نام میں کیا رکھا ہے!!

ہلال ہدایت سیاسیات

نام میں کیارکھاہے یہ کہاوت بہت پرانی ہوگئی ہے بلکہ اب یہ کہاجائے تو بجا ہوگاکہ نام ہی میں تو سب کچھ رکھاہے، ارے کیوں نہیں جسے دیکھو وہی تو نام کے لیے مر رہا ہے، کوئی اپنا قد خود بڑھا کر نام اونچا کرنا چاہتا ہے تو کوئی کسی کے قد کو نیچا دکھا کر نام کمانا چاہتا ہے۔ تبھی تو کسی نے کہا ہے کہ ’’بدنام نہ ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا‘‘ ۔

بھئی نام ہی سے تو آپ کی پہچان ہے ورنہ آپ بے نام ہوتے تو لوگ آپ کو گڈو، پپو، للو اور پتہ نہیں کس کس نام سے پکارتے ۔ نام ہی تو ہے جس کے لیے زمانہ مر رہا ہے …… اب بولوگے کون مررہا ہے، تو سنو! اب ہم ہندوستانی ہیں اور ہماری نفسیات ہی ایسی ہے کہ نام سن لیں تو دوڑ پڑتے ہیں، اب وہ کیسے ! تو دیکھو … نریندرمودی جی جب ہمارے ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے تو کسی موقع پر جاپان سیر کو گئے اور وہاں کیوٹو شہر پر لوبھ گئے، انھوں نے سوچا کچھ کریں نہ کریں اپنے پارلیمانی حلقے کا نام کیوٹو سے جوڑ دیں۔ خیر ہوا کچھ نہیں ،آج بھی جگہ جگہ گائے اور سانڈ مٹر گشتی کرتے ہوئے مل جاتے ہیں۔ اب گائے رہیں گی تو گوبرسوچھ بھارت کے کھاتے میں تو جمع نہیں ہوگاجہاں چلیں گی پچھواڑا گندہ کرتی جائیں گی۔ نام ہی تو ہے جس کے لیے ہماری سیاست میں ایک ہوڑ سی لگی ہوئی ہے جس کو دیکھو وہ مسلم حکمرانوں کی قبر کھودنے پر تلا ہواہے،بھلا ہو جمہوریت کا کہ انھیں صرف پانچ سال تک تاؤ ملتا ہے ورنہ ان کی نعشوں کو کھدواکرگنگا میں پھینکوادیتے اور یہ نہیں سوچتے کہ اس سے ان کی ماں گنگا بھی متعفن ہوگی۔
خیر ہمیں ایک ایسا پردھان منتری ملاہے جو پچھلوں سے کہیں زیادہ مقبول اور صلاحیت مند ہے جوروزانہ نیا نیاریکارڈ اپنے نام کرنے میں مگن ہے ۔ اب آپ فکرمند ہورہے ہوں گے وہ کیسے!  آپ کس دنیا میں جی رہے ہیں …!  کیا آپ سوشل میڈیا کے عادی نہیں ہیں،کیا آپ گودی میڈیا سے دور ہیں!!!… کیا آپ نے ان کا بھاشن نہیں سنا جس میں وہ کہتے ہیں کہ آزادی کے بعد سے ملک کو کچھ نہیں ملااور جو کچھ ملا اور مل رہا ہے وہ سب انہی کی بدولت ہے۔ہاں اب وہ شاید جانے والے بھی ہوں تاہم ایسے ایسے کارہائے نمایاں اپنے نام کرچکے ہیں کہ دنیا یادکررہی ہے اور کرتی رہے گی۔ نوٹ بندی ،جی ایس ٹی، بلیک منی، رشوت ستانی، دہشت گردی، اسمارٹ سٹی اور بھی ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں وعدے اپنے نام کیے، اب یہ نام والی پوٹلی کون سے مانس آکے کھولیں گے خدا بہتر جانے………
اب ہم نام کمانے میں پیچھے کیوں رہیں کیوں نہ کوئی ایسا کرتوت کرجائیں کہ انسائیکلوپیڈیا کی دنیاہمیں مجبوراً یاد کرے ،تو اس میں بازی مارنے میں آگے نکلے مہاراج جی ۔ ارے وہی مہاراج جی جو کسی زمانے میں مندر میں گھنٹہ بجاتے تھے اورآج پورے ملک کے مسلمانوں کا گھنٹہ بجانے میں کافی دلچسپی لے رہے ہیں ،انھیں مغلوں کے نام سے اتنی چڑھ ہے کہ ممکن ہوتا تو ان کے مقربوں تک کے نام بدلوا دیتے۔ویسے آج بھی جب کسی کے گھر ولادت کی خبر ہوتی ہے خصوصاً ایسے موقع پر جب پہلوٹھی ہو تو گھر والے خوشی کے مارے مولوی صاحب اور پنڈت جی کو نام کرن کے لیے بلاتے ہیں۔ مولوی صاحب ولادت کے دن قریب ہیں کوئی اچھا سانام بتاؤ ،جس کامعنی بھی ٹھیک ٹھاک ہواور صفات بھی اچھی رہیں ۔ اب بھلا ہو یوگی مہارا ج کا ایسا محسوس ہوتا ہے یوپی والوں نے انھیں ترقی اورخوشحالی کے بجائے نام کرن والا پنڈت منتخب کیا ہے۔ آئے دن ناموں کی تبدیلی ایسی ہورہی ہے جیسے یوپی میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہاہے اور ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی ’’کموے ناہی‘‘ ہے۔
ارے بھائی سنو تو صحیح جمائی کیوں آرہی ! یوگی جی نکلے سنیاسی انھیں اولاد اور لڑکن بچن سے کامطلب،اب عمر کے اس پڑاؤ میں داخل ہوچکے ہیں کہ پیچھے وہ مڑ کر دیکھ بھی نہیں سکتے ہیں اس لیے خوش دلی کی خاطر ایک مشغلہ چن لیا ہے کہ ہم اکیلے یہی کریں گے کہ مسلمانوں کے نام سے موسوم جتنے بھی شہر ہیں ان کو مٹا کر یوپی کو بے داغ کردیں گے۔ بالکل ایسے ہی جیسے غنڈوں اور گوشت خوروں سے پاک کردیاہے ۔ انھیں مغلوں سے اتنا خار ہے کہ اگر ممکن ہوتا تو وہ تاریخ کے ایک ایک پنے کو چیتھڑا چیتھڑا کرکے گنگا میں پھینک دیتے۔ مغلوں کی حکمرانی اکیلے ان کے ماتھے پر داغ ہے جسے وہ زبردستی کھرچنا چاہتے ہیں۔ اب یہ تو ممکن نہیں کہ ہر آدمی کے دل سے اس احساس کمتری کو مٹاسکیں اس لیے احساس برتری کا شکارہوچکے ہیں اور فیصلہ کرلیا ہے کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ۔جتنے بھی شہر مسلم ناموں سے موسوم ہیں ان کاشدھی کرن کردیا جائے۔ اب فیض آباد،الہ آباداور مغل سرائے کہنے سے ہماری تاریخ اورتہذیب پر اثر پڑتاہے اور بادل ناخواستہ مسلمانوں کے نام ہماری زبان پر آجاتے ہیں جس سے ہمارے دل پر شدید چوٹ لگتی ہے،اس لیے ایساکریں کہ نام ہی بدل دیں، صفات چاہے جیسے ہوں، گندگی ،بدحالی،بجلی پانی،ٹریفک کا مسئلہ چاہے جتنا ہو ،اس سے سروکارنہیں۔ہاں نام بدل دیں گے سب کچھ بہتر ہوجائے گا،ہماری پرسنشا کی جائے گی اوریوگی یوگی کا نعرہ سن کر من میں خوب لڈو پھوٹیں گے۔
الہٰ آبا د کا نام پریاگ راج رکھ دو اور آنے والی نسل الہٰ آباد کی تاریخ تو پڑھے گی کیونکہ وہ تاریخ کا حصہ ہوچکا ہوگا۔ فیض آباد تو سنے گی لیکن ایودھیا زبان پر رکھے گی۔ اسی بہانے انھیں میرا نام بھی یاد آئے گا کہ کوئی مہان پروش مہاراج تھے جنھوں نے ہمیں شان سے جینے کاحق دلوایاتھا، ورنہ ہم تو برسوں سے مسلمانوں کے بسائے شہر میں جی رہے تھے ، صبح شام مسلم ناموں کو جپتے تھے۔ کہاں جارہے ہو؟الہٰ آباد۔کہاں رہتے ہو؟الہٰ آباد۔کہاں پڑھتے ہو؟الہٰ آباد یونیورسٹی میں۔یوپی ہائی کورٹ کہاں ہے؟الہٰ آباد ۔ الہٰ آباد کہاں ہے وغیرہ وغیرہ۔
اب بھلا بتاؤ کل سے کون الہ آباد کہے گا اور الہٰ آباد لکھے گا۔ کوئی نہیں ! سب لکھیں گے پریاگ راج، پریاگ راج۔ اب ہوئی نہیں برہمنیت کی آواز کہ ہم پورے شان سے پریاگ راج کہیں۔ابھی تک ہمارا اپمان ہورہاتھا کہ پورے ملک میں ہماری اتنی بڑی تعداد ہے اور ہمارے رام جی کے نام سے ایک بھی ضلع اور شہر نہیں ۔ تو چلو فیض آباد کے ساتھ انگریزوں سا سلوک کرتے ہیں اور اشفاق اللہ خان کی طرح اسے جیل میں ڈال دیتے ہیں اور اس کانام مقدس ہندو تیرتھ استھانوں کی فہرست میں ڈال دیتے ہیں۔ اب ہماری آستھا بھی برقراررہے گی اور ہم پورے تزک واحتشام سے فیض آبا د کے بجائے ایودھیا جی کہیں گے۔ نام ہی میں تو سب کچھ رکھا ہے ورنہ مسلم بادشاہوں کو کیا پڑی تھی جو شہر بساتے تو اپنے نام، اپنے کسی خاص کے نام اور اپنے آباء واجداد کے نام سے رکھتے تھے۔ ارے وہ لوگ تو تھے ہی مسلم کٹر سوچ کے؛ تبھی تو انھوں نے اکثریت کا خیال نہیں کیااور ہماری تہذیب کو مٹادی ،ہماری تاریخ کو مسخ کردیاتھا۔ ہم آئے ہیں اس تاریخ کا بدلہ لینے ،ہم سب ناموں کو بدل دیں گے۔ ہماری طاقت دیکھنی ہو تو لکھنؤآجا ؤ، دیکھو ہم نے کیسے حضرت گنج چوراہے کا نام بدل دیا۔ابھی دیکھتے جاؤ اور کتنے نام ہماری فہرست میں شامل ہیں۔
سرخ آنکھ نکال کر منہ میں جھاگ آگیاچپ رہو کوئی ہنگامہ نہیں!!… ہم تو اسی لیے منتخب ہوئے نا کہ ترقی کو آنکھ دکھائیں ،خوش حالی کی پول کھولیں اور بس ایک ہی کام کریں نام بدلنا۔ یوگی جی سے پہلے بھی یوپی کوایک ایسی وزیراعلی مل چکی ہیں جوشاید انتہادرجے کی احساس کمتری کا شکار تھیں ۔ انھوں نے یہ بناڈالی کہ مسلمانوں کی وراثت کو ہڑپا جائے۔ بہت سے مسلم علاقوں، بستیوں اور شہروں کا نام اپنے من چاہے اشخاص کے نام پر رکھا۔ نام میں اگر کچھ نہیں ہوتا تو آخر کیوں یہ لوگ اقتدار پر قبضہ جماتے ہی نام بدلنا شروع کردیتے ہیں؟؟ گراتنی چاہت ہے کسی کے نام کو زندہ جاوید کرنے کی تو کوئی نیا شہر بسالیں، اسکول، کالج اور یونیورسٹی کھول لیں اور پھر جو چاہیں رکھیں اورجب چاہیں بدلیں کس کو پریشانی ہوگی۔

نام بدلنے سے اگر کسی کی تہذیب زندہ ہوتی ہے تویہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ کسی دوسرے کی تہذیب وثقافت کو زبردستی ہتھیانے سے وہ داغدار بھی تو ہوتی ہے۔ اب آپ ہی سوچیں کہ فیض آباد شہر کو اودھ کے پہلے نواب سعادت علی خان نے 1730ء میں آباد کیا تھا،انھوں نے شہر کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد اسے اودھ کا دارالحکومت بنایا لیکن وہ یہاں بہت کم وقت قیام کرسکے۔ ان کی رحلت کے بعد تیسرے نواب شجاع الدولہ نے بھی فیض آباد کو ہی دارالحکومت بنائے رکھا۔ انھوں نے سریو ندی کے کنارے 1764ء میں ایک قلعہ تعمیر کرایا۔ ان کا اور ان کی بیگم کا مقبرہ اسی شہر میں موجود ہے، ان کے دور میں شہر چہار جانب سے پھلا پھولا۔ اس وقت مشرقی اترپردیش میں اس کے مقابل میں کوئی شہر نہیں تھا۔ لیکن چند برس میں 1775ء میں سیاسی وجوہات کی بنا پر اودھ ریاست کا دارالحکومت فیض آباد کے بجائے لکھنؤ بنادیا گیا۔ ریاست کا تمام کاروبار لکھنؤ منتقل ہوگیا۔ 19؍ویں صدی آتے آتے فیض آباد شان و شوکت کھوتا چلا گیا، ملک آزاد ہونے کے بعد اس شہر کو ایک مرتبہ پھر علاقے کا ضلع صدر مقام بننے کا شرف حاصل ہوا۔
اب اگرشجاع الدولہ نے ایک شہر بسایا ،اس کو اپنا دارالحکومت بنایاتو آپ بھی کوئی نیا شہر بساتے اور پنڈت دین دھیال اپادھیائے اور اٹل بہاری واجپئی جی کے نام پر رکھتے ، یہاں تو آپ کی نئی ثقافت زندہ ہوتی، آپ کی شہرت ہوتی ،یوپی کی ترقی ہوتی اور ساتھ ہی یوپی میں ایک اور شہر کے نام کا اضافہ ہوجاتا۔ جب سے یوگی جی نے شہروں کے نام بدلنے کی کمان سنبھالی سوشل میڈیا پر خوب مذاق کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ کوئی کہہ رہاہے کہ اولاد نہیں ہے اس لیے شہروں کا نام رکھ کر خوش ہورہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے انھوں نے اسی کی ڈگری ہی لے رکھی ہے ۔ یوپی کے سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یوگی جی کہیں ان کا نام بھی نہ بدل دیں۔ ایسے ٹرول ہورہے مانو وہ کسی کامیڈی شو کے سردار ہوں، لوگ یہاں تک کہنے لگے ہیں کہ آہستہ آہستہ  کیوں ترقی کررہے ہیں بھارت کا نام ہی بدل دیں ترقی خودبخود قدم چومے گی۔ سوشل میڈیا میں ایک طرف یوگی اوردوسری طرف شاہ رخ خان کو ہیلوایس آرکے اسپیکنگ  یوگی: آج سے تمھار انام شنکر رام کھنہ ہے۔ اس طرح کے بے شمار اہم شخصیات کے ناموں کو چسپاں کر پیش کیاجارہاہے اورخوب وائرل ہورہاہے۔
خیراب دیکھو شدھی کرن کا یہ بھوت کب اترتا ہے خبرہے اعظم گڑھ کو رام گڑھ میں بدلنے کی سوچ رہے ہیں ،اسی کے ساتھ احمدآباد،اورنگ آباد اور عثمان آباد کے نام بدلنے کی سوچ رہے ہیں ،یہ تاریخ کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ اگر انھیں مسلم ناموں سے خار ہے تو علاج کروائیں ۔ ذہنی ،نفسیاتی علاج کیوں کہ کسی کی تہذیب کو قتل کرکے خود اس پر قبضہ کرنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ اس پر مسلمانوں کو احتجاج کرنا چاہیے ورنہ اندلس کی تاریخ کا دوبارہ مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی سپریم کو رٹ کو بھی ازخود اس میں مداخلت کی ضرورت ہے تاکہ کسی شہر کی تاریخ مسخ نہ ہو۔

باقی رہے نام اللہ کا……

آپ کے تبصرے

3000