امبیڈکرزم اور اہلحدیثیت

امبیڈکرزم اور اہلحدیثیت

سعد احمد

ہم میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو خوبصورت مزاج والوں کی قدر بہت زیادہ کرتے ہیں۔ ان کی کہی ہوئی باتوں کو سینے سے لگا کر رکھتے ہیں اور اگر وہ شخص خوبصورت لکھتا ہو تو بھئی واہ، کیا کہنے! پھر جو وہ کہے وہی ہم بھی سنیں جو وہ نہ کہے ہم اس سے دور رہیں۔۔۔

خوبصورت تحریروں کی ہمیشہ قدر کرنی چاہیے۔ ان سے خوشبو آتی رہتی ہے اور ان تحریروں کے قدرداں انبساط محسوس کرتے ہیں۔ اور اگر وہ خوشبو علماء خیر کی تحریروں سے ہو تو بھئی واہ… کیا کہنے!
بعض تحریریں ایسی ہوتی ہیں جن سے خوشبو نہ ضائع ہوتی ہے اور نہ برباد۔ جہاں بھی انھیں پڑھ دیا جائے دل اور ماحول ہم آہنگ ہو جائیں۔ آسمان کا رنگ بدل جائے حتی کہ ستارے آپ کے پہلو میں سونے آجائیں۔ ایسی تحریروں کی ایک نمایاں مثال خواجہ عبداللہ انصاری ہیں جو مشہور صحابی حضرت ابو ایوب انصاری کی اولاد میں سے ہیں۔ اس کا یہ معنی نہیں کہ اور علماء اور صلحا اس طرح کی چیزیں نہیں کہتے یا لکھتے۔۔۔۔.ہمارے پاس تو اس طرح کی ایک لمبی اور بھرپور وراثت ہے۔ خواجہ عبداللہ انصاری کی کتابیں فارسی میں بھی ہیں اور عربی میں بھی۔ وہ فارسی سرزمین پہ قیام پذیر رہے اور درس و تدریس، علم وورع اور عمل و آگہی کی راہ میں اپنے انفعالات کے موتی بکھیرتے رہے۔ پھر اس ضمن میں ایک لمبا سلسلہ آیا، بے شمار علماء، صوفیاء کرام، زہاد عظام اور شعراء کا ازدھام آیا اور ہماری زندگیوں میں رنگ بھر کر چلا گیا۔
پھر ہمارا دور آیا جہاں لکھنے پڑھنے کا تعلق ایک آفاقی جذبات کی پرورش کرنے کے بجائے خالص سیاسی اور توڑ مروڑ والی فکر کی پرورش کرنا ٹھہرا۔ اور ہو بھی کیوں نا ہمارا مد مقابل اس قدر طاقت ور اور ظالم تھا کہ ہمارے پاس کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ خیر! اس دور میں ہر لطیف تحریر کے پیچھے کتنے قتل ہوئے ہیں کسی کو نہیں معلوم تھا۔ اچھا! ہر تحریر کے پیچھے کی داستان سے اگر آدمی واقف ہو جائے تو سر پکڑ کر بیٹھ جائے۔ زمانہ ذرا آگے کھسکا تو اچک لینے والا دور آیا۔ یہ وہ دور تھا جب دانشوری کے پیکر میں کوئی کسی کی زبان لیے پھرتا تھا اور کوئی کسی کی فکر۔
ہمارے دور کے تعلق سے ہمارے گرامی قدر علماء کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ اچک لینے والوں سے کیسے بچا جائے۔ امت مسلمہ کو کیسے بچایا جائے۔ علماء (علی العموم) نے راہیں نکالیں بھی اور نہیں بھی۔ یعنی انھوں نے اس دور سے جوجھنے کے بجائے خود میں مدغم ہونے کی راہیں نکال لیں۔ ان کے پاس چار و ناچار راہ یہی تھی کہ وراثت کی حفاظت کی جائے اور انھوں نے کی بھی۔ اس تعلق سے سب سے زیادہ اگر ہندوستان میں کوئی مسلک اور دین کا دعویدار رہا تو وہ اہل حديث ہی رہے۔ انھوں نے خون دل میں انگلیاں نہیں ڈبوئی تھیں بلکہ وہ اپنے کھیتوں کو اپنے ہی خون سے سینچتے تھے۔ وہ کھلے عام کہتے تیرے حنا کا رنگ گر چہ ہے گہرا مگر میرے خون کا رنگ بھی ہے سنہرا۔
ان کے خون سے جلی حروف میں جو تاریخ لکھی گئی اسی تاریخ اور تصویر کا احسان ہے کہ ہمارے للاٹ سے عزت کا تلک آج تک کوئی مٹا نہیں سکا۔
زمانہ اور آگے کھسکا۔ دل بھی دل لگی سے شغف زیادہ رکھنے لگا۔ پھر تاویل اور تقلید کا دور آیا۔ اکابرین کے ناموں کو مٹانے کا دور آیا۔ وراثت کی جمع پونجی لٹانے کا دور آیا۔ مگر تاریخ ہمیشہ عقلی شواہد پہ راضی ہوتی ہے لیکن یہ کیا۔۔۔جذباتی شواہد کو اجتماعیت کی آواز کا نام دے کر نئی کہانی کہی جانے لگی۔
ہندوستان کی آزادی کاغذی کارروائیوں سے بھی زیادہ اہم درجہ کی تھی اس لیے کہ اس میں علماء بھی شریک تھے اور رہنما بھی۔ بابا بھیم راؤ امبیڈکر اور آزاد دو الگ الگ جہت کے لوگ تھے۔ ہندوستانی آئین سے متعلق ایک نسل تیار تھی۔ سب الگ الگ سمت کے تھے مگر سب کے خوابوں میں ایک ہی چیز۔ ایک ہی ملک تھا، ہندوستان!
بابا صاحب کی تحریک ایک ایسی نسل کی نمائندگی کرتی تھی جس کو تاریخ صدیوں سے ٹھینگا دکھاتی آئی تھی۔ جس کی روح ہزاروں سالوں سے کبھی آزاد نہیں ہو سکی تھی۔ بابا صاحب کے انتقال کے بعد ان کے متبعین امبیڈکرآئٹ کہلائے۔
وہیں مسلمانوں میں بھی ایک حسیت اور حساسیت اس طور کی تیار تھی کہ ان کا کہنا تھا اشرافیہ نے ہمیں تین سو سالوں سے دبائے رکھا اور کچلتے رہے۔۔۔ ہم بدلہ لے کے رہیں گے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ زمینداروں نے ایک عرصہ تک انھیں دبائے رکھا۔ اور اس حقیقت سے جڑی بہت سی حقیقتیں بھی ہیں؛کئی چاند ہیں سر آسماں ترے سوال سے جڑے ہوئے۔
امبیڈکرازم کوئی ایسی چیز نہیں جو بہت بری ہو۔ امبیڈکرازم اچھی چیز ہے۔ کم سے کم سے ان کے لیے جو انسانیت کے زخموں پہ مرہم رکھنا چاہتے ہیں۔۔۔ کم سے کم ان کے لیے جو معاشرتی تصادم کے مہلک نتائج سے واقف ہیں۔۔۔ کم سے کم ان کے لیے جو زخموں کو کرید کر نہیں بلکہ زخموں کو چکھ کر فیصلہ صادر کرتے ہیں۔
تصادم تو معاشرہ کی بقا کا واحد اہتمام ہے ایسا تصور کیا جاتا ہے مگر اہل حديث کا معیار اس ضمن میں بالکل الگ رہا۔
اہل حديث کے علاوہ ہند میں تمام علماء نے علی العموم معاشرتی جبریت کو اس قدر مستحکم کیا تھا جو آج تک ٹوٹ نہیں سکا۔ مسلم معاشرہ میں ذات پات والی حسیت دراصل ہندوستانی معاشرہ کی حقیقت ہے۔ اس نہج سے اگر سوچیں تو ہم معاشرتی اعتبار سے پہلے ہندو ہیں پھر کچھ اور۔۔۔ اسلام کہاں ہے ہمیں نہیں معلوم!!!
اہل حديث اور اہل حديثیت کو آج بھی ہندوستانی مسلم معاشرہ جہاں دوسرے مسلک اور مکتبہ فکر کے علماء ایک پاور پہ مبنی نظام کو جوابدہ ہیں انھیں ہضم نہیں کر سکے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جو بھی اہل حديث ہے وہ معاشرتی جبریت سے معاشرتی آزادی (آزاد اور کھلے ذہن کا معاشرہ) کی طرف دوڑتا ہے اور دوڑنے کی دعوت دیتا ہے۔ ایک عام اہل حدیث علم وعلماء کی اجارہ داری کے خلاف ایسے ہی طاقت ور انداز میں کھڑا ہے جیسے حق کے ایک سپاہی کو کھڑا ہونا چاہیے۔ آزادی کے بعد اہل حدیث اور اہل حدیثیت تصادم والی اس حسیت کے خلاف تھی جو اسلام کو ہر روز ہزاروں ٹکڑوں میں تقسیم کر دے۔ یہی وجہ ہے غیر اہل حديث علماء کا رجحان اہل حديث علماء کی طرف ایک وقت میں بہت زیادہ رہا ہے خواہ وہ مدرسہ اصلاح سے ہو، فلاح سے ہو، ندوہ سے ہو، دیوبند سے ہو، الہ آباد کے خانقاہی صوفیاء علماء سے ہو یا چنندہ بریلوی علماء کی طرف سے۔ اہل حديثیت کے اولین موقف میں سے ایک موقف یہ بھی تھا کہ معاشرتی حساسیت اور تصادم کے امکانات کو قرآن، سنت، صحابہ کے بیانات، علماء کے تراجم، صحابیات کے دروس، صحابہ و صحابیات کرام کی سوانح حیات، تاریخ کے علی العموم مطالعہ سے ختم کیا جائے۔
خوبصورت تحریر اور صاحب تحریر کی قدر کرنی چاہیے اس لیے کہ ان کی تحریروں کے مفاہیم سے ایک خوشبو کا جھونکا گاہے بگاہے اٹھتا ہے اور دور تک پھیلی ہوئی یادداشتوں کو اور جذبات کوفرحت عطا کرتا ہے مگر جب آپ کو کسی تحریر سے چنبیلی کی خوشبو آئے اور اس سے آپ فرحت محسوس کریں تو آپ سمجھ جائیں شام ڈھلے اسی چنبیلی سے سانپ لہراتے ہوئے نکلیں گے اور آپ کے ذہنوں، نتھنوں اور دل میں زہر اتار دیں گے۔

4
آپ کے تبصرے

3000
4 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
4 Comment authors
newest oldest most voted
ابو زینب

متوازن فکری تحریر۔ دینی حلقوں میں ممکنہ و متوقع پیدا ہونے والے ناسور کی بر وقت نشاندہی، اگر مذکورہ اندیشہ کا حل اور تدارک نہ کیا گیا تو یقینا اہلحدیثیت اپنے امتیازی اوصاف کھو دے گی

Abdul Rehman Abdul Ahad

اسلام وعلیکم ۔مضمون ادھورا ہے ۔اور بے ربط بھی ہے ۔شاید ۳ جملوں کو پھیلا کر مضمون کی شکل دے دی گئ ہے

سعد احمد

یہ اچھا رہا ایک اور کام ذمہ لگ گیا… خوب ہے. مضمون سے متعلق دو وضاحتیں؛ أولا مضمون ادھورا ہے اور ثانیاً یہ کہ مضمون کو ٣ جملہ پھیلا کر نہیں بلکہ ایک جملہ کو سکوڑ کر مضمون کی شکل دی گئی. ادھورے پن کو قارئین مکمل کریں اور جملہ پھیلانے کے عمل پر سامعین غور کریں.

محمد مقیم

مضمون عمدہ ہے فکر و تدبر سے کام لیا گیا ہے. چند دعوے ایسے ہیں جو دلیل کا تقاضا کرتے ہیں اگر یہ تقاضا پورا ہوجائے تو تحریر خاصی معروضی ہوجائے گی. بات کو وضاحت اور تفصیل سے کہنے کی ضرورت ہے. امبیڈکرازم کا نکتہ خوب ہے. یہ خیال اپنے آپ میں گہری فکر کا غماز ہے