اس کے نقش پا سے پھول کھل جاتے تھے

سعد احمد متفرقات

میں اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا ہوں۔ میرے کئی بھائی بہن ہیں مگر لاڈ اور پیار مجھے اس طرح ملا گویا میں اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ مجھے پیار سے راجا بیٹا کہا کرتیں۔ میرے خوش ہونے پر بہت خوش ہوتیں اور ملول ہونے پر بالکل مرجھا سی جاتیں۔ میرے کھانا کھانے پہ
آسودگی کا اظہار کرتیں اور میرے نہ کھانے پہ بالکل الجھ سی جاتیں۔ وہ تعلیم یافتہ اور خدا برتروبالا پر بے تحاشہ بھروسہ رکھنے والی عورت تھیں جنھیں بچوں کی تعلیم اور ان کے مستقبل کے علاوہ کچھ نہیں دکھتا۔ صبح سے دوپہر تک اسکول میں تعلیم و تعلم کا کاروبار سنبھالتیں اور وہاں سے گھر واپسی پر بچوں کی تربیت کی فکر میں خود کو ہلکان کیے دیتیں۔ امور خانہ داری میں استانی تھیں، مڈل کلاس والی تھوڑے تھوڑے پیسے بچانے والی فکرمندیاں ہمیشہ دامن گیر رکھتیں۔ بچوں کی صحت، شوہر کی خدمت اور نسائی معاشرے کی دینی اور جذباتی تربیت میں حد درجہ آگے رہنے کی کوشش نے انھیں ایسی خاتون بنا دیا تھا جس کی مدح میں دوست اور دشمن دونوں دل کشادہ رکھتے۔ وہیں کنبہ پروری، غریب نوازی اور ہمسایوں کی غمگساری کی وجہوں سے غائبانے میں بھی ان کا ذکر خیر کیا جاتا۔ مدارس کے چھوٹے بُھٹّے جیسے بچوں کے لیے بڑی شفقت اور دلار سے گھر سے کھانا پینا بھیجواتیں۔ وہیں کوئی اگر یہ کہہ دیتا کہ بٹیا بیمار ہے تو برملا جو ہاتھ آتا اس کی مٹھی میں دبا دیتیں۔
میری ماں مرگئیں، وہ آج مریں یا شاید کل ہی۔ خیر خواہان کا بیان ہے کہ وہ کل رات کے آخری حصہ میں اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔ فون کی گھنٹی بجی، قرابت داروں کے گڈمڈ سے جملے کانوں میں بجنے لگے جس سے صرف یہ اندازہ لگایا جاسکا کہ ماں کی موت اس وقت بالکل نہیں ہوئی جس وقت یہ بتا رہے ہیں۔ میں نے بس پکڑی، دل کڑا کیا اور گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ ماں کو خدائے برتروبالا کے پاس جانا تھا وہ چلی گئیں۔ مگر مجھے اس بات پر ایک نہیں ہزاروں اعتراض ہے کہ وجود کی تخلیق و ترتیب میں جو اصول بنائے گئے ہیں اس پر کیوں رویا جاتا ہے؟ فطرت کے اصول کے سامنے جسم کیوں اوندھے منہ گر جاتا ہے، جسم کیوں لاغر و لاچار ہے اس رمز، اس اشارے اور اس وعدے کے سامنے جو فضائل، اعقاب اور مکافات عمل سے معنون ہے۔ وجود میں رنگ بھرنا تو اچھا عمل ہے پھر وجود کے رنگ کو یکسر پھیکا کیوں کردیا جاتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب کو جاننے اور سمجھنے کی لیے میں نے اگر درگاہ، مزار، پرانے سلاطین اور اولیاء کی قبروں، صوفیاء سے منسوب تکیوں، ریتیلی پہاڑیوں میں برپا شور کو سننے کے لیے پہروں چکر لگائے ہیں تو بازاروں، رونق گاہوں، میلوں، مجلسوں اور بڑے بڑے چقلس میں پہروں دن بھی کالے کیے ہیں۔ بعض لوگوں کا بیان ہے کہ زندگی سے تصور میکدہ نکال دیں تو تصور نشہ کا استعارہ ایک بڑے بحران کا شکار ہوجائے گا۔ وجود کے تصور سے تصور انسان نکال دیں تو خود وجود بے معنی اور بے مصرف لگنے لگے گا۔
بہرحال میں آج بھی اس کی تلاش میں ہوں جس نے زندگی کا سرمایہ وہاں خرچ کردیا جہاں صرف دھوپ تھی، تپش تھی اور چٹیل میدان تھا۔ اگر دل میں جذبہ اور آنکھوں میں کوئی خواب ہو تو یقین جانیے سخت سے سخت حالات، مشکل سے مشکل راہیں اور آزمائشوں کی ہزاروں پگڈنڈیاں کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ زندگی کے بہترین لمحے قمقمے کی شکل عمر بھر آپ کے خیال میں، آپ کے احساسات ميں اور آپ کی یاد میں روشنی، رنگ اور امیدوں کے شجر کو دل پذیر بناتے رہتے ہیں۔ ہاں ہر انسان کی زندگی میں کوئی ایسی ذات ضرور ہوتی ہے جس کے تصور سے آنکھوں میں چمک پیدا ہوجائے۔ زندگی میں آنکھوں میں چمک پیدا کرنے والے تصور کا کس طرح کے مادی نظام سے انسلاک ہوتا ہے جو اگر ایک طرف رنگ، لذت اور جاذبیت کی حدوں کو پھلانگتا ہے تو اسی تصور اور اسی چمک کی تلاش میں ہر لحظہ سرگرداں بھی پِھرا کرتا ہے۔
میں ہمیشہ سوچتا رہتا ہوں کبھی خواب میں کبھی حقیقت…. میں.. کبھی جاگتی آنکھوں سے اور کبھی بند آنکھوں سے۔ کبھی میری آنکھیں کھلتی ایسے جنگل میں ہیں جسے الٹ کر پلٹ دیا گیا ہو، جس کے شجر برباد ہوچکے ہوں اور جس کے پودے تباہ ہوچکے ہوں۔ اپنے چہرے پہ بے تحاشہ نور لیے وہ آتی، مسکراتی اور میری جانب کچھ دیر یوں دیکھتی جیسے مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہی ہو۔ پھر مڑکر واپس چلی جاتی۔ میں فرط و حیرت سے اسے دیکھتا رہتا… پسنیے سے شرابور میرے مساموں میں عجب قسم کی ٹھنڈ اترنے لگتی۔ پھر مجھے تقریباً ہوش ہی آجاتا۔ مجھے صرف اتنا یاد رہتا کہ وہ جارہی ہے اور جہاں جہاں اس کے قدم پڑ رہے ہیں وہاں سے کسی نہ کسی طرح کے پھول کھل رہے ہیں۔
خدا جانتا ہے وہ بات میرے دماغ سے محو کیوں نہیں ہوتی۔ میں خواب میں دیکھا ہوا وہ منظر بھلا کیوں نہیں پاتا جس میں اس کے قدموں تلے سے شجر اُگ رہے ہوتے…رات ہو، دن ہو، یادوں کے شرارے اڑ رہے ہوں یا ہزاروں کام میں میں الجھا رہوں مگر وہ خواب کیوں نہیں مرتا۔
میں نے اپنی آنکھوں سے اپنی زندگی کے محور کو مٹی ہوتے دیکھا تھا۔ میں نے اس ذات کو اپنے ہاتھوں سے بڑی ذات کے حوالے کیا تھا۔ پھر وہ کون سی چیز تھی جو میرے اندر اسے زندہ رکھتی؟ وہ ذات مرتی کیوں نہیں؟
اگر آپ سے کوئی یہ کہے کہ وہ کئی سالوں سے سویا نہیں ہے، وہ برابر جاگتا رہتا ہے، اس وقت بھی جب اس کی آنکھیں بند ہوتی ہیں اور اس وقت بھی جب وہ کھلی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہا ہوتا ہے تو یقیناً ایسے شخص کو آپ مجنون، پاگل یا مخبوط الحواس ہی سمجھیں گے، مگر یقین جانیے کہ میں ایسے کئی لوگوں سے مل چکا ہوں جو اسی ہالے میں قید ہیں جس میں اس طرح کے لوگ گرفتار ہوسکتے ہیں۔ وہ لوگ جو کسی دیکھے ہوئے خواب میں قید ہیں وہ یا تو علم کے مرکبات تیار کرنے کے لیے وقف ہیں یا خدا کی یاد میں سالوں سو نہیں پاتے یا انھیں کوئی غم لاحق ہوتا ہے یا ان پر عشق کی بھکتی سوار ہوتی ہے یا پھر کسی وعدہ فردا کے انتظار میں وہ اپنی ہڈیاں پگھلاتے رہتے ہیں۔
میں اپنی رتی بھر زندگی میں محض یہ سیکھ سکا ہوں کہ انسان کی کمیت اور اصلیت کا اندازہ صرف اس کی بڑی بڑی باتوں سے نہیں لگایا جاسکتا بلکہ وہ جو کر رہا ہوتا ہے اس میں اس کے ہوجانے کا معنی چھپا ہوتا ہے۔۔مگر اگر۔۔ اس کے ہوجانے کے قافیے کو مزید قافیے درکار ہوں۔۔۔یہی اس کا خواب ہو اور اس خواب سے سینکڑوں تعبیریں نسبت قریب رکھتی ہوں تو زندگی نامی دھوکے سے دھوکہ کھا جانا انتہائی مفید اور مثمر عمل ہوگا۔
کسی کے قدموں سے پھول کِھل جانے کو استعارہ ہی کہا جائے گا۔ ہر و ہ شخص جسے اس طور کے تجربات کا سامنا نہیں کرنا پڑا وہ صاحب تجربہ کی باتوں کو سحر انگیزی میں مبتلا کردینے والی اول فول ہی سمجھے گا۔ آپ دیکھیں نا کہ انسان کی بہترین عادت یہ ہے کہ اس کی باتوں میں دنیا کے مثالیے ہر دم مل سکتے ہیں اس کے ساتھ ہی ایک عجیب بات یہ ہوتی ہے کہ ان مثالیوں کو عمل کے عذاب سے گذارنے کے بعد لوگوں کے لیے ایک نمونہ پیش کرنے کی جرات وہ کم ہی کرتا ہے۔ اچھا، چھوڑیں، ان مجربات کو نہ سنیں مگر آپ یہ جان لیں کہ میری ماں مر تو گئی ہیں مگر وہ میری باتوں میں زندہ رہتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ میں باتیں خوب کرتا ہوں، کسی کو زندہ جو رکھنا ہوتا ہے۔ اب باتوں ہی باتوں میں زندگی تلاش کرنا میرا بہترین مشغلہ بن چکا ہے۔
آہ زندگی! زندگی سے خود کو ہم آہنگ کرنے کا عمل کس قدر کیف آگیں ہے۔
ہائے زندگی! رتی بھر ہو کے بھی کائناتی تجربات چرا لیتی ہے۔
اوہ، زندگی! چار دن کی ہوتی بھی نہیں اور چار صدیوں کا مزہ دیتی ہے۔
پھول کا کھلنا انتہائی حیرت انگیز واقعہ ہے صرف اسی لیے نا کہ اس کا کِھلنا زندگی کا احساس بہت ہی لطیف انداز میں کراتا ہے۔ زندگی میں استعارے نہ ہوں تو تجربات کی کڑواہٹ کو امید کی مٹھاس نصیب ہی نہ ہو۔ زندگی کا شوق امید افزا ہوتا ہے اور امیدیں انسانی معاملات پر منحصر تو قطعی نہیں ہوتیں۔ لوگ کہتے ہیں امیدیں دراصل خواب کی لاڈلی ہوتیں ہیں۔ جس کا خواب جس قدر شفاف ہے امیدوں کو اسی قدر سیریابی نصیب ہوتی ہے۔ میں نے بارہا خود سے یہ سوال کیا ہے اور اپنے اس سوال کو بڑے بڑوں کے سوال سے جوڑنے کی کوشش کرتا رہا ہوں کہ زندگی میں کچھ پا جانے کی خواہش خواب پہ ہی کیوں منحصر ہوتی ہے؟ بنا کسی خواب کے زندگی کی کلائی پر رنگ کیوں نہیں چڑھتا؟ بنا جوانی لٹائے، جہد و جفا کے ریگزاروں سے گذرے بغیر، کسی کے انتظار میں آنکھوں میں پڑی ہوئی جالیوں کو ہٹائے بغیر خواب وارد کیوں نہیں ہوتے؟ یہ زندگی اور خواب کا رشتہ کیا ہے؟ خواب کیوں زندگی بناتے ہیں؟ زندگی کیوں خواب دکھاتی ہے؟
فرد کی تربیت میں ماں کا کردار، اس کا معاشرتی تقدس اور اسی تقدس کو باقی ر کھنے کے لیے ہر ماں کا ممتا نامی جذبات پر سر بسجود استفسار؛ اس کے مر جانے پہ کمزوروں کی زندگی میں انتشار اور پھر یادوں کی ناسٹیلجیائی ٹرین کے ڈبوں کی لمبی قطاریں ایک سے زائد دلوں کو بے جان اور ہر قسم کی دنیاوی تعذیب کو جھیل جانے والا تو بنا سکتے ہیں۔۔۔ مگر اگر۔۔۔خواب میں دیکھا ہوا منظر، ماں کے قدم، اس کے قدموں سے پھول کا کھلنا اور اس کو یادوں میں زندہ رکھنے کے لیے استعاروں اور مثالیوں کا ہجوم اور پھر ان مثالیوں سے ایک نہیں کئی زندگیوں کو روشنی فراہم کرنے کے بہانے کسی قبرستان کے مردے اٹھ کھڑے ہوں اور اندرون میں برپا سینکڑوں محشر کے حساب زندگی نامی نعمت کے تاوان میں پاک ہورہے ہوں تو مان لیں کہ آپ کے خواب کی یہی تعبیر ہے اور زندگی اسی لیے خواب دکھاتی ہے۔
(میرے اس دوست کے نام جس کی ماں اس کی زندگی میں روشنی کا سبب ہیں، میرے اس دوست کی کوششوں کے نام جس سے سینکڑوں لوگوں کے خواب کی تعبیریں نسبت قریب رکھتی ہیں)

1
آپ کے تبصرے

3000
1 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
1 Comment authors
newest oldest most voted
Mohammad Ehtesham

کتنا ڈوب کے لکھا ہے آپ نے…عظیم ماں کا عظیم خاکہ… خدا انھیں غریق رحمت کرے.. تحریر پڑھ کر مجھے اپنی ماں شدت سے یاد آ رہی.. میری آنکھوں میں آنسو ہیں اور دل مضطرب..