امامت کا مستحق کون؟

محمد جاوید عبدالعزیز مدنی فقہیات

محمد جاوید عبد العزیز مدنی

عَنْ أَبِی مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِیِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُہُمْ لِکِتَابِ اللہِ، فَإِنْ کَانُوا فِی الْقِرَاء َۃِ سَوَاء ً، فَأَعْلَمُہُمْ بِالسُّنَّۃِ، فَإِنْ کَانُوا فِی السُّنَّۃِ سَوَاء ً، فَأَقْدَمُہُمْ ہِجْرَۃً، فَإِنْ کَانُوا فِی الْہِجْرَۃِ سَوَاء ً، فَأَقْدَمُہُمْ سِلْمًا، وَلَا یَؤُمَّنَّ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِی سُلْطَانِہِ، وَلَا یَقْعُدْ فِی بَیْتِہِ عَلَی تَکْرِمَتِہِ إِلَّا بِإِذْنِہِ۔ (صحیح مسلم: کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب من احق بالامامۃ ح: ۶۷۳)

ترجمہ: ابو مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ‘‘لوگوں کی امامت وہ کرائے جو کتاب اللہ کا زیادہ پڑھنے والا ہو، پس اگر وہ قرآن کریم کی تلاوت میں برابر ہوں تو وہ امامت کرائے جو سنت کا زیادہ جاننے والا ہو اور اگر وہ سنت میں بھی برابر ہوں تو وہ جو ہجرت میں سب سے پرانا ہو اور اگر ہجرت میں بھی برابر ہوں تو ان میں سب میں پہلے جس نے اسلام قبول کیا ہو، اور کوئی کسی شخص کی سلطنت و ملکیت میں آگے نہ بڑھے اور نہ ہی اس کے گھر میں تکریم والی جگہ میں اس کی اجازت کے بغیر بیٹھے ۔
شرح: شریعت نے جہاں امام کی ذمہ داریاں بتلائی ہیں اور ان کے لیے معاشرہ میں خود ایک خاصا مقام ہوتا ہے تو وہیں یہ بھی متعین کردیا ہے کہ کون امامت کا حقدار ہے۔ اس کا معنی ٰ یہ نہیں کہ دوسرے افراد امامت نہیں کراسکتے یا شریعت نے کچھ اونچ نیچ رکھی ہے، بلکہ مذکورہ حدیث میں جن اسباب کو ذکر کیا گیا ہے ان سب کا جامع یہی ہے کہ انسان کے اندر ورع، تقویٰ اور خشیت الہی پر دلالت کرنے والی جو چیز ہوتی ہے وہ یہ اسباب ہیں۔ گویا کہ امام کو متقی اور پرہیز گار ہونا چاہیے کیونکہ اس کی طرف لوگوں کی نگاہیں ہوتی ہیں اور لوگ اس کو دیکھ کر خود ویسا کرتے ہیں ۔
اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے بتلایا کہ اگر کئی اصحاب فضائل و علماء کی جماعت اکٹھا ہو جاتی ہے تو جو قرآن کو سب میں زیادہ بہتر آواز میں پڑھتا ہو اور زیادہ سے زیادہ پڑھنے والا اور اس کا حافظ ہو وہی ان کی امامت کے لیے آگے بڑھے۔ اور وہ خود اس کا زیادہ حقدار ہے الا یہ کہ وہ کسی اور کو آگے بڑھا دے تو کوئی حرج نہیں۔
اس حدیث میں ‘‘ أَقْرَؤُہُمْ لِکِتَابِ اللہِ’’ کے دو معنی نکلتے ہیں: پہلا تو یہ جس نے قرآن زیادہ یاد کیا ہو۔ جیسا کہ عبد اللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ جب مہاجرین کا پہلا گروہ (قبا ) پہنچا اللہ کے رسول ﷺ کے پہنچنے سے پہلے تو ان کی امامت ابو حذیفہ کے غلام سالم کراتے تھے، اور وہ سب سے زیادہ قرآن یاد کیے ہوئے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ ان میں عمر، ابو سلمہ، زید، عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہم بھی موجود تھے۔ گویا کہ عبد اللہ بن عمر ‘‘قرآن سب سے زیادہ یاد کیے ہوئے تھے’’ کہہ کر ان کو امامت کے لیے آگے بڑھانے کا سبب بتانا چاہ رہے ہیں ۔
اسی طرح سے عمرو بن سلمہ ؓ کہتے ہیں میرے والد اللہ کے نبی کریم ﷺ سے ملاقات کرکے آئے تو انھوں نے کہا: اللہ کی قسم میں تمھارے پاس اللہ کے نبی ﷺ سے سچ مچ ملاقات کرکے آرہا ہوں، اور آپ نے فرمایا ہے: فلاں نماز ایسے اور اس وقت میں پڑھو، فلاں نماز ایسے اور اس وقت میں پڑھو، اور جب نماز کا وقت آئے تو تم میں کا کوئی بھی اذان دے اور جو قرآن زیادہ یاد کیے ہو وہ امامت کرائے۔ عمرو بن سلمہ ؓ کہتے ہیں کہ پھر ان لوگوں نے دیکھا تو مجھ سے زیادہ قرآن کا حافظ کسی کو نہیں پایا لہذا ان لوگوں نے مجھے ہی اپنے آگے کر دیا جب کہ میں چھ یا سات سال کا تھا۔ (بخاری ح: ۴۳۰۲) اس حدیث میں مکمل صراحت ہے کہ امامت کے لیے قرآن کے حافظ کو جس نے زیادہ سے زیادہ یاد کیا ہو آگے بڑھایا جائے گا ۔ اور زیادہ قرآن پڑھنے والے سے مراد بھی یہی ہے۔
دوسرا معنی یہ ہے کہ جس کی آواز سب میں زیادہ اچھی ہو۔ آواز اچھی ہونے کا معنی یہ بھی ہے کہ وہ ہر حرف اور حرکت کو مکمل مخرج اور بہتر طریقے سے ادا کرتا ہو۔ ورنہ موجودہ وقت میں کئی ایسے حفاظ بھی پائے جاتے ہیں جو بالکل غلط انداز سے آیتوں کو پڑھتے ہیں، اور خطا اتنی جلی اور واضح ہوتی ہے کہ معنیٰ کو مکمل بدل دیتی ہے۔اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان ہے:

‘‘أَرْحَمُ أُمَّتِی بِأُمَّتِی أَبُو بَکْرٍ، وَأَشَدُّہُمْ فِی أَمْرِ اللَّہِ عُمَرُ، وَأَصْدَقُہُمْ حَیَاء ً عُثْمَانُ، وَأَقْرَؤُہُمْ لِکِتَابِ اللَّہِ أُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ’’

میری امت کے ساتھ سب سے زیادہ رحم کا معاملہ کرنے والے ابو بکر ہیں، اوراللہ کے معاملے میں سب میں زیادہ سخت عمر ؓ ہیں، اور سب میں سچی حیا والے عثمان ؓ ہیں، اور سب میں زیادہ قرآن کے پڑھنے والے اُبیّ بن کعب ؓ ہیں۔(سنن ترمذی ح: ۳۷۹۱) اور یہ بات معروف ہے کہ ابی بن کعب ؓ کی آواز تمام صحابہ میں سب میں زیادہ پیاری اور خوبصورت تھی۔
اگر ایسے کئی لوگ ایک ساتھ اکٹھا ہوجائیں جو قرآن یاد کرنے میں برابر ہوں مگر کوئی ایک سب میں زیادہ خوبصورت آواز والا ہو تو اسے مقدم کیا جائے گا۔ اور اگر کئی لوگ اچھی آواز والے ہوں مگر حفظ کے اعتبار سے کوئی ایک زیادہ ہو تو احفظ کو مقدم کیا جائے گا۔
یہاں ایک بات سامنے رہے کہ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہر چیز کو اچھے طریقے سے سیکھ لیا کرتے تھے، گویا کہ نماز پڑھنے اور پڑھانے کا طریقہ ہر کوئی جانتا تھا، مگر آج لوگ حافظ ِ قرآن تو بن جاتے ہیں مگر انھیں نماز کے آداب و طریقے نہیں بتائے جاتے جس کی وجہ سے کبھی کبھار وہ بڑی بڑی غلطیاں بھی کرجاتے ہیں ۔
پھر آگے رسو ل اللہ ﷺ نے ذکر کیا کہ اگر تمام لوگ قرأت میں برابر ہوں تو وہ آگے بڑھے جو ساتھ ساتھ سنت کا بھی زیادہ جاننے والا ہو۔ تاکہ نماز کے مکمل احکام و آداب کو خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کرسکے۔عموما دیکھنے میں آتا ہے کہ نماز بعد اگر کسی کو سوال کرنا ہوتو امام کی طرف ہی رجوع ہوتا ہے لہذا فقہ الصلاۃ کے ساتھ ساتھ دوسرے معاملات و مسائل میں بھی دلائل کے ساتھ علم ہونا چاہیے۔ اسی طریقہ سے اگر نماز کے دوران کوئی مسئلہ پیش آجائے تو کیا کرے اور سجدہ سہو کس حالت میں کب کیا جائے؟ یعنی نماز سے پہلے کب کرے اور نماز بعد کب کرے؟ گویا کہ فقہ الصلاۃ سے مکمل واقفیت ہو۔
پھر اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے ہجرت کا ذکر کیا ہے کیونکہ تمام صحابہ ؓ نے ایک ساتھ ہجرت نہیں کیا کچھ پہلے کر لیے تھے کچھ نے بعد میں کیا، اور بعض نے صلح حدیبیہ کے بعد کیا ۔ اور اسی طرح سے اگر کوئی دوسرے زمانہ میں بھی دارِ کفر سے دارِ اسلام کی طرف ہجرت کرتا ہے تو وہ مقدم کیا جائے گا۔ ہجرت اس کے ورع پر دلالت کرتی ہے، ہر آدمی ہجرت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اپنے گھر بار کو اللہ کی خاطر چھوڑنے والا ظاہر ہے دین میں کافی متحمس ہوگا اور اس نے کافی کچھ سیکھا بھی ہوگا جو دوسروں نے سیکھنے کی کوشش نہ کی ہو۔جیسا کہ عوف بن مالک الاشجعی اور مکہ کے بعض دوسرے افراد نے جب ہجرت کا ارادہ کیا تو ان کے بچوں نے انھیں روک لیا کہ ہمیں کہاں چھوڑے جا رہے ہو اور ان کی بیویوں اور بچوں نے آنے نہیں دیا،مگر جب کچھ عرصہ بعد ان لوگوں نے ہجرت کیا اور دیکھا کہ پہلے ہجرت کرنے والے بہت کچھ سیکھ چکے ہیں تو انھیں افسوس ہوا اور اپنے بیوی بچوں کو سزا دینا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمایا۔

‘‘یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِکُمْ وَأَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَکُمْ فَاحْذَرُوہُمْ وَإِنْ تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَحِیمٌ’’

اے ایمان والو! بے شک تمھاری بیویاں اور تمھارے بچے تمھارے لیے دشمن ہیں ان سے ہوشیار رہنا، اور اگر تم معاف کردو اور درگذر کر جاؤ اور بخش دو تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا،مہربان ہے۔(تغابن :۱۴) (ترمذی ح: ۳۳۱۷) معلوم ہوا کہ پہلے ہجرت کرنا یہ زیادہ علم و فقہ کے اسباب میں سے ہے۔
پھر اس کے بعد آپ ﷺ نے جواسلام میں مقدم ہو اسے آگے کرنے کا حکم دیا ہے اور بعض روایات میں ‘‘سِنّاً’’ کا لفظ ہے یعنی عمر میں سب میں زیادہ ہو اسے مقدم کیا جائے اور یہ بات معروف ہے کہ جو عمر دراز ہوتا ہے وہ تجربہ میں بھی زیادہ ہوتا ہے، ساتھ ساتھ اگر وہ قاری، سنتوں کا جاننے والا بھی ہو۔ اسی طرح سے جو پہلے اسلام لایا وہ زیادہ سیکھا ہوگا اور زیادہ علم حاصل کیا ہوگا۔ اور شریعت کے احکامات کو وہ زیادہ سمجھنے والا بھی ہوگا۔
گویا کہ ہجرت ، اسلام میں تقدم کا ہونا اور عمر میں بڑا ہونا یہ فقہ و آداب کے زیادہ ہونے کے اسباب میں سے ہیں۔
پھر نبی کریم ﷺنے ایک قاعدہ بیان کیا کہ اگر کوئی کسی کے یہاں مہمان ہو یا کوئی بڑا عالم کسی کے یہاں جائے تو خود کو بڑا کہہ کر آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرے، کیونکہ یہ اختلافات کو جنم دیتا ہے اور ہر علاقے اور جگہ کے معاملات اور اس کے افراد کا معاملہ وہاں کا امام ہی بہتر طریقہ سے سمجھتا ہے۔ لہذا اس کی اجازت کے بغیر آگے نہ بڑھے۔
کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر مسجد کے امام نے آگے نہیں کیا تو بڑے مولانا صاحب ناراض ہو جاتے ہیں جب کہ علم کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ بندہ متواضع ہو ایسی باتوں پر ناراض ہونا عقلمندی نہیں، امامِ مسجد اپنے علاقے والوں کے حالات اور ان کی سوچ کو جانتا ہے، اور کئی مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ باہر سے آئے ہوئے مہمان عالم کے مقام و مرتبہ کو لوگ سمجھ نہیں پاتے بلکہ لمبی نماز پڑھا دینے، یا کسی رکن کی ادائیگی میں تھوڑے سے وقت کا کم ہوجانے پر وہاں کے افراد بتنگڑ بنا دیتے ہیں جو خفت کا سبب بھی بن جاتا ہے ۔ لہذا جب تک وہاں کا امام اجازت نہ دے خود سے آگے بڑھنے سے شریعت نے روکا ہے ۔
اسی طریقہ سے کسی کی خاص جگہ پر بیٹھنے سے بھی نبی کریم ﷺ نے منع کیا ہے۔ اور یہ بھی دل میں کچھ نہ کچھ بات پیدا کردیتا ہے۔ لیکن حدیث میں خاص گھر کا ذکر ہے جو کہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خاص ملکیت والی جگہ میں سے اگر کسی نے اپنے لیے کوئی جگہ مخصوص کر رکھی ہو تو وہاں نہ بیٹھے، جیسے کوئی کسی کے آفس پر جائے اور اس کے لیے مخصوص کرسی پر بیٹھ جائے جہاں اس نے اپنے خاص اور اہم کاغذات رکھے ہوئے ہیں۔ یا گھر میں ، یا لائبریری میں وہاں بیٹھے جہاں اس نے اپنی مخصوص کتابوں کو پڑھنے کے لیے رکھا ہوا ہو اور مہمان وہاں بیٹھ جائے نہ خود پڑھے اور نہ اسے پڑھنے کا موقع دے۔ بلکہ علماء نے اسے غصب یعنی ناجائز طریقہ سے کسی کی چیز لے لینے کے درجہ میں قرار دیا ہے۔
لفظ ‘‘بیتہ’’ یعنی ملکیت کی قید سے ایک بات اور واضح ہوتی ہے کہ اگر ایسی جگہ ہو جو کسی کی مخصوص ملکیت نہ ہو جیسے مسجد یا تفریحی مقامات وغیرہ اوروہاں کوئی اپنی جگہ خاص کرلے تو ایسا کرنا جائز اور درست نہیں ہے بلکہ وہاں پہلے آنے والا حقدار ہوگا۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ مسجد میں اپنا مصلیّ رکھ کر چلے جاتے ہیں یا کوئی کتاب وغیرہ رکھ دیتے ہیں تاکہ وہ ان کے لیے خاص رہے تو ایسا کرنا جائز اور درست نہیں ہے۔

آپ کے تبصرے

3000