میرا نام بدل دینا …..!

طارق اسعد ادبیات

بچپن میں ہم سب ایک بات بار بار کہتے اور سنتے تھے کہ اگر ایسا نہیں ہوا تو میرا نام بدل دینا، فلاں چیز ایسے نہیں جیسے میں نے کہا تو میرا نام بدل دینا، الخ، بچوں ہی سے نہیں بلکہ بڑوں کے منہ سے بھی یہ بات بارہا بطور چیلنج سنی جاتی ہے۔لیکن شاید ایسا کبھی ہوا نہیں کہ مذکورہ شخص کا چیلنج غلط ثابت ہوا یا اس کی بات جھوٹ نکلی اور پھر اسے اپنا نام بدلنا پڑا ہو، کم از کم ہمارے ناقص علم میں تو اب تک کسی بھائی نے اس طرح کے چیلنج کے بعد اپنے سابقہ نام سے دست برداری کا اعلان نہیں کیا ہے۔ مگر ادھر یوپی کی موجودہ حکومت بر سر اقتدار آنے کے بعد سے برابر اس عمل میں لگی ہوئی ہے، ایسا لگتا ہے کہ سربراہ اعلی نے بچپن میں کسی کو چیلنج کیا تھا کہ اگر فلاں کام یوں نہ ہوا تو میں اپنا نام بدل دوں گا، اور وہ اپنا چیلنج سچ ثابت نہیں کر پائے، مگر چوں کہ ان کی خود کی ایک شناخت ہے اس لیے اپنا نام بدلنا ممکن نہیں، پس اس مقصد کے تحت اپنے زیر اقتدار علاقوں اور شہروں کے نام بدل کر اپنا وعدہ پورا کر رہے ہیں۔

اب مغل سرائے ہی کو لے لیجیے، شاید کبھی مغلوں نے یہاں قیام کیا ہواور ان کی یادگار بھی موجود ہوں، مگر تادم تحریر یہاں کسی مغل کے مقیم ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔ مگر بھلا ہو پنڈت دین دیال اپادھیائے کا جن کی آتما کو شانتی پہنچانے کا اس سے بہترین کوئی اور ذریعہ نہیں تھا کہ اس قدیم ترین علاقہ کو ان کے نام سے معنون کر دیا جائے، ویسے بھی ”مغل سرائے“ ملک میں ”مغل استعمار“ اور ان کے ”بے انتہا مظالم“ کی بار بار یاد دلاتا تھا، مگر بتایا جاتا ہے کہ جب سے اس کا نام بدلا گیا ہے وہاں سے بد روحوں کا خاتمہ ہوگیا اور مغل حکمراں کے سینے پر اب تک سانپ لوٹ رہا ہے ؎
تمھیں لے دے کے ساری داستاں میں یاد ہے اتنا
کہ عالمگیر ہندوکش تھا ظالم تھا ستم گر تھا

ہم نے ایک رکشہ ڈرائیور سے اس”تغیر اسمی“ کے متعلق اس کی رائے جاننی چاہی تو اس نے بڑے غمناک لہجے میں بتایا کہ ”اس سے ہمارا بہت نقصان ہوا، اب سواریوں کو بلانے کے لیے پنڈت دین دیال اپادھیائے کہنے میں منہ سے سارا گٹکھا باہر آجاتا ہے۔“

تازہ ترین اطلاع کے مطابق الہ آباد شہر اب پریاگ راج کے نام سے ہندوستان کے نقشہ پر موجود ہو گا۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ نام بدلنے کے ساتھ ہی یہ شہر بجلی کی رفتار سے ترقی کرے گا۔ بعض حلقوں میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس شہر کی تنزلی کی سب سے بڑی وجہ اس کا نام ہی رہا ہے، برسوں پرانے اس دقیانوسی نام کے سبب یہ شہر آگے نہیں بڑھ سکا۔ پریاگ راج کے نئے نام کے ساتھ ہی یہ علاقہ شہرت اور ترقی کی بلندیوں کو ایسے ہی چھولے گا جیسے پٹرول اور تیل کے دام یا روپیہ کے مقابل میں ڈالر۔ مغل سرائے، الہ آباد اور حضرت گنج کے نام تبدیل کرنے میں تقریبا 3200 کروڑ روپیہ خرچ ہونے کا امکان ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اتنی رقم میں تین لاکھ کسانوں کا قرضہ معاف کیا جاسکتا تھا، مگر اس کی فی الوقت کوئی ضرورت نہیں تھی، کیوں کہ اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں نظر آتا، البتہ نام کی تبدیلی کے ساتھ ہی صوبہ ترقی کے تمام ریکارڈ توڑ دے گا۔ اتنی بڑی دولت کو اس عظیم اور نفع بخش کام میں خرچ کرنے پر حکومت صدہا مبارکباد کی مستحق ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اس علاقے کانام ”الہ آباد“ اکبر نے رکھا تھا، اب یہ کون سے اکبر تھے؟ اکبر الہ آبادی یا اکبر الدین اویسی، یا ایم جے اکبر؟ یا پھر جلال الدین محمد اکبر؟ اکبر الہ آبادی کا ہونا درست نہیں لگتا کیوں کہ ان کے نام کے آگے خود ہی الہ آباد موجود ہے، اگر انھوں نے اس شہر کا نام الہ آباد دیا تھا تو پھر نام دینے سے قبل وہ کس نام سے جانے جاتے تھے؟ اکبر الدین اویسی اور ایم جے اکبر سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ انھوں نے اس شہر کا نام الہ آباد تجویز کیا تھا، کیوں کہ اول الذکر کا تعلق اس علاقہ سے نہیں ہے اور مؤخر الذکر اس وقت ”می ٹو“ مہم کی زد میں ہیں۔ البتہ قرین قیاس ہے کہ مغل بادشاہ اکبر ہی نے اسے یہ نام عطا کیا ہو گا، اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اکبر ایک مغل حکمراں تھا، پنڈت دین دیال اپادھیائے سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔

اس شہر کا نام تبدیل ہونے سے کئی انقلابی تبدیلیاں آئیں گی، اکبر الہ آبادی مرحوم اب اکبر پریاگ راجی کے نام سے جانیں جائیں گے۔ الہ آبادی امرود پریاگ راجی امرود ہو جائے گا، الہ آباد یونیورسٹی اور الہ آباد بینک کے نام بھی اسی طرح سے معنون ہوں گے، بلکہ اکبر کے اس شعر میں بھی تحریف کی جائے گی:
کچھ الہ آباد میں ساماں نہیں بہبود کے
یاں دھرا کیا ہے بجز اکبر کے اور امرود کے

نذیر بنارسی نے یہ شعر کہہ کر الہ آباد جانے کی خواہش ظاہر کی تھی، مگر شاید اب وہ ہوتے تو پریاگ راج جانے کی بہ نسبت اس شعر سے دست بردار ہونا گوارا کرتے، فرماتے ہیں:
بنارس کے ہو تم کو چاہیے تیوہار گھر کرنا
بتوں کو چھوڑ کر تم کیوں الہ آباد جاتے ہو
لیکن ابھی تک ایسی کوئی اطلاع نہیں موصول ہوئی کہ قدیم کتابوں میں جہاں جہاں بھی الہ آباد کا نام موجود ہے وہاں بدل کر پریاگ راج رکھا جائے، اگر ایسا ہوا تو اکبر کا تخلص نسبت سمیت تبدیل ہو ہی جائے گا ساتھ ہی ان کے پورے دیوان پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔ نصاب کا ”شدھی کرن“ ہوگا، اور ان تمام امور میں بڑی رقم خرچ ہو گی۔ لیکن حکومت کے پاس پیسے کی کوئی کمی نہیں ہے، جہاں تیئس سو کروڑ اب تک خرچ کیے جاچکے ہیں سو دوسو کروڑ مزید خرچ کرنے میں کیا مضائقہ ہے؟

2
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
2 Comment authors
newest oldest most voted
Noor Alam

مزاحیہ انداز میں بہترین تبصرہ!!

ھلال ھدایت

بہت خوب
مزاحیہ انداز میں آپ نے بہت ہی عمدہ بات کہی ہے افسوس کہ یوگی جوگی عوام کی ترقی اور ان کی اصلاح پر قیمتی پیسوں کو خرچ کرتا۔