یہ شمارہ

ابوالمیزان منظرنما

سعودی عرب کا قومی دن ہر سال 23 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے سعودی عرب پر یہ خصوصی شمارہ پیش خدمت ہے۔ مشمولات میں سعودی عرب کی تاریخ، پوری دنیا میں عموماً اور عالم اسلام میں خصوصاََ اس کا مقام، جغرافیائی اعتبار سے اس کی حیثیت ، معاشی اور معاشرتی لحاظ سے اس کا مرتبہ، مستقبل کے لیے سعودی عرب کے ہمہ جہتی منصوبوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔
سب سے بڑی نعمت اہل اسلام کے لیے اس صفحہ ہستی پر سعودی عرب جیسے ملک کا وجود ہے جس کو بڑے ہی خوبصورت پیرایے میں جناب رشید سلفی صاحب نے بیان کیا ہے۔ بہت بڑے خسارے میں ہیں وہ لوگ جو حق وباطل میں تمیز نہیں کرپاتے اور سعودیہ دشمنی میں جیتے مرتے ہیں۔
یہ شمارہ فری لانسر کی دیرینہ روایت کاحصہ ہے مگر پہلی بار ایسی وقیع ترتیب عمل میں آئی ہے جس کے لیے ہم اپنی مجلس ادارت اور قلم کار دوستوں کے بے حد شکرگزار ہیں۔ ان کے بروقت تعاون کے بغیر یہ ممکن نہ تھا۔
نادان دوست ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ چاہے وہ کسی کے بھی ہوں اور حقیقت یہ ہے کہ ہر کسی کے ہوتے ہیں۔ اس غریب پردھان کے بھی ہوتے ہیں جو چار پانچ گاؤں پر مشتمل ایک گرام پنچایت کا مکھیا ہوتا ہے۔ سعودی عرب کے نادان دوست ہمارے یہاں بھی پائے جاتے ہیں۔ خیرخواہوں کی مزاج مخالف بات پر وہ کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔ اس پر ایک مفصل بات ہونی چاہیے تھی مگر وہ موضوع رہ گیا البتہ سعودی عرب سے نفرت کے اسباب پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ہمارے یہاں ایک طبقہ ایسا پایا جاتا ہے جس کے اندر سیکو لرز م کی \روح سرایت کر گئی ہے۔ ڈیموکریسی کی طرح اکثریت اس کی دعوت کا ٹارگیٹ ہے۔ جس ملک میں پائے گئے سب چھوڑ چھاڑ حکومت بنانے نکلے تھے مگر اب ڈیموکریٹک پارٹیوں کے شانہ بہ شانہ ووٹ مانگتے نظر آتے ہیں۔ بنیاد میں نصوص کی تخفیف کا مزاج تھا جو اب انکار حدیث کی صورت میں جانا پہچانا جاتا ہے۔ خلافت و ملوکیت کی تحقیق اور خلافت سے ملوکیت تک کے سفر کا جائزہ لینے میں جن گستاخیوں کے مرتکب ہوئے ان کی بے برکتی کا نتیجہ یہ نکلا کہ شیعیت اور ایران کی گود میں جاگرے۔ نظر کا قصور ہے کہ سعودی عرب پر بات کرتے ہیں تو یہ اپنی تلاش کردہ خامیوں کا پہاڑ بنادیتے ہیں اور ایران ترکی کی پہاڑ جیسی خانہ خرابیوں پر لب نہیں کھولتے۔ ایسے لوگوں نے سارا ماحول خراب کررکھا ہے۔ اگر کوئی سعودی عرب دوستی میں کسی معاملے میں تشویش کا اظہار بھی کرے تو سعودیہ کے نادان دوست آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں۔ یعنی دشمنی تو دشمنی اب دوستی بھی خیرخواہی سے بے نیاز ہوکر محض حاشیہ برداری کا اظہار ہوتی جارہی ہے۔ یہ اچھا رویہ نہیں ہے۔ یوں بھی ہمارا سماج تقسیم در تقسیم کا شکار ہے، مزید تقسیم کے غیر ضروری اسباب کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
یہ شمارہ کیسا لگا، ہمیں ضرور لکھیں۔
آپ کے تاثرات کا انتظار رہے گا۔

آپ کے تبصرے

3000