صحافت ان دنوں پوری دنیا میں حکمراں طبقے کی نظر میں معتوب ہے، ہرجگہ اس کی آزادی پر قدغن لگانے کے ہتھکنڈے آزمائے جارہے ہیں۔ شاہی خاندانوں اور راج گھرانوں میں یہ رواج تھا کہ جو شخص جتنا چاپلوس ہوتا اور بادشاہ کی جتنی تعریفیں کرتا اسے خوب تر انعام واکرام سے نوازا جاتاتھا، رعایا کو بادشاہ سے اور بادشاہ کو رعایا سے یہی لوگ بے خبر رکھتے تھے، بادشاہ تک انہی کی پہنچ ہوتی تھی اور جو چاہتے وہی چیز بادشاہ تک پہنچاتے تھے۔ اب اس کا سہرہ ایک دوسرے طبقے کو جارہا ہے جو وجود میں تو اس لیے آیا تھا کہ عوام کی نمائندگی کرے گا تاہم وہ حکومت کی خوشامد میں منہمک ہوچکا ہے، حالانکہ اس کا فرض منصبی اسے یاد ہے لیکن کہیں مجبوری میں تو کہیں قرض حسنہ کے طور پر ایسا کررہا ہے، یہ طبقہ مخصوص حلقوں میں کافی مقبول بھی رہا ہے اور ہے بھی۔ باوجود اس کے میڈیا کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جو اپنے فرائض کی انجام دہی میں اپنے مخصوص حلقے اور پہچان کے ساتھ ڈٹا ہواہے، یہی میڈیا کامیاب بھی ہے اور اس کی تاریخ یاد رکھی جائے گی، جبکہ تملق باز میڈیا کا دور وقتی ہے اس کی گرفت خاص حلقے تک محدود ہوتی ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ میڈیا گھرانے ہی اصل میں حکمرانوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے وجود میں آتے ہیں تو بجا ہوگا۔ صاحب اقتدار طبقے اس قدر خود ستائی کے شیدائی ہیں کہ عوام کی باتیں ان تک نہیں پہنچ پاتی یا پہنچتی تو ہیں لیکن میڈیا وہی کچھ پروستا ہے جو حکومتیں اور اس کے کارندے چاہتے ہیں۔ اب سال میں ایک بار16؍نومبرکو قومی یوم صحافت تزک و احتشام سے منالینے اور صحافت کی آزادی پر طول طویل تقریر کردینے سے اس کاحق ادا نہیں ہوگا، اس کاعمدہ نمونہ پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
آزادیٔ صحافت اور آزاد میڈیا اصل مسئلہ ہے اور یہ اس وقت تک آزاد نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے پیش نگاہ ذاتی مفاد کے بجائے عوام کو خبر سے باخبر کرنا ہو۔ صحافت کے میدان میں میڈیا گھرانے جب تک تجارت کو مدنظر رکھیں گے اس وقت تک آزاد صحافت کا تصور عنقا ہے کیونکہ انھیں اپنا مفاد درکار ہوگا جو صحافت کے لیے سم قاتل ہے۔ صحافت کی آزادی ایک چیلنج ہے جس کا مقابلہ کرنا اتنا ہی مشکل ہے جتنا کہ سراب کو سر کرنا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ صحافت کی آزادی کے لیے سیدھا چیلنج حکومتوں سے ہے کیونکہ کوئی خبر جو عوام کے مفاد میں ہو اور حکومتوں سے ٹکراؤ کا سبب بن رہا ہو ایسی صورت میں صحافت بمقابلہ حکومت ہوجاتا ہے اور حکومتیں بہر صورت اپنے مفاد کو پیش نگاہ رکھتی ہیں۔
صحافی کا کام ہوتا ہے حکومت تک عوام کی بات پہنچانا نہ کہ حکومت کا پرچار کرنا۔ اگراس نے اپنے فرض کو نظر انداز کرتے ہوئے حکومتی اشتہار بازی کا ٹھیکہ اپنے سر لے لیا تو سمجھ لیا جائے کہ میڈیا کے دن قریب ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے برخلاف پرنٹ میڈیا کا وجود بہت قدیم ہے اور اس کی تاریخ بھی کافی طویل ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ الیکٹرانک میڈیا ابھی عنفوان شباب سے گزر رہا ہے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اب اگر ان ایام میں اس کی نکیل ڈھیلی پڑگئی تو راہ راست سے بھٹکنا لازم ہے۔ پرنٹ میڈیا کی طویل تاریخ اس کی حقیقت اور خوبیوں کی عکاس ہے۔ ملک کی آزادی میں پرنٹ میڈیا نے کافی اہم کردار ادا کیا ہے، بہت سے اخبارات پر بین لگایا گیا بہت سے مدیران کو زندان میں ڈالا گیا تب بھی انھوں نے صداقت وامانت کا دامن نہیں چھوڑا تھا۔ خیر اب وہ دور نہیں، اب ہر شخص آزاد ہے اور اپنے آراء و خیالات میں خود مختار ہے۔
پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ایک تیسرا میڈیا بھی عوام میں کافی مقبول اور مضبوط ہے جسے ہم آپ سوشل میڈیا کے طور پر جانتے ہیں، اس کے ذریعہ کوئی بھی شخص اپنے آراء کا آزادانہ اظہار کرسکتا ہے اور لوگ کربھی رہے ہیں، اس پر نہ تو حکومت سنسرشب لاگو کرسکتی ہے اور نہ اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ حکومتی تملق باز میڈیا کچھ بھی کہے اس کا توڑ اب سماج میں متعارف ہوچکا ہے گرچہ اس کا دائرہ محدود ہے اور رسائی کم لوگوں تک ہے، جبکہ مین اسٹریم میڈیا کادائرہ کار وسیع ہے پھربھی ناامیدی میں امید کی ایک کرن تو ہے ہی۔ میڈیا جب اپنی ذمہ داریوں سے کنارہ کش ہوجائے تو عوام کو خود میدان میں آنا پڑتا ہے اور پوری دنیا میں یہی ہورہا ہے، سوشل میڈیا پر لوگ حکومت کو کوستے ہیں اس کی اسکیموں کے فوائد و نقصانات بیان کرتے ہیں، جو مثبت بھی ہے اور کارآمد بھی۔ علاوہ ازیں کچھ لوکل میڈیا ہاؤسس بھی وجود میں آچکے ہیں جن کا محدود دائرہ کار ہے لیکن عوام کو حقائق سے آگاہی میں غیرمعمولی کردار ادا کررہے ہیں یہ خود مختار ہیں تاہم حکومتی عتاب کی تلوار ان کے گردن پر ہمیشہ لٹکتی رہتی ہے، جب بھی عوام کے حق میں کوئی مثبت پیغام نشر کیا جاتا ہے اور اس میں حکومت کی ناکامی اجاگر ہورہی ہوتی ہے توحکومتوں کے منہ سے جھاگ نکل جاتے ہیں پھر اس پر پابندی عائد کرنے کی کوششیں تیز تر ہوجاتی ہیں، یہ قابل مذمت اور افسوسناک پہلو ہے۔
آخری بات: میڈیا اسی وقت آزاد ہوسکتا ہے جب وہ خود مختار ہو، میڈیا کو اس وقت زک پہنچتی ہے جب وہ کسی کارپوریٹ گھرانے سے منسلک ہو، کیونکہ کارپوریٹ کو اپنے ریٹ کی پڑی ہوتی ہے اپنے مفاد سے اوپر ان کو کچھ سجھائی نہیں دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا پوری دنیا میں حکومتی تملق بازی میں مصروف ہے اور عوام لاچار ہے۔ میڈیا کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے امانت اور دیانت داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو، یہ جانفشانی اور دیانتداری کا متقاضی ہے اور ساتھ ہی ایک خودمختار اور آزاد ادارہ ہونا چاہیے تاکہ کسی کے دباؤ میں کوئی کام یا فیصلہ نہ کرنا پڑے۔ قومی یوم صحافت منانے کے ساتھ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ میڈیا کی کیا ذمہ داری ہے اور اس کے حقوق کیا ہیں؟ میڈیا جمہوریت کے چوتھے ستون کا درجہ رکھتی ہے اسے اپنا وقار برقرار رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان دنوں چاپلوس میڈیا ہاؤسس نے اس کے وقار کو مجروح اور داغدار کیا ہے۔ میڈیا گھرانے بھی اس جانب توجہ دیں کہ انھیں اس راہ میں کیا کچھ بہتری لانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام وخواص کے فکر وفہم کو یقینی بنایا جاسکے، بس میڈیا اپنی ذمہ داری سمجھے باقی سب کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے۔
آپ کے تبصرے