قوموں کی ہلاکت کی ایک بنیادی وجہ

شکیب الرحمن سلفی

(فَلَوْلاَ کَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِکُمْ أُوْلُواْ بَقِیَّۃٍ یَنْہَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِیْ الأَرْضِ إِلاَّ قَلِیْلاً مِّمَّنْ أَنجَیْْنَا مِنْہُمْ وَاتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ مَا أُتْرِفُواْ فِیْہِ وَکَانُواْ مُجْرِمِیْنَ* وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُہْلِکَ الْقُرَی بِظُلْمٍ وَأَہْلُہَا مُصْلِحُونَ) (سورۃ ھود: ۱۱۶-۱۱۷)

’’پس ان امتوں میں جو تم سے پہلے گزریں،ایسے عقل وبصیرت والے کیوں نہ ہوئے جو زمین میں (لوگوں کو) فساد (پھیلانے) سے روکتے مگر تھوڑے ہی ان میں سے جنھیں ہم نے نجات دی اور جن لوگوں نے ظلم کیا وہ ان چیزوں کے پیچھے لگے رہے جن میں وہ (ظالم) آسودگی دیے گئے تھے اور وہ مجرم تھے ۔اور آپ کا رب ایسا نہیں کہ وہ بستیوں کو ظلم کے ساتھ ہلاک کرے جبکہ ان کے باشندے اصلاح کرنے والے ہوں‘‘۔
سورہ ھود کی ذکر کردہ دو آیتوں میں سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلی قوموں کی تباہی وبربادی کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ ان کے درمیان زمین میں فتنہ وفساد سے روکنے والے صاحب عقل وبصیرت لوگ نہیں تھے، اس سبب سے وہ قومیں عذاب الہی میں گرفتار ہوگئیں اور دوسری آیت میں اس بات کو واضح کیا کہ ہمارا رب کسی بھی بستی کو ظلم کے ساتھ ہلاک کرنے والا نہیں اس حالت میں کہ ان کے درمیان مصلح لوگ موجود ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ ھود کے اندر متعدد اقوام ،ان کے درمیان مبعوث انبیاء ورسل کی دعوت اور ان قوموں کی اپنے انبیاء ورسل کے ساتھ حجت بازی انکار واستہزاء اور بدسلوکی کے معاملے کو اجاگر فرمایا ہے چنانچہ نوح علیہ السلام کی دعوت اور قوم نوح کی ہٹ دھرمی کا تذکرہ کرکے ان کی تباہی وبربادی کو قدرے تفصیل سے آشکارا کیا گیا ہے پھر قوم عاد کی جانب ھود علیہ السلام کی بعثت کا ذکر اور قوم عاد کی تباہی کا تذکرہ ہے، قوم ثمود کی طرف صالح علیہ السلام کا مبعوث ہونا اور قوم کا صالح علیہ السلام کی دعوت توحید کو ٹھکرانے کا واقعہ مذکور ہے پھر اس قوم کی زبردست چیخ کے ذریعہ ہلاکت کی داستان ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتوں کی آمد اور اسحاق ویعقوب کی بشارت کے بعد قوم لوط کی بداعمالی اور اس کے پاداش میں ان کی تباہی کا تذکرہ ہے۔ قوم مدین کی جانب شعیب علیہ السلام کی بعثت ان کی دعوت اور قوم کے نارواسلوک اور اپنی برائی پر اکڑے رہنے کا تذکرہ ہے جس کی وجہ سے وہ عذاب الہی میں مبتلا ہوئے۔ آخر میں موسیٰ علیہ السلام کی بعثت اور موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ فرعون کا معاملہ اور اس کے غرق ہونے کی داستان عبرت ہے۔ ان تمام اقوام کی ہلاکت وبربادی کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا

(وَمَا ظَلَمْنَاہُمْ وَلَکِنْ ظَلَمُواْ أَنفُسَہُمْ فَمَا أَغْنَتْ عَنْہُمْ آلِہَتُہُمُ الَّتِیْ یَدْعُونَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ شَیْءٍ لَّمَّا جَآءَ أَمْرُ رَبِّکَ وَمَا زَادُوہُمْ غَیْرَ تَتْبِیْبٍ) (سورۃ ھود:۱۰۱)

’’اور ہم نے ان لوگوں پر ظلم نہیں کیا اور لیکن انھوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا تو ان کے وہ معبود جنھیں وہ اللہ کے سوا پکارتے تھے ان کے کسی کام نہ آئے جب آپ کے ر ب کا حکم (عذاب) آ پہنچا بلکہ انھوں نے ان کو تباہی میں ہی زیادہ کیا‘‘۔
پھر ان اقوام کی ہلاکت وبربادی کی بنیادی وجہ یہ بیان فرمائی کہ ان کے درمیان زمین میں فساد کرنے سے روکنے والے صاحب عقل وبصیرت لوگوں کا فقدان تھا مگر تھوڑے ہی لوگ فتنہ وفساد سے منع کرنے والے تھے جن کو ہم نے نجات عطا فرمائی اور اس بات کا اعلان فرمادیا کہ پروردگار کسی بھی بستی کو جن میں اصلاح کا فریضہ انجام دینے والے لوگ موجود ہوں انھیں ہلاک وبرباد کرنے والا نہیں ہے۔ رب تعالیٰ کے اس فرمان سے دعوت وتبلیغ، امربالمعروف والنھی عن المنکر ،بھلائیوں کا حکم دینے اور منکرات ،فتنہ وفساد سے منع کرنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے کیوں کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کی انجام دہی کی صورت میں پوری قوم عذاب الہی کی گرفت سے محفوظ رہتی ہے اور اس ارشاد الہی سے دعوت واصلاح کا فریضہ انجام دینے والوں کی اہمیت بھی اجاگر ہوتی ہے کہ ان کے اس عمل کی وجہ سے قوم اللہ تعالیٰ کے عذاب سے مامون ومحفوظ رہتی ہے۔نبی ﷺ کی احادیث میں بھی امر بالمعروف والنھی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے کی تاکید فرمائی گئی ہے اور اس کے ترک پر عذاب کی وعید وارد ہے جیسا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:

’’إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الْمُنْکَرَ فَلَمْ یُغَیِّرُوْہُ أَوْشَکَ أَنْ یَّعُمَّھُمُ اللّٰہُ بِعِقَابِہِ‘‘ (مسند احمد:۱؍۳۱، سنن ابن ماجہ: ۴۰۰۵)

بے شک جب لوگ منکر کو دیکھیں اسے نہ بدلیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو اپنے عذاب کی گرفت میں لے لے۔ جریر بن عبداللہ رضی اللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

’’مَا مِنْ رَجُلٍ یَکُونُ فِيْ قَوْمٍ یَعْمَلُ فِیْھِمْ بِالْمَعَاصِي یَقْدِرُونَ عَلَی أَن یُّغَیِّرُوا عَلَیہِ وَلَا یُغَیِّرُوا إِلَّا أَصَابَھُمُ اللّٰہُ بِعِقَابٍ قَبْلَ أَن یَّمُوتُوا‘‘ (صحیح ابن حبان، درجہ حدیث:حسن)

کوئی شخص ایک قوم کے درمیان رہ کر برائیوں کا ارتکاب کرتا ہو اور قوم کے لوگ اس کے بدلنے پر قدرت کے باوجود نہیں بدلتے (روکنے کی قدرت کے باوجود نہیں روکتے ہیں) تو اللہ تعالیٰ ان کے مرنے سے پہلے انھیں عذاب دے گا۔
فرمان الہی اور ارشادات نبوی سے دعوت وتبلیغ، اصلاح وارشاد، انکار منکر اور ظلم وستم سے روکنے کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ امت کے اندر ایسے افراد تیار کیے جائیں جو عقل وبصیرت اور دانائی وشعور کے ساتھ فریضۂ امر بالمعروف والنھی عن المنکر کو انجام دیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

(وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنفِرُواْ کَآفَّۃً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآءِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُواْ فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنذِرُواْ قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُونَ) (سورۃ التوبۃ:۱۲۲)

اور مومنوں کے لیے مناسب نہیں کہ وہ سب ہی نکل کھڑے ہوں، تو ہرفرقے میں سے ایک گروہ دین میں سمجھ حاصل کرنے کے لیے کیوں نہ نکلے، تاکہ وہ جب اپنے قبیلے میں واپس جائیں تو انھیں خبردار کریں تاکہ وہ لوگ (پیچھے والے بھی اللہ سے) ڈریں۔
آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ ان میں ایک ایسا گروہ ہونا ضروری ہے جو دین کا علم سیکھے، شریعت کی معرفت حاصل کرے اور انذار وخبر دار کرنے کا عمل انجام دے۔
فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ نے آیت کریمہ کی تفسیر کرنے کے بعد آخر میں نہایت ہی وقیع اور اہم نکتہ کو بیان کیا ہے’’نیز اس آیت کریمہ میں ایک اہم فائدہ کی طرف رہنمائی اور نہایت لطیف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے وہ اپنے مصالح عامہ میں سے ہر مصلحت کے لیے کچھ لوگوں کو تیار کریں جو ان مصالح کا انتظام کریں اور ان مصالح کے حصول کے لیے ہمہ وقت جدوجہد کریں اور وہ دیگر امور کی طرف التفات نہ کریں تاکہ ان مصالح کا اچھی طرح انتظام ہو، تاکہ مسلمانوں کے مفادات کی تکمیل ہو اور تمام مسلمانوں کا مقصد ایک ہو اور وہ ہے ان کے دین ودنیا کے مصالح کا قیام، اگرچہ راستے مختلف ہوں، مشرب متعدد ہوں، کام ایک دوسرے سے جدا ہوں مگر مقصد ایک ہو، تمام امور میں یہ عام حکمتِ نافعہ ہے‘‘ (تفسیر السعدی:۲؍۱۱۱۰)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں علم دین سے آراستہ ہو کر عمل صالح اور دعوت واصلاح کا فریضہ انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000