آج سے آٹھ دہائی قبل شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ کے عہد مبارک میں جب صحرائے عرب میں پٹرول کے ذخیرے کا انکشاف ہوا تو تہذیب وتمدن اور علم وتحقیق کے نئے باب کا آغاز ہوا۔ چند سالوں میں سعودی عرب کے طول وعرض میں مدارس کا جال بچھ گیا لیکن اس وقت تک زمانہ کافی ترقی کرچکا تھا۔ علم وتحقیق کے میدان میں برق رفتاری سے تبدیلی آرہی تھی۔ جدید انکشافات واختراعات کا سیلاب آچکا تھا۔ سائنس وٹکنالوجی کے میدان میں غیر معمولی ترقیوں کا دور دورہ تھا۔ ایسے میں دنیا کے شانہ بشانہ چلنے کے لیے جدید طرز کے علمی مراکز وجامعات کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس کی جانے لگی تاکہ نئی نسل دین کے ساتھ دنیاوی امور میں بھی کسی سے پیچھے نہ رہے اور ملک کو بہترین سائنسدان، اطباء، ماہرین علم وفن اور قائدین ومفکرین فراہم ہوسکیں اورایک بار پھریہ قوم اپنی علمی تاریخ کو سنہرے حروف میں قلمبند کرسکے۔
7 نومبر 1957 کا دن سعودی عرب کی علمی تاریخ میں سنگ میل کی اہمیت کا حامل ہے۔ یہی وہ دن ہے جب شاہ سعود رحمہ اللہ نے ایک تاریخ ساز فیصلہ لیتے ہوئے مملکہ کی پہلی یونیورسٹی ’’جامعۃ الریاض‘‘ (جواس وقت جامعۃ الملک سعود کے نام سے موسوم ہے) کے قیام کا فرمان جاری کیا۔ کلیۃ الآداب اور کلیۃ العلوم کے ذریعہ اس یونیورسٹی کا سفر شروع ہوا۔ اپنے افتتاحی کلمات میں شاہ سعود نے کہا: ’’مجھے امید ہے کہ یہ دن علم کی تاریخ میں ایک نئے عہد کے آغاز کا پیش خیمہ ثابت ہوگا ،علوم ومعارف کے میدان میں ترقی ہوگی، امن وسکون عام ہوگااور یہ ہمارے ملک کی رفاہیت اور استقرار میں اہم کردار ادا کرے گا‘‘۔ (صحیفۃ الشرق الأوسط:2 مئی 2006، شمار نمبر: ۱۰۰۱۷)
اس یونیورسٹی نے اپنی ساٹھ سالہ تاریخ میں ترقی کے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے عالمی یونیورسٹیوں کی صف میں اپنی جگہ بنالی، اس کے بطن سے ہزاروں علماء، اطباء، انجنیئر، سائنس دان، قائدین اور ماہرین علم وفن نے جنم لیا جنھوں نے اس ملک کی تعمیر وترقی میں بڑا اہم کردار ادا کیا اور آج بھی اس کی ہمہ جہت ترقی کے لیے سرگرداں ہیں ۔سعودی عرب تعلیمی میدان میں ایک لمبا سفر طے کرنے کے بعدجب شاہ عبداللہ کے دور میں داخل ہوا تو تعلیمی ترقی کے نئے عہد کا آغاز ہوا۔ اس میدان میں تو آپ نے انقلاب برپا کردیااور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے مختلف گوشوں میں یونیورسٹیوں کا جال بچھا دیا۔ جامعات کی تعداد جو دس(۱۰) کے دائرے میں محصور تھی اسے پچیس(۲۵) تک پہنچا دیا اور علاقوں کی ضرورت کے مطابق وہاں یونیورسٹیوں اور کالجز کا آغاز کیا۔ جامعۃ الملک عبداللہ للعلوم والتکنولوجیا (King Abdullah University for Science and Technology) قائم کرکے سرزمین عرب میں عالمی پیمانے کی یونیورسٹی کی داغ بیل ڈالی۔جدید نسل کوعصری علوم سے آراستہ وپیراستہ کرنے کی غرض سے ’’برنامج الملک عبداللہ للابتعاث الخارجی‘‘ (King Abdullah Scholarship Program) نام سے ایک بہت ہی عظیم اور تاریخی پروگرام کا آغاز کیا جو پوری دنیا میں اپنی نوعیت اور فنڈ کے اعتبار سے سب سے عظیم اسکالرشپ پروگرام ہے۔ 2006 میں اس کا آغاز ہوا، محض چند سالوں میں دولاکھ پچاس ہزار سے زائد طلبہ شاہ عبداللہ کے عہد میں اس پروگرام سے منسلک ہوئے اور دنیا کے تیس ممالک کی عظیم یونیورسٹیوں میں تمام عصری علوم میں تعلیم حاصل کرنے لگے۔
سعودی عرب میں پرائمری سے لے کر یونیورسٹی کے مرحلے تک تمام حکومتی اداروں میں تعلیم تقریبا مفت فراہم کی جاتی ہے۔ مزید برآں حکومت خادم الحرمین الشریفین پوری دنیا سے مسلم طلبہ کے لیے ہزاروں کی تعداد میں اسکالرشپ جاری کرتی ہے تاکہ یہ طلبہ عقیدۂ توحید کی ترویج واشاعت اور دعوت دین کے کاز کو علم وبصیرت کی روشنی میں انجام دے سکیں۔ اس سلسلے میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ یونیورسٹی کا ذکر قابل فخر ہے جہاں تقریبا اسی (۸۰) فیصد طلبہ غیر سعودی ہوتے ہیں، جن کی تعلیم وتربیت، قیام وطعام، حفظانِ صحت وغیرہ کا پورا خرچ یونیورسٹی برداشت کرتی ہے۔1961 سے تا ہنوز ہزاروں کی تعداد میں علماء وفضلاء اور دکاترہ یہاں سے فارغ التحصیل ہوکر پوری دنیا میں علم کی روشنی سے اذہان وقلوب کو منور کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ
جامعۃ أم القریٰ،
جامعۃ الامام محمد بن سعودالاسلامیۃ،
جامعۃ الملک سعود،
جامعۃ الملک عبدالعزیز،
جامعۃ القصیم وغیرہ
میں ہزاروں کی تعداد میں فرزندان توحید دنیاکے مختلف خطوں اور گوشوں سے اپنی علمی تشنگی کو بجھا رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت سعودی یونیورسٹیوں میں تیس 30 ہزار سے زائد غیر سعودی طلبہ خادم الحرمین الشریفین کے اسکالرشپ پر تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔یقینا سعودی حکومت اس کارعظیم کے لیے ہمارے خصوصی شکریے کی مستحق ہے۔
جو لوگ سعودی عرب میں تعلیم نسواں کے بارے میں علم نہیں رکھتے وہ عجیب مغالطے کے شکار ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ وہاں لڑکیوں پر تعلیمی پابندی ہے۔ میں اپنا ایک ذاتی تجربہ بتانا چاہتا ہوں کہ ایک مرتبہ میں نے معلومات عامہ کی ایک بکلیٹ میں یہ سوال پڑھا کہ ’’دنیا کا کون سا ایسا ملک ہے جہاں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ہے‘‘؟ میں جواب پڑھ کر محو حیرت رہ گیا کہ ’’سعودی عرب دنیا کا واحد ملک ہے جہاں تعلیم نسواں پر پابندی ہے‘‘۔ ہائے افسوس! ایسا لکھنے اور بولنے والے یا تو بدخواہ، متعصب اور سعودیہ کے دشمن ہیں یا وہ وہاں کے تعلیمی حقائق سے بالکل ہی نابلد اور جاہل ہیں ۔واضح ہو کہ سعودی یونیورسٹیوں میں لڑکوں کی طرح لڑکیوں کے لیے بھی مساوی تعلیمی مواقع ہیں بلکہ بعض جامعات میں ان کی تعداد لڑکوں سے زیادہ ہے۔ مزید برآں دونوں صنفوں کے لیے علیحدہ تعلیم کا انتظام بھی ہے ۔ شاہ عبداللہ نے ایسے متعصبوں اور بدخواہوں کے چہرے سے پردہ اٹھاتے ہوئے مملکت سعودی عرب میں دنیا کی سب سے عظیم نسواں یونیورسٹی’’ جامعۃ الأمیرۃ نورہ بنت عبدالرحمن ‘‘ کی سنگ بنیاد رکھی جو چودہ 14 بلین ریال کی لاگت سے مکمل ہوئی ہے اور ان کے عہد مبارک ہی میں وہاں تعلیم کا آغاز ہوا۔ آج یہ یونیورسٹی اپنی سہولیات، حسن وجمال اور فن معماری کے باب میں ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے جس میں بیس ہزار سے زائد طالبات کی تعلیم کی سہولت ہے۔ واضح ہو کہ اس یونیورسٹی کی ڈائرکٹر ایک خاتون ہی ہیں۔
تعلیمی سیکٹر میں خرچ کرنے میں دنیا میں شاید ہی کوئی ملک سعودی عرب کا نظیر ہو جو اپنے بجٹ کا ایک چوتھائی صرف تعلیم پر خرچ کرتا ہو۔ مالی سال 2017 و 2018 کے بجٹ میں تعلیم کے لیے 192 بلین ریال مختص کیا گیا ہے جس سے مملکہ میں تعلیم کے میدان میں خرچ ہونے والے عظیم بجٹ کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
سعودی عرب میں تعلیمی سرگرمیوں کی ایک عمومی تصویر کشی کے بعد آئیے وہاں کی سب سے قدیم اورمشہور ومعروف یونیورسٹی جامعۃ الملک سعود کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اصلا ًیہ یونیورسٹی سعودی طلبہ کے لیے قائم کی گئی جہاں عصری علوم کا عنصر ہمیشہ غالب رہا۔ بعد کے ادوار میں ملکی اور عالمی پیمانے پر تعلیمی میدان میں عظیم تبدیلیوں کے سبب مختلف کالجز کا اضافہ ہوا جس میں ایک معھد اللغویات العربیۃ اوردوسرا کلیۃ التربیۃ ہے جس میں دراسات اسلامیہ کے شعبے کا اضافہ ہوا اور غالبا اسی(80) کی دہائی میں یہاں اسکالرشپ پروگرام کا آغازہوا اور یوں اس میں غیر سعودی طلبہ کا داخلہ بھی شروع ہوگیا۔ معھد اللغویات العربیۃ تو وافدین طلبہ ہی کے لیے خاص ہے مگر کلیۃ التربیۃ، کلیۃ الآداب، کلیۃ اللغات والترجمۃ اور بعض دیگر کلیات میں بھی باہری طلبہ تعلیمی مواقع سے سرفراز ہورہے ہیں۔ اس وقت وہاں تقریبا پانچ فیصد طلبہ غیر سعودی ہیں جو سعودی طلبہ کی طرح تمام مراعات اور سہولیات سے مستفید ہو رہے ہیں۔ یہ یونیورسٹی اپنے جدید وعصری تحقیقات وریسریچ کے لیے مشہور ہے۔ یہاں علم کے ہر تخصص سے متعلق کالجز اور شعبے ہیں جو گزشتہ ساٹھ سالوں سے شاہ سعود رحمہ اللہ کے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کرنے میں رواں دواں ہیں۔یہ یونیورسٹی اپنے آپ میں ایک شہر اور رقبہ ومساحت کے اعتبار سے دنیا کی چند عظیم یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔ اس کی آغوش میں تیس سے زائد کالجز اور ریسرچ سنٹر علم کے موتی بکھیررہے ہیں ان میں سے چند کے نام درج ذیل ہیں:
(۱) کلیۃ التربیۃ
(۲) کلیۃ الآداب
(۳) کلیۃ العلوم
(۴) معھد اللغویات العربیۃ
(۵) کلیۃ اللغات والترجمۃ
(۶) کلیۃ الھندسۃ
(۷) کلیۃ الأغذیۃ والزراعۃ
(۸) کلیۃ الحاسب والمعلومات
(۹) کلیۃالطب
(۱۰) کلیۃ الأسنان
(۱۱) کلیۃ الصیدلۃ
(۱۲) کلیۃ الحقوق والعلوم السیاسیۃ
(۱۳) کلیۃ ادارۃ الأعمال
(۱۴) کلیۃ العمارۃ والتخطیط
(۱۵) کلیۃ المجتمع
(۱۶) شاہ عبداللہ ’’نانو‘‘ ریسرچ سنٹر
(۱۷) مرکز امیر سلطان برائے ٹکنیکل ریسرچ
(۱۸) معھد امیر نایف برائے ہیلتھ، سائنس وغیرہ۔
شاہ سعود یونیورسٹی کے اساتذہ وطلبہ کی تعداد ستر ہزار سے زائد ہے اور اگر ملازمین وعمال کا اضافہ کرلیں تو شاید یہ تعداد اسی ہزار سے تجاوز کرجائے۔ ہر طرف طلبہ واساتذہ کا ہجوم،صبح تاشام کلاس ہونے کے سبب کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کب پڑھائی ہوتی ہے اور کب چھٹی۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ یونیورسٹی ہر وقت حرکت ہی میں رہتی ہے۔ اس یونیورسٹی کا ایک خاص امتیاز یہ بھی ہے کہ یہاں لڑکے اور لڑکیوں کی تعلیم مخلوط نہیں بلکہ علیحدہ ہے اور بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ یہ سلسلہ جاری ہے اور مخلوط تعلیم کے داعیان کے لیے عبرت ونصیحت بھی ہے۔
یونیورسٹی میں تعلیمی انقلاب:
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس یونیورسٹی نے عصری تعلیم کے میدان میں اس ملک کو بہت کچھ دیا مگر ایک مدت تک یہ سست رفتاری کا شکار رہی اور مرورِ زمانہ کے ساتھ علمی وسائنسی میدان میں امکانات کے باوجود بہت آگے نہ بڑھ سکی لیکن جب ڈاکٹر عبداللہ العثمان نے بحیثیت مدیر اور ڈائرکٹر اس کی قیادت سنبھالی تو اس یونیورسٹی کو ایک خاص اور منفرد پہچان ملی۔ ڈاکٹر العثمان بڑی کرشمائی شخصیت کے حامل تھے، تواضع وانکساری، علمی اہلیت، نکتہ سنجی، دوررسی، مشکل ترین فیصلے لینے کی صلاحیت، متحرک وفعال، اعلیٰ وافضل کو اختیار کرنے والے بڑی ہی بااثر شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی قیادت وادارت میں جیسے علمی انقلاب آگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے تعمیر وترقی کی وہ مثال قائم کی جو گزشتہ پچاس برسوں میں نہ ہوسکی ۔ انھوں نے اس یونیورسٹی کو عالمی یونیورسٹیوں کی صف میں کھڑا کرنے کے لیے خود کو وقف کردیا اور چھ (6) سال کی قلیل مدت میں تبدیلی، انقلاب اور جدوجہد کی ایک عظیم مثال قائم کی جس کے لیے وہ ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔ انھوں نے جامعہ کو ترقی کی راہ پر قائم رکھنے کے لیے ایک اسٹراٹیجک پلان کی بنیاد رکھی کہ 2030 تک ہم عالمی حیثیت کی امریکی اور برطانوی یونیورسٹیوں کے شانہ بشانہ چل سکیں گے اور اس ہدف کو پانے کے لیے ہر چیلنج کاسامنا کرتے ہوئے اور تمام وسائل کو بروئے کارلاتے ہوئے 2030 تک اپنے اہداف مکمل کریں گے۔ اس ہدف کے لیے انھوں نے مختلف ریسرچ سنٹرز، ریسرچ چیئرزاور اوقاف کی داغ بیل ڈالی، کلاسوں کو جدید ٹکنالوجی سے آراستہ کیا، 2250 سے زائد کلاس روم کو کمپیوٹر ائزڈ کرکے تقلیدی اور تلقینی طریقۂ تعلیم کے دھارے کو موڑدیا، عالمی پیمانہ کی جامعات ومؤسسات کے ساتھ معاہدے کر کے ازسر نو مناہجِ تعلیم کی تجدیدوترقی پر زور دیا اور جدید ٹکنالوجی کا زبردست استعمال کرتے ہوئے جامعہ کے تمام شعبوں کی خدمات کو کمپیوٹرائزڈ کردیا جس کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے بہترین پبلک سروس مہیا کرنے کے لیے گرانقدر اعزاز سے سرفراز کیا گیا۔ مختلف ایجادات اور گرانقدر تحقیقی مقالات پر سینکڑوں ایوارڈ اور اعزازات سے نوازا گیا۔ مؤتمرات (کانفرسوں)، ندوات واجتماعات اور علمی دورات کا ایسا دور شروع کیا جس کی نظیر عرب دنیا میں نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر عبداللہ العثمان کو جہاں بھی رکھے بصحت وعافیت رکھے اور امت کو ان کے بہترین تجربات سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔
شاہ سعود یونیورسٹی عالمی یونیورسٹیوں کی صف میں:
موجودہ دور مسابقت اور منافست کا دور ہے، ہر کوئی ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ تعلیمی ادارے اور تحقیقی مراکز تو اس دوڑ میں صف اول میں نظر آتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی ترقی وتقدم کا سب سے اہم راز علم وتحقیق میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی ترقی کی بلندیوں تک پہنچنے کے باوجود رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں ۔ جامعۃ الملک سعود کے مدیر اور ڈائرکٹر عبداللہ العثمان نے تعلیم وتحقیق کے میدان میں بام عروج تک پہنچنے اور دنیا میں ایک بلند مقام حاصل کرنے کے لیے تعلیمی وتحقیقی ڈھانچے کا ازسر نو جائزہ لیا اور جامعات کی عالمی ترتیب میں نمایاں رینک حاصل کرنے کے لیے بہت سارے جدید پروگراموں کا افتتاح کیا۔ اس کے علاوہ عصر حاضر کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جدید ریسرچ وسائنٹفک مراکز کا سنگ بنیاد رکھااور پوری دنیاسے ماہرین علم وفن کے ساتھ معاہدہ کرکے علم کے نئے دور کا آغاز کیا۔ اس طرح غفلت وسستی کے عہد کا خاتمہ کرتے ہوئے اس یونیورسٹی کی رگ وروح کو توانائی فراہم کی جس کے نتیجہ میں اس یونیورسٹی نے 2007 میں جامعات کی عالمی ترتیب میں 3062 نمبر پر ہونے کے باوجود ایک لمبی جست لگائی اور دیکھتے ہی دیکھتے تقریبا چھ (۶) سال کی مدت میں زبردست ترقی کرتے ہوئے 2012 کی عالمی ترتیب میں دنیا کی سب سے بہترین 300 یونیورسٹیوں کے درمیان اپنے آپ کو لاکھڑا کیا اور برطانیہ کی ایک ترتیب کے مطابق 197 نمبر پر پہنچ گئی، اور اس سال کی جدید رینکنگ میں بھی دنیا کی بہترین تین سو یونیورسٹیوں میں اپنا مقام بنائے رکھا ہے۔ شاہ سعود یونیورسٹی عالم عرب اور عالم اسلام میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی گویا اپنے آپ میں اپنی نوعیت کی نادر مثال ہے۔ اس کے منہج تعلیم کو دیکھتے ہوئے سعودی عرب کی کئی دوسری یونیورسٹیوں میں بھی تعلیم وتحقیق کے نئے دور کا آغاز ہوچکاہے۔
معھد اللغویات العربیۃ:
یہ شاہ سعود یونیورسٹی کا ایک اہم شعبہ ہے۔ یہ انٹرنیشنل طلبہ کا گہوارہ ہے جہاں ہرسال دنیا کے ستر سے زائد ممالک کے سینکڑوں طلبہ کا داخلہ ہوتاہے۔ فی الحال اس میں ایک ہزار سے زائد طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ یہاں ہر طرح کی جدید تعلیمی سہولت فراہم کی جاتی ہے، کلاس روم جدید ٹکنالوجی سے آراستہ ہیں۔ یہ معہد طلبہ کو عربی زبان میں بول چال، تحریروکتابت، استماع اور قرآن کی مہارت پر زور دیتا ہے تاکہ عربی زبان پر دسترس حاصل کرسکیں اور کلیہ کے مرحلہ میں پہنچ کر لسانی صعوبتوں سے دوچار نہ ہوں۔ کچھ سالوں قبل ایم۔اے (Master) ڈگری کا بھی افتتاح ہوچکا ہے اور طلبہ بی اے کی تکمیل کے بعد بعض شرائط کے ساتھ اس مرحلے میں داخلہ لے سکتے ہیں۔
صحرائے عرب میں اس مینارۂ علم وتحقیق کی اور بہت سی خوبیاں اور کمالات ہیں جنھیں ضبط تحریر میں لانے کے لیے مستقل کتاب کی ضرورت ہے ۔
مختصر یہ کہ سعودی عرب میں ہمہ جہت تعلیمی ترقی کا ماحول شروع ہوچکا ہے ۔حکومت خادم حرمین شریفین اس کے لیے پوری طرح سنجیدہ ہے اور تعلیمی معیار کو اعلیٰ مقام تک پہنچانے اور ورلڈکلاس بنانے کے لیے پوری سخاوت وفیاضی کے ساتھ قائم ودائم ہے۔ جدید عصری علوم وفنون اور ریسرچ وتحقیق کے باوجود دینی تعلیم اور اسلامی علوم وفنون کو کسی بھی حال میں پس منظر میں جانے نہیں دیا گیا بلکہ اپنے ریسرچ وتحقیق کے ساتھ پورے شان وشوکت سے رواں دواں ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مملکت سعودی عرب کو ہمیشہ ترقی، امن، خوشحالی اور دین داری کے ساتھ قائم ودائم رکھے اور حاسدین کے حسد سے بچائے۔ آمین
مراجع:
٭ انسائیکلوپیڈیا عربک
٭ موقع سبق الإلکترونیۃ
٭ سعودی پریس ایجنسی (سیرۃ الملک عبد اللہ)
٭ موقع خادم الحرمین الشریفین الملک عبداللہ بن عبدالعزیز
٭ جریدۃ الریاض
٭ موقع وزارۃ التعلیم العالی (سعودی عرب)
٭ العربیۃ نیٹ
آپ کے تبصرے