علامہ بدرالدین عینی حنفی (م:855ھ)
اہل سنت والجماعت کا بر حق موقف یہ ہے کہ صحابہ کرام کے اختلافات سے کنارہ کشی اختیار کیا جائے، ان سے حسن ظن رکھا جائے اور ان کے لیے عذر تلاش کیا جائے، اور یہ کہ وہ لوگ مجتہد تھے، کسی معصیت کا قصد کیا اور نہ ہی دنیا داری کا۔’’
(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری)
علامہ ابن ہمام حنفی (م861ھ)
حضرت معاویہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے درمیان جو واقعات پیش آئے ان کی بنا اجتہاد پر تھی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے بارے میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوئی تنازعہ نہ تھا۔’’
( المسایرۃ:،ص:۳۱۴)
ملا علی قاری (م:1014ھ)
‘‘ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ عادل اور صاحب فضیلت صحابہ کرام میں سے ہیں اور ان کا شمار اخیار صحابہ میں ہوتا ہے۔ ’’
(مرقاۃ المفاتیح،ج:۱۱،ص:۲۷۲)
حضرت مجدد الف ثانی (م:1034ھ)
اور قوم (یعنی علمائے اہل سنت ) کی کتابیں خطائے اجتہادی کے اقوال سے بھری ہوئی ہیں جیسا کہ امام غزالی اور قاضی ابو بکر باقلانی رحھمہما اللہ کی تصریحات سے واضح ہیں ، پس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ کرنے والوں کو فاسق یا گمراہ قرار دینا جائز نہیں ہے۔ ’’
(مکتوبات امام ربانی ،دفتر اول مکتوب 251)
علامہ شہاب الدین خفاجی (م:1069ھ)
‘‘ جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کتا ہے۔’’
( نسیم الریاض شرح شفا للقاضی عیاض (خفاجی) ص:۴۷۵)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (م:1176ھ)
‘‘ معلوم ہونا چاہیے کہ معاویہ بن ابی سفیان جناب نبی کریم ﷺ کے اصحاب میں سے ہیں اور فضیلت جلیلہ کے حامل اصحاب میں شامل ہیں، خبردار ! معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں بدگمانی نہ کرنا اور سب و طعن کے چکر میں پڑ کر حرام فعل کا ارتکاب نہ کرنا۔’’
(ازالۃ الخفا عن خلافۃ الخلفا ،ص۱۴۶)
علامہ ابن عابدین (م:1252ھ)
“صحابہ کرام کے درمیان رونما ہونے والے نزاعات میں ہم سکوت اختیار کریں گے کیوں کہ یہ اجتہادی مسئلہ تھا ، اور یہی صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ مجتہدین سمیت اہل سنت والجماعت کا موقف ہے۔ ’’
( تنبیہ الولاۃ والحکام علی احکام شاتم خیر الانام)
حضرت خواجہ شمس العارفین (م:1300ھ)
‘‘حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ کے درمیان جو نزاع اور خصومت واقع ہوئی وہ ازروئے اجتہاد تھی، کسی عناد کی بنا پر نہیں، پس درویش کو چاہیے کہ ان حضرات صحابہ کرام کے حق میں کچھ نازیبا کلام ہرگز نہ کرے۔’’
(مرأۃ العاشقین در ملفوظات حضرت اعلی خواجہ شمس العارفین ، ص:۱۰۹)
مولانا اشرف علی تھانوی (م1362ھ)
‘‘ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خود صحابی ہیں اور ایک صحابی کے فرزند ہیں ، ان کے صحابی ہونے اور ان کی فضیلت اور شان میں کسی کو کلام نہیں مگر کہ وہ شخص رافضی ہو۔’’
(فتاوی امدادیہ ،ص۱۲۳)
مولانا حسین احمد مدنی (م:1957ء)
“ائمہ اہل سنت والجماعت مشاجرات صحابہ کو ‘‘خطائے اجتہادی’’ قرار دیتے ہیں، ’’
(مکتوبات شیخ الاسلام، ج:۳۔ ص:۴۳)
مولانا امین احسن اصلاحی (م:1997ء)
‘‘جب سیدنا عثمان غنی ،سیدنا امیر معاویہ اور اکابر بنی امیہ سے متعلق تاریخی کتابوں میں یہ پاکیزہ مواد بھی موجود ہے تو آخر اس کو نظر انداز کر کے بعض لوگوں نے صرف اس مواد کو جمع کرنے کی کوشش کیوں فرمائی جس سے ان جلیل القدر صحابیوں کی تنقیص ہو سکے، آخر یہ مطالعہ تاریخ کا کون سا انداز ہے کہ غلاظت پسند مکھی کی طرح صرف انہی گندے چھینٹوں پر آدمی کی نظر پڑے جو کسی مفتری نے ہمارے پاکیزہ خصائل اسلاف کے دامن پر اڑائے ہوں۔’’
(سیدنا معاویہ شخصیت اور کردار از حکیم محمود احمد ظفرسیالکوٹی ،ج:۲، ص:۱۰)
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی
حضرت معاویہ ان جلیل القدر صحابہ میں سے ہیں جنہوں نے آںحضرت ﷺ کے لیے کتابت وحی کے فرائض انجام دیے ، حضرت علی کی وفات کے بعد ان کا دور حکومت تاریخ اسلام کے درخشاں زمانوں میں ہے جس میں اندرونی طور پر امن و اطمینان کا دور دورہ بھی تھا اور ملک سے باہر دشمنوں پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی لیکن حضرت معاویہ کے مخالفین نے ان پر اعتراضات و الزامات کا کچھ اس انداز سے انبار لگایا ہے کہ تاریخ اسلام کا یہ تابناک زمانہ سبائی پروپیگنڈے کے گردو غبار میں روپوش ہو کر رہ گیا ہے۔’’
(معاویہ اور تاریخ حقائق، ص:۵)
صحابی جلیل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سے متقدمین و متاخرین علمائے احناف کا یہ واضح موقف ہے جیسا کہ سطور بالا میں ذکر کیا گیا، تو کیوں اب اہل تقلید کا ایک طبقہ اپنے اسلاف کے راستے کو ترک کر کے ایک نئی راہ پر چل رہا ہے؟
آپ کے تبصرے