انسپکٹر سبودھ سنگھ کو نفرت کی سیاست سے…

عبدالغفار زاہد

انسپکٹر سبودھ سنگھ کو نفرت کی سیاست سے تیار شدہ روبو پبلک کی بھیڑ نے مارا ہے

تحریر : رویش کمار، جرنلسٹ، این ڈی ٹی وی 

ہندی سے اردو ترجمہ : عبدالغفار زاہد، بنارس

آج یوپی پولیس کے سپاہیوں اور افسروں کے گھر میں کھانا کیا پکا ہوگا یہ میں نہیں جانتا۔ انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کی تصویر ان کو ضرور جھنجھوڑ دے گی۔ نوکری کی بے رحمی نے بھلے ہی پولیس فورس کو زندگی اور موت سے لاتعلق بنا دیا ہو لیکن سانس لینے والی اس مخلوق میں کچھ تو سوال دھڑکتے ہی ہوں گے کہ آخر کب تک یہ بھیڑ پولیس کو چیلنج دے کر عام لوگوں کو مارے گی اور ایک دن پولیس کو بھی مار ڈالے گی۔ عام طور پر ہم صحافی لوگ پولیس کے بارے میں بے رحم ہوتے ہیں۔ ہماری کہانیوں میں پولیس ایک بری شے ہے۔ لیکن اسی پولیس میں کوئی سبودھ کمار سنگھ بھی ہے جو بھیڑ کے درمیان اپنی ڈیوٹی پر اڑا رہا، فرض نبھاتے ہوئے اسی بھیڑ کے درمیان مار دیا گیا۔

اے ڈی جی لا اینڈ آرڈر آنند کمار کو سن رہا تھا۔ تجربہ کار پولیس افسر کی زبان اس واقعے کی تفصیلات کو بہت سپاٹ انداز میں پیش کر رہی تھی۔ پولیس والوں کو جذباتی ہونے کا حق نہیں ہے۔ وہ صرف اپنے سیاسی آقاؤں کے اشارے پر جذباتی ہوتے ہیں اور عام لوگوں کو لاٹھی لے کر دوڑاتے ہیں، مگر آنند کمار کی سادہ رپورٹ نے اس بھیڑ کے چہرے کو اسی بے رحمی سے بے نقاب کر دیا جس کے درمیان انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ مار دیے گئے۔ ان کے ساتھی سپاہی بھی سنگین زخمی ہیں۔ آنند کمار کا کرب رپورٹ کے پیچھے نظر آ رہا تھا مگر اپنے ماتحت کی موت کے وقت بھی وہ اسی فرض سے بندھے ہونے کی ذمہ داری پوری کر رہے تھے جس نے انھیں اشارہ سمجھنے کے قابل تو بنا دیا مگر ڈیوٹی کے قابل نہیں رکھا۔ میں چاہتا ہوں کہ آنند کمار کی رپورٹ یہاں لفظ بہ لفظ پیش کی جائے تاکہ آپ پورے بیان کو پڑھ سکیں۔ جان سکیں کہ کیا کیا ہوا؟ دیکھ سکیں کہ کیا کیا ہو رہا تھا:
“آج کی یہ بریفنگ ایک المناک واقعہ کے بارے میں ہے جو ڈسٹرکٹ بلند شہر کے تھانہ سيانا میں پیش آیا. آج صبح ساڑھے دس گیارہ بجے تھانہ سيانا میں رپورٹ درج کی گئی کہ گرام “ماہو” (Mahu) کے کھیتوں میں کچھ گائے کے گوشت کے باقیات پڑے ہوئے ہیں۔ یہ اطلاع وہاں کے سابق پردھان رامكمار کی طرف سے دی گئی، جس سے وہاں کے انچارج انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ فوری طور پر موقع پر گئے اور وہاں جاکر انھوں نے موقعے کا معائنہ کیا۔ بھڑکے ہوئے گاؤں والوں کو وہاں پر سمجھایا بجھایا گیا کہ اس پر کارروائی کی جائے گی۔ اور یہ سمجھا بجھا کر کہ پولیس اپنی کارروائی کر رہی ہے اس وقت تک وہاں کے ایس ڈی ایم اور CO کو بھی اطلاع دی گئی کہ موقع پر پہنچیں۔ اس دوران برانگیختہ گاؤں والے ان باقیات کو (جو ممکنہ طور پر گائے کے تھے) ٹریکٹر ٹرالی میں ڈال کر چوکی “چنگراوٹي” ( CHINGRAVATI ) گئے۔ اس کے 10 میٹر پہلے وہاں پر ٹریکٹر ٹرالی سے سيانا-گڑھ روڈ کو بلاک کر دیا گیا۔ وہاں جو بھی بلیاں وغیرہ پڑی تھیں انھیں لگا کر اور ٹریکٹر ٹرالی بھی لگا کر روڈ جام کر دیا۔ اس کارروائی پر وہاں کے انچارج انسپکٹر، چوکی انچارج، سی او نے گاؤں والوں سے گفتگو کی۔ گفتگو میں سمجھایا بجھایا کہ ضروری کارروائی کی جائے گی، کیس دائر کیا جائے گا۔ شروعات میں تو گاؤں والوں نے اتفاق ظاہر کیا لیکن بعد میں جام کھولنے کی بات ہوئی تو اسے لے کر بھڑکے ہوئے گاؤں والوں میں غم و غصہ زوروں پر ہو گیا۔ انھوں نے چنگراوٹي چوکی پر بھاری پتھراؤ کیا۔ پولیس نے بھیڑ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ لاٹھی چارج کیا، مائلڈ ہٹانے کی کوشش کی لیکن بھیڑ میں تقریبا 400 افراد تھے، تین گاؤں، ماہو، چنگراوٹي اور نیاواس کے لوگ تھے۔ ان لوگوں نے وہاں پر موجود تقریباً 15 گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔ تین چار گاڑیوں میں آگ بھی لگائی گئی۔ بھاری تعداد میں پتھراؤ کے مد نظر، پولیس نے ہوائی فائرنگ کی۔ ایک ہوم گارڈ تھا، اس نے بھی 303 سے ہوائی فائرنگ کی۔ گاؤں والوں نے کٹّے سے فائرنگ کی۔ اس کے بعد اس فائرنگ میں، وہاں کے انسپکٹر کو سر پر شاید ایک بڑا بریکر (پتھر) لگا۔ سر میں زبردست چوٹ لگی۔ اس کے بعد کوشش کی گئی کہ تھانے کی گاڑی میں اسپتال لے جائیں، لیکن گاؤں والے وہاں بھی آ گئے۔ پھر بھاری مقدار میں پتھراؤ کیا، خیر کسی طریقے سے سبودھ کمار سنگھ کو بلند شہر بھیجا گیا، علاج کے لیے، لیکن علاج کے دوران ان کی المناک موت ہو گئی۔”

آپ اس خاص رپورٹ کو پورا پڑھیے اور تصور کیجیے کہ ہم نے ارد گرد کیسی بھیڑ بنا دی ہے۔ میں نے اپنی کتاب The Free Voice میں ایک روبو رپبلک کی بات کی ہے جو ہر طرف تیار کھڑی ہے، جو ذرا سی افواہ کی چنگاری پر کسی کو بھی گھیر کر مار سکتی ہے۔ فرقہ وارانہ چیزیں بھر بھر کر ایک عام شہری کو روبوٹ میں بدل دیا جاتا ہے۔ جو اپنی سطح پر تشدد کو انجام دے، جس کی ذمہ داری کسی بھی سیاسی رہنما پر نہ آئے، پہلے کی طرح کسی پارٹی یا وزیر اعلی پر نہ آئے۔ آج اسی روبو ریپبلک کی ایک بھیڑ نے انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کو مار دیا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اس تشدد کی ذمہ داری کسی پر نہیں آئے گی۔ پولیس جب دوسروں کے مارے جانے پر اس بھیڑ کو پکڑ نہیں پائی تو پھر اپنے ساتھی کے قتل کے ان ملزموں کو کیسے سزا تک پہنچا پائے گی۔

پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آ گئی ہے۔ انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کی موت گولی لگنے سے ہوئی ہے۔ جو ویڈیو موصول ہوئے ہیں انھیں ذرا غور سے دیکھیے۔ کس عمر کے لڑکے کو پولیس پر پتھراؤ کر رہے ہیں، اتنا کٹا کہاں سے آیا، گولیاں چلانے کی ہمت کیسے آئی، جو ایک پولیس انسپکٹر کو گھیر لیتی ہے اور آخر میں مار دیتی ہے۔ کس نے اسے گائے کے نام پر اتنا جری بنا دیا ہے؟ کیا وہ گائے کا نام لے کر ملک کے قانون کے دائرے سے باہر ہو جاتی ہے؟

یوپی پولیس کو اس واقعے کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ اسے پولیس بننے کی ایماندار کوشش کرنی ہوگی۔ ورنہ اس کا اقبال تو ختم ہوچکا ہے۔ پولیس کا اقبال افسروں کے جلوے کے لیے بچا ہے۔ ویسے وہ بھی نہیں بچا ہے۔ آپ کو یاد ہے کہ اپریل 2017 میں، سہارن پور ضلع میں اس وقت کے ایس ایس پی لَو کمار کے سرکاری بنگلے میں بھیڑ داخل ہوگئی تھی۔ یوپی پولیس خاموش رہی۔ اسے اپنے سیاسی آقا کے آگے یس سر، یس سر کرنا ضروری لگا۔ کیا اُس معاملے میں کوئی کارروائی ہوئی؟ جب یوپی پولیس کے آئی پی ایس آفیسر اپنے ساتھی آئی پی ایس کے لیے ایماندار نہیں ہوسکے، تو کیسے اس کی توقع کی جاسکتی ہے کہ انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کے قاتلوں کو پکڑنے کے معاملے میں وہ ایماندار ہوں گے؟

یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ مارچ 2013 میں، پرتاپ گڑھ کے ڈی ایس پی ضیا الحق کو اسی طرح گاؤں والوں نے گھیر کر مار دیا۔ مجرم کا پتہ تک نہیں چلا۔ جون 2016 میں متھرا میں ایس پی مکل دویدی بھی اسی طرح گھیر کر مار دیے گئے۔ 2017 میں نئی ​​حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد، نہ جانے کتنے پولیس والوں کو مارنے کے واقعات سامنے آئے۔ نیتا کھلے عام تھانیداروں کو لتیانے جوتیانے لگے، کئی ویڈیو سامنے آئے مگر کسی قسم کی کاروائی ہونے کا پتہ تک نہیں چلا۔

یوپی پولیس آج رات خود کا چہرہ کیسے دیکھ پائے گی؟ اس کے سپاہی واٹس ایپ میں سبودھ کمار سنگھ کی گری ہوئی لاش کو دیکھ کر کیا سوچ رہے ہوں گے؟ چار سالوں میں جو زہر پیدا کیا ہے وہ انتخابات میں سیاستدانوں کے ہونٹوں پر مزید پختہ ہو چکا ہے۔ ہمارے سامنے جو بھیڑ کھڑی ہے وہ پولیس سے بھی بڑی ہے۔

سبودھ کمار سنگھ ہندوستانی سیاست کے شکار ہوئے ہیں، جو اپنے فائدے کے لیے زہر پیدا کرتی ہے۔ نفرت کی آگ پڑوس کو ہی نہیں جلاتی ہے اپنا گھر بھی خاک کر دیتی ہے۔ یوپی پولیس کے پاس کوئی اقبال نہیں بچا ہے سبودھ کمار سنگھ کو خراج تحسین پیش کرنے کا۔ اگر وہ شرمندہ ہے تو وہ شرمندہ ہوسکتی ہے۔ آج کی رات صرف یوپی پولیس ہی نہیں، ہم سب کے لیے شرمندگی کا دن ہے۔

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Dr Abdul Karim Salafi Alig

اہم اور معلوماتی پوسٹ… رویش جی کا ٹائم لائن میں نے دیکھا تھا کل اس موضوع