یزید کے بہانے صحابہ کرام پر طعن و تشنیع ناقابل برداشت

عزیر احمد عقائد

محرم الحرام کے اس مہینے میں سوشل میڈیا پر ”اہل سنت و الجماعت” میں سے ”رافضیوں” کے ہفوات بھرے مضامین کو پڑھ کر بہت افسوس ہوا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے معاملے میں یہ لوگ کس قدر بہادر اور جری واقع ہوئے ہیں، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت افسوسناک ہے، مگر یزید کو بنیاد بنا کر جس طریقے سے صحابہ کرام پر طعن و تشنیع کے تیر چلائے جارہے ہیں، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی ناموس پر حملے کیے جارہے ہیں، جن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ”یزید” کی بیعت لینے کا مشورہ دیا تھا، ان کے خلاف جس طرح کی زبان استعمال کی جارہی ہے، دیگر صحابہ کرام پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ساتھ نہ دینے پر ان میں عزیمت کے نہ پائے جانے اور ان کے دلوں میں ڈر اور خوف کے بیٹھ جانے کا جو گھٹیا الزام لگایا جارہا ہے، کہا جارہا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بیعت نہیں کی تو دیگر صحابہ کرام نے کیوں کی، شاید اس قسم کے جملوں سے یہی رافضی نتیجہ نکالا جارہا ہے کہ ”حضرت حسین رضی اللہ عنہ” کو چھوڑ کر سارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بزدل ہوگئے تھے، نعوذ باللہ من ذلک۔
گلہ شیعوں سے بالکل نہیں ہے کیونکہ صدیاں گزر گئیں وہ صحابہ کرام کو گالیاں دیتے چلے آئے ہیں، ان کا تو بنیادی عقیدہ ہی یہی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سارے لوگ مرتد ہوگئے تھے سوائے تین صحابہ کرام کے، جو کچھ ان کے آباء و اجداد نے حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا تھا، اللہ تعالی نے ان کا بدلہ انھیں کچھ ایسا عطا کیا کہ قیامت تک کے لیے ذلت و نکبت کو ان کا مقد ر بنا دیا، وہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے آپ کو سزادیتے ہیں، اپنے جسموں کو کاٹتے ہیں، اپنے آپ کو آگ میں جلاتے ہیں، غرضیکہ اسلام کے خوبصورت چہرے کو داغدار کرنے کے لیے جو کچھ ان سے بن پڑتا ہے کرتے ہیں، لیکن اس سے زیادہ افسوس تو ان لوگوں پر ہوتا ہے جو خود کو صحیح العقیدہ گردانتے ہیں، اور آدھے ادھورے مطالعے یا مخصوص نظریاتی خول میں بند ہونے کی بنا پر صحابہ کرام خصوصا ”کاتب وحی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ” پر زبان درازی کرتے ہیں، دل تو کرتا ہے کہ ایسے ”چھٹ بھئیوں” کو جی بھر کے گالیاں دی جائیں کہ شاید اس سے کچھ کلیجہ ٹھنڈا ہوجائے، مگر نہیں نہیں، ہم ایسا بالکل کرنے والے نہیں، کیونکہ گالی ہمارا شعار نہیں، ہاں ”عدالت صحابہ” کو مجروح کرنے والوں کے خلاف ”تشدد” کا راستہ اپنا لینے کی حمایت ضرور کرسکتے ہیں، اللہ اللہ، انبیاء کے بعد دنیا کی سب سے عظیم الشان و رفیع المقام جماعت کے خلاف اس طرح کی بدتمیزیاں، وہ بھی ان ”احمقوں” کی جانب سے جن کا اسلام کے Expansion میں کوئی رول نہیں، جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پیروں کی دھول کے برابر بھی نہیں، وہ صحابہ کرام جن کی بدولت آج دنیا میں اسلام ہے، ان پر انگلی اٹھایا جارہا ہے، اس سے زیادہ تکلیف دہ امر اور کیا ہوسکتا ہے۔
مشاجرات صحابہ کے معاملے میں زبانیں کھول کر لوگ کیوں اپنی عاقبت خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں، مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا یہ لوگ قرآن نہیں پڑھتے، کیا انھیں اللہ کا یہ فرمان ”رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ” دکھائی نہیں دیتا، کہتے ہیں انسان ہی تو تھے، غلطیاں کیوں نہیں ہوسکتی ہیں، مان لیا غلطیاں ہوسکتی ہیں، لیکن سوچتے کیوں نہیں کہ جس جماعت کو اللہ راضی ہونے کا سرٹیفیکٹ دے چکا ہے، ان کی غلطیوں سے کچھ ہو نہ ہو، ہاں تمہارا ان کے بارے میں زبان کھولنے سے بہت کچھ ہوجائے گا، کیونکہ تمہارے پاس نہ تو سرٹیفکٹ ہے، نہ ہی تم محمد عربی صلی اللہ وسلم کے ساتھی رہے ہو، ارے ساتھی ہونا تو دور کی بات ہے، پہلے مسلمان تو بن جاؤ، ذاتی زندگی اتنی گھناؤنی کہ پبلک میں آجائے تو لوگ ”چھی” بھی کرنے میں ”شرم” محسوس کریں، اور چلے ہیں ان نفوس قدسیہ پر بہتان تراشی کرنے جنھیں اللہ رب العالمین نے اپنے حبیب محمد عربی صلی اللہ علیہ کی ہمراہی کے لیے چن لیا تھا۔
رہی بات حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی، تو ان کے مقابلے میں یزید کی کوئی اہمیت نہیں، نہ کوئی تقابل، نہ کوئی توازن، جو کچھ بھی ہوا، مسلم تاریخ کے اہم افسوسناک واقعات میں سے ایک ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یزید کے بہانے دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا بھلا کہا جائے، یزید کے بارے میں ہمارا موقف نہ طعن و تشنیع کا ہے، نہ کلین چٹ کا، ہم اس سلسلے میں سکوت کو بہتر بلکہ لازم سمجھتے ہیں، لیکن یزید کی وجہ سے یہ بات نہایت ہی ناقابل برداشت ہے کہ پوری اموی خلافت کی تاریخ پر سیاہی پھیر دی جائے، یا ان کو ”ولن” کے روپ میں پیش کیا جائے۔
خلافت امویہ امت مسلمہ کا سب سے روشن چہرہ ہے، اللہ رب العالمین بہت کارساز ہے، اسے بخوبی معلوم ہے کہ کون کس لائق ہے، اس نے امویوں سے وہ کام لیا ہے جو رہتی دنیا تک آنے والی کوئی بھی حکومت انجام نہ دے پائے، اگر اسلامی تاریخ سے خلافت امویہ کو نکال دیا جائے تو پھر بچتا ہی کیا ہے، کس حکومت میں ملیں گی اس قدر فتوحات؟ کیسے ہوں گے سندھ بلوچستان پر حملے؟ کیسے ہوگا اسپین پر قبضہ؟ کون ہوں گے جزیرۃ العرب سے لے کر یوروپ اور چین تک اسلام کا جھنڈا لہرا دینے والے؟ ارے جناب صرف سو سال کے عرصے میں امویوں نے زمین کا جتنا حصہ اسلام میں شامل کردیا، بعد میں آنے والی حکومتیں تو اسے سنبھال تک نہ پائیں، امویوں کا دور اسلام کے Expansion میں سب سے زریں عہد ہے، اسے Malign کرنے کی ساری کوششیں رافضی پروپیگنڈوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔
آپ اسے ”عقیدت” کہہ لیں، یا ”اندھ بھکتی”، میں ہر لفظ برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں، مگر میں اسے بالکل بھی برداشت نہیں کرسکتا کہ میرے ”نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں” کی ناموس کے ساتھ کھلواڑ کیا جائے، ”کاتب وحی” رضی اللہ عنہ کو مطعون کیا جائے، ”اموی خلفاء” کو برا بھلا کہا جائے، وہ اس دور کے لوگ تھے جو بعد میں آنے والے ہر دور کے لوگوں سے افضل ہیں، جس دور کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ”خیر القرون قرنی، ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم”، قسم پاک پروردگار کی جسے میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بہتر اہل زمانہ قرار دیں، انھیں ہم اور آپ جیسے ”چھٹ بھئیے” اس دور میں جب کہ سر سے پاؤں تلک برائیوں اور غلاظتوں میں لتھڑے ہوئے ہیں انھیں ہم غلط ہونے کا فیصلہ سنائیں، ان پر جملے کسیں، تو بالکل بھی اچھا نہیں لگتا ہے۔
مستشرقین بہت لمبے عرصے سے کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح سے مسلمانوں کو صحابہ کرام کی جماعت کے تئیں برگشتہ کردیا جائے، اسلام کی عمارت خود بخود ڈھہ جائے گی، ان کی کوششیں کامیاب تو نہیں ہوئیں، ہاں وہ مسلمانوں میں ایسے لوگوں کو تیار کرنے میں ضرور کامیاب ہوگئے جو صحابہ کرام پر بہتان تراشیاں کریں، ان کے خلاف لکھی گئی کتابوں کی حوصلہ افزائی کریں، ذرا غور کیجیے جب عام مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ زہر بھر ا جائے گا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انسان ہی تو تھے ، غلطیاں کیوں نہیں کرسکتے، تو کیا یہ سیدھے سیدھے اسلام کی بنیاد پر حملہ نہیں ہے، کیا یہ لوگوں کو مواقع نہیں فراہم کرنا ہے کہ حدیثوں کا انکار صرف مفروضات کی بنیاد پر کر سکیں، ممکن ہے، ممکن ہے، ممکن ہے، حدیث بیان کرنے میں غلطی کیوں نہیں کرسکتے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ کیوں نہیں باندھ سکتے، اپنی بات کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیوں نہیں کرسکتے، کیا یہ سارے ممکنات اسلام کے رفض و انکار کی طرف نہیں لے جانے والے ہیں؟کیا دیدہ و دانستہ یا تجاہل عارفانہ کی بنیاد پر اس قسم کے جملے دہرانے والے اعداء اسلام کی خواہشات کو پورا نہیں کر رہے ہیں؟
تعجب خیزامر یہ ہے کہ جو لوگ صحیحین کی روایتوں کو صرف اس بنیاد پر رد کردیا کرتے ہیں کہ وہ ان کے مسلک کے خلاف ہے، وہ یزید اور صحابہ کرام کے معاملے میں تاریخ کے ہر رطب و یابس کو من وعن تسلیم کرلیتے ہیں گویا کہ وہی حقیقت ہو، جب کہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مجوسیوں نے تاریخ میں بہت زیادہ گھس پیٹھی کی ہے، حدیثو ں کی طرح مسلم تاریخ بھی اعادہ اور ریسرچ کی متقاضی ہے۔
سچائی تو یہ ہے کہ ہم تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے گرد پا کے برابر بھی نہیں، لیکن وہیں دوسری جانب ہم ”اموی خلفاء” کے بھی برابر نہیں، اگر ان کی کچھ ”غلطیاں” رہی بھی ہوں تو کیا فرق پڑتا ہے، ہمیں ان کی غلطیوں پر ذمہ دار اور نگراں تھوڑی نہ بنایا گیا ہے، انھوں نے جو کچھ بھی کیا وہ اللہ کے حوالے، ممکن ہے کہ ان کی اچھائیاں ان کی برائیوں پر غالب رہی ہوں، ممکن ہے کہ کچھ ”خلفاء” کے بارے میں صرف رافضی پروپیگنڈے ہوں، وہ ”خیر القرون” کے لوگ تھے، ہمارا شعار تو بس اللہ کا یہ فرمان ہونا چاہیے کہ

”والذین جاؤوا من بعدھم یقولون ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولاتجعل فی قلوبنا غلا للذین آمنوا ربنا انک رؤوف رحیم ”۔

آپ کے تبصرے

3000