ہارڈ ڈسک کا نیا جنم

ہارڈ ڈسک کا نیا جنم

ڈاکٹر شمس کمال انجم

اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ سانسیں چل رہی تھیں۔ ہونٹ لرز رہے تھے مگر وہ کچھ کہہ نہیں پارہا تھا۔ اس کو دماغی جلطہ (برین ہیمرج) یا دل کا شدید عارضہ (ہارٹ اٹیک) لاحق ہوا تھا۔ وہ کوما میں چلا گیا تھا۔ بات کرنے کی اس میں سکت باقی نہیں تھی۔ اس کی کل طاقت ایک TB تھی۔ اس میں چارسو GB کے قریب data تھا۔ میں نے اسے جیسے ہی کمپیوٹر میں insert کیا اور اسے کلک کیا۔ اس نے لکھ کر بتایا کہ اس سے گفتگو ممکن نہیں۔ اس کے اعضائے رئیسہ کام نہیں کر پارہے ہیں۔ میں نے اسے بار بار eject کیا۔ insert کیا مگر اس نے جواب دینے سے انکار کردیا۔ میں نے اسے دوسرے تیسرے کمپیوٹر کے حوالے کیا مگر اس میں جیسے زندگی کی رمق ہی نہ بچی تھی۔ یہ دیکھ کر میں ششدر رہ گیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ ابھی ایک گھنٹہ قبل میں نے اس سے کئی فائلوں کے حوالے سے تبادلۂ خیالات کیا تھا۔ اپنی کچھ تحریروں پر نظر ثانی کی تھی۔ مگر کیا ہوا کہ اب وہ کرپٹ ہوجانے کا اشارہ دینے لگا۔ کچھ لوگوں سے اس حوالے سے اظہار خیال کیا۔ اب یہ بات طے ہوچکی تھی کہ اسے کوئی شدید عارضہ لاحق ہوا ہے۔
اسی پریشانی کے عالم میں مجھے ہماری یونیورسٹی کے کمپیوٹر اکسپرٹ ’’ڈاکٹر‘‘ گرپریت سنگھ کا خیال آگیا۔ میں اس کے پاس حاضر ہوا۔ اس نے اس کا ٹیکنکل چیک اپ کیا، بلڈ پریشر دیکھا۔ جواب تسلی بخش نہ تھا۔ اس نے اس کا ECG کرنے کی کوشش کی مگر کوئی Response نہیں تھا۔ اس نے کمپنی کے کسی Specialist سے Online رابطہ کیا۔ متعلقہ کمپنی کے کال سنٹر سے کوئی خاتون اکسپرٹ گرپریت سنگھ کو انسٹرکشن دے رہی تھی جسے وہ بڑے دھیان سے Follow کرتے ہوئے ہارڈ ڈسک کو ہوش میں لانے کی کوشش کررہا تھا۔ مگرکوشش بسیار کے باوجود اسے ہوش میں نہیں لایا جاسکا۔ گرپریت سنگھ نے بھی ہاتھ کھڑے کردیے۔ اس نے کہا کہ یہ ہارڈ ڈرسک کرپٹ ہوگیا ہے۔
میں جہاں تھا دم بخود رہ گیا۔ عجیب وغریب کیفیت سے میں دوچار ہورہا تھا۔ اس میں کل چار سو جی بی ڈیٹا تھا۔ بہت ساری چیزوں کا بیک اپ میرے پاس محفوظ تھا لیکن سب سے زیادہ پریشانی کی بات یہ تھی کہ میرے کچھ تازہ مضامین اور کتابوں کے مسودے (کلیات انجم (سات سو صفحات)، نقوش انجم (۱۴۰ صفحات)، حماد انجم کی تنقیدی بصیرت (۴۲۹ صفحات)، مکاتیب حماد انجم (۲۲۰ صفحات) اسی ہارڈ ڈسک میں محفوظ تھے اور ان کا کوئی نسخہ میرے پاس محفوظ نہیں تھا۔ ’’کلیات انجم’’ اور ’’حماد انجم کی تنقیدی بصیرت‘‘ کے مسودوں کو میں نے فائنل کردیا تھا۔ نقوش انجم اور مکاتیب حماد انجم بھی تقریبا فائنل ہونے کے قریب تھے۔ ان مسودوں کا ری کور نہ ہونا میرے لیے سوہان روح ثابت ہوسکتا تھا۔ گرپریت سنگھ نے کسی اور اسپشلسٹ سے رابطہ کیا۔ اس نے بتایا کہ کسی خصوصی سوفٹ ویئر کے ذریعے اس میں موجود فائلوں کو recover کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن اس کے جانبر ہونے کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتے۔
آج جمعہ کا مبارک دن تھا۔ کل ہفتہ اور اتوار کو چھٹی تھی۔ سنگھ نے کہا کہ وہ پیر کے روز جموں سے سوفٹ ویئر لاکر اسے چیک کرنے کی کوشش کرے گا۔ میرے پاس سر تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ یہ دو دن میں نے اپنی ہارڈ ڈسک کے پاس جیسے کسی زندہ لاش کے پاس رہ کر کاٹے۔ منڈے اور گرپریت سنگھ کا انتظار بڑا جاں سوز تھا۔ میں تقکرات کے سمندر میں غرق ہورہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر یہ میری کتابیں Recover نہ ہوسکیں تو پھر کیا کروں گا۔ باقی کتابوں کے کچے مواد میرے پاس موجود تھے مگر نقوش انجم کا ایک لفظ بھی میرے پاس محفوظ نہیں تھا۔ میں جن خدشات اور جن سوالات کے تھپیڑوں سے دوچار ہورہا تھا وہ بڑا کربناک اور تکلیف دہ تھا۔ میں بے انتہا رنج وغم کے عالم میں تھا۔ عذاب کی کیفیت سے دو چار ہورہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر نئے سوفٹ ویئر سے علاج کے باوجود ہارڈ ڈسک کی سانسوں کو بڑھایا نہ جاسکا تو کیا ہوگا؟ میں سوچنے لگا اگر یہ کتابیں Recover نہیں ہوئیں تو کیا ہوگا؟ اگر کسی ادیب یا شاعر کی کوئی تخلیق یا تخلیقات کا مجموعہ گم ہوجائے تو وہ زندگی کیسے بسر کرے گا؟ کیا انھیں پھر سے زندگی کی حقیقت سے آشنا کرپانا ممکن ہوسکتا ہے؟ اگر ہوسکتا ہے تو جو وقت پہلے ان کتابوں کی تالیف وترتیب میں گذرے ہیں ان کا کیا؟ پھر کتنی محنت کرنی پڑے گی؟ محنت کے باوجود کیا ان تمام ضائع شدہ علمی میراث کو حقیقت کا روپ عطا کرنا ممکن ہوگا؟ یہ سب سوالات ایک طرف۔ بے چین روح کو تسلی دینا ایک طرف۔ بڑی دعائیں کی۔ بڑے وظیفے پڑھے۔
اللہ اللہ کرکے Monday کی صبح آئی۔ گرپریت سنگھ مع سوفٹ ویئر اپنے کیبن میں موجود تھا۔ میں کبیدہ خاطر اور امید ونومیدی کے عالم میں وہاں حاضر ہوا۔ اس نے اس ہارڈ ڈسک کو ایک نئے لیپ ٹاپ سے اس طرح connect کیا جیسے کہ اسے ڈائلسس پر رکھ دیا گیا ہو۔ وہ سوفٹ ویئر مسلسل تین گھنٹے تک اس one TB Hard Drive کی مہیب وسعتوں میں اس طرح گردش کررہا تھا جیسے کسی صحرا میں کھوگیا ہو۔ جیسے وہ ’کالے پیڑوں کے گھنے جنگل‘ میں گھس کر سعی لاحاصل کررہا ہو۔ مسلسل تین گھنٹے کے سرچ آپریشن کے بعد ابھی بھی جواب زیرو تھا۔ نہ اسے پھول مل رہے تھے نہ کاٹے۔ نہ کوئی ہمنوا نظر آرہا تھا نہ ہمنشیں۔ کہ اچانک کمپیوٹر اسکرین پر ایک فولڈر کا ہیولا نظر آیا۔ مجھے ایسا لگا جیسے کہ میرے سیٹ لائٹ نے چندرما پر سیف لینڈنگ کرکے سگنل سنڈ کیا ہو۔ مجھے وہی خوشی ہوئی جو کسی گرہ پر کسی سیٹلائٹ کے سیف لینڈنگ کے بعد سائنس دانوں کو ہوتی ہے۔ اس کے بعد پھر آہستہ آہستہ کچھ اور گل ولالہ نظر آنے لگے۔ کمپیوٹر اسکرین پر ہارڈ ڈسک کی سانسوں کی لکیر ذرا ٹیڑھی میڑھی ہونے لگی۔ ادھر اس کی سانسوں کی رفتار بڑھ رہی تھی تو اُدھر میری جان میں جان آرہی تھی مگر خدشات اپنی جگہ تھے۔ میں دعا کررہا تھا کہ یہ میری کتابوں کے مسودے واپس آجائیں۔ Monday کی صبح سے لے کر جمعرات کی صبح دس بجے تک مسلسل پانچ دن روز وشب search آپریشن چلتا رہا۔ فائلیں ری کور ہوتی رہیں۔ کل پانچ دن کی مسلسل اور انتھک جد وجہد کے بعد ہارڈ ڈسک کا ڈائلسس تمام ہوا اور اس نئے سوفٹ ویئر اور تجربے کار ڈاکٹر سنگھ کی دانشمندی سے الحمد للہ وہ تمام ڈیٹا واپس آگیا۔ اللہ کے فضل وکرم سے میری وہ کتابیں بھی ری کور ہوگئیں۔ نہ صرف سارا ڈیٹا اور کتابیں ری کور ہوئیں بلکہ وہ ہارڈ ڈسک جو کل مرض لا علاج کا شکار تھا یوں شفایاب ہوگیا جیسے ابھی ابھی ماں کے پیٹ سے جنم لیا ہو تمام گناہوں، وائرس اور ہر طرح کے ڈیٹا سے پاک صاف۔ چنانچہ میں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اہم مضامین اور کتابوں کو ای میل کے وسیع المشرب ومأکل بطن میں محفوظ کیا اور دعا کیا کہ ایسا کسی بھی شخص کے ساتھ نہ ہو۔
ان تمام افکار پریشاں کے درمیاں میں سوچ رہا تھا کہ ابھی ماضی قریب کی تو بات ہے۔ مصنفین ومولفین اپنے ہاتھوں سے اپنی کتابوں کا فائنل ورزن تیار کرکے کاتب کے حوالے کرتے تھے۔ پھر کتابت شدہ مواد کو پریس کے حوالے کیا جاتا تھا۔ اس وقت تسوید وتبییض تک پہنچتے پہنچتے مولف کے پاس کتاب کے کئی نسخے بن جاتے تھے ۔اگر فائنل نسخہ خدا نہ خواستہ ضائع بھی ہوجاتا تو قدیم نسخوں سے ایک نیا نسخہ بہ آسانی تیار کیا جاسکتا تھا۔ مگر اب ادھر بیس بائیس برسوں میں ٹکنالوجی نے جس سرعت کے ساتھ انقلاب برپاکیا ہے اس نے علمی کارخانوں کے سارے تارو پود بکھیر دیے ہیں۔ اب مولف بیچارہ کمپیوٹر پر لکھتا ہے۔ اسی پر اصلاح کرتا ہے۔ اور پھر فائنل پرنٹ نکالتا ہے۔ خدا نہ خواستہ اگر اس کا بیک اپ تیار نہ ہوسکا تو کبھی کبھی اسے اسی کیفیت سے دوچار ہونا پڑسکتا ہے جس کیفیت سے میں دوچار ہوا۔
بچپن میں جب ہم وعظ سنتے تھے کہ قیامت کے دن سب کے ہاتھ میں سب کا نامۂ اعمال دیا جائے گا تو میں اپنے گاؤں کے کھیتوں کے میدان میں کھڑا ہوکر سوچتا تھا آخر نامۂ اعمال کتنا بڑا ہوسکتا ہے۔ کاغذ کو کس طرح اور کتنا جوڑا جائے گا کہ وہ ستر اسی برسوں کا حساب اس میں لکھا رہے گا۔ کیا ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک اس کی طول وعرض ہوسکتی ہے۔ اگر ہوسکتی ہے تو کیسے؟ مگر اب ورڈ یا ان پیج فائل کو scrole کرکے دیکھ لیجے ایک فائل میں ہزاروں صفحات سما جائیں گے اور اس کی وسعت میں ’مثقال ذرہ ‘ بھی فرق نہیں پڑے گا۔
حالت یہ ہے کہ اب ہمارا سماج اتنا ٹکنالوجی زدہ ہوگیا ہے کہ اب روپیہ بھی پلاسٹک کا چلنے لگا ہے۔ کہاں وہ سونے چاندی اور درہم ودینار کا زمانہ اور کہاں یہ پلاسٹک منی کا دور!! ایک زمانہ تھا کہ گدڑیوں میں لعل بدخشاں چھپے ہوتے تھے مگر اب تو اے ٹی ایم اور کریڈٹ کارڈ میں کروڑوں رکھ لیجیے آپ کو ذرا سا احساس بھی نہ ہوپائے گا کہ آپ صاحب مال وزر بھی ہیں۔ کہاں وہ زمانہ جب کسی جگہ سے دوسری منتقل ہونے کے لیے علماء وادباء اپنی کتابوں کو سینکڑوں گھوڑوں اور اونٹوں پر لاد لاد کر چلتے تھے کہاں اب پی ڈی ایف کا زمانہ۔ ایک دو نہیں ہزاروں لائبریریوں کی کڑوروں کتابوں کو اسی جیسی ہارڈ ڈسک میں محفو ظ کرکے جہاں چاہیں گھومیں۔ پتہ نہیں ہم ارتقا کے دور میں سانس لے رہے ہیں یا یہ ٹکنالوجی ہمیں جاہل بنا رہی ہے۔ پہلے بانس کے قلم سے بچے خوش خطی سیکھتے تھے مگر سنا ہے کہ جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک کی نئی نسل پڑھنا تو جانتی ہے مگر وہ لکھنا نہیں جانتی۔ کمپیوٹر کی حیرت انگیز ترقی میں شاید لکھنے کی ضرورت ہی نہ ہو۔ یا للعجب!! کہاں گیا وہ زمانہ جب تاج محل، لال قلعہ اور قطب مینار کو بنانے میں برسہا برس لگ جاتے تھے اور ہزاروں مزدور اس میں کام کرتے تھے۔ کہاں آج کا یہ سائنسی دور جہاں فلک بوس عمارتوں کی تخلیق وتکمیل میں بس پلک جھپکنے کے لمحات کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔ ابھی ماضی قریب ہی کی تو بات ہے ہمارے آباء واجداد کروڑوں کے حساب کتاب اپنی انگلیوں پر حل کرلیتے تھے۔ مگر آج کا ریاضی داں بغیر کلکولیٹر کے مائنس اور پلس کا بھی حساب کتاب کرنے سے عاجز ہوتا ہے۔ آج کا ٹکنالوجی اکسپرٹ بغیر مشین کے اپنی مہارت کے اظہار سے قاصر ہوتا ہے۔ بھول بھلیا، تاج محل، لال قلعہ، قطب مینار جیسے شاہکار تعمیر کرنے والے بغیر کسی جدید ٹکنالوجی کے یہ کارنامے انجام دیتے تھے مگر اب کمپیوٹر کی مدد سے اینی میشن بنائی جاتی ہے۔ ڈیزائن اور لے آؤٹ تیار کیا جاتا ہے پھر کام کا آغاز کیا جاتا ہے۔ ابھی کچھ دنوں قبل پری فیب عمارتیں بنائی جاتی تھیں مگر اب پری انجینئرنگ عمارتوں کا زمانہ آرہا ہے۔
اللہ اکبر! زمانہ کتنا بدل گیا اور ابھی کتنا بدلے گا۔ ہم نے فضاؤں کو مسخر کرلیا۔ ہم بحر وبر کے مالک بن گئے۔ ہم زیر زمیں میٹرو ٹرین چلا کر عقل والوں کو برزخ کا تصور دے رہے ہیں۔ جہاز اڑاکر معراج نبوت کی تصدیق کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا نے تو حیران کن ترقی کرکے اکیسویں صدی کی سویلائیزیشن کو’’ راساً علی عقب‘‘ الٹ پلٹ دیا ہے۔ جس طرح آج میرے ہارڈ ڈسک میں کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے، کسی وائرس کی وجہ سے چار سو جی بی پر مشتمل ڈیٹا، کتابیں، تصویریں وغیرہ وغیرہ نہ جانے کون کون سی فائلیں نیست ونابود ہوسکتی تھیں مجھے لگتا ہے کہ بعینہ اسی طرح کسی دن دنیا بھر کے کمپیوٹروں میں کوئی خطرناک وائرس بیک وقت داخل ہوگا اور سارے ڈیٹا کی دنیا میں قیامت کا صور پھونک دیا جائے گا۔ دنیا تھم سی جائے گی۔ جہل ونادانی کا پھر سے دور دورہ ہوجائے گا۔ کیا پتہ کوئی دن کبھی ایسا بھی آئے کہ دنیا بھر کے ایٹمی مراکز میں بیک وقت کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے ایسے دھماکے شروع ہوجائیں کہ وہ صور اسرافیل کی تمہید ثابت ہوجائیں۔ اللہ جانے یہ ٹکنالوجی ہمیں کہاں لے جائے گی۔ شاید قیامت تک۔ کہ اسرافیل علیہ السلام کے پاس پوری دنیا کا server ہوگا اور اس میں بس انٹر کلک کرنے کی دیر ہوگی۔ اس کے بعد سب کچھ اللہ بس باقی ہوس ہوکر رہ جائے گا۔ اس لیے ہمیں بہت سارے معاملات میں مشینوں پر بہت زیادہ انحصار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ مشینوں کی حکومت دلوں کے لیے موت کے مترادف ہے۔ یہ آلات ہر طرح سے آپ کو رسپونس دیتے ہیں مگر احساس مروت کو کچلنے میں بھی بے انتہا مہارت رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے بغیر چارہ بھی تو نہیں۔ اس کے بغیر جینا بھی آسان نہیں۔ پھر بھی ہمیں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ اپنے ذہن ودماغ کو حاضر رکھ کر ان آلات کا استعمال کرنا چاہیے۔ تاکہ پھر کسی ہارڈڈسک کی موت واقع نہ ہو!!

آپ کے تبصرے

3000