قرآن کریم کا ترجمہ کوئی آسان کام نہیں۔ اس کے لیے دینی علوم وفنون کی معرفت کے ساتھ ساتھ عربی زبان پر عبور، صرف ونحو کی باریکیوں پر مہارت بھی از بس ضروری ہے ورنہ غلطیوں کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔عربی زبان یا صرف ونحو میں مہارت نہ ہونے کی وجہ سے نادانستہ طور پر ترجمہ غلط بھی ہوجاتا ہے۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ قرآن کے ایک مشہور مترجم ومفسر نے الحمد للہ کا ترجمہ’ تعریف اللہ کے لیے‘ کیا ہے۔ جو کہ غلط ترجمہ ہے کیونکہ الحمد میں لام استغراق کا ہے اور اس کا ترجمہ جیسا کہ سبھی جانتے ہیں تمام تعریف یا سب تعریف اللہ کے لیے ہے ہوگا۔(تازہ ایڈیشن میں اس غلطی کی تلافی کردی گئی ہے) اسی طرح بیشتر مترجمین نے قرآن کریم کی بے شمار آیتوں میں قرآن کریم کی لفظی رعایتوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا ہے۔ مثلا مجہول کے صیغوں کا ترجمہ معروف سے کرنا، من المؤمنین، من المتصدقین، من المنافقین جیسی آیتوں اور ترکیبوں کا ڈائرکٹ ترجمہ کرنا بھی محل نظر ہے۔ایک جیسی آیتوں کے ترجمے میں واضح فرق کا پایا جانا بھی انھی امور سے تعلق رکھتا ہے۔
وہ مقامات جہاں قرآن کریم کے ترجمہ نگاروں سے کوتاہی ہوئی ہے ان میں ایک لفظ اِنّ بھی ہے جسے عربی کے قاعدے کے مطابق تخفیف کرکے اِنْ بنادیا جاتاہے اور اسے اِن مخفّفہ کہا جاتا ہے۔قرآن کریم کی کل تیئیس آیتوں میں اِن مخفّفہ کا استعمال ہوا ہے۔ان تمام آیتوں میں اِن مخفّفہ کا ترجمہ تاکید کے ساتھ کیا جائے گا۔ اردو کے کچھ ترجمہ نگاروں نے اسے اِن مخفّفہ سمجھ کر تاکید کی صراحت کے ساتھ ترجمہ کیا مگر بہت سارے ترجمہ نگار اس باریکی کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ انھوں نے اِن مخفّفہ کا ترجمہ تاکید سے کرنے کے بجائے ان شرطیہ سے کرڈالا یا اسے حالیہ جملہ سمجھ کر حال سے ترجمہ کیا یا اس کا ترجمہ ہی ترک کردیا۔
ڈاکٹر ف عبد الرحیم نے اپنے ایک تحقیقی مقالے میں انگریزی، فرانسیسی اور جرمن زبانوں کے ترجمۂ قرآن کریم میں اِن مخفّفہ کے ترجموں میں وارد ہونے والی کوتاہیوں کی نشاندہی کی ہے۔آپ میرے استاد ہیں۔ ہندوستان کے صوبہ مدراس میں پیدا ہوئے۔ عالم عرب میں تعلیم حاصل کی اور نصف صدی سے زائد عرصے سے سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ سعودی عرب کی مشہور زمانہ اسلامی دانش گاہ الجامعۃ الاسلامیۃ کے کلیۃ اللغۃ العربیۃ میں پروفیسر رہے۔ اس کے بعد شاہ فہد قرآن کریم کمپلکس میں مرکز الترجمات کے مدیر اعلی ہیں۔ عربی کے ماہر لسانیات کی حیثیت سے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ صرف ونحو، فقہ اللغہ، علم اللغہ، علم اصوات میں اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔سات آٹھ زبانوں پرآپ کو عبور حاصل ہے۔ جن میں عربی، اردو، ہندی کے علاوہ فارسی، ترکی، انگریزی، فرانسیسی اور جرمن زبانیں شامل ہیں۔آپ نے اپنے مضمون میںلکھا ہے کہ ا نگریزی ، فرانسیسی اور جرمن زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ کرنے والوں میں سے کچھ لوگوں نے اِن مخفّفہ کو ان شرطیہ یعنی اگر چہ کے مفہوم میں ترجمہ کیا ہے۔
ان مخففہ کے قاعدے کے بارے میں آپ لکھتے ہیں: ’’عربی میں ’’اِنَّ‘‘ ثقیلہ کو ’’اِنْ‘‘ خفیفہ استعمال کرنا جائز ہے۔لیکن جب ’’اِنَّ‘‘ کو مخفف کرکے ’’اِنْ‘‘ بنایا جاتا ہے تو ایسی صورت میں اکثر حالات میں اس کا عمل باطل ہوجاتا ہے اور ہم انّ زیداً قائمٌ کے بجائے انْ زیدٌ قائمٌ کہتے ہیں۔اس حالت میں ’’اِنْ‘‘ کی خبر پر لام داخل کرکے اِنْ مخففہ اور ان نافیہ کے درمیان فرق کیا جاتا ہے۔ اس لام کو لام الفارقۃ کہا جاتاہے ۔
جب ’’اِنَّ‘‘ کومخفف کرکے ’’اِنْ‘‘ْ بنایا جاتا ہے اور اس کے عمل کو باطل کردیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں اس کے بعد اسماء کے ساتھ ساتھ افعال کو بھی داخل کرنا جائز ہوجاتا ہے کیونکہ اس کے بعد اسماء پر اس کے داخل ہونے کی خصوصیت باطل ہوجاتی ہے۔ البتہ اس کے بعد وہ صرف کان واخواتُہا (جیسے افعال ناقصہ) اور ظن واخواتُہا (یعنی افعال مقاربہ) جیسے نواسخ پر ہی داخل ہوتاہے۔ جیسا کہ آیات کریمہ: {وان کانت لکبیرۃ الا علی الذین ہدی اللہ} البقرہ:۱۴۳، {وان کادوا لیستفزونک من الارض} الاسراء:۷۶، {وان وجدنا اکثرہم لفاسقین} الاعراف:۱۰۲ میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ایسی صورت میں مذکورہ بالاافعال ناسخہ کے علاوہ دیگر افعال پروہ بہت کم داخل ہوتا ہے۔ جیسے کہ بعض عربوں کا یہ قول جس میں ان مخففہ نواسخ کے علاوہ پر داخل ہوا ہے: ’’ان یزینک لنفسک وان یشینک لہیہ‘‘ اور یہ شعر:
شَلّت یمینُک ان قتلت لمسلما
حلّت علیک عقوبۃ المتعمِّد
[شرح التسہیل لابن مالک ۲/۳۳۔شرح ابن عقیل ۱/۳۸۲]
اِن مخفّفہ جب فعل پر داخل ہوتا ہے تو اس جز پر جو فعل ناقص یا فعل مقاربہ کی خبر واقع ہو یا فعل تام کا مفعول ثانی ہو، لام فارقہ لایا جاتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل آیتوں میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے:{وان کانت لکبیرۃ} البقرہ:۱۴۳ ، {وان کاد لیضلنا}الفرقان:۴۲، {وان وجدنا أکثرہم لفاسقین}الاعراف:۱۰۲ {وان نظنک لمن الکاذبین}الشعراء:۱۸۶۔ ایسی صورت میں فعل زیادہ تر ماضی ہوتا ہے۔ مضارع کم ہوتا ہے۔ جیسے کہ ان آیتوں میں مضارع استعمال ہوا ہے: {وان یکاد الذین کفروا لیزلقونک}القلم ۵۱، {وان نظنک لمن الکاذبین}الشعراء ۱۸۶ (مغنی اللبیب ص ۳۷)
قرآن کریم میں کل ۲۳مقامات میں فعل پر اِن مخفّفہ داخل ہوا ہے۔ان تمام مقامات میں کان، کاد، وجد اور ظن جیسے نواقص اور نواسخ کا استعمال ہوا ہے۔ان میں سے پندرہ آیتوں میں کان، چھ آیتوں میں کاد، ایک آیت میں وجد اور ایک آیت میں ظن کا استعمال ہوا ہے۔ان تیئیس مقامات میں سے بیس آیتوں میں فعل ماضی اور دو آیتوں میں فعل مضارع استعمال ہوا ہے۔
جن آیتوں میں اِنْ مخفَّفہ کے ساتھ کان آیا ہے وہ یہ ہیں: {وان کانت لکبیرۃ الا علی الذین ہدی اللہ}البقرہ: ۱۴۳، {وان کنتم من قبلہ لمن الضالین} البقرہ :۱۹۸، {وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین}آل عمران: ۱۶۴، {وان کنا عن دراستہم لغافلین}الانعام: ۱۵۶، {وان کنا عن عبادتکم لغافلین}یونس: ۲۹ {وان کنت من قبلہ لمن الغافلین}یوسف:۳، {وان کنا لخاطئین}یوسف: ۹۱، {وان کان اصحاب الایکۃ لظلمین}الحجر:۸۷، {ان کان وعد ربنا لمفعولا}بنی اسرائیل: ۱۰۸، {وان کنا لمبتلین}المؤمنون: ۳۰،{تاللہ ان کنا لفی ظلال مبین}الشعراء :۹۷، {وان کانوا من قبل ان ینزل علیہم من قبلہ لمبلسین}الروم :۴۹، {وان کانوا لیقولون}الصافات: ۱۶۷، {وان کنت لمن السخرین}الزمر:۵۶، {وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین}الجمعہ:۲،
وہ آیتیں جن میں کادَ کا استعمال ہوا ہے یہ ہیں:{وان کادوا لیفتنونک عن الذی أوحینا الیک}بنی اسرائیل: ۷۳، {وان کادوا لیستفزونک من الارض}بنی اسرائیل: ۷۶، {ان کاد لیضلنا عن آلہتنا}الفرقان: ۴۲،{ان کادت لتبدی بہ لولا ان ربطنا علی قلبہا}القصص: ۱۰، {قال تاللہ ان کادت لتردین}الصافات: ۵۶، {وان یکاد الذین کفروا لیزلقونک بابصٰرہم}القلم: ۵۱
وہ آیت جس میں وجد اور ظن کا استعمال ہوا ہے وہ بالترتیب یہ ہیں {وان وجدنا أکثرہم لفٰسقین}الاعراف: ۱۰۲، {وان نظنک لمن الکذبین}الشعراء: ۱۸۶‘‘۔قرآ ن کے ترجمہ نگاروں نے ان آیتوں میں وارد اِنْ مخفَّفہ کے ترجمے میں غلطیاں کی ہیں۔ انھوں نے ان آیتوں میں وارد اِنْ مخفَّفہ کو ان شرطیہ کے معنی میں ترجمہ کیا ہے۔ (دیکھیے مضمون الاخطاء الواردۃ فی بعض ترجمات معانی القرآن الکریم فی ترجمۃ ان المخففہ)
ان کے اس تحقیقی مقالے کو پڑھنے کے بعد میں نے برصغیر میں رائج ہر مسلک کے مشہور ومعتبر ترجموں کا جائزہ لیا تو یہ انکشاف ہوا کہ بیشتر مشہور اردو ترجمہ نگاروں سے وہی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں جو انگریزی، فرانسیسی اور جرمنی زبانوں میں قرآن کے ترجمہ نگاروں سے ہوئی ہیں۔چنانچہ میں نے ان تراجم کا تنقیدی جائزہ لیا جو کہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔قرآن کے ترجمہ نگاروں نے اِنْ مخفَّفہ کے لیے اردو میں تحقیق کہ، یقینا، بیشک، ضروراور واقعی جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔
ذیل میں ہم ان تمام ۲۳ آیتوں کے تراجم کا جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ ان تمام آیتوں میں سے کن کن آیتوں میں ترجمہ نگاروں سے کوتاہی ہوئی ہے۔جن ترجموں کا میں نے جائزہ لیا ان میں شاہ رفیع الدین کے ترجمۂ قرآن مجید کے علاوہ اہل حدیث جماعت کے ترجموں میں مولانا جوناگڈھی کا ترجمہ احسن البیان، مولانا ثناء اللہ امرتسری کا ترجمہ المعروف بہ تفسیر ثنائی، مولانا لقمان سلفی کا ترجمہ تیسیر الرحمن قابل ذکر ہے۔ مسلک دیوبند سے تعلق رکھنے والے ترجموں میں مولانا محمود الحسن کا ترجمہ المعروف بہ تفسیر عثمانی، مولانا اشرف علی تھانوی کا ترجمہ بیان القرآن، مولانا عبد الماجد دریابادی کا ترجمہ تفسیر ماجدی اور جماعت اسلامی کے بانی مولانا ابوالاعلی مودودی کا ترجمہ المعروف بہ تفہیم القرآن، بریلوی مسلک کے بانی مولانا احمد رضاخان کے ترجمے کے علاوہ لفظی اور بامحاورہ ترجمہ کرنے والے حافظ نذر محمد کا ترجمہ قابل ذکر ہے۔آئیے اب ہم ان کے ترجموں کو ملاحظہ کرتے ہیں:
۱۔{وَاِن کَانَت لَکبِیرَۃ اِلاّ عَلَی الّذینَ ہَدَی اللّہ}البقرہ آیت نمبر ۱۴۳
اور البتہ ہے یہ بڑی بات مگر اوپر ان لوگوں کے کہ راہ دکھائی ان کو اللہ نے۔(ترجمہ شاہ رفیع الدین)
گو یہ کام مشکل ہے، مگر جنھیں اللہ نے ہدایت دی ہے (ان پر کوئی مشکل نہیں)۔(تفسیر احسن البیان)
اس میں شک نہیں کہ یہ (انقلاب کعبہ) بہت دشوار ہے مگر ایسے لوگوں پر دشوار نہیں جن کو خدا نے راہنمائی کی ہو۔(تفسیر ثنائی)
اور اسے قبول کرنا بہت ہی بھاری گذر رہا تھا، سوائے ان لوگوں کے جنھیں اللہ نے ہدایت دی۔(تیسیر الرحمن)
اور بیشک یہ بات بھاری ہوئی مگر ان پر جن کو راہ دکھائی اللہ نے۔ (تفسیر عثمانی)
اور یہ قبلہ کا بدلنا (منحرف) لوگوں پر ہوا بڑا ثقیل (ہاں) مگر جن لوگوں کو اللہ تعالی نے ہدایت فرمائی ہے۔(بیان القرآن)
اور یہ حکم بہت گراں ہے، مگر ان لوگوں کو نہیں جنھیں اللہ نے راہ دکھادی ہے۔(تفسیر ماجدی)
یہ معاملہ تھا تو بڑا سخت، مگر ان لوگوں کے لیے کچھ بھی سخت نہ ثابت ہوا جو اللہ کی ہدایت سے فیض یاب تھے ۔(تفہیم القرآن)
اور بیشک یہ بھاری تھی مگر ان پر ،جنھیں اللہ نے ہدایت کی۔(کنز الایمان)
اور یہ بات یعنی تحویل قبلہ لوگوں کو گراں معلوم ہوئی مگر جن کو اللہ نے ہدایت بخشی ہے وہ اسے گراں نہیں سمجھتے۔(ترجمہ حافظ نذرمحمد)
مولانا امرتسری، مولانا محمود الحسن اور مولانا احمد رضا خا ن کے علاوہ کسی بھی مترجم نے آیت کریمہ میں وارد اِن مخفّفہ کی طرف دھیان نہیں دیا ۔ مذکورہ بالا مترجمین نے اِن مخفّفہ کا ترجمہ البتہ، اس میں شک نہیں اور بیشک سے کیا۔ شاہ صاحب نے بیشک کے بجائے لفظ البتہ کا استعمال کرکے تاکید کا مفہوم پیدا کرنے کی کوشش کی مگر یہ البتہ لام الفارقہ کا ترجمہ ہے اِنْ مخفَّفہ کانہیں۔باقی ترجمہ نگاروں نے اِن مخفّفہ کے ترجمے کی طرف بالکل دھیان ہی نہیں دیا اور اس کا ترجمہ ترک کردیا۔مولانا جوناگڈھی نے اِن مخفّفہ کا ترجمہ گو سے کرکے گویا کہ اسے ان شرطیہ بناڈالا۔
۲۔{وَاذْکُرُوہُ کَمَا ہَداکُم وَاِن کُنتُم مّن قَبلِہِ لَمِنَ الضّالّین }البقرہ آیت نمبر۱۹۸
اور یاد کرو اس کو جیسا ہدایت کیا تم کو، اور تحقیق تھے تم اس سے پہلے البتہ گمراہوں سے۔ (ترجمہ شاہ رفیع الدین)
اور اس کا ذکر کرو جیسے کہ اس نے تمھیں ہدایت دی، حالانکہ تم اس سے پہلے راہ بھولے ہوئے تھے۔(تفسیر احسن البیان)
اس کو اسی طرح یاد کرو جیسااس نے تم کو بتلایا ، تم اس سے پہلے گمراہ تھے۔ (تفسیر ثنائی)
اور اسے یاد کرو جیسا کہ اس نے تمھیں ہدایت دی ، اگر چہ تم اس سے پہلے راہ بھٹکے ہوئے تھے۔ (تیسیر الرحمن)
اوراس کو تم یاد کرو جس طرح تم کو سکھلایا اور بیشک تم تھے اس سے پہلے ناواقف۔ (تفسیر عثمانی)
اور اس طرح یاد کرو جس طرح تم کو بتلا رکھا ہے (نہ یہ کہ اپنی رائے کو دخل دو)اور حقیقت میں قبل اس کے تم محض ہی ناواقف تھے۔ (بیان القرآن)
اور اس کا ذکر اس طرح کرو جیسا اس نے تمھیں بتایا ہے۔ اور اس سے قبل تم یقینا محض ناواقفوں میں تھے۔ (تفسیر ماجدی)
اوراس طرح یاد کرو جس کی ہدایت اس نے تمھیں دی ہے، ورنہ اس سے پہلے تم لوگ بھٹکے ہوئے تھے۔ (تفہیم القرآن)
اور اس کا ذکر کرو جیسے اس نے تمھیں ہدایت فرمائی اور بے شک اس سے پہلے تم بہکے ہوئے تھے۔ (کنز الایمان)
اوراللہ کو یاد کرو جیسے اس نے تمھیں ہدایت دی اور اگرچہ اس سے پہلے تم ناواقفوں میں سے تھے۔(ترجمہ مولانا نذر محمد)
شاہ رفیع الدین ، مولانا محمود الحسن،مولانا تھانوی،مولانادریابادی،مولانا احمد رضا خان نے اس آیت کا صحیح ترجمہ کیا۔مولانا لقمان سلفی، مولانا مودودی اور حافظ نذر محمد نے آیت میں وارد اِن مخفّفہ کو ان شرطیہ کے مفہوم میں ترجمہ کیا اور اس کے لیے انھوں نے اگر، اگر چہ اور ورنہ جیسے الفاظ استعمال کیے جبکہ مولانا جوناگڈھی نے حالیہ جملہ بناتے ہوئے اِن مخفّفہ کا ترجمہ حالانکہ سے کیا جوکہ محل نظر ہے۔ مولانا امرتسری نے اِن مخفّفہ کی طرف دھیا ن نہیں دیا اوراُن سے اِنْ کا ترجمہ چھوٹ گیا۔لفظ ضالین کا ترجمہ راہ بھولے ہوئے (جوناگڈھی)بہکے ہوئے (احمد رضا خان) اور ناواقف (مولانا محمود الحسن، مولانا تھانوی، حافظ نذر محمد) بھی عجیب وغریب ہے۔واضح ہو کہ ان تمام مترجمین نے اسی لفظ کا ترجمہ آل عمرا ن کی آیت نمبر ۱۶۴ میں گمراہی سے کیا ہے جو کہ لفظ ضالین کادرست اور بلیغ متبادل ہے۔
۳۔ {وَاِن کَانُوا مِن قَبلُ لَفِی ضَلٰل مّبِین} آل عمران آیت نمبر۱۶۴
اور تحقیق تھے پہلے اس سے بیچ گمراہی ظاہر کے۔ (ترجمہ شاہ رفیع الدین)
یقینا یہ سب اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ (تفسیر احسن البیان)
ورنہ پہلے تو سخت غلطی میں تھے۔ (تفسیر ثنائی)
اوراس سے پہلے وہ لوگ کھلی گمراہی میں تھے۔ (تیسیر الرحمن)
اور وہ تو پہلے سے صریح گمراہی میں تھے۔ (تفسیر عثمانی)
اوربالیقین یہ لوگ قبل سے صریح غلطی میں تھے۔ (بیان القرآن)
اور بیشک یہ لوگ کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا تھے۔ (تفسیر ماجدی)
حالانکہ اس سے پہلے یہی لوگ صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔ (تفہیم القرآن)
اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ (کنز الایمان)
اور بیشک وہ اس سے قبل البتہ کھلی گمراہی میں تھے۔( ترجمہ حافظ نذر محمد)
مولانا امرتسری، مولانا لقمان سلفی، مولانا محمود الحسن اورمولانا مودودی کے علاوہ تمام مترجمین نے اس آیت کا صحیح ترجمہ کیا۔ شاہ صاحب نے تحقیق ، مولاناجوناگڈھی نے یقینا، مولانا تھانوی نے بالیقین ، مولانا دریابادی اور حافظ نذر محمد نے بیشک تو مولانا احمد رضا خان نے ضرور جیسے الفاظ لاکر تاکید کا مفہوم پیدا کرنے کی کوشش کی۔مولانا لقمان سلفی اور مولانا محمود الحسن نے آیت میں وارد اِن مخفّفہ کی طرف دھیان نہیں دیا اور اس کا ترجمہ ترک کردیا۔ مولانا امرتسری نے اِن مخفّفہ کا ترجمہ ان شرطیہ سے کیا تو مولانا مودودی نے حالانکہ لفظ استعمال کرکے اس آیت کو حالیہ جملہ بناڈالا۔ عجیب بات یہ ہے کہ مولانا امرتسری نے اس آیت میں وارد لفظ ضلال کا ترجمہ ’غلطی‘ کیا ہے جب کہ اس سے پہلی والی آیت میں انھوں نے اسی لفظ کا ترجمہ’گمراہ‘ کیا ہے۔
۴۔ {وَاِنْ کُنّا عَن دِرَاسَتِہِم لَغٰفِلِین} الانعام آیت نمبر۱۵۶
اور تحقیق تھے ہم پڑھنے ان کے سے البتہ غافل۔ (ترجمہ شاہ رفیع الدین)
اور ہم ان کے پڑھنے پڑھانے سے محض بے خبر تھے۔ (تفسیر احسن البیان)
اور ہم کو مطلقا ان کی تعلیم سے آگاہی نہ تھی۔ (تفسیر ثنائی)
اور ہم ان کے پڑھنے کی زبان سے ناواقف تھے۔ (تیسیر الرحمن)
اور ہم کو تو ان کے پڑھنے پڑھانے کی خبر ہی نہ تھی۔ (تفسیر عثمانی)
اور ہم ان کے پڑھنے پڑھانے سے محض بے خبر تھے۔ (بیان القرآن)
اور ہم تو ان کے پڑھنے پڑھانے سے نرے بے خبر ہی رہے۔ (تفسیر ماجدی)
اور ہم کو کچھ خبر نہ تھی کہ وہ کیا پڑھتے پڑھاتے تھے۔ (تفہیم القرآن)
اور ہمیں ان کے پڑھنے پڑھانے کی کچھ خبر نہ تھی۔ (کنز الایمان)
اوریہ کہ ہم ان کے پڑھے پڑھانے سے بے خبر تھے۔ (مولانا نذر محمد)
شاہ رفیع الدین اور مولانا امرتسری کے علاوہ کسی نے بھی اس آیت کا صحیح ترجمہ نہیں کیا۔ مولانا امرتسری نے بہ صراحت تاکید کا ترجمہ نہیں کیا البتہ انھوں نے لفظ مطلقا لاکر تومولانا محمودالحسن اور مولانا دریابادی نے لفظ ’ہی‘لاکر تاکید کا مفہوم اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ باقی مترجمین نے آیت میں وارد اِن مخفّفہ کی طرف دھیان ہی نہیں دیا اور اس کا ترجمہ ترک کردیا۔
۵۔ {واِنْ وَجَدنَا أکثَرَہُم لَفٰسِقِین} الاعراف آیت نمبر۱۰۲
اور تحقیق پایا ہم نے بہتوں ان کے کو البتہ فاسق۔ (ترجمہ شاہ رفیع الدین)
اور ہم نے اکثر لوگوں کو بے حکم ہی پایا۔ (تفسیر احسن البیان)
اور ا ن میں سے اکثر کو ہم نے بد کار پایا۔ (تفسیر ثنائی)
اور ان میں سے اکثر کو فاسق پایا۔ (تیسیر الرحمن)
اور اکثر ا ن میں پائے نافرمان۔ (تفسیر عثمانی)
اور ہم نے اکثر لوگوں کو بے حکم ہی پایا۔ (بیان القرآن)
اور ہم نے ان میں سے اکثر کو بس نافرمان ہی پایا۔ (تفسیر ماجدی)
بلکہ اکثر کو فاسق ہی پایا۔ (تفہیم القرآن)
اور ضرور ان میں اکثر کو بے حکم ہی پایا۔ (کنز الایمان)
اور در حقیقت ہم نے ان میں اکثر نافرمان ، بد کردارپائے ۔ (ترجمہ مولانا نذر محمد)
شاہ رفیع الدین، مولانا احمد رضا اور حافظ نذر محمد کے علاوہ کسی بھی مترجم نے تاکید کے مفہوم کے ساتھ ترجمہ نہیں کیا۔ شاہ صاحب نے لفظ تحقیق ، حافظ نذر محمد نے ’در حقیقت‘ اور مولانا احمد رضا خان نے لفظ ’ضرور‘ لاکر تاکید کا مفہوم پیدا کیا ۔ باقی مترجمین نے آیت کریمہ میں وارد ’’وان‘‘ کی طرف دھیان نہیں دیا اور اس کا ترجمہ ترک کردیا۔مولانا جوناگڈھی، مولانا تھانوی اور مولانا احمد رضا خان نے فاسقین کا ترجمہ بے حکم کیا ہے جو عجیب وغریب ہے۔مولانا مودودی نے وَاِنْ کا ترجمہ بلکہ سے کیا ہے جو محل نظر ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے وجدنا میں موجود جمع متکلم کی ضمیر کا ترجمہ ترک کردیا ہے جب کہ باقی مترجمین نے اس کا خیال رکھا ہے۔
۶۔ {فَکفَی بِاللّہَ شَہِیداً بَینَنَا وَبَینَکُم اِنْ کُنّا عَن عِبادَتِکُم لَغٰفِلِیْن} یونس آیت نمبر۲۹
پس کفایت ہے ہم کو اللہ شاہد درمیان ہمارے اور درمیان تمہارے تحقیق ہم تھے عبادت تمہاری غافل۔ (ترجمہ شاہ رفیع الدین)
سو ہمارے تمہارے درمیا ن اللہ کافی ہے گواہ کے طور پر، کہ ہم کو تمہاری عبادت کی خبر بھی نہ تھی۔(تفسیر احسن البیان)
پس اللہ ہی ہمارے اور تمھارے درمیان گواہ کافی ہے، ہم تو تمھاری عبادت سے بھی بے خبر تھے۔ (تفسیر ثنائی)
پس ہمارے اور تمھارے درمیان گواہ کی حیثیت سے اللہ کافی ہے، ہم تمھاری عبادت سے بالکل ہی بے خبر تھے۔ (تیسیرالرحمن)
سو اللہ کافی ہے شاہد ہمارے اور تمہارے بیچ میں ہم کو تمھاری بندگی کی خبر نہ تھی۔(تفسیر عثمانی)
سو ہمارے تمہارے درمیان خدا کافی گواہ ہے کہ ہم کو تمہاری عبادت کی خبر بھی نہ تھی۔ (بیان القرآن)
سو اللہ ہمارے تمہارے درمیان کافی گواہ ہے کہ ہم کو تو تمہاری عبادت کی خبر ہی نہ تھی۔ (تفسیر ماجدی)
ہمارے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے کہ (اگر ہماری عبادت کرتے بھی تھے تو ) ہم تمہاری اس عبادت سے بالکل بے خبر تھے۔ (تفہیم القرآن)
تو اللہ گواہ کافی ہے ہم میں اور تم میں کہ ہمیں تمھارے پوجنے کی خبر بھی نہ تھی۔ (کنز الایمان)
پس ہمارے اور تمہارے درمیان کافی ہے اللہ گواہ، کہ ہم تمہاری بندگی سے بے خبر تھے۔(ترجمہ مولانا نذر محمد)
صرف شاہ رفیع الدین نے لفظ تحقیق لاکر تاکید کی صراحت کی۔ باقی مترجمین نے ’’ہی اور بھی‘‘ لاکر تاکید کا مفہوم پیدا کرنے کی کوشش کی مگر وہ بصراحت تاکید کا ترجمہ نہ کرسکے۔حافظ نذر محمد نے لفظی ترجمے میں ’’البتہ بے خبر‘‘ ترجمہ کرکے لام فارقہ کا ترجمہ تو کیا مگر اِن مخفّفہ کا ترجمہ نہ کرسکے۔اس آیت میں {وان کنا عن عبادتکم لغافلین }کا سب سے درست ترجمہ مولانا مودودی کا ہے کہ انھوں نے بین القوسین وضاحت کرکے ایسا ترجمہ کیا ہے جس سے عبادتکم میں پوشیدہ مفعول کی ضمیر کا ترجمہ بھی ممکن ہوگیا ہے۔باقی ترجموں میں مفعول کے ضمیر کا ترجمہ واضح نہیں ہے۔ جبکہ یہاں ضمیر محذوف ہے اور اس کی دلیل سابقہ آیت ماکنتم ایانا تعبدون ہے جس میں مفعول کی صراحت کی گئی ہے۔ لہذااس آیت کادرست ترجمہ اس طرح ہوسکتا ہے ’بیشک ہماری عبادت کرنے کے تمہارے عمل سے ہم بے خبر تھے۔
۷۔ {وَاِن کَانَ اَصحَابُ الْایْکَۃِ لَظٰلِمِین}الحجرآیت نمبر ۷۸
اور تحقیق تھے رہنے والے بن کے البتہ ظالم۔(ترجمہ شاہ رفیع الدین)
ایکہ بستی کے رہنے والے بھی بڑے ظالم تھے۔(تفسیر احسن البیان)
اور بن والے بیشک ظالم تھے۔ (تفسیر ثنائی)
اصحاب ایکہ (یعنی قوم شعیب کے لوگ)بھی حد سے تجاوز کرگئے تھے۔(تیسیر الرحمن)
اور تحقیق تھے بن کے رہنے والے گنہگار۔(تفسیر عثمانی)
اور بن والے (یعنی شعیب علیہ السلام کی امت بھی)بڑے ظالم تھے۔ (بیان القرآن)
اور بے شک بن والے بھی (بڑے )ظالم تھے۔ (تفسیر ماجدی)
اور ایکہ والے ظالم تھے۔(تفہیم القرآن)
اور بے شک جھاڑی والے ضرور ظالم تھے۔ (کنز الایمان)
اور تحقیق قوم شعیب کے لوگ ظالم تھے۔ (ترجمہ حافظ نذر محمد)
مولانا جوناگڈھی ، مولانا لقمان سلفی، مولانا محمود الحسن اور مولانا مودودی کے علاوہ تمام مترجمین نے اس آیت کے ترجمے میں تاکید کے مفہوم کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔انھوں نے تاکید یا اس کے مفہوم سے اعراض کیا ہے۔مولانا جوناگڈھی، مولانا لقمان سلفی، مولانا تھانوی اور مولانا دریابادی نے لفظ بھی کا اضافہ کیا ہے جو کہ درست نہیں ہے۔مولانا محمو د الحسن نے ظالمین کا ترجمہ گنہگار کیا ہے جو کہ محل نظر ہے جب کہ دیگر مترجمین نے ظالم کا ترجمہ ظالم یا پھر حد سے تجاو ز کرنے والا کیا ہے۔
آیت نمبر ۸ {وَاِنْ کُنتَ مِن قَبلِہِ لَمِنَ الغٰفِلِین} یوسف آیت نمبر۳
اور تحقیق تھا تو پہلے اس سے البتہ غافلوں سے۔(ترجمہ شاہ رفیع الدین)
اور یقینا آپ اس سے پہلے بے خبروں میں سے تھے۔ (تفسیر احسن البیان)
کچھ شک نہیں کہ اس سے پہلے تو بے خبر تھا۔ (تفسیر ثنائی)
اگر چہ آپ اس کے قبل اس سے بے خبر تھے۔ (تیسیر الرحمن)
اور تو تھا اس سے پہلے بے خبروں میں ۔ (تفسیر عثمانی)
اور اس (ہمارے بیان کرے)کے قبل آپ (اس سے )محض بے خبر تھے۔ (بیان القرآن)
اور اس کے قبل آپ اس سے (محض)بے خبر تھے۔ (تفسیر ماجدی)
ورنہ اس سے پہلے تو (ان چیزو ں سے )تم بالکل ہی بے خبر تھے۔ (تفہیم القرآن)
اگر چہ بیشک اس سے پہلے تمھیں خبر نہ تھی۔ (کنز الایمان)
اور تحقیق تم اس سے قبل البتہ بے خبرو ں میں سے تھے۔ (ترجمہ حافظ نذر محمد)
شاہ رفیع الدین، مولاناجوناگڈھی، مولانامولانا امرتسری، مولانا احمد رضا خان اور حافظ نذر محمد نے اس آیت کا صحیح ترجمہ کیا ہے۔ البتہ مولانا احمد رضا خان نے ’بیشک‘ کے ساتھ’ اگر چہ‘ لاکر ان شرطیہ کا بھی ترجمہ کردیا۔اسی طرح مولانا لقمان سلفی اور مولانا مودودی نے اِن مخفّفہ کا ترجمہ ان شرطیہ سے کیا۔مولانا محمود الحسن ، مولاناتھانوی اور مولانا دریابادی نے آیت کریمہ میں وارد اِن مخفّفہ کی طرف دھیان ہی نہیں دیااور اس کا ترجمہ ترک کردیا۔ مولانا تھانوی نے لغافلین کا ترجمہ ’محض بے خبر تھے‘ کیا۔ مولانا دریابادی نے لفظ محض کا استعمال تو کیا مگر اسے اصل ترجمہ کا حصہ نہ بناکر بین القوسین استعمال کیا۔ اور اس کے ذریعے انھوں نے مفہوم میں تاکید پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ اسی طرح مولانا مودودی نے ’’بالکل ہی بے خبر‘‘ کا ترجمہ کرکے تاکیدکا مفہوم پیدا کرنے کی کوشش کی ۔ لفظ ’محض‘ ان مخففہ کا نہیں بلکہ ’لام فارقہ‘ کا مفہوم ہے جس کا ترجمہ برصغیر میں البتہ سے کیا جاتا ہے۔شاہ رفیع الدین، مولانا جوناگڈھی، مولانا محمود الحسن اور حافظ نذر محمد نے ’’لمن الغافلین‘‘ کا ترجمہ بالترتیب غافلوں سے، بے خبروں میں سے، بے خبروں میں اور بے خبروں میں سے کیا ہے جو زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس ترجمے سے قرآن کریم کے لفظی اسلوب کی رعایت بھی شامل ہوجاتی ہے اور ترجمہ بلیغ بھی ہوجاتا ہے کیونکہ ’’بے خبر ہونا‘‘ اور ’’بے خبروں میں سے ہونا‘‘ کے مفہوم میں بہت فرق ہے۔
۹۔ {قَالُوا تَاللّہِ لَقَد ئَ اثَرکَ اللّہ عَلَینَا وَاِن کُنّا لَخٰطِئِین} یوسف آیت نمبر ۹۱
کہا انھوں نے قسم ہے خدا کی البتہ تحقیق پسند کیا تجھ کو اللہ نے اوپر ہمارے او رتحقیق تھے ہم البتہ خطاوار۔ (ترجمہ شاہ رفیع الدین)
انہوں نے کہا اللہ کی قسم!اللہ تعالی نے تجھے ہم پر برتری دی ہے اور یہ بھی بالکل سچ ہے کہ ہم خطا کار تھے۔(تفسیر احسن البیان)
بولے واللہ خدا نے تجھے ہم پر برتری دی ہے اور ہم قصور وار ہیں۔( تفسیر ثنائی)
انھوں نے کہا ، اللہ کی قسم!اللہ تعالی نے آپ کو ہم پر فوقیت دی، اور ہم لوگ بے شک گناہگار تھے۔ (تیسیر الرحمن)
بولے قسم اللہ کی البتہ پسند کرلیا تجھ کو اللہ نے ہم سے اور ہم تھے چوکنے والے۔ (تفسیر عثمانی)
وہ کہے لگے کہ بخدا کچھ شک نہیں تم کو اللہ تعالی نے ہم پر فضیلت عطا فرمائی بیشک ہم (اس میں ) خطاوار تھے۔ (بیان القرآن)
وہ بولے قسم اللہ کی کہ اللہ نے تم کو ہم پر فضیلت دے رکھی ہے اور بیشک ہم ہی خطاوار تھے۔(تفسیر ماجدی)
انہوں نے کہا ’’بخدا کہ تم کو اللہ نے ہم پر فضیلت بخشی اور واقعی ہم خطاکار تھے‘‘۔ (تفہیم القرآن)
بولے خدا کی قسم !بے شک اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت دی اور بیشک ہم خطاوار تھے۔ (کنز الایمان)
کہنے لگے اللہ کی قسم!اللہ نے تجھے ہم پر فضیلت دی ہے، اورہم بیشک خطاوار تھے۔(ترجمہ حافظ نذر محمد)
مولانا امرتسری اور مولانا محمود الحسن نے اس آیت کے ترجمے میں اِن مخفّفہ کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا اور ان سے اس کا ترجمہ ترک ہوگیا۔ باقی مترجمین نے اس کا درست ترجمہ کیا۔انھوں نے تاکید کا مفہوم پیدا کرنے کے لیے تحقیق، بالکل سچ، بیشک اور واقعی جیسے الفاظ استعمال کیے جو کہ تاکید پر دلالت کرتے ہیں۔
۱۰ {وَاِنْ کَادُوا لَیُفتِنُونَک عَنِ الّذِی أَوحَینَا اِلَیکَ}بنی اسرائیل، آیت نمبر ۷۳
اور تحقیق نزدیک تھے کہ البتہ بہکادیں تجھ کو اس چیز سے کہ وحی کی ہم نے طرف تیری۔(ترجمہ شاہ رفیع الدین)
یہ لوگ آپ کو اس وحی سے جو ہم نے آپ پر اتاری ہے بہکانا چاہتے ہیں ۔ (تفسیر احسن البیان)
اور تجھے اس حکم سے جو ہم نے بذریعۂ وحی تیری طرف بھیجا ہے بچلانے لگے تھے۔(تفسیر ثنائی)
اور قریب تھا کہ کفار مکہ آپ کو اس دعوت توحید سے بہکا دیتے جس کا ہم نے آپ کو بذریعۂ وحی حکم دیا ہے۔(تیسیر الرحمن)
اور وہ لوگ تو چاہتے تھے کہ تجھ کو بچلا دیں اس چیز سے کہ جو وحی بھیجی ہم نے تیری طرف۔ (تفسیر عثمانی)
اور یہ (کافر) لوگ آپ کو اس چیز سے بچلانے ہی لگے تھے جو ہم نے آپ پر وحی کے ذریعہ بھیجی ہے۔(بیان القرآن)
اور یہ (کافر)آپ کو اس سے بچلایا ہی چاہتے تھے جو ہم آپ پر وحی کرچکے ہی۔(تفسیر ماجد)
اے محمد، ان لوگوں نے اس کوشش میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی کہ تمہیں فتنے میں ڈال کر اس وحی سے پھیر دیں جو ہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے۔ (تفہیم القرآن)
اور وہ تو قریب تھا کہ تمہیں کچھ لغزش دیتے ہماری وحی سے جو ہم نے تم کو بھیجی ۔(کنز الایمان)
اور اس وحی سے جو ہم نے تمہاری طرف کی ہے قریب تھا کہ وہ تمہیں اس سے بچلادیں (پھسلادیں)۔ (ترجمہ حافظ نذر محمد)
شاہ رفیع الدین کے علاوہ کسی بھی مترجم نے اِن مخفّفہ کی طرف دھیان نہیں دیااور اس کا ترجمہ ترک کردیا۔شاہ رفیع الدین، مولانا لقمان سلفی ، مولانا احمد رضا اور حافظ نذر محمد کے علاوہ کسی اور مترجم نے کادوا کا بھی ترجمہ نہیں کیا جب کہ اس جیسی دیگر آیتو ں میں وارد لفظ کادوا کے ترجمے کا انھوں نے اہتمام کیا۔حافظ نذر محمد نے لفظی ترجمے میں ان کا ترجمہ ’’تحقیق‘‘ سے کیا ہے مگر بامحاورہ ترجمے میں وہ تحقیق یا اس جیسا کوئی اور لفظ استعمال نہ کرسکے۔
۱۱ {وَاِن کَادُوا لَیَستَفِزّونَکَ مِنَ الارْضِ} بنی اسرائیل آیت نمبر ۷۶
اور تحقیق نزدیک ہے کہ بچلادیں تجھ کو اس زمین سے ۔ (ترجمہ شاہ رفیع الدین)
یہ تو آپ کے قدم اس سرزمین سے اکھاڑنے ہی لگے تھے۔ (تفسیر احسن البیان)
یہ لوگ اس تگ ودو میں ہیں کہ کسی طرح تجھے اس زمین سے اچاٹ کرکے … (تفسیر ثنائی)
اور قریب تھا کہ کفار آپ کو سرزمین مکہ میں رہنے سے گھبرادیتے …(تیسیر الرحمن)
اور وہ تو چاہتے تھے کہ گھبرادیں تجھ کو اس سرزمین سے …(تفسیر عثمانی)
اور یہ لوگ اس سرزمین سے آپ کے قدم بھی اکھاڑنے لگے تھے … (بیان القرآن)
اور قریب تھا کہ یہ (کافر) اس سرزمین سے آپ کے قدم اکھیڑ دیں … (تفسیر ماجدی)
اور یہ لوگ اس بات پر بھی تلے رہے ہیں کہ تمھارے قدم اس سرزمین سے اکھاڑدیں ۔ (تفہیم القرآن)
اور بیشک قریب تھا کہ وہ تمہیں اس زمین سے ڈگادیں (کھسکادیں) … (کنز الایمان)
اور تحقیق قریب تھا کہ وہ تمہیں سرزمین مکہ سے پھسلا ہی دیں۔ (ترجمہ حافظ نذر محمد)
شاہ رفیع الدین ، مولانا احمد رضا خان اور حافظ نذر محمد کے علاوہ کسی بھی مترجم نے آیت میں وارداِن مخفّفہ کے مفہوم کوملحوظ خاطر نہیں رکھا اور سبھی حضرات نے اِن مخفّفہ کے مفہوم کو نظر انداز کردیا اور بغیر تاکید کے ترجمہ کیا۔اسی طرح مولانا امرتسری، مولانا جوناگڈھی،مولانا محمود الحسن، مولانا تھانوی اور مولانا مودودی نے یہاں بھی {کادوا} کا ترجمہ ترک کردیا۔
۱۲ { اِنْ کَانَ وَعدُ رَبّنَا لَمَفْعُولا}بنی اسرائیل آیت نمبر۱۰۸
تحقیق ہے وعدہ رب ہمارے کا البتہ کیا گیا۔(ترجمہ شاہ رفیع الدین)
ہمارے رب کا وعدہ بلا شک وشبہ پورا ہوکر رہنے والا ہی ہے۔ (تفسیر احسن البیان)
کچھ شک نہیں کہ ہمارے پروردگار کا وعدہ ہوکر ہی رہے گا۔ (تفسیر ثنائی)
بے شک ہمارے رب کا وعدہ پورا ہوکر رہتا ہے۔ (تیسیر الرحمن)
بیشک ہمارے رب کا وعدہ ہوکر رہے گا۔ (تفسیر عثمانی)
بیشک ہمارے رب کا وعدہ ضرور پورا ہی ہوتا ہے۔ (بیان القرآن)
بیشک ہمارے پروردگار کا وعدہ ضرور پورا ہوکر رہتا ہے۔ (تفسیر ماجدی)
اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا۔ (تفہیم القرآن)
بیشک ہمارے رب کا وعدہ پورا ہونا تھا۔ (کنز الایمان)
بے شک ہمارے رب کا وعدہ ضرور پورا ہوکر رہنے والا ہے۔ (ترجمہ حافظ نذر محمد)
مولا نا مودودی کے علاوہ تمام ترجمہ نگاروں نے اس آیت کے ترجمے میں اِن مخفّفہ کے مفہوم کو ملحوظ خاطر رکھ کر تاکید کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔عجیب بات یہ بھی ہے کہ مولانا مودودی نے {وعد ربنا}کا ترجمہ ’اس کا وعدہ‘ کیا ہے جو معنوی طور سے درست تو ہے مگر لفظا درست نہیں۔اس کے علاوہ تمام مترجمین نے ’’لمفعولا ‘‘کے ترجمے میں مختلف صیغے استعمال کیے ہیں۔
۱۳۔ {اِنّ فِی ذَلِکَ لآیَاتٍ وَاِنْ کُنّا لَمُبتَلِین } سورۃ المؤمنون ۳۰
تحقیق بیچ اس کے البتہ نشانیاں ہیں اور تحقیق ہیں ہم البتہ آزمائش کرنے والے۔ (ترجمہ شاہ رفیع الدین)
یقینا اس میں بڑی بڑی نشانیاں ہیں اور ہم بیشک آزمائش کرنے والے ہیں۔ (تفسیر احسن البیان)
بیشک اس میں کئی ایک نشان ہیں اور ہم جانچنے والے ہیں ۔ (تفسیر ثنائی)
بے شک اس واقعہ میں کئی نشانیاں ہیں،اور بے شک ہم لوگوں کو آزمانا چاہتے تھے۔ (تیسیر الرحمن)
اس میں نشانیاں ہیں اور ہم ہیں جانچنے والے۔ (تفسیر عثمانی)
اس (واقعہ مذکورہ) میں بہت سی نشانیاں ہیں اور ہم (یہ نشانیاں معلوم کراکر اپنے بندوں کو) آزماتے ہیں۔(بیان القرآن)
اس (سارے واقعہ ) میں (بہت سی )نشانیاں ہیں اور ہم آزماتے ہی رہتے ہیں۔ (تفسیر ماجدی)
اس قصے میں بڑی نشانیاں ہیں، اور آزمائش تو ہم کرکے ہی رہتے ہیں۔ (تفہیم القرآن)
بے شک اس میں ضرور نشانیاں ہیں اور بیشک ضرور ہم جانچنے والے تھے۔(کنز الایمان)
بیشک اس میں البتہ نشانیاں ہیں ، اور بیشک ہم آزمائش کرنے والے ہیں۔( ترجمہ حافظ نذر محمد)
شاہ رفیع الدین ،مولانا جوناگڈھی، مولانا لقمان سلفی، مولانا احمد رضا خان اور حافظ نذر محمد نے اس آیت کا درست ترجمہ کیااور تاکید کے مفہوم کی صراحت ووضاحت کی۔ مولانا مودودی نے کسی ایسے لفظ کا استعمال نہیں کیا جس سے بہ صراحت تاکید پر دلالت ہو البتہ انھوں نے لفظ ’ہی‘ استعمال کرکے تاکید کا مفہوم پیدا کرنے کی کوشش کی۔ مولانا امرتسری، مولانا محمود الحسن، مولانا تھانوی اور مولانا دریابادی نے آیت کریمہ میں وارد اِن مخفّفہ کی طرف دھیان نہیں دیااور اس کا ترجمہ ترک کردیا۔ مولانا امرتسری نے {لآیات}کا مفرد کے صیغے سے ’نشان‘ترجمہ کیا ہے جو کہ محل نظر ہے۔جب کہ دیگر تمام ترجمہ نگاروں نے لفظ آیات کے ترجمے میں صیغۂ جمع کا لحاظ رکھا ہے۔
۱۴۔ {اِنْ کَادَ لَیُضلّنَا عَن ئَ ا لِہَتِنَا لَو لاَ أن صَبَرنَا عَلَیہَا } سورۃ الفرقان آیت نمبر۴۲
تحقیق نزدیک تھا کہ گمراہ کردے ہم کو معبودوں ہمارے سے اگر نہ صبر کرتے ہم اوپر ان کے۔ (ترجمہ شاہ رفیع الدین)
(وہ تو کہیے) کہ ہم اس پر جمے رہے ورنہ انہوں نے تو ہمیں ہمارے معبودوں سے بہکادینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔(تفسیر احسن البیان)
اس نے تو ہم کو ہمارے معبودوں سے پھرا ہی دیا تھا اگر ہم ان پر ثابت قدم نہ رہتے۔(تفسیر ثنائی)
قریب تھا کہ یہ شخص ہمیں ہمارے معبودوں سے دور کردیتا، اگر ہم ان کے بارے میں ثابت قدم نہ رہے ہوتے۔ (تیسیر الرحمن)
یہ تو ہم کو بچلا ہی دیتا ہمارے معبودوں سے اگر ہم نہ جمے رہتے ان پر ۔ (تفسیر عثمانی)
اس شخص نے تو ہم کو ہمارے معبودوں سے ہٹا ہی دیا ہوتا اگر ہم ان پر قائم نہ رہتے۔ (بیان القرآن)
اس (شخص)نے تو ہم کو ہمارے معبودوں سے ہٹا ہی دیا ہوتا اگر ہم ان پر قائم نہ رہتے۔ (تفسیر ماجدی)
اس نے تو ہمیں گمراہ کرکے اپنے معبودوں سے برگشتہ ہی کردیا ہوتا اگر ہم ان کی عقیدت پر جم نہ گئے ہوتے۔ (تفہیم القرآن)
قریب تھا کہ یہ ہمیں خداؤں سے بہکا دیں اگر ہم ان پر صبر نہ کرتے۔(کنز الایمان)
قریب تھا کہ وہ ہمیں ہمارے معبودوں سے بہکا دیتا اگر ہم اس پر جمے نہ رہتے۔ (ترجمہ مولانا نذر محمد)
اس آیت کے ترجمے میں شاہ رفیع الدین کے علاوہ کسی مترجم نے تاکید کے ساتھ ترجمہ نہیں کیا ۔ جیسے کہ ان تمام حضرات کو یہ اندازہ نہیں ہوسکا کہ آیت کریمہ میں وارداِن مخفّفہ ہے اور اس کے ترجمے میں تاکید کا اسلوب ملحوظ رہنا چاہیے۔مولانا جوناگڈھی کے علاوہ تمام مترجموں نے اِن مخفّفہ کا ترجمہ ہی چھوڑ دیا ہے۔مولانا جوناگڈھی نے اِن مخفّفہ کا ترجمہ ان شرطیہ سے کیا۔ مولانا احمد رضا خان نے عن ء ا لہتنامیں موجود ضمیر متصل کا ترجمہ ترک کردیا اور لکھا کہ ’’یہ ہمیں خداؤں سے بہکادیں‘‘ جب کہ ضمیر کا ترجمہ یہاں ضروری ہے تاکہ یہ صراحت ہوسکے کہ کفار ’اپنے‘ خداؤں سے بہکنا نہیں چاہتے نہ کہ دوسروں کے خداؤں سے۔
۱۵۔{تَاللّہِ اِنْ کُنّا لَفِی ضَلالٍ مّبِین } سورۃ الشعراء آیت نمبر ۹۷
قسم ہے خدا کی تحقیق تھے ہم البتہ بیچ گمراہی ظاہر کے۔ (ترجمہ شاہ رفیع الدین)
کہ قسم اللہ کی! یقینا ہم تو کھلی غلطی پر تھے۔ (تفسیر احسن البیان)
واللہ ہم تو سخت غلطی میں تھے۔ (تفسیر ثنائی)
اللہ کی قسم ہم تو بڑی کھلی گمراہی میں تھے۔ (تیسیر الرحمن)
قسم اللہ کی ہم تھے صریح غلطی میں۔ (تفسیر عثمانی)
بخدا بے شک ہم صریح گمراہی میں تھے۔ (بیان القرآن)
کہ بخدا بے شک ہم صریح گمراہی میں تھے۔ (تفسیر ماجدی)
خدا کی قسم ہم تو صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔ (تفہیم القرآن)
خدا کی قسم بے شک ہم کھلی گمراہی میں تھے۔ (کنز الایمان)
اللہ کی قسم !بیشک ہم کھلی گمراہی میں تھے۔ (ترجمہ حافظ نذر محمد)
صرف شاہ رفیع الدین، مولاناجوناگڈھی، مولاناتھانوی، مولانا دریابادی ، مولانا احمد رضا اور حافظ نذر محمدنے اس آیت میں وارد اِن مخفّفہ کا صحیح ترجمہ کیا اور لفظ بیشک سے تاکید کی وضاحت کی۔ باقی مترجمین نے اِن مخفّفہ کا ترجمہ ہی چھوڑ دیااور بغیر تاکید کے ترجمہ کیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ مولانا جوناگڈھی، مولانا امرتسری اور مولانا محمودالحسن نے لفظ ضلال کا ترجمہ ’غلطی‘ سے کیا جو کہ ایک غلطی ہے ، باقی مترجموں نے ضلال کا ترجمہ ’گمراہی ‘سے کیا ہے۔ مولانا امرتسری نے مبین کا ترجمہ ’سخت ‘ کیا ہے جب کہ دیگر مترجموں نے ’صریح اور کھلی گمراہی‘ سے کیا ہے۔ مولانا تھانوی اور مولانا دریابادی کے ترجمے ایک دوسرے کی نقل معلوم ہوتے ہیں۔
۱۶۔ {وَمَا اَنتَ اِلاّ بَشَرٌ مّثلُنا وَاِن نَظُنّک لَمِنَ الکاذِبِین }الشعراء آیت نمبر ۱۸۶
اور تو تو ہمارے جیسا ایک آدمی ہے اور ہم تو تجھ کو ضرور جھوٹا ہی سمجھتے ہیں۔ (ترجمہ شاہ رفیع الدین)
اور تو تو ہم ہی جیسا ایک انسان ہے اور ہم تو تجھے جھوٹ بولے والوں میں سے ہی سمجھتے ہیں۔ (تفسیر احسن البیان)
اور تو ہماری طرح کا ایک آدمی ہے اور ہم تو تجھے جھوٹا جانتے ہیں۔ (تفسیر ثنائی)
اور تم ہمارے ہی جیسے ایک آدمی ہو، اور ہم تمہیں ایک جھوٹا آدمی کے سوا کچھ نہیں سمجھتے ہیں۔ (تیسیر الرحمن)
اور تو بھی ایک آدمی ہے جیسے ہم اور ہمارے خیال میں تو تو جھوٹا ہے۔ (تفسیر عثمانی)
اور تم تومحض ہماری طرح (کے) ایک (معمولی) آدمی ہو اورہم تو تم کو جھوٹے لوگوں میں سے خیال کرتے ہیں۔(بیان القرآن)
اور تم کیا ہو بجز ہمارے ہی جیسے ایک آدمی کے اور ہم تو تم کو جھوٹوں ہی میں سمجھتے ہیں۔ (تفسیر ماجدی)
اور تو کچھ نہیں ہے مگر ایک انسان ہم ہی جیسا ، اور ہم تو تجھے بالکل جھوٹا سمجھتے ہیں۔(تفہیم القرآن)
تم تو نہیں مگر ہم جیسے آدمی اور بے شک ہم تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں۔ (کنز الایمان)
اور تو صرف ہم جیسا ایک بشر ہے، اور البتہ ہم تجھے جھوٹوں میں سے گمان کرتے ہیں۔ (ترجمہ حافظ نذر محمد)
شاہ رفیع الدین اورمولانا احمد رضا خان کے علاوہ کسی نے بھی تاکید کی صراحت کے ساتھ اس آیت کا ترجمہ نہیں کیا۔ مولاناجوناگڈھی، مولانا لقمان سلفی، مولانا دریابادی اور حافظ نذر محمد نے ایسے الفاظ استعمال کیے جن سے تاکیدکا مفہوم پیدا ہوتا ہوتا ہے۔ جبکہ مولانا امرتسری، مولانا محمود الحسن، مولانا تھانوی اورمولانامودودی نے اِن مخفّفہ کا ترجمہ ہی ترک کردیا۔مولانا جوناگڈھی، مولانا تھانوی اور مولانا احمد رضا نے ’’لمن الکاذبین‘‘ کا ترجمہ جھوٹ بولنے والوں میں سے، جھوٹے لوگو ں میں سے، جھوٹوں میں سے کیا ہے جو زیادہ بلیغ ہے کیونکہ اس اسلوب سے قرآن کریم کے لفظی اسلوب کی رعایت بھی ہوجاتی ہے۔ کیونکہ’’ جھوٹا ہونا‘‘ اور ’’جھوٹوں میں سے ہونے‘‘ میں جو فرق ہے وہ واضح ہے۔
۱۷۔ {اِن کَادَتْ لَتُبدِی بِہ لَو لاَ اَن رَبطنَا عَلَی قَلبِہَا } القصص آیت نمبر۱۰
تحقیق نزدیک تھی کہ البتہ ظاہر کردیوے اس کو اگر نہ باندھ رکھتے ہم اوپر دل اس کے… (ترجمہ شاہ رفیع الدین)
قریب تھیں کہ اس واقعہ کو بالکل ظاہر کردیتیں اگر ہم ان کے دل کو ڈھارس نہ دے دیتے… (تفسیر احسن البیان)
اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ رکھتے تو وہ ظاہر کردیتی …(تفسیر ثنائی)
قریب تھا کہ وہ اس راز کو فاش کردیتی ، اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ کرتے…(یسیر الرحم)
قریب تھی کہ ظاہر کردے بیقراری کو اگر نہ ہم نے گرہ دی ہوتی اس کے دل پر…(تفسیر عثمانی)
قریب تھا کہ وہ موسی کا حال (سب پر )ظاہر کردیتیں اگر ہم ان کے دل کو اس غرض سے مضبوط نہ کیے رہیں …(بیان القرآن)
قریب تھا کہ وہ موسی کا حال ظاہر کردیتی اگر ہم ان کے دل کو اسی لیے مضبوط نہ کیے رہتے … (تفسیر ماجدی)
وہ اس کا راز فاش کربیٹھتی اگر ہم اس کی ڈھارس نہ بندھادیتے …۔ (تفہیم القرآن)
ضرور قریب تھا کہ وہ اس کا حال کھول دیتی اگر ہم نہ ڈھارس بندھاتے اس کے دل پر…(کنز الایمان)
تحقیق قریب تھا کہ وہ اس کو ظاہر کردیتی اگر ہم نے اس کے دل پر گرہ نہ لگائی ہوتی۔ (ترجمہ حافظ نذر محمد)
اس آیت کے ترجمے میں شاہ رفیع الدین ، مولانااحمد رضا خان اور حافظ نذر محمد کے علاوہ کسی بھی مترجم نے بھی اِن مخفّفہ کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔ شاہ رفیع الدین اور حافظ نذر محمد نے لفظ ’تحقیق‘ کے ذریعے تاکید کا معنی پیدا کیا تو مولانا احمد رضا نے لفظ ’ضرور‘ کے ذریعے۔ مولانا امرتسری اور مولانا مودودی نے آیت کریمہ میں وارد لفظ اِن مخفّفہ اورلفظ ’’کادت ‘‘ دونوں کاترجمہ ترک کردیا تو مولانا لقمان سلفی نے ’’کادت‘‘ کا ترجمہ کیا مگر اِن مخفّفہ کا ترجمہ ترک کردیا ۔آیت کریمہ میں وارد لفظ ’’ربط علی القلب‘‘ کاتمام مترجموں نے مختلف ترجمہ کیا ہے۔لفظی ترجمہ کرنے والوں میں شاہ رفیع الدین نے ’باندھنا‘ مولانا محمود الحسن نے ’گرہ دینا‘ اور حافظ نذر محمد نے ’گرہ باندھنا ‘ سے کیا ہے جو کہ صحیح معنی سے دور ہے۔ لفظی ترجمے سے ہٹ کر ترجمہ کرنے والوں میں مولانا جوناگڈھی، مولانا مودودی اور مولانا احمد رضا خان نے ’ڈھارس بندھانے‘ کا ترجمہ کیا تو باقی نے ’دل کو مضبوط کرنے ‘ کا جو کہ مفسرین کی تفسیروں سے زیادہ قریب ہیں۔
۱۸۔ {واِنْ کَانُوا مِن قَبلِ اَن یُنَزّلَ عَلَیہِم مّن قَبلِہ لَمُبلِسِیْن } الروم آیت نمبر۴۹
اور تحقیق تھے پہلے اس سے کہ اتارا جاوے اوپر ان کے پہلے اس سے البتہ ناامید ہونیوالے۔(ترجمہ شاہ رفیع الدین)
یقین ماننا کہ بارش ان پر برسنے سے پہلے پہلے تو وہ ناامید ہورہے تھے۔ (تفسیر احسن البیان)
حالانکہ ان کے اترنے سے پہلے وہ نا امید ہوتے ہیں۔(تفسیر ثنائی)
اور وہ لوگ بارش ہونے سے پہلے بڑے ناامید ہوچکے تھے۔ (تیسیر الرحمن)
اور پہلے سے ہورہے تھے اس کے اترنے سے پہلے ہی ناامید۔ (تفسیر عثمانی)
اور وہ لوگ قبل اس کے کہ ان کے خوش ہونے سے پہلے ان پر برسے ناامید تھے۔ (بیان القرآن)
درانحالیکہ وہ لوگ قبل اس کے کہ اس خوشی سے قبل ان پر برسے بالکل مایوس ہورہے تھے۔ (تفسیر ماجدی)
حالانکہ اس کے نزول سے پہلے وہ مایوس ہورہے تھے۔(تفہیم القرآن)
اگر چہ اس کے اتارنے سے پہلے آس توڑے ہوئے تھے۔(کنز الایمان)
اگر چہ اس سے قبل کہ (بارش) ان پر نازل ہو وہ پہلے ہی سے مایوس ہورہے تھے۔ (ترجمہ حافظ نذر محمد)
شاہ رفیع الدین اور مولانا جوناگڈھی کے علاوہ کسی نے بھی اس آیت میں واردو اِن مخفّفہ کاترجمہ نہیں کیا۔ حافظ نذر محمد نے اِن مخفّفہ کا ترجمہ تو کیا مگر اسے شرطیہ بھی بناڈالا۔مولانااحمد رضا خان نے بھی اِن مخفّفہ کوا ن شرطیہ بناڈالا، انھوں نے لفظ ’’کانوا‘‘ میں مستتر ضمیر کابھی ترجمہ نہیں کیاجب کہ باقی مترجموں نے اس کے ترجمے کی صراحت کی۔مولاناامرتسری ، مولانادریابادی اور مولانامودودی نے اسے حالیہ جملہ بناکر ترجمہ کیا۔اس آیت میں من قبل اور من قبلہ کی تکرار کی گئی ہے۔مگر مولانا امرتسری،مولانالقمان سلفی،مولانامودودی اورمولانااحمد رضا خان نے صرف ایک ہی قبل کا ترجمہ کیا۔ باقی مترجموں نے ’’دونوں‘‘ کا ترجمہ کیا۔تفسیرعثمانی کا ترجمہ گنجلک اور غیر سلیس ہے۔ مولانا امرتسری نے بارش کے لیے ’ا ن‘ کا استعمال کیا جو کہ محل نظر ہے۔ ثانیا انھوں نے لمُبْلِسِین کا ترجمہ حال سے کیا ہے یعنی مایوس ہوتے ہیں۔جب کہ باقی مترجموں نے ماضی سے ترجمہ کیا ہے جو کہ زیادہ درست ہے۔اس آیت کا سب سے خوب صورت اور سلیس ترجمہ شاہ رفیع الدین اور حافظ نذر محمد کا ہے۔ اور ان دونوں میں شاہ رفیع الدین کا ترجمہ زیادہ بہتر ہے کیونکہ انھوں نے ینزل علیہم کے ترجمے میں مجہول صیغے کی لفظی رعایت کو بھی ملحوظ خاطر رکھا ہے۔باقی مترجمین نے مجہول صیغے کی رعایت کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔ قرآن کریم کے بیشتر مترجموں نے بیشتر آیتوں میں اس طرح کی لفظی رعایتوں کو مد نظر نہیں رکھا ہے۔
۱۹۔ {قَالَ تَاللّہِ اِنْ کِدتَّ لَتُردِین} الصافات آیت نمبر۵۶
کہے گا قسم ہے خدا کی تحقیق نزدیک تھا تو کہ ہلاک کرڈالے مجھ کو۔ (ترجمہ شاہ رفیع الدین)
کہے گا واللہ قریب تھا کہ تو مجھے (بھی) برباد کردے۔ (تفسیر احسن البیان)
کہے گا خدا کی قسم تو تو مجھے بھی تباہ کرنے کو تھا۔(تفسیر ثنائی)
کہے گا اللہ کی قسم!قریب تھا کہ تم مجھے ہلاک کردیتے۔ (تیسیر الرحمن)
بولا قسم اللہ کی تو تو مجھ کو ڈالنے لگا تھا گڑھے میں۔ (تفسیر عثمانی)
کہے گا خدا کی قسم تو تو مجھ کو تباہ ہی کرنے کو تھا۔ (بیان القرآن)
(اور)بول اٹھے گا اللہ کی قسم تو تو مجھے ہلاک ہی کرڈالنے کو تھا۔ (تفسیر ماجدی)
اور اس سے خطاب کرکے کہے گا، خدا کی قسم!تو تو مجھے تباہ ہی کردینے والا تھا۔(تفہیم القرآن)
کہا خدا کی قسم قریب تھا کہ تو مجھے ہلاک کردے۔ (کنز الایمان)
وہ کہے گا اللہ کی قسم قریب تھا کہ تو مجھے ہلاک کرڈالے۔(ترجمہ حافظ نذر محمد)
صرف شاہ رفیع الدین نے اس آیت کا صحیح ترجمہ کیا ہے۔ انہوں نے تاکید کی وضاحت کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔ان کے علاوہ کسی بھی مترجم نے آیت کریمہ میں وارد اِن مخفّفہ کی طرف دھیان نہیں دیانہ ہی کوئی ایسا لفظ استعمال کیا جس سے تاکید کا مفہوم پیدا ہوبلکہ شاہ رفیع الدین ، مولانا جوناگڈھی،مولانا لقمان سلفی، مولانا احمد رضا خان اور حافظ نذر محمد کے علاوہ تمام مترجموں نے لفظ ’کادت ‘ بھی کاترجمہ نہیں کیا جبکہ باقی آیتوں میں بیشتر مترجموں نے افعال مقاربہ کے ان صیغو ں کے ترجمے کو مدنظر رکھا ۔تمام ترجمہ نگارو ں نے {لتردین} کا ترجمہ ہلاک وبرباد کرنے سے کیا تو مولانا محمود الحسن نے اس کا لفظی ترجمہ ’گڑھے میں ڈالنے‘ سے کیا۔مولانا امرتسری اور مولانا احمد رضا خان کے علاوہ تمام مترجمین نے قال کا ترجمہ مستقبل سے کیا۔
۲۰ {وَاِن کَانُوا لَیَقُولُونَ} الصافات آیت نمبر۱۶۷
اور تحقیق تھے یہ کہتے۔ (ترجمہ شاہ رفیع الدین)
کفار تو کہا کرتے تھے۔ (تفسیر احسن البیان)
یہ لوگ کہا کرتے تھے۔ (تفسیر ثنائی)
اور مشرکین مکہ کہا کرتے تھے۔ (تیسیر الرحمن)
اور یہ تو کہا کرتے تھے۔ (تفسیر عثمانی)
اور یہ لوگ کہا کرتے تھے۔(بیان القرآن)
اور یہ لوگ کہا کرتے تھے۔ (تفسیر ماجدی)
یہ لوگ پہلے تو کہا کرتے تھے۔ (تفہیم القرآن)
اور بے شک وہ کہتے تھے۔ ( کنز الایمان)
اور بیشک وہ کہا کرتے تھے ۔ (ترجمہ مولانا نذر محمد)
شاہ رفیع الدین، مولانا احمد رضا اور حافظ نذر محمد کے علاوہ کسی نے بھی اس آیت کے ترجمے میں تاکید کے مفہوم کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔ بلکہ تمام مترجمین نے اِن مخفّفہ کی طرف دھیان ہی نہیں دیا۔مولانا احمد رضا اور حافظ نذر محمد کے علاوہ تمام مترجمین نے ضمیرمستتر کا ترجمہ یہ ( اسم اشارہ قریب)سے کیا ہے۔جب کہ باقی مترجموں نے وہ (اسم اشارہ بعید)سے ۔تمام لوگوں نے لام فارقہ کا بھی ترجمہ تر ک کردیا ہے جب کہ باقی آیتوں میں بیشتر مترجمین نے لام فارقہ کے ترجمہ کا لحاظ رکھا ہے۔
۲۱ {وَاِن کُنتَ لَمِنَ السّاخِرِین} الزمرآیت نمبر ۵۶
اور تحقیق تھا میں البتہ ٹھٹھا کرنیوالوں سے۔ (ترجمہ شاہ رفیع الدین)
بلکہ میں تو مذاق اڑانے والوں میں ہی رہا۔ (تفسیر احسن البیان)
اور نحول کرنے والوں میں رہتا رہا۔ (تفسیر ثنائی)
اور میں تو (اللہ کے رسول اور دین اسلام کا)مذاق اڑاتا رہا۔ (تیسیر الرحمن)
اور میں تو ہنستا ہی رہا۔ (تفسیر عثمانی)
اور میں تو (احکام خداوندی پر)ہنستا ہی رہا۔ (بیان القرآن)
اور میں تو تمسخر ہی کرتا رہا۔ (تفسیر ماجدی)
بلکہ میں تو الٹا مذاق اڑانے والوں میں شامل تھا۔(تفہیم القرآن)
بے شک میں ہنسی بنایا کرتا تھا۔ (کنز الایمان)
اور یہ کہ میں ہنسی اڑانے والوں میں سے تھا۔ (ترجمہ حافظ نذر محمد)
شاہ رفیع الدین اور مولانا احمد رضا کے علاوہ کسی نے بھی اس آیت کے ترجمے میں تاکید کی صراحت نہیں کی۔ شاہ صاحب کے علاوہ کسی بھی مترجم نے لام فارقہ کے بھی ترجمے کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔مولانا محمود الحسن ،مولانا تھانوی اور مولانادریابادی نے لفظ ’ہی‘ کا استعمال کرکے تاکید کا مفہوم پیدا کرنے کی کوشش کی۔ مولانا محمود الحسن اور مولاناتھانوی نے ’’ساخرین‘‘ کا ترجمہ ’ہنستا رہا ‘کیا۔مولانا احمد رضا نے ’ہنسی بنایا‘ کرتا تھا ترجمہ کیا۔ہنسی بنانا فصیح نہیں ہے۔مولانا تھانوی کا ترجمہ پھر بھی درست ہوسکتا ہے کہ انھوں نے احکام خداوندی پر ہنسنے کا ترجمہ کیا ہے جس میں تمسخر یا مذاق کا مفہوم شامل ہوجاتا ہے مگر مولانا محمود الحسن کا ترجمہ ’’میں تو ہنستا ہی رہا‘‘ میں ہنسنا عام ہنسی کا مفہوم لیے ہوئے ہے جب کہ یہاں تمسخر یا مذاق اڑانے کا محل ہے۔اسی لیے دیگر مترجمین نے ’مذاق اڑاتا رہا‘یا ‘تمسخر کرتا رہا‘ ترجمہ کیا ہے جو کہ زیادہ بلیغ ہے۔
۲۲۔ {وَاِنْ کَانُوا مِن قَبلُ لَفِی ضَلالٍ مُبِین}سورۃ الجمعہ آیت نمبر۲
اور تحقیق تھے پہلے اس سے البتہ بیچ گمراہی ظاہر کے۔(ترجمہ شاہ رفیع الدین)
یقینا یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ (تفسیر احسن البیان)
ورنہ اس سے پہلے تو یہ لوگ کھلی گمراہی میں تھے۔(تفسیر ثنائی)
بیشک وہ لوگ ان کی بعثت سے قبل صریح گمراہی میں مبتلا تھے۔ (تیسیر الرحمن)
اور اس سے پہلے وہ پڑے ہوئے تھے صریح بھول میں۔ (تفسیر عثمانی)
اور یہ لوگ (آپ کی بعثت )کے پہلے سے کھلی گمراہی میں تھے۔ (بیان القرآن)
درآنحالیکہ یہ لوگ پہلے سے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔(تفسیر ماجدی)
حالانکہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے ۔(تفہیم القرآن)
اور بے شک وہ اس سے پہلے ضرور کھلی گمراہی میں تھے۔(کنز الایمان)
اور بالتحقیق یہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ (ترجمہ حافظ نذر محمد)
شاہ رفیع الدین، مولانا جوناگڈھی، مولانا لقمان سلفی، مولانا احمد رضاخان اورحافظ نذر محمد کے علاوہ تمام مترجمین نے اس آیت کے ترجمے میں غلطی کی ہے۔مولانا امرتسری نے اِن مخفّفہ کواِن شرطیہ کے مفہوم میں ترجمہ کیا ہے تو مولانا دریابادی اور مولانا مودوی نے حالیہ جملہ بناکر ترجمہ کیا ہے۔ مولانا محمود الحسن نے ’ضلال‘ کا ترجمہ بھول سے کیا ہے جو کہ درست نہیں ہے جب کہ باقی مترجمین نے گمراہی سے کیا ہے۔اور یہی لفظ ضلال کا درست متبادل ہے۔اس آیت میں بھی تمام مترجمین میں سے کچھ نے کانوا میں محذوف ضمیر کا ترجمہ اسم اشارہ قریب سے (یہ) اور کچھ نے اسم اشارہ بعید (وہ)سے کیا ہے۔
۲۳ { وَاِن یّکادُ الّذینَ کَفَرُوا لَیُزلِقُونَکَ بِابصَارِہِم} القلم آیت نمبر ۵۱
اور تحقیق نزدیک ہیں وہ لوگ کہ کافر ہوئے کہ البتہ بچلادیں تجھ کو ساتھ نظروں اپنی کے۔(ترجمہ شاہ رفیع الدین)
اور قریب ہے کہ کافر اپنی تیز نگاہوں سے آپ کو پھسلادیں۔(تفسیر احسن البیان)
اور تیرے منکرین جب نصیحت سنتے ہیں تو قریب ہے اپنی آنکھوں سے تجھے پھسلادیں۔(تفسیر ثنائی)
اور کفار جب آپ سے قرآن سنتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ مارے غیظ وغضب کے آپ کو اپنی نگاہوں سے پھلادیں گے۔ (تیسیر الرحمن)
اور منکر تو لگ ہی رہے ہیں کہ پھسلادیں تجھ کو اپنی نگاہوں سے ۔ (تفسیر عثمانی)
اور یہ کافر لوگ جب قرآن سنتے ہیں تو (شدت عداوت سے) ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ گویا آپ کو اپنی نگاہوں سے پھسلاکرگرادیں گے۔ (بیان القرآن)
اور یہ کافر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اپنی نگاہوں سے پھسلاکر گرادیں گے۔ (تفسیر ماجدی)
جب یہ کافر لوگ کلام نصیحت (قرآن) سنتے ہیں تو تمہیں ایسی نظروں سے دیکھتے ہیں کہ گویا تمہارے قدم اکھاڑ دیں گے۔ (تفہیم القرآن)
اور ضرور کافر تو ایسے معلوم ہوتے ہیں کہ گویا اپنی بد نظر لگا کر تمہیں گرادیں گے۔ (کنز الایمان)
اور تحقیق قریب ہے (ایسا لگتا ہے) کہ کافر آپ کو پھسلادیں گے اپنی نگاہوں سے۔(ترجمہ حافظ نذر محمد)
شاہ رفیع الدین، مولانا احمد رضا اور حافظ نذر محمد کے علاوہ کسی نے بھی اس آیت کے ترجمے میں تاکید کی صراحت نہیں کی۔ شاہ صاحب، مولانا جوناگڈھی ، مولانا امرتسری اور حافظ نذر محمد کے علاوہ کسی نے فعل مقاربہ کا صریح ترجمہ نہیں کیا۔باقی مترجموں نے ایسے الفاظ استعمال کیے جن سے فعل مقاربہ کا ترجمہ ہوجاتاہے۔عجیب بات یہ ہے کہ مولانا امرتسری نے{ الذین کفروا }کا ترجمہ منکرین تو مولانا محمود الحسن نے منکر کیا ہے جب کہ باقی حضرات نے کافر اور کفار سے کیاہے جو کہ زیادہ درست اور لفظ کے قریب ترجمہ ہے۔ اس آیت کے ترجمے میں ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ شاہ رفیع الدین، مولانا جوناگڈھی ، مولانا محمود الحسن، مولانا دریابادی، مولانا احمد رضا خان اور حافظ نذر محمد کے علاوہ باقی مترجمین نے ترجمے کی وضاحت کے لیے اصل ترجمہ میں ایسے الفاظ اور جملے استعمال کیے جنھیں اصل ترجمے کے بجائے بین القوسین استعمال کیاجانا چاہیے تھا ۔
مذکورہ بالا آتیوں کے ترجموں کے تجزیے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ :
۱۔ شاہ رفیع الدین نے تمام آیتوں میں ان مخففہ کے ترجمے کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ اور تاکید کی وضاحت کرنے والے الفاظ سے ترجمہ کیا ہے۔ سوائے سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۱۴۳ کے کہ اس میں انھوں نے لفظ البتہ پر اکتفا کیا جب کہ یہ لفظ لام فارقہ کا ترجمہ ہے لیکن پھر بھی اس سے تاکید کا مفہوم پیدا ہوگیا ہے۔
۲۔ شاہ صاحب کے علاوہ باقی مترجمین میں مولانا جوناگڈھی نے سات، مولانا امرتسری نے پانچ، مولانا لقما ن سلفی نے چھ، مولانا محمود الحسن نے چار، مولانا تھانوی نے پانچ، مولانا دریابادی نے پانچ ، مولانا مودودی نے صرف ایک، مولانا احمد رضا نے سولہ اور حافظ نذر محمد نے چودہ آیتوں میں تاکید کی صراحت کے ساتھ ترجمہ کیا ہے۔
۳۔ مولانا مودودی نے سورۂ یوسف کی آیت نمبر ۹۱ کے علاوہ کسی بھی آیت میں ان مخففہ کا صحیح ترجمہ نہیں کیا۔ بلکہ بعض جگہ انھوں نے شرطیہ تو کہیں حال کا ترجمہ کیا۔
۴۔ سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۷۳، اور سورۂ فرقا ن کی آیت نمبر ۴۲ میں شاہ صاحب کے علاوہ کسی بھی مترجم نے بھی درست ترجمہ نہیں کیا۔
ڈاکٹر ف عبد الرحیم فرماتے ہیں:قرآن کریم کے ترجمہ نگاروں کا ان آیتوں کے ترجمے میں کوتاہی کا سرزد ہونا متوقع ہے کیونکہ عربی نحو کی باریکیوں سے واقف ہونا بہت مشکل امر ہے جو کہ اس بات کا متقاضی ہے کہ قرآن کریم کے معانی کی ایسی گائیڈ تیار کی جائے جس سے عقیدہ، شرعی احکام، تفسیری امور، لسانی مسائل کی معرفت حاصل ہوسکے۔ مجمع ملک فہد لطباعۃ المصحف الشریف اس دقیق علمی کام کو انجام دے سکتا ہے۔
آپ کے تبصرے