امر بالمعروف ونہی عن المنکر امت مسلمہ کی ایک اہم ذمہ داری اور مقصد وجود ہے۔ ارشاد الہی ہے :
“کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر و تؤمنون باللہ”
یعنی: تم ایک بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کیے گئے ہو ،تم بھلائی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم کماحقہ اس فریضہ کو انجام دے رہے ہیں ؟؟ اگر ہاں! تو پھر آج ہماری تقریریں، جلسے اور انجمنیں بے کار کیوں ثابت ہورہی ہیں؟؟ اصلاح معاشرہ کے نام سے منعقد “کانفرنسوں” اور “جلسوں” کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ کیوں نظر نہیں آرہا ہے؟؟ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اصلاح معاشرہ کی یہ مہم اس طرح ناکام کیوں ہورہی ہے؟؟
اگر بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اصلاح کے نام سے کی جانے والی کوششوں کا رخ صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر ہماری یہ کوششیں صدق و اخلاص اور صحیح عقیدہ وعمل کے ساتھ ہوتیں تو یقینا اس کے بہتر نتائج برآمد ہوتے۔ لیکن اصلاح معاشرہ کی یہ مہم کامیاب کیونکر ہو جبکہ آج اصلاح کی ہماری ساری کوششیں دوسروں تک محدود ہوچکی ہیں اور ہماری ہر تقریر و تحریر اور وعظ و نصیحت صرف اور صرف دوسروں کے لیے ہوتی ہے۔ حالانکہ اصلاح معاشرہ میں اصل چیز فرد کی اصلاح ہے، اگر فرد کی اصلاح ہوجائے تو معاشرہ کی اصلاح خود بخود ہوجائے گی۔
اس لیے اگر ہم واقعی اس عمل میں مخلص ہیں تو پھر اصلاح کی ابتدا اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال سے کریں کیونکہ آج عوام ہماری باتوں کو نہیں بلکہ ہمارے اعمال کو دیکھتی ہے کہ ہم جو کچھ اپنی تقریر و تحریر میں بیان کررہے ہیں اس پر ہمارا کتنا فیصد عمل ہے؟؟
لیکن افسوس صد افسوس! آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم دوسروں کو تو کتاب و سنت کی طرف دعوت دیتے ہیں مگر خود اس کی تعلیمات سے کوسوں دور ہیں، اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا دعوی تو کرتے ہیں مگر خود ہمارے اندر سے حلال و حرام کی تمیز اٹھ چکی ہے اور دنیا کی ساری برائیاں ہمارے اندر موجود ہیں۔
یاد رکھو! ایسا دوہرا کردار اللہ کی ناراضگی کا سبب اور عذاب الہی کا باعث ہے، ارشاد ربانی ہے:
“ياأيها الذين آمنوا لم تقولون ما لا تفعلون o كبر مقتا عندالله أن تقولوا مالاتفعلونo” ( الصف: ٢- ٣)
یعنی: اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں، جو تم کرتے نہیں اس کا کہنا اللہ کو سخت ناپسند ہے..
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس قسم کی شنیع و قبیح فعل سے منع فرمایا ہے اور اس کے انجام سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا:
” يُجَاءُ بِالرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيُلْقَى فِي النَّارِ، فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُهُ فِي النَّارِ، فَيَدُورُ كَمَا يَدُورُ الْحِمَارُ بِرَحَاهُ، فَيَجْتَمِعُ أَهْلُ النَّارِ عَلَيْهِ، فَيَقُولُونَ : أَيْ فُلَانُ، مَا شَأْنُكَ ؟ أَلَيْسَ كُنْتَ تَأْمُرُنَا بِالْمَعْرُوفِ، وَتَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ ؟ قَالَ : كُنْتُ آمُرُكُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا آتِيهِ، وَأَنْهَاكُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَآتِيهِ “.
” قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور اسے جہنم کے حوالہ کردیا جائے گا ( اور اس کو ایسا عذاب دیا جائے گا کہ) اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں گی وہ انھیں لے کر ایسے گھومے گا جیسے گدھا چکی میں گھومتا ہے۔ چنانچہ اس کے ارد گرد جہنمی اکٹھا ہوجائیں گے اور کہیں گے کہ اے فلاں! تمھیں کیا ہوگیا ہے؟ کیا تو ہمیں نیکی کا حکم نہیں دیتا تھا اور برائی سے نہیں روکتا تھا؟ وہ کہے گا: کیوں نہیں! میں تمھیں نیکی کا حکم تو دیتا تھا لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتا تھا اور تم کو برائی سے روکتا تھا لیکن خود اس کا ارتکاب کرتا تھا”۔
(صحیح البخاری :کتاب بدءالخلق، باب صفة النار وأنها مخلوقة؛ رقم الحديث: ٣٢٦٧)
مذکورہ حدیث میں سخت تنبیہ ہے تمام دعاۃ و مبلغین اور علماء و طلبہ کے لیے جن کا عمل ان کے قول اور وعظ و نصیحت کے مخالف ہوتا ہے۔ اور یہی چیز اصلاح معاشرہ کے نام سے منعقد ہونے والے جلسے جلوس کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب ہے کہ ہم خود اپنی اصلاح نہ کرکے صرف دوسروں کی اصلاح کے پیچھے لگے رہتے ہیں اور نتیجتاً ہمیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور حد سے زیادہ افسوس تو اس بات پر ہے کہ آج بہت سارے پیشہ ور مقررین یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ “میں جو کہتا ہوں اس کو سنو ،جو کرتا ہوں اس کو مت دیکھو” جبکہ یہ فعل کتاب و سنت کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے، اور یہ یہودو نصاری کی صفت ہے۔ اللہ تعالی ایسے ہی لوگوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرماتا ہے:
“أتأمرون الناس بالبر وتنسون أنفسكم”( سورة البقرة:44)
یعنی: کیا تم لوگوں کو بھلائی اور نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟؟؟
آج ضروت اس بات کی ہے کہ ہم اصلاح کی ابتدا اپنی ذات سے کریں اور اپنے مخاطبین کے لیے اسوہ و نمونہ بن جائیں اور عوام الناس کے سامنے ایسا کردار پیش کریں کہ کسی کو انگلی اٹھانے کا بھی موقع نہ ملے۔
اس سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے بہترین آئیڈیل اور نمونہ ہے۔ فرمان الہی ہے:
“لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ” ( الاحزاب:21)
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کا بہترین مثال پیش کیا جن کو ہمیشہ اپنی اصلاح و تربیت کی فکر دامن گیر رہتی تھی، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ “ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کی دس دس آیتیں بتدریج سیکھتے تھے پھر پہلے اس پر عمل کرتے بعدہ اس کی نشرواشاعت کرتے”۔
چنانچہ ان حضرات نے جب اپنی اصلاح و تربیت کرکے دعوت و تبلیغ کے میدان میں قدم رکھا تو شمع رسالت کو گھر گھر اور قریہ قریہ پہنچا دیا۔ اس لیے آج ہم بھی اگر وہی محمدی نصاب اور تربیتی منہج اختیار کرلیں تو ان شاءاللہ اصلاح معاشرہ کی مہم ضرور بضرور کامیاب ہوگی اور ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ بھی صحیح ڈھنگ سے انجام دے سکیں گے..
آدمی نہیں سنتا آدمی کی باتوں کو
پیکر عمل بن کر غیب کی صدا بن جا
اللہ تعالی ہم میں سے ہر ایک کو اپنی اصلاح کرنے کی توفیق دے۔ آمین
بہت خوب برادرم
سلامت رہو❤️❤️