شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری اسلامک سنٹر
(ایک مثالی اور مستحسن قدم)
۲۲؍جولائی ۲۰۱۸ء کو مئو کی شہری جمعیۃ کی دعوت پر راقم نے ’’شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری اسلامک سنٹر ‘‘کے افتتاحی پروگرام میں شرکت کی ۔پروگرام میں مولانا عبدالرحمن رحمانی، ڈاکٹر عبدالعزیز مدنی،شیخ ارشد مختار محمدی،مولانا سرفراز فیضی اور شہر کے سیاسی وسماجی کارکنان کے علاوہ بڑی تعداد میں مختلف مسالک کے علماء اور طلبہ بھی موجود تھے ۔ذیل کی تحریر اسی تقریب سعید میں پیش کی گئی جسے بعض اضافوں اور ترمیمات کے ساتھ ہدیۂ قارئین کیا جارہا ہے۔(رفیق)
شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ رحمانی رحمہ اللہ کے اسم گرامی سے منسوب یہ اسلامک سنٹرمئو کی شہری جمعیت کا ایک مثالی اور مستحسن قدم ہے ۔میں جمعیۃ کے تمام ذمہ داران اور دیگر متعلقین ذی احترام کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ اس سنٹر کو جماعت اہل حدیث کے تمام علمی ودعوتی کاموں کے لیے سنگ میل بنادے اور سنٹر کے محترم ذمہ داروں کے سامنے اس سنٹر کے قیام کے جو بلند مقاصد ہیں ،ان کی تکمیل کا سامان بہم پہنچائے۔آمین
شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ رحمانی رحمہ اللہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں،حدیث کی معروف ومتداول کتاب مشکوۃ المصابیح کی شرح مرعاۃ المفاتیح آج پوری دنیا میں اپنا ایک اہم اور منفردمقام رکھتی ہے۔محدثین کے منہج کی ترجمانی کرنے والی یہ شرح مشکوۃ کی دیگر تمام شرحوں سے فائق اور برتر ہے۔شیخ الحدیث نے دارالحدیث رحمانیہ کے طالب علم اور پھر اسی ادارے میں استاذ کی حیثیت سے جو نمایاں خدمات انجام دی ہیں ،وہ ہماری جماعت کی تاریخ کا روشن باب ہے۔
شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے جس صبر واستقلال،قناعت اور خودداری کی زندگی گزاری ہے اور جس طرح دنیاوحرص وآز سے دور رہ کر آخرت کی فکر کی ہے،وہ ایک کھلی کتاب ہے۔ان کے تلامذہ،احباب،عزیزواقارب اور تمام متعلقین اور منتسبین اس کے گواہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے دلوں میں ان کے لیے جو جگہ بنائی ہے ،وہ اس بات کی دلیل ہے کہ حدیث نبوی کا یہ بے لوث خادم صحیح معنوں میں تعلیمات نبوی کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا۔ان کی مہمان نوازی اور ہر چھوٹے بڑے ،متعارف اور غیر متعارف سے ان کا حسن کردار اور حسن اخلاق ہر شخص کی زبان پر ہے۔سلفی دعوت اور منہج کے ایک مخلص خادم کی حیثیت سے انھوں نے زندگی گزاری ،جماعت کو ہر موڑ پر مناسب مشورے دیے،ملی کاموں میں بھی اپنا اہم کردار ادا کیا اور مسلمانوں کی تعلیمی اور سماجی اصلاح کے لیے امکان بھر سعی وجہد فرمائی۔
مولانا محمد امین اثری اور مولانا عبدالسلام رحمانی رحمہما اللہ کے نام شیخ الحدیث کے خطوط کے دو مجموعے مرتب کرنے کا مجھے شرف حاصل ہے اور کئی ماہ تک میں شیخ الحدیث کے تحریر فرمودہ خطوط کی نقل وترتیب میں مصروف رہا ہوں ،مجھے اندازہ ہے کہ حضرت الشیخ نہ صرف اسلامیات پر عبور رکھتے تھے بلکہ حالات حاضرہ پر بھی ان کی گہری نظر تھی ۔تمام دینی سوالات کے جواب میں کتاب وسنت کی نصوص ان کے پیش نظر ہوتی تھیں۔ مسلمانوں کے درمیان فقہی اختلافات اور ان کی حدود کا بھی انھیں صحیح معنوں میں ادراک تھا۔وہ ملت کے تمام طبقات سے بھی روابط رکھتے تھے اور اپنے امتیازات کو باقی رکھتے ہوئے ان کے ساتھ پورا انصاف کرتے تھے۔
آج جب کہ ان کے نام سے ہم اس سنٹر کا افتتاح ان کے صاحب زادگان مولانا عبدالرحمن رحمانی اور ڈاکٹر عبدالعزیز مدنی حفطہما اللہ کے ہاتھوں کررہے ہیں تو ہمیں یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ آج ملت اسلامیہ کے سامنے کون سے مسائل ہیں جو فوری توجہ کے مستحق ہیں،ہندوستان کے موجودہ سیاسی وسماجی پس منظر میں مسلم قیادت کو کیا کردار ادا کرنا ہے اور اس ملک میں اپنے تہذیبی تشخص کے ساتھ زندہ رہنے اور اس کی تعمیر وترقی میں نمایاں کردار ادا کرنے کے کیا راستے ہیں۔حالات حاضرہ پر اگر مجتہدانہ نظر ہو تو پھر تمام علمی ودینی کا موں کی ترجیحات کا تعین آسان ہوجاتا ہے۔اہل حدیث فکر میں جو اعتدال ہے اور جس طرح وسعت قلبی سے بغیر کسی مسلکی تحفظ کے وہ پیش آمدہ مسائل میں خالص کتاب وسنت کی روشنی میں اپنا لائحۂ عمل ترتیب دیتا ہے ،آج کے حالات میں اس کی سخت ضرورت ہے ۔افسو س کی بات یہ ہے کہ آج ہم اپنی قیمت بھول چکے ہیں اور اس ملک اور ملت اسلامیہ کو جس رہنمائی کی ضرورت ہے،اس کے لیے ہم خود کو تیار نہیں کرپارہے ہیں۔جس طرح تمام مذاہب میں اللہ کا پسندیدہ مذہب صرف اسلام ہے ،اسی طرح تمام مسالک اور نقطہائے نظر میں اہل حدیث منہج ہی فلاح ونجات کا واحد راستہ ہے۔تفہیم کتاب وسنت اور ان کی تطبیق کے جو زریں اصول اس منہج کے پاس ہیں،وہ اصول کسی دوسری جگہ نہیں ملتے۔لیکن!زمانہ بڑے غور سے سن رہا تھا،ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے!!!
اگر آپ اجازت دیں تو میں ملکی تناظر میں اس سنٹر کی ترجیحات سے متعلق چند باتیں عرض کروں ۔الحمد للہ شہر مئو میں ہمارے کئی بڑے تعلیمی ادارے ہیں جن میں ملک کے گوشے گوشے سے طالبان علوم نبوت دینی علوم کے حصول کے مقصد سے موجود ہیں۔یہ سنٹر ان کی اضافی تربیت کا انتظام کرکے انھیں دینی علوم وفنون میں ماہر بناسکتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کے لیے اعلی تعلیم کے مواقع فراہم کرسکتا ہے ۔آج ملک کی کئی ایک یونیورسٹیوں نے طلبائے مدارس کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں،اس سنٹر کے ذریعے ان کی بھرپور رہنمائی کی جاسکتی ہے اور مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے انھیں تیار کیا جاسکتا ہے۔طلبائے مدارس کی اضافی تربیت میں بعض شرعی علوم مثلاًتفسیر،حدیث اور فقہ اسلامی کی تعلیم ہے۔ان علوم کے لیے ایک مختصر کورس تیار کرکے ماہرین فن سے محاضرات دلوائے جائیں جن میں طلبہ شرکت کریں اور پھر ان کے امتحانات لیے جائیں اور ڈپلومہ کے انداز کا سرٹیفکٹ جاری کیا جائے۔یہ اضافی تعلیم ان شاء اللہ ان کی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرے گی اور وہ مستقبل میں ہمارے لیے بہترین مدرس اور مصنف بن سکیں گے۔اگر آپ کی نگاہیں کھلی ہیں اور علمی دنیا پر آپ کی نظر ہے تو آپ محسوس کررہے ہوں گے کہ آہستہ آہستہ ہمارے درمیان علوم شرعیہ کے ماہرین اور متخصصین کی کمی واقع ہوتی جارہی ہے اور بعض ممتاز جامعات ومدارس کو فن کے ماہر اساتذہ نہیں مل پارہے ہیں۔
پورے ملک میں جماعت کے پاس آج بھی کوئی ایسا تصنیفی وتحقیقی ادارہ نہیں ہے جہاں منصوبہ بند طریقے سے جماعت وملت کی ضرورت کے مطابق معیاری کتابیں تیار کی جائیں ۔مثبت اور معروضی کتابوں کی شدید قلت ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلام اور اہل اسلام کے سلسلے میں نہ صرف برادران وطن بلکہ جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کے شکوک وشبہات بڑھتے چلے جارہے ہیں۔اس کی سب سے بڑی مثال مسلم خواتین کے حقوق ہیں۔ملک میں طلاق،حلالہ ،عورت کا دائرۂ کار اور اس کی آزادی کے سلسلے میں جو مکالمہ جاری ہے،اس میں ہم دفاعی پوزیشن میں آچکے ہیں۔مسلکی جکڑبندیوں نے ہمیں مضبوط فیصلہ لینے سے روکے رکھا ہے اور کتاب وسنت کے واضح نصوص کی تفہیم کرانے میں ہم ناکام ہیں۔ہمارے پاس سلفی نوجوان اہل قلم کی پوری ایک ٹیم ہے جو ان دنوں مناسب رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے سوشل میڈیا پر سرگرم ہے ۔سوشل میڈیا علمی سے زیادہ تفریحی ہے ،چٹکلے،لطیفے،طنز ومزاح اور دلوں کو گرمانے والی شاعری میں ہمارے یہ باصلاحیت نوجوان اپنا وقت ضائع کررہے ہیں۔اندیشہ یہ ہے کہ اگر زیادہ دنوں تک یہ سوشل میڈیا پر سرگرم رہے تو ان کا قلم سطحیت کا شکار ہوجائے گا اور پھر علمی وفکری تحریریں ان کی گرفت سے باہر ہوجائیں گی۔وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق صلاحیتوں کا استعمال کرنا ایک اجتماعی ذمہ داری ہے ۔یہ ذمہ داری ہمارے ادارے اور جمعیتوں کو قبول کرنا ہوگی۔
مولانا مختار احمد ندوی رحمہ اللہ کا یہ وطن ہے جنھوں نے نہ صرف مالیگاؤں اور مئو میں تعلیم وتعلم کی ایک دنیا بسادی ہے بلکہ ملک کے کئی ایک گوشوں میں ان کے قائم کردہ ادارے بہ حسن وخوبی اپنی ذمہ داریاں ادا کررہے ہیں۔ملت اسلامیہ کی تعلیمی سطح کو بلند کرنے میں مولانا کا کردار نمایاں رہا ہے اور اللہ کی ذات سے امید ہے کہ اس نے ان کی تمام جہود ومساعی کو ان کے حق میں صدقۂ جاریہ کی حیثیت سے قبول فرمایا ہوگا۔مولانا کے خلف الرشید مولانا ارشد مختارمحمدی حفظہ اللہ نے سنٹر کے قیام اور اس کی تعمیر میں جس طرح پیش قدمی فرمائی ہے ،مجھے امید ہے کہ وہ اپنے عظیم والد گرامی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس سنٹر کو ہمیشہ اپنی نظر میں رکھیں گے اور مئو کی جماعت کے ذمہ داران،یہاں کے اعلی تعلیم یافتہ حضرات اور دیگر سیاسی وسماجی کارکنان اس سنٹر کے لیے جو ترجیحات طے کریں گے ،ان کو عملی جامہ پہنانے اور سنٹر کے کاموں کو آگے بڑھانے میں اپنا تعاون جاری رکھیں گے ۔اللہ برادر محترم کو مزید ہمت وحوصلہ عطا فرمائے ۔آمین
ہماری جماعت کی تاریخ میں آرہ کا مذاکرہ علمیہ خصوصی اہمیت رکھتا ہے جو سال بہ سال منعقد ہوا کرتا تھا۔اس مذاکرے میں عوام نہیں صرف علمائے کرام شرکت فرماتے تھے ۔مولانا شمس الحق عظیم آبادی،مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی،حافظ عبداللہ غازیپوری،شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری اور مولانا ابراہیم آروی وغیرہم ایک ساتھ جمع ہوکر مختلف مسائل پر تبادلہ خیال کیا کرتے تھے۔ اگر اس دور میں اس کی ضرورت محسوس کی گئی تھی تو آج ہم اس طرح کے مذاکرۂ علمیہ کے کہیں زیادہ محتاج ہیں۔خود علماء کے درمیان کتنے مسائل مختلف فیہ ہیں جو بسااوقات عوام کے درمیان انتشار کا باعث بنتے ہیں۔مئو میں بڑی تعداد میں جماعت کے علماء اور ہمارے تعلیمی اداروں کے اساتذہ موجود ہیں،ملک کے دوسرے حصوں سے بھی منتخب علماء کو دعوت دی جائے اور اس طرح مختلف موضوعات اور مسائل پر تبادلہ خیال کے لیے علماء کی جماعت موقع بہ موقع جمع ہوا کرے ۔اس سے باہمی روابط بھی استوار ہوں گے،مسائل کی تنقیح ہوگی اور ہم جماعت اور ملت کی ضرورتوں کو زیادہ احسن طریقے سے پوری کرسکیں گے۔
اس طرح کے سنٹرس اور علمی ودعوتی اداروں کے ساتھ ایک بڑی الجھن یہ پیش آتی ہے کہ شہری اور مقامی جمعیۃ کی انتظامیہ عام طور پر ہر پانچ سال میں تبدیل ہوجاتی ہے اور نئی انتظامیہ کی ترجیحات قدیم انتظامیہ سے مختلف ہوتی ہیں اور پھر جاری علمی کاموں کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے۔یہ ہمارے علمی اداروں کی ایک بڑی کمزوری ہے ،اس سے علمی وتصنیفی کاموں کو نقصان پہنچتا اور وسائل کا ضیاع ہوتا ہے۔اگر مناسب سمجھا جائے تو اس سنٹر کو تنظیمی اختلافات سے دور رکھا جائے اور معتبر علماء کی نگرانی میں سنٹر کے تمام علمی ودعوتی کام بحسن وخوبی انجام پاتے رہیں۔مئو کی جمعیۃ کی اسے سرپرستی اور تائید حاصل رہے۔
سنٹر کی شاندار دو منزلہ عمارت جو وسیع ہال،آفس کے کمروں اور دیگر لوازمات کے ساتھ آراستہ ہے ،مئو کی جمعیۃ کے لیے ایک بڑا تحفہ ہے۔کاش اس طرح کی عمارتیں ہم تمام صوبائی جمعیتوں کے لیے مہیا کرپاتے اور پوری ذمہ داری کے ساتھ ہماری تمام جمعیتیں اپنے سارے علمی اور دعوتی کاموں کو ان کے ذریعے منظم کرپاتیں۔یاد رکھیں !اس طرح کے اجتماعی اور تنظیمی ادارے عام مسلمانوں کی ملکیت ہیں،ان کو اپنی ذاتی اور شخصی خواہشات کی تکمیل کے لیے استعمال کرنا ایک سنگین جرم ہے ۔اجتماعیت کے اپنے اصول اور ضابطے ہوا کرتے ہیں،ان اصولوں اور ضابطوں کی پاسداری ہر چھوٹے بڑے کی دینی واخلاقی ذمہ داری ہے۔بدقسمتی سے ہماری جمعیتیں مشاورت کے دینی شعور اور اس کے تقاضوں سے خالی ہیں ۔نتیجہ ہمارے سامنے ہے،سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔
ایک بار پھر میں سنٹر کے قیام پر تمام متعلقین اور ذمہ داروں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ ہمارے دلوں میں اخلاص پیدا فرمائے اور ہمیں اپنے دین متین کی خدمت کرنے کی زیادہ سے زیادہ توفیق دے۔مولانا ارشد مختار حفظہ اللہ نے اس سنٹر کی تعمیر کے لیے جس خلوص کا مظاہرہ کیا ہے ،وہ اب جماعت کی تاریخ کا حصہ ہے ۔مئو کی جماعت شاید اس خدمت کو کبھی فراموش نہ کرسکے۔اللہ محترم کی عمر وصحت میں برکت عطا فرمائے اور انھیں توفیق دے کہ وہ اپنے والد محترم کی طرح اسی طرح ملت وجماعت کی خدمت کرتے رہیں۔
آپ کے تبصرے