عیدالاضحی: ہواءِ نفس کو قربان کرنے کا عظیم موقع

عیدالاضحی: ہواءِ نفس کو قربان کرنے کا عظیم موقع

ہلال ہدایت عبادات

عیداور عیدقرباں عظیم اسلامی تہوار ہیں جو اللہ اور رسول رحمت کی جانب سے فرزندان توحیدکو ودیعت کئے گئے ہیں۔ عیدین قمری مہینہ کے اعتبارسے سال میں ایک ایک بار آتے ہیں جس میں مسلمان پورے تزک واحتشام سے تیاری کرتے ہیں اور پروردگارعالم کے سامنے سجدہ ریز ہوکرشکر وامتنان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔
آج ہم عیدالاضحی کے دن اسی عظیم تحفہ کی ادائیگی کے لیے تیار ہوئے ہیں اور دوگانہ ادائیگی کے بعد سنتیں یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی سنت کو بیدارکرنے کے لیے قربانیاں پیش کریں گے۔قربانی ابراہیم علیہ السلا م کااپنے نیک بخت ، مطیع اوراکلوتے فرزند اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں نذرانہ عقیدت و عظیم جلوے کو اجاگر کرتی ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کی زندگی پوری انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے، انہوں نے بچپن سے لے کر جوانی تک اورجوانی سے بڑھاپے تک اللہ کی راہ میں جو قربانیاں دی ہیں اس کا نعم البدل کچھ بھی نہیں ہے سوائے یہ کہ اللہ نے خود خلیل بنالیااور ہرطرح سے آزمائش میں مطیع ومنقادپاکر پوری دنیا میں ان کی سنت کو زندہ و جاوید بنادیاہے۔ ابراہیم علیہ السلام دین حنیف پر قائم تھے اور اس قدر مضبوط تھے کہ قرآن نے اس کا تذکرہ بارہا کیا ہے۔ بچپن ہی میں بتوں کی آلائشوں سے خود کو پاک رکھا،بت شکنی کے پاداش میں نارنمرود میں ڈالے گئے ،باپ کی ستم رانیاں برداشت کیں،راہ حنیف مل جانے کے بعد بت پرست و بت تراش باپ کو بہت ہی سلیقہ مندی سے ایک دردمنداور ہمدردبن کر دعوت دین دی تاہم اس ہٹ دھرم آزر نے اپنے خودساختہ کاروبار اور مصنوعی معبودان کو بجزخدائے واحد کی عبادت کے قبول کیا، بیٹے کو جلاوطنی کی دھمکی دی اور گھرسے بے گھرکیا۔
ان تمام امور میں ابراہیم علیہ السلام نے متنوع اذیتیں برداشت کیں تاہم راہ حق کے لیے سینہ سپر رہے۔ جوانی کی دہلیز پر گھاٹ گھاٹ کے پانی پیے،خدائی دعوت کو لے کرارض گردیوں میں زندگی بسر کرتے رہے اور جب بڑھاپے کی عمر میں بیٹے کی سعادت نصیب ہوئی تو فرمان الٰہی کے مطابق بیوی اور بچے کو غیر ذی ذرع وادی میں چھوڑنے کا حکم ملااور بلاتامل حکم کی تعمیل میں کمرکس لی،مکہ کی وادی جو آج نعره تکبیراور لبیک اللھم لبیک کے نعروں سے گونج رہی ہے اس وقت غیرمانوس اور چرند پرند کابسیراتھی وہاں چھوڑآئے۔
یہ عظیم قربانی ہم اورآپ اپنی زندگی میں نہیں آنک سکتے ہیں کیونکہ محض فرمان الٰہی میں انہوں نے ایسا کیا تھا لیکن آج ہم اورآپ خود کا موازنہ کریں توخودکو کس طرح عمیق گناہ کے دلدل میں پھنسیں ہیں احکام خداوندی کی صریح خلاف ورزیاں کرتے ہیں لیکن ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ہے۔ کیا ہم آپ ایسا کرسکتے ہیں راہ خداوندی میں اپنی قیمتی سے قیمتی چیز خیرات کرسکتے ہیں ،غریبوں مسکینوں میں اپنی گاڑھی کمائی خرچ کرسکتے ہیں؟ سوچنے اور غور کرنے کامقام ہےکہ کس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کی راہ میں قربانیاں پیش کیں۔اگر ابراہیم علیہ السلام ہواءِ نفس کی پیروی کرتے تواس عظیم المرتبت مقام پر ہرگز نہیں پہنچتے،یہ ہمارے لیے تابندہ نقوش ہیں۔
آج عیدالاضحی کے موقع کی مناسبت سے ہمیں ابراہیم علیہ السلام کی قربانیوں کو یاد کرناچاہیے اور خود کو اللہ کی راہ میں سینہ سپر ہونے کا عزم بالجزم کرناچاہیے، آج جب کوئی شخص اپنے والدین، بیوی بچوں اور رشتہ سے الگ ہوکر بیرون شہر یا بیرون ملک رزق کی تلاش میں جاتا ہے تو اس کے دل پر کیاگزرتی ہے قابل دید ہوتی ہے ، کس طرح مایوس اور غموں سے نڈھال ہوتا ہے، گھربار سے کس طرح منسلک ہوکر زندگی بسر کرناچاہتا ہے لیکن حصول رزق کی خاطر اپنی محبتوں کو قربان کرتا ہے ،یہ توایک معمولی نشانی ہے۔
آپ دیکھیں کہ کس طرح ابراہیم علیہ السلام نے ایک دن خواب میں اپنے سب سے محبوب ترین چیز کو قربان کرتے ہوئے پایا تو سواونٹوں کی قربانی پیش کی ،اسی طرح دوسرے اور تیسرے دن بھی خواب آتے رہے تو کانکھ میں چهری دباکر بیٹے کو قربان گاہ خدا میں پیش کرنے کے لیے نکل پڑے اور زمین وآسمان نے وہ نادیدانگیزنظارہ بھی دیکھاکہ ایک کمزورہاتھ مگر مضبوط دل باپ کس طرح چھری حلقوم اسماعیل پر رگڑرہا ہے!! کس طرح اللہ کے راہ میں دنیا کی سب سے بڑی قربانی پیش کررہاہے جو کوئی اور پیش نہیں کرسکا!! باپ بیٹے کے اس عظیم قربانی کو اللہ نے رہتی دنیا کے لیے بطور نعمت باقی رکھااور آج ہم اسے بڑے تزک واحتشام سے منارہے ہیں۔
آج ہمیں دین حنیف کا کچھ بھی پاس نہیں ،فرمان رسول کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں، سنت براہیمی کی ادائیگی میں بے جا رسومات و فضول اسراف سے کام لے رہے ہیں۔ ہمیں اس مطیع ومنقاد الٰہی بندے کی عظیم قربانیوں کو یاد کرناچاہیے۔ قربانی ہرسال جہاں ہمارے لیے ہزاروں خوشیاں لے کر آتی ہے وہیں یہ بات بھی یاد دلاتی ہے کہ ایک مسلمان جہاں زندگی کی تمام آرائشیں اٹھارہاہے وہ اس بات کے لیے بھی تیار رہے کہ جب بھی خدا کی راہ میں خودکی، نفس کی،خواہشات کی،محبوب چیزوں کی یہاں تک کہ آل واولادکی قربانی پیش کرنی ہوتو بلاجھجھک آن بھر میں پیش کردے۔ یہ قربانی ہمیں سنت براہیمی کو زندہ وتابندہ کرانے کے لیے آتی ہے، یہ قربانی خداوندقدوس کے فرماں روائی کی یاددہانی ک کی خاطر آتی ہے ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے موقعوں پر خداکے حکم وفرمان کی تعمیل کریں اور خواہشات نفسانی کواللہ کی راہ میں قربان کردیں۔
عیدالاضحی کی خوشیاں اللہ رب العالمین نےہمیں بذریعہ نبی محترم فداہ ابی امی صلی اللہ علیہ وسلم دی ہیں،ہمیں قربانی کی اہمیت وفضیلت سمجھنی چاہیے ہرلمحہ اور ہرآن ہمیں سنت رسول کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھنی چاہیے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص صاحب استعاعت ہونے کے باوجود اللہ کی راہ میں ایک جانور کی قربانی نہ پیش کرسکے وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے ‘‘۔
یہ وعید ہے ان لوگوں کے لیے جو بینک بیلنس برقراررکھنے کے لیے روپیہ پیسہ خرچ کرنا نہیں چاہتے ہیں،جواپنے ہاتھ کی میل کی صفائی کرنی نہیں چاہتے ہیں۔ غورکریں کہ جب ایک آدمی چلتے پھرتے روپیے کو خرچ کرنے سے خوف کھاتا ہے تووہ اس سے بڑی اورعظیم چیزوں کی قربانی کیونکر پیش کرسکتاہے۔ یہ ہماری بدعملی اور نااندیشی ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہم کس قدر خوفزدہ ہیں اپنے پیسوں کے تئیں! ہمیں قربانی کا حقیقی مطلب سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے دل پیچ وتاب ناکھائیں ۔ عیدالاضحی عقیدت مندان توحیدکے لیے ہزاروں خوشیاں لے کرآتاہے یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اورہمارا دل مطمئن ہو۔
قارئین کرام! عیدالاضحی میں ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اپنی خوشی میں اپنے پڑوسیوں کو شریک کریں، اپنے دوست واحباب کو شریک کریں، غریب ونادار اوریتیموں وبیواؤں کی پرسان حالی کریں۔ آپ غور کریں کہ آپ کوذہنی وقلبی سکون کب میسرآتا ہے، کب آپ فرحت وانبساط سے جھوم اٹھتے ہیں؟ یقیناًیہی کہیں گے ناکہ جب ہم اور ہمارا معاشرہ غربت سے بے نیاز ہو ،ہرطرف چہل پہل ہو۔ توآئیے ایک قدم بڑھاتے ہیں اپنے پڑوس کی طرف، اپنے مجبور ولاچار دوست واحباب کی طرف اور قربان کرتے ہیں اپنی اَناکو،اپنے فخر وغرور کو، اپنے بے جا عیش وعشرت کو! عیدقرباں کا حقیقی حق ادا کرتے ہیں اپنی قربانیوں میں یتیموں کو شریک کرکے اور سنت براہیمی کو ادا کرتے ہیں اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق۔ عیدالاضحی کے اس پروقار موقع پر تمام عالم اسلام اورفرزندان توحید ہزاروں مبارک بادیاں۔
اللہ ملک و معاشرہ کو اپنے حفظ وامان میں رکھے اور تمام قسم کے نظر بدسے محفوظ رکھتے ہوئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقراررکھے۔(آمین)

آپ کے تبصرے

3000