سائنس اور ٹکنالوجی نے ہمیں بہت ساری نعمتوں سے نوازا ہے، ہماری زندگی میں انقلابی تبدیلی پیدا کی ہے، اور ہمیں مختلف ومتنوع سہولتوں سے آراستہ کیا ہے۔ وہ کام جو پہلے ہفتوں اور مہینوں میں بعد از بسیار دقت انجام پایا کرتے تھے اب انھیں منٹوں اور سیکنڈوں میں رو بہ عمل لایا جارہا ہے۔ لیکن دوسری طرف اس کے عوض ہم بہت ساری قیمتی چیزوں سے رفتہ رفتہ محروم ہوتے جا رہے ہیں، سائنسی ترقی کی ہمیں منہ مانگی قیمت بھی ادا کرنی پڑی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ہمیں میگزین اور رسالوں کا بہت شوق ہوا کرتا تھا، مطالعہ کا الگ ہی جنون رہتا تھا، خارجی کتابوں بالخصوص کہانی کی کتابوں سے والہانہ لگاؤ تھا، اردو اکادمی دہلی سے شائع ہونے والا بچوں کا ماہنامہ امنگ سب سے پسندیدہ مجلہ تھا جس کا پورے مہینے شدت سے انتظار رہتا تھا، جب ۵ /تاریخ کو بک اسٹال پر مہینے کا تازہ شمارہ آتا تو اس کے لیے لپک کر جاتے اور جلد از جلد خرید لیا کرتے تھے کہ تاخیر کی صورت میں اسٹاک ختم ہونے کا خدشہ رہتا تھا، امنگ کے علاوہ ہلال، پیام تعلیم، نور، بتول بھی توجہ کا محور ہوا کرتے تھے، دوران تعلیم مدرسہ کی لائبریری سے یہ میگزین برابر ایشو کرا کے مطالعہ کیا کرتے تھے، بعد میں جب ناولوں کا چسکا لگا تو سب سے پہلے ابن صفی کے ناولوں پر ہاتھ صاف کیا اور ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر ان کی ناولیں پڑھیں۔ عنایت اللہ التمش، نسیم حجازی اور اسلم راہی کے تاریخی ناول بھی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ اسلامیات کے مطالعہ کے علاوہ اردو کے ادبی ناول، افسانے، کہانیاں وغیرہ کے اچھے خاصے حصے بھی زیر نظر رہے۔ ان کے علاوہ یومیہ اخبارات میں اس وقت پوروانچل میں اردو کا سب سے معیاری اخبار راشٹریہ سہارا ہو تا تھا، اس کا سنڈے میگزین توجہ کا محور ہوا کرتا تھا، علاوہ ازیں سہارا کا ادارتی صفحہ بھی قابل مطالعہ ہوا کرتا تھا ؎
بچپن نے ہمیں یہ دی ہے شیرینی گفتار
اردو نہیں ہم ماں کی زباں بول رہے ہیں
اس طویل ”خود ستائی“ کا مقصد یہ ہے کہ آج کے بچوں کے بچپن پر نظر ڈالی جائے تو ایک واضح قسم کی تبدیلی نظر آئے گی، آج کا بچپن بھی دیگر امور کی طرح بڑا مصروف ہو گیا ہے جس کے پاس ان سب کاموں کے لیے وقت نہیں ہے، وہ بچپن جسے سونے سے قبل ماں یا دادی سے کہانی سنے بغیر نیند نہیں آتی تھی آج بغیر کارٹون دیکھے نہیں سو سکتا ہے، وہ بچہ جو امنگ، ہلال، پیام تعلیم، نور، بتول پڑھ پڑھ کے اچھی اردو سیکھتا تھا آج ٹیلی ویژن کی اسکرین پر نظریں گاڑے انگریزی لہجوں کی نقالی کرتا ہے، وہ طفل جو گھٹنوں کے بل چل کر گرتا تھا اور میدان جنگ میں شہسوارانہ چلنے کی مشق کرتا تھا اب ویڈیو گیمز پہ مخالف کو موت کے گھاٹ اتار کر تشفی محسوس کرتا ہے۔ واٹس ایپ، فیس بک، ٹوئیٹر ہر ایک پر منفرد اکاؤنٹ رکھنے والا بچہ کل تک کہانیاں پڑھ کے خود کہانیاں لکھا کرتا تھا ؎
حسنؔ مت یاد کر ان صحبتوں کو
سدا یکساں نہیں رہتا زمانہ
ہمارے ایک عزیز کہا کرتے تھے کہ ہم نے چاند کی روشنی میں ابن صفی کے ناول پڑھے ہیں، مجھے بھی یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ بفضلہ تعالیٰ آج جو بھی ٹوٹی پھوٹی اردو معرض تحریر میں آتی ہے وہ سراسر امنگ اور ابن صفی کی قرأت اور اس وقت کے دیگر مجلات ومیگزین کے مطالعہ کا ثمرہ ہے، مجھے یہ فخر نہیں کہ میں نے بہت زیادہ مطالعہ کیا ہے اور بہت زیادہ کتابیں پڑھی ہیں، لیکن مجھے اس بات کی بڑی خوشی ہے کہ میں اس وقت سے بہت پہلے پیدا ہوا جب ابھی اسمارٹ فون اور کمپیوٹر اتنے عام نہیں ہوئے تھے کہ ہر کس وناکس کے ہاتھ میں ہو، چنانچہ اس وقت صرف ایک ہی کام ہوا کرتا تھا، پڑھنا اور صرف پڑھنا، نہ تو ہر دو منٹ پہ واٹس ایپ چیک کرنا رہتا کہ فلاں نے کیا میسج کیا ہے، اور نہ گاہے بگاہے فیس بک پر اپنے اپلوڈ شدہ تصویر پر احباب کے رد عمل کا مشاہدہ کرنا ہوتا تھا۔ اس وقت خالی اوقات کا ایک باوقار مصرف تھا، مطالعہ اورکتب بینی۔ عام طور سے یہ مطالعہ خارج از نصاب ہی ہوا کرتا تھا، اور اللہ کا شکر ہے کہ اس خارجی مطالعہ پر کبھی گھر میں کسی پابندی کا سامنا نہیں کرنا پڑا، ہاں عام طور سے یہ ہوا کرتا تھا کہ جب بہت زیادہ ناول بینی ہونے لگتی تو اک آدھ تنبیہ ضرور ہوتی تھی تاکہ اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ بعض گھرانوں میں البتہ یہ ہوا کرتا تھا کہ جب سرپرست دیکھتے کہ برخوردار ناول یا ڈایجسٹ پڑھ رہا ہے تو کڑی تنبیہ کیا کرتے تھے، میرا خیال ہے کہ آج وہی گھرانے اگر صاحب زادے کو ناول /ڈائجسٹ پڑھتا دیکھیں گے تو شکر منائیں گے کہ بندہ کچھ تو پڑھ رہا ہے اور کم از کم موبائل سے تو نظریں ہٹی ہوئی ہیں۔
ماہرین نفسیات کے مطابق بچوں کا ذہن کورے کاغذ کے مانند ہوتا ہے کہ ہم اس پر جو بھی کندہ کرنا چاہیں وہ نقش کالحجر ہو جاتا ہے۔ بچپن کا مطالعہ اور عہد طفولت کی یاد کردہ چیزیں جلدی بھولا نہیں کرتیں، اس وقت جو مطالعہ کر لیا جاتا ہے اور جتنا زیادہ کر لیا جاتا ہے آگے کی زندگی میں زیادہ تر وہی کل کام آتا ہے۔ یہ مرحلہ ہر قسم کی مصروفیات کو تج کر کے محض مطالعہ اور کتب بینی کا دور ہوتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اس عمر میں ہم نے کتابوں اور مجلوں کی جگہ بچوں کے ہاتھوں میں موبائل اور ٹیبلیٹ تھما دیا اور انھیں ٹی وی و کمپیوٹر کی اسکرین کا عادی بنا دیا تو ان کا ذوق مطالعہ کیوں کر پروان چڑھ سکتا ہے۔ ان کی انگلیاں کتاب کے اوراق پلٹنے کے بجائے موبائل کی اسکرین پر حرکت کریں گی تو معلومات کہاں سے حاصل ہو سکے گی۔ علم کا ذوق وشوق اور کتب خوانی کی اشتہا کے بجائے سوشل میڈیا کی لت اور بچوں کی تعلیمی زندگی میں اس کا غیر معمولی عمل دخل معصوم بچپن کو بری طرح برباد کر رہا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ وہ بچپن جو صرف اور صرف مجلوں، کتابوں، کہانیوں، نظموں، میں صرف ہونا چاہیے تھا وہ اپنا پورا عہد طفولت اسکرین پر برباد کر رہا ہے ؎
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں، اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں
(گلزار)
آپ کے تبصرے