی ہوئی ڈور کے مانند ہے، جتنا سلجھانے کی کوشش کرو مزید وہ الجھتی ہی چلی جاتی ہے، پڑھنا لکھنا، رشتے ناطے، مستقبل محبت، سب ان الجھی ہوئی ڈوروں کے سرے ہیں، کسی ایک سرے کو پکڑو تو دوسرے سرے چھوٹ جاتے ہیں، اور بسا اوقات سارے سرے ایک دوسرے میں یوں گڈ مڈ ہوجاتے ہیں کہ تلاش کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ ہم کس سرے کو پکڑ کر الجھی ہوئی ڈور کو سلجھائیں حالانکہ اگر ہم… Read more »
واقعی بہت اچھا لکھا ہے عزیر بھائی نے
آج بخدا بتارہا ہوں
ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں مضمون ختم نا ہوجائے
بس دل کھ رہا تھا پڑھتا جاؤں