قول وعمل کے تضاد کی خطرناکی

قول وعمل کے تضاد کی خطرناکی

شکیب الرحمن سلفی

(سَبَّحَ لِلَّہِ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الْأَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُیَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَکَبُرَ مَقْتاً عِندَ اللَّہِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ)(سورۃ الصف: ۱ تا ۳)

ترجمہ: آسمانوں اور زمین میں جو مخلوقات ہیں اللہ کی تسبیح کرتی ہیں وہ غالب ہے، حکمت والا ہے۔ اے ایمان والو! ایسی بات کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں۔ اللہ کے یہاں یہ سخت ناپسندیدہ بات ہے کہ تم ایسی بات کہو جو تم کرتے نہیں۔
سورۃ الصف کی ابتدائی تین آیات میں سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آسمانوں اور زمین میں جتنے حیوانات، نباتات اور جمادات ہیں سب اپنے رب کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں اور اپنی قوت وغلبہ اور حکمت ودانائی کی صفت کو بیان فرمایا کہ وہ اللہ بڑا ہی عزیز وقوی ہے جو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز پر غالب ہے اور اس نے تمام موجودات کو اپنی حکمت کے مطابق منظم ومرتب کیا ہے۔ دوسری آیت میں قول وفعل میں تضاد کی بنیاد پر اہل ایمان کی سرزنش کی گئی ہے جبکہ تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو واضح فرمایا کہ ایسی باتوں کا کہنا جس پر خود عمل پیرا نہ ہو اللہ کے نزدیک سخت ناپسندیدہ ہے۔
صحابئ رسول عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اصحاب رسول ﷺ کی جماعت کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو میں نے کہا تم میں سے کون ہے جو رسول اللہ ﷺ کے پاس جائے اور آپ ﷺ سے دریافت کرے کہ کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ لیکن ہم میں سے ہر شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس جاتے ہوئے ڈر رہا تھا۔ اتنے میں ہمارے پاس رسول اللہ ﷺ کا ایک قاصد پہنچا اور ہم میں سے ایک ایک کو بلا کر رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گیا۔ جب ہم سب جمع ہوگئے تو ایک دوسرے کی طرف اشارے کرنے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے ہمارے سامنے ان آیات کی تلاوت فرمائی:

سَبَّحَ لِلَّہِ۔۔۔ مَا لَا تَفْعَلُون (الصف: ۱تا ۳)

پھر آپ نے اس سورت کو اول سے آخر تک مکمل پڑھا‘‘۔

(صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان:۱۰؍۴۵۴،حدیث نمبر:۴۵۹۴،ذکر البیان بأن الجھاد في سبیل اللہ من أحب الأعمال الی اللہ عزوجل) اسنادہ قوي۔

اسلامی شریعت کے اندر جہاں امر بالمعروف والنھی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی کی تاکید کی گئی ہے وہیں اگر لوگوں کو نیکی کا حکم دیا جائے اور خود کو اس نیکی سے دور رکھا جائے، برائیوں سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے اور اس کی شناعت وقباحت کو اجاگر کیا جائے لیکن اپنے نفس کو برائیوں میں ملوث کیا جائے تو ایسے لوگوں کو شدید مذمت بھی بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنواسرائیل کی جن برائیوں کو قرآن میں ذکر کیا اور ان کی سرزنش فرمائی ہے اس میں سے ایک برائی یہ بھی تھی کہ وہ لوگوں کو خیر وبھلائی کا حکم دیتے لیکن خود اس خیر سے تہی دست رہتے۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے:

(أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَکُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْکِتَابَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ)(سورۃ البقرۃ: ۴۴)

کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور بھول جاتے ہو اپنے آپ کو اور تمھارا حال یہ ہے کہ تم کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہو کیا تم سمجھتے نہیں؟ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو عقل وبصیرت سے عاری قرار دیا جو لوگوں کو خیر وبھلائی کا حکم دیتے ہیں مگر خود نیکی کا کام انجام دینے سے کنارہ کش رہتے ہیں کیوں کہ عقل کو عقل اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے ذریعہ فائدہ مند چیز اور خیر وبھلائی کا شعور حاصل کیا جاتا ہے اور نقصان وضرر رساں چیز سے بچا جاتا ہے، عقل انسان کو اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ جس چیز کا حکم دیتا ہے اس پر سب سے پہلے خود عمل کرے اور جس چیز سے روکتا ہے اس کو سب سے پہلے خود ترک کرے۔ اس لیے جو کوئی کسی کو بھلائی کا حکم دیتا ہے اور خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتا، وہ کسی کو برائی سے روکتا ہے اور خود برائی کا ارتکاب کرتا ہے تو یہ چیز اس کی جہالت اور اس کے بے عقل ہونے کی دلیل ہے خاص طور پر جبکہ ایسا شخص اس حقیقت کا علم بھی رکھتا ہو۔ نبی ﷺ نے لوگوں کو خیروبھلائی کا حکم دینے اور اپنے آپ کو محروم رکھنے، عوام کو برائیوں سے اجتناب کی تاکید کرنے لیکن خود کو اس سے دور نہ رکھنے والے کے تعلق سے بدترین قسم کے عذاب کی وعید سنائی ہے۔

’’عَنْ أَبِي زَیْدٍأُسَامَۃَ بْنِ زَیْدِ بْنِ حَارِثَۃَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِﷺیَقُولُ: یُؤْتَی بِالرَجُلِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَیُلْقیٰ فِي النَّارِ، فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابَ بَطْنِہِ فَیَدُورُ بِھَا کَمَا یَدُورُ الْحِمَارُ فِي الرِّحَا، فَیَجْتَمِعُ إِلَیْہِ أَھْلُ النَّارِ فَیَقُولُونَ: یَا فُلَانُ! مَالَکَ؟ أَلَمْ تَکُ تَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْھیٰ عَنِ الْمُنْکَرِ؟ فَیَقُولُ: بَلیٰ! کُنْتُ آمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا آتِیْہِ، وَأَنْھیٰ عَنِ الْمُنْکَرِ وَآتِیْہِ‘‘(بخاری: کتاب بدء الخلق: باب صفۃ النار وأنھا مخلوقۃ: ۳۲۶۷، مسلم: کتاب الزھد: باب عقوبۃ من یأمر بالمعروف ولایفعلہ: ۲۹۸۹)

’’ابو زید اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: روز قیامت ایک شخص لایا جائے گا پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا پس اس کی انتڑیاں باہر نکل پڑیں گی اور وہ ان انتڑیوں کے گرد چکی کے گدھے کی طرح گھومتا رہے گا، تو جہنمی اس کے گرد جمع ہو کر کہیں گے، اے فلاں! یہ تیرا کیا معاملہ ہے؟ کیا تو (دنیا میں) ہمیں اچھی بات کا حکم دیتا اور بری بات سے منع نہیں کرتا تھا؟ وہ کہے گا کیوں نہیں! میں معروف کا حکم دیتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا اور برائی سے منع کرتا لیکن خود وہی کام کرتا تھا۔‘‘حدیث نبوی میں ایسے شخص کے برے انجام کو بیان کیا گیا ہے جس کے قول وعمل میں تضاد تھا وہ لوگوں کو خیر ومعروف کا حکم دیتا لیکن خود کارِ خیر سے دور رہتا تھا، لوگوں کو برائیوں سے منع کرتا مگر خود برائیوں کے ارتکاب سے باز نہیں رہتا تھا۔ قول و عمل کے تضاد پر آیاتِ قرآنی کے ذریعہ مذمت وسرزنش اور نبی ﷺ کا ایسے شخص کے برے انجام کو بیان کرنے میں تمام اہل ایمان اور خصوصاً دعوت وتبلیغ، امامت وخطابت، درس وتدریس، دینی ادارے سے وابستہ حضرات، علماء ودعاۃ، مبلغین ومرشدین، ائمہ وخطباء، اساتذہ ومعلمین ومدرسین کے لیے غور وفکر اور عبرت ونصیحت کا مقام ہے کہ کہیں وہ اس تضاد کے شکار تو نہیں؟۔ ایک داعی کا بنیادی فریضہ ہے کہ اس کے قول وعمل میں اختلاف نہ ہو، جس خیر کی وہ لوگوں کو دعوت دیتا ہے اس سے خود کو محروم نہ رکھے، جس شر سے بچنے کی لوگوں کو نصیحت فرماتا ہے اس سے خود بچنے والا ہو۔ مساجد کے منبر ومحراب سے درس وخطاب، قال اللہ وقال الرسول کی صدائیں بلند کرنے والے ائمہ وخطباء، طلبہ کو زیور علم سے آراستہ کرنے والے اساتذہ اور دعاۃ ومبلغین کا شعار شعیب علیہ السلام کا یہ قول ہو:

(وَمَا أُرِیْدُ أَنْ أُخَالِفَکُمْ إِلَی مَا أَنْہَاکُمْ عَنْہُ )(سورۃ ھود:۸۸)

’’میرا یہ ارادہ بالکل نہیں کہ تمھاری مخالفت کرکے خود اس چیز کی طرف جھک جاؤں جس سے تمھیں روک رہا ہوں‘‘ اسی طرح تمام داعئ حق کا صاف ستھرا کردار

(ِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُراً مِّن قَبْلِہِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ)(سورۃ یونس:۱۶)

’’اس سے پہلے تو ایک بڑے حصۂ عمر تک میں تم میں رہ چکا ہوں پھر کیا تم عقل نہیں رکھتے‘‘ کا آئینہ دار ہو۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو ایمان وعمل صالح کی نعمت سے سرفراز فرمائے اور قول وعمل کے تضاد سے محفوظ رکھے۔ آمین

آپ کے تبصرے

3000