مکہ اور مدینہ میں لاکھوں زائرين کی موجودگی خطرناک نتائج پیدا کرے گی
پروفیسر ابراہیم موسی
ترجمہ: سعد احمد
گرچہ دنیا وبائی مرض میں گرفتار ہے، مسلمانوں کی متبرک زمین مکہ کی زیارت سرکاری طور سے جولائی کے آخر میں ترتیب دی گئی ہے۔ جب تک حج میں توقف نہیں کیا جاتا، سعودی مملکت نے مسلمانوں سے اپنے اسفار کو ملتوی کردینے کی گذارش کی ہے، اس سے صحت کو تباہ کن خطرات لاحق ہیں۔
ہر سال تقريبا دوملین زائرین حج مکہ میں اپنے ارکان کی ادائیگی کے لیے اکٹھا ہوتے ہیں اور شہر کے مضاٖفات میں کئی جگہوں کا سفر کرتے ہیں، اور وہاں سے تین سو میل دور جہاں محمد رسول اللہ مدفون ہیں، مدینہ منورہ کی زیارت کرتے ہیں۔
خدا کی وحدانیت کی گواہی دینے، پانچ وقت نماز پڑھنے، سالانہ زکوة دینے اور رمضان کے روزوں کے ساتھ، حج اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ہے جو کہ جمعہ کے دن شروع ہوا۔
ہر باضمیر مسلمان اگر بحفاظت اور بدنی طور سے زیارت حج کا اہتمام کرنے کا متحمل ہو تو اسے زندگی میں ایک مرتبہ ضرور حج کرنا ضروری ہے۔ مکہ کا سفر کرنے سے پہلے زائرین سالوں تیاریاں کرتے ہیں۔ میں حج کر چکا ہوں اور مجھے اس بات کا علم ہے کہ حج کی ادائیگی ایک مشقت آمیز عمل ہے۔ سعودی عربیہ میں زائرين کی آمد سے لے کر، حج کے دیگر مناسک، ان کی گھر روانگی تک لاکھوں زائرین کا جماوڑا لگ جاتا ہے۔ وہ اجتماعی طور سے اللہ کی تسبیح و تحلیل بیان کرتے ہیں اور ابراہیم، موسی، عیسی اور محمد (علیھم السلام اجمعین) کے خدا پر بے شمار درود و سلام بھیجتے ہیں۔ معاشرتی دوری اور علیحدگی حج کے موسم میں بعید از قیاس ہے۔ زیارت کے دوران لازمی ٹیکے، عمدہ صاف صفائی اور زائرین کے لیے رہنے کے انتظام نے بڑے پیمانے پر وبائی امراض مثلا ہیضہ اور ٹائفایڈ پر قابو پایا ہے مگر کوروناوائرس کا کوئی علاج نہیں۔
سعودی حکام نے وبائی امراض سے متعلق شدید خطرے سے آگہی کا اظہار کیا ہے۔ ۴مارچ کو سعودی حکام نے رضاکارنہ زیارت عمرہ کو اپنے شہریوں کے لیے منسوخ کردیا۔ غیر ملکی شہری بھی عمرہ کے لیے مملکت کے سفر سے روک دیے گئے۔
سعودی عربیہ کو چاہیے کہ کورونا وائرس کو مد نظر رکھتے ہوئے حج کو موقوف کرنے کا فوری اعلان کرے۔ وبا کے دوران اس طرح کا اعلان اسلامی اخلاقیات میں تمام مومنین کے لیے حفظان صحت کی اولیت پر زور دے گا اور مذہبی اجتماعات پر روک لگانے میں بھی معاون ہوگا۔
حج کو موقوف کرنا ایک حساس سوال ہے جس کے لیے مسلم علماء، مذہبی اور سیاسی رہنماوں کے درمیان اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ مسلمان پہلے سے ہی حرمین شریفین کی اجڑی ہوئی صورت دیکھ کر غمزدہ ہیں۔ سعودی عربیہ غالبا رد عمل کو ملحوظِ خاطر رکھ کر حج کو موقوف کرنے سے گریز کر رہا ہے۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ہنگامہ خیز عروج، یمن کی تباہ کن جنگ اور جمال خشوگی کے لرزہ خیز قتل کے ساتھ ہی پچھلے کچھ سالوں سے سعودی عربیہ کی ساکھ مسلم دنیا میں چرمرائی ہوئی ہے۔ لہذا خبردار!
لیکن حج کو موقوف کرنا سعودیوں اور مذہبی رہنماوں کے لیے اشد ضروری ہے، اس لیے کہ جنگ، وبا اور خطرناک صورتحال میں حج کی ادائیگی ختم کردی جاتی ہے۔ قرآن میں واضح ہے: خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور محمدﷺ نے سکھایا کہ وبا کے دنوں میں دوسروں کو متاثر کردینے سے بچنا چاہیے۔
جب کہ اسلامی تعليمات یہ حکم دیتی ہے کہ کچھ لوگ سخت نگرانی میں حج ادا کریں اور تمام تر حفاظتی اقدامات اور معاشرتی دوری کے اہتمام کے ساتھ سعودی حکام علاقے کے کچھ لوگوں کوحج کی ادائیگی کی اجازت دے۔
مورخین کہتے ہیں کہ جب سے حج شعائر اسلام ٹھہرا، یہ ۴۰ مرتبہ موقوف کیا جا چکا ہے۔ ۱۸۱۴ میں سلطنت عثمانیہ کے دور میں طاعون نے حج میں خلل پیدا کیا حتی کہ حجاج ہی مفقود ہونے لگے۔
مسلم ماہرین ِاخلاقیات کا ماننا ہے کہ وبا کے دنوں میں جان کی حفاظت کو دینی ارکان پرترجیح دی جائے گی۔ پندرہویں صدی کے مصری عالم ابن حجر عسقلانی نے طاعون کے دوران بڑے پیمانے پر نماز کے لیے اجتماعات کی وجہ سے نقصان کی طرف اشارہ کیا ہے۔ دسمبر ۱۴۲۹ میں انھوں نے لکھا کہ قاہرہ میں طاعون کی وجہ سے ایک دن مین ۴۰ موتیں ہوئیں۔ ایک مہینہ بعد جب لوگ کفارے کے روزوں اور نماز کے لیے مجمعوں سے نکل رہے تھے کہ طاعون اٹھا لیا جائے شرح اموات ایک دن میں ایک ہزار سے متجاوز کرگئی۔ اسی طرح علامہ عسقلانی نے یہ خبر بھی دی کہ متعددی بیماری کے مشاہدے میں ناکامی نے ایک صدی پہلے بھی دمشق میں تباہ کن نتائج برپا کیے ہیں۔
بزرگ ابن رشد (مشہور فلسفی، طبیب اور قاضی ابن رشد کے دادا محترم) نے فرمایا کہ ایک مسلمان خطرناک راہ پر نکلے تو وہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے، یہ بہت سخت تنبیہ ہے اس شخص کے لیے بھی جو حالیہ وبا کو نظر انداز کرتا ہے۔
دنیا کے باشعور مذہبی رہنماوں نے بھی تقریبا ایک مہینہ سے مسجدوں کے دروازوں کو بند کردیا ہے۔ وہیں علماء نے دین والوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ شب میں پڑھی جانے والی نماز تراویح کا اہتمام بھی گھر میں ہی کریں۔
خادم حرمین شریفین کے خطاب کا اعزاز رکھنے والے شاہ سلمان بن عبد العزیز اگر مسلم دنیا کو حج میں توقف سے مطلع کرتے ہیں تو یقینی طور سے یہ عالمی مصلحت عامہ کی طرف ایک قدم ہوگا۔ مملکت اور مسلم ممالك کے درمیان مشاورت اس مرتبہ حج کے فریضے کو موقوف کرنے کی ضرورت پر اتفاق رائے بنانے میں مدد کرے گی۔
اس بات پر زور دے کر کہ بحران کے ان ایام میں کہیں بھی مذہبی اجتماع خطرناک ہو سکتا ہے، ابھی کیا گیا کوئی بھی فیصلہ زندگیاں بچا سکتا ہے۔
(ابراہیم موسى یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم کے کیو اسکول آف گلوبل افئیرز میں اسلامی تھاٹ اور مسلم سوسائٹیز کے پروفیسر ہیں)
آپ کے تبصرے