ابنائے جامعہ سلفیہ کا دوسرا دو روزہ اجتماع کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، پہلا اجتماع آج سے تقریبا تیئیس سال قبل غالبا ۱۹۹۵ ء دسمبر کے مہینے میں ہوا تھا، اس اجتماع میں جامعہ کے فارغین اور مشاہیر اساتذہ میں کئی ایسی شخصیات نے پورے جوش و خروش سے حصہ لیا تھا، جو آج ہم میں نہیں ہیں۔ اس وقت استاذ الاساتذہ جامعہ کی روح رواں مولانا عبد الوحید رحمانی ( سابق شیخ الجامعہ)، ڈاکٹر مقتدی حسن ازھری سابق وکیل الجامعہ، مولانا محمد رئیس ندوی اور مولانا عبد السلام مدنی حیات تھے، ابنائے جامعہ میں مولانا عبداللہ مدنی رحمہ اللہ، مولانا فضل الرحمان مدنی، مولانا مستقیم احمد سلفی، مولانا صلاح الدین مقبول احمد، مولانا رضاء اللہ عبد الکریم مدنی اور مولانا عبد اللہ سعود ابنائے سلفیہ کی تنظیم میں پیش پیش تھے، ایڈ ہاک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، یاد پڑتا ہے کہ باقاعدہ اس کے لیے دفتر بھی بنا تھا، تجاویز پاس کی گئیں، مستقبل کا لائحۂ عمل طے کیا گیا، ابنا میں خوشیوں کی لہر دوڑ گئی تھی، سب نے یہی سوچا تھا کہ یہ تنظیم فارغین جامعہ کو ایک لڑی میں پرودے گی،مگر اس زمانے میں روابط کی کمی تھی، سوشل میڈیا کی ہل چل نہیں تھی ، جذبے سرد پڑتے گئے، خواب ادھورے رہ گئے۔
ابنا کا حالیہ اجتماع ہوا تو ماضی کی یادیں ذہن کے پردے پر جھلملا نے لگیں، یہ بھی یاد آگیا کہ جامعہ کا ایک سلفی استاد ایسا بھی ہے جس نے تنظیم کے چراغ کو کبھی بجھنے نہ دیا، وہ اپنی سی کوشش میں مصروف رہتا ، ہر سال فارغین کی فہرست نوٹ کرتا، جب بھی کسی سلفی کی جامعہ میں آمد ہوتی، اس کا پتہ دریافت کرتا، اس کی علمی سرگرمیاں ایک رجسٹر میں درج کرلیتا، اسے عہدہ، منصب کی طلب نہیں تھی وہ تو فقط اس تنظیم کو زندہ رکھنا چاہتا تھا، ہر نجی محفل میں تنظیم ابنا کا بکھان کرتا، اس کی اہمیت اور افادیت پر روشنی ڈالتا، رشید احمد صدیقی کو علی گڈھ مسلم یونیورسٹی سے اتنی محبت نہیں تھی جتنی اسے سلفیہ اور ابنائے سلفیہ سے محبت ہے، یہ ہیں ہمارے موقر اور محترم استاد جامعہ مولانا مستقیم صاحب ، جو کسی نہ کسی شکل میں ابنا کا وجود برقرار رکھے ہوئے تھے، کبھی ان کے ریکارڈز گم ہوئے تو کبھی جل گئے، لیکن انھوں نے کبھی ہار نہیں مانی۔
یہ ان کی لگن اور ابنا سے دلچسپی کی توانائی تھی کہ دو دہائیاں گزرنے کے بعد جامعہ سلفیہ ہی سے تنظیم ابنا کی نشاة ثانیہ کی آواز بلند ہوئی،فارغین جامعہ کے لیے تو بس یہی کافی تھا کہ مادر علمی نے پکارا ہے، ہمیں بنارس چلنا چاہیے۔
ابنا ئے جامعہ کا دوسرا دو روزہ اجتماع بتاریخ۲۸،،۲۹/ نومبر ۲۰۱۸ء پورے آن بان اور کرو فر کے ساتھ منعقد ہوا، ماشاء اللہ ۔ قابل مبارک باد ہیں جامعہ کے ناظم اعلی، اساتذۂ جامعہ، رضا کار طلبا جن کی اجتماعی محنت رنگ لائی ،ہر ایک نے اپنے حصے کی ذمہ داری محنت اور خلوص سے نبھائی۔
جامعہ کے چھوٹے بڑے اجتماعات ہمیشہ کامیابی کے ساتھ منعقد ہوتے ہیں، جامعہ میں انعقاد ہی ان کی کامیابی کے ضامن ہوتے ہیں، میرے نزدیک اجتماع میں تین چیزوں قیام، طعام اور اکرام کاانتظام اگر اطمینان بخش ہے تو وہ کامیاب ہے۔ الحمد للہ ان تینوں کے بارے میں کسی کو گلہ شکوہ کرتے ہوئے نہیں پایا، چھ سو سے زائد مہمانوں کا انتظام کوئی معمولی بات نہیں ہے، نہ تو رضا کاروں کا ہجوم تھا نہ ان کے نگراں کی کثرت تھی، نہ اساتذۂ جامعہ پریشان تھے، لیکن سارے کام مشینی انداز میں ہورہے تھے، اسٹیشن اور ایر پورٹ پر گاڑیاں لگی ہوئی تھیں ، رضاکاروں کو معلوم تھا، کس مہمان کی فلائٹ یا ٹرین کب پہنچنے والی ہے، جامعہ کے استاد مولانا دل محمد کی تعریف ہر مہمان کر رہا تھا،وہ فردا فردا ہر مہمان سے اس کی ضروریات پوچھ رہے تھے، چراغ رگڑنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی ، وہ الہ دین کے جن کی طرح کبھی دارالضیافہ میں ، کبھی گیٹ پر اور کبھی خصوصی مہمانوں کے پاس موجود نظر آتے۔ انتظامی صلاحیت بھی خدا داد ہوتی ہے، اللہ نے ان کے اندر یہ صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھردی ہے،اس اجتماع کی کامیابی میں یقینا ان کی انتظامی صلاحیتوں کا بڑا دخل ہے۔
ابنا کے شوق فراواں اور وفور محبت کا اندازہ ان کی باہمی گفتگو سے ہورہا تھا، اجتماع کی نشستیں اور اجلاس عام میں سامعین کی دلچسپی اور سکون قابل دید تھا، جو جہاں بیٹھ گیا اختتام تک بیٹھا ہی رہا، لوگوں کی آوا جاہی کا نام و نشان تھا، ٹینٹ اور اسٹیج کی سادگی و پرکاری بنارسیوں کے حسن ذوق کی غماز تھی، پورے میدان میں بڑی بڑی اسکرینیں اور پروجیکٹر لگے ہوئے تھے، ذرائع ابلاغ کی جدید ٹکنالوجی کا استعمال میں نے پہلی بار دیکھا، تصویر کشی اور عکس بندی کے لیے فلائینگ کیمروں یعنی منی ڈرون کا استعمال کیا جارہا تھا، میں تو ان دو دنوں میں پوری زندگی جی آیا۔ بس دل کی یہی تمنا تھی کہ وقت تھم جائے اور یہ رعنائیاں ، یہ رونقیں یوں ہی رواں،دواں اور جواں رہیں۔
میرے لیے اس اجتماع میں سب سے بڑی دل کشی یہی تھی کہ مجھے اپنے بزرگ اور خورد احباب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوگا، ان کی جوانی کی تصویریں ذہن پر مرتسم ہیں، بوڑھے ہوکر وہ کیسے لگتے ہیں؟ کیا وہ بھی میری طرح نظر آتے ہیں، یہ دیکھنا تھا، پرانی یادیں بھی تازہ کرنا تھیں، چھٹیں اور ساتویں دہائی کے ابنا تو اب قدما ہوگئے ، میں بھی اسی صف میں شامل ہوگیا، نگاہیں مانوس چہروں کی تلاش میں تھیں، مولانا نور العین سلفی حفظہ اللہ سے دوسرے دن ملاقات ہوئی، مسرت سے جھوم اٹھا، آپ جامعہ کے پہلے فارغین میں سے ہیں، طلبائے جامعہ کے سالانہ میگزین ” المنار” کے پہلے ایڈیٹر تھے، ۱۹۶۹ کے فارغین کی نمائندگی مولانا مستقیم صاحب اور مولانا عبد الوہاب حجازی کر رہے تھے، سن ستر کے فارغین میں مولانا حسان سلفی اور مولانا عیسی سلفی نظر آئے، سن اکہتر کے نمائندہ صرف مولانا جرجیس تھے، ان کی جماعت میں صرف پانچ آدمی تھے، حافظ سلیمان کے والد مولانا محمد حسین میرٹھی خطیب کولھو ٹولہ کلکتہ کا انتقال ہوگیا تو وہ کلکتہ چلے گئے ڈاکٹر عبد الوھاب صدیقی مرحوم ہوگئے، ان کے ایک ساتھی مولانا عبد اللہ الھادی بیر بھومی تھے جنھیں میں چچا بنگالی کہتا تھا اور وہ مجھے بھتیجے کہتے تھے میرے نام پر اپنے لڑکے کا نام ابوالقاسم رکھا، ۲۰۱۰ میں ریٹائر ہوئے ،فون پر کہنے لگے ہمیں پتہ ہی نہیں چلا نہیں تو آنے کی ضرور کوشش کرتا۔ سن بہتر کے فارغین میں کئی نام یاد آرہے ہیں، مولانا رفیق احمد غالب، مولانا محمود الحسن، مولانا وجہ القمر، مولانا شاہد جنید، ڈاکٹر عبد اللہ مدنی ، مولانا فضل الرحمان، ملاقات صرف ڈاکٹر عبد العزیز سے ہوئی۔ جانتا ہوں کہ سب عمر طبعی کو پہنچ چکے ہیں ، لمبے سفر کے لیے اس عمر میں بڑا حوصلہ چاہیے، اپنے کلاس کے لوگوں کو تلاش کیا سترہ میں سے دو مولانا اقبال احمد، مولانا محمد یحی (مالدہ) اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں، پندرہ میں سے چار ساتھی مولانا سہیل مئوی، شیخ مجتبی، مولانا عبد اللہ زبیری اور مولانا عبید اللہ طیب موجود ملے عبید اللہ سے ملاقات نہ ہوسکی۔
اپنے سے نچلی جماعتوں کے مولانا اقبال نملی سے کافی عرصہ بعد ملاقات ہوئی بڑی خوشی ہوئی، مولانا شبیر احمد رحمانیہ شعبۂ عربی کے مدرس بھی رہ چکے ہیں وہ ریوڑی تالاب پارک کے پاس والی مسجد میں مل گئے، گلے ملے کچھ باتیں ہوئیں ،پروگرام جاری تھا، ان لوگوں سے تفصیلی ملاقات ممکن نہ ہوسکی، دل سےبس یہی دعا نکلی کہ اللہ ان سب کو سلامت رکھے، ۱۹۷۸ سے دو ہزار سولہ تک کے شاگردوں سے ملا، چہرے سب کے مانوس تھے لیکن نام کم ہی لوگوں کے یاد آئے، ان کی عقیدت سے دل سرشار اور محبت سے پورا وجود شرابور ہوگیا، ان کے ساتھ محفلیں بھی جمیں، لکچر بھی ہوا، علمی گفتگو بھی ہوئی، تبصرے بھی ہوئے سب علما کی صف میں آچکے ہیں لیکن بے تکلفی اور اظہار عقیدت کا وہی پرانا انداز تھا جو طالب علمی کے زمانے میں تھا ۔
بہت سے احباب ماشاء اللہ ابھی بھی سرگرم عمل ہیں، ان کی آمد کا شدت سے منتظر تھا، انھیں اجتماع میں نہ پاکر مایوسی سی ہوئی، مجھے تو صرف ان سے ملنے کی خواہش تھی، دکتور عبد الرحمان پریوائی، مولانا عزیز الرحمان سلفی، مولانا عبد المعید مدنی، شیخ صلاح الدین مقبول احمد، مولانا عزیر شمس، شیخ رفیع مدنی، حکیم عبد الحنان سابق ڈپٹی ڈائرکٹر سنٹرل ریسرچ یونانی میڈیسین اینڈ سرجری وزارت آیوش وہ شخصیات ہیں جو جامعہ کے گنج گراں مایہ اور سرمایۂ افتخار ہیں، اس کے بعد کی نسل میں ابنا کی ایک معتد بہ تعداد علم و تحقیق کے میدان میں اپنی شناخت بنا چکی ہے،یہ ابنا سرکاری اور غیر سرکاری بڑے عہدوں پر فائز ہیں، ان کی نمائندگی اجتماع میں نہیں تھی، ممکن ہے کمنیکیشن کی کمی ہو، یا ان کی اپنی مصروفیات اور مجبوریاں رہی ہوں، بہرحال مجھے ان سب کی کمی محسوس ہوئی – ان میں سے چند ہی آجاتے تو اجتماع میں چار چاند لگ جاتا۔
دل کی گہرائیوں سے ہماری دعا ہے کہ یہ اجتماع تنظیم ابنا کے لیے روح نشاط بنے، فارغین جامعہ جامعہ کی طاقت ہیں، اس کے پاسباں بھی ہیں اور نگراں بھی، جامعہ کا وجود ان کے لیے ہے، وہ چاہے جہاں رہیں جامعہ ان کے دلوں میں بسا رہے گا، اس اجتماع کے ذریعہ جامعہ نے تنظیم میں نئی روح پھونک دی، اب اس کے خاکوں میں رنگ بھرنا اور فروغ جامعہ کے لیے اسے مزید کار آمد بناناابنا ئے جامعہ کا کام ہے، ہم جامعہ کے ہیں، جامعہ ہم سب کا ہے۔
ماشاءاللہ شیخ محترم
بہت خوب
جزاکم اللہ خیرا و احسن الجزاء
جزاک اللہ خیرا شیخ
استاد محترم کی ایک ایک بات سے دل خوشیوں سے معمور ہے…. آپ کا پروقار چہرہ سامنے اس وقت جب آپ شیخنا المکرم مفتی حرم مکی سے جب رو برو تھے…
اللہ تعالی شیخ کی صحت بہتر بنائے رکھے.. آمین
ماشا اللٰہ شیخ
عجیب سا بہاؤ ہے تحریر میں سارا منظر نگاہوں میں ابھر آیا کاش ہم بھی شریک ہو پاتے
جزاکم اللہ خیرا بہت خوب شیخ آپ دو روزہ اجتماع کی منظر کشی جس اعتبار سے کی ہے ایسا لگ رہا ہے کہ ہم سامنے بیٹھکر دیکھ رہے ہیں