مدارس اسلامیہ کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ صفہ اور اصحاب صفہ کی تاریخ۔ وہ صفہ کہ جس کی بنیاد خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے رکھی اور اس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی ایسی تعلیم و تربیت کی کہ روئے زمین کا نقشہ ہی بدل گیا۔ وہ قوم جو عرب کے صحراؤں میں گمنامی کی زندگی بسر کررہی تھی دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا پر چھا گئی اور انھوں نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے کہ آج بھی تاریخ کے صفحات ان کے عظیم ترین کارناموں سے روشن ہیں۔
پھر اس کے بعد مدارس و مکاتب کا ایک جال بچھتا چلا گیا جو مختلف جگہوں پر مختلف اوقات میں متعدد اہم سرگرمیوں کا مرکز رہا اور جس نے مختلف ادوار میں محدث و مفسر، مفتی و فقیہ اور داعی و مبلغ کی شکل میں ایسی ایسی ہستیاں پیدا کیں کہ ایک زمانہ تک ساری دنیا فیض یاب ہوتی رہی۔
لیکن مرور ایام کے ساتھ مدارس کی امتیازی شان اور علمی تشخص ختم ہوتا گیا اور معاملہ یہاں تک جا پہنچا کہ کل تک علوم و فنون کے ماہرین اور قوم وملت کے مصلحین تیار کرنے والوں کے یہاں ایسے لوگوں کا ہی فقدان ہوگیا جو آج نونہالان قوم و ملت کی صحیح تعلیم و تربیت کریں اور انھیں مصلح قوم و ملت کی شکل میں قوم کے سامنے پیش کرسکیں۔
اگر بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مدارس اسلامیہ میں جید علماء کے فقدان کا کوئی ایک سبب نہیں بلکہ اس کے کئی اسباب ہیں۔
* مدارس اسلامیہ میں جید علماء کے فقدان کا پہلا سبب نصاب تعلیم کا ناقص و کمزور ہونا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی علم و فن کے حصول کے لیے سب سے پہلے اس فن کا جامع اور عمدہ ہونا ضروری ہے اس لیے کہ جب تک تعلیمی نصاب کے اندر درستگی و عمدگی نہیں پائی جائے گی اس وقت تک اس کا حاصل کرنے والا نہ تو کمال تک پہنچ سکتا ہے اور نہ ہی اس کے اندر تبحر علمی پیدا ہوسکتا ہے۔
اور جہاں تک نصاب تعلیم میں نقص کی بات ہے تو اس کی بہت ساری مثالیں ہمارے مدارس میں موجود ہیں، مثلا:۔ کتابوں کی کثرت، عربی زبان و قواعد کی تعلیم دینے سے قبل تاریخ ادب عربی کی تعلیم، کتب احادیث کے صرف مخصوص ابواب کا نصاب تعلیم میں شامل کرنا اور بقیہ ابواب و کتب کی تعلیم نہ دینا، تفسیر قرآن میں ایسی کتب تفاسیر کا داخل نصاب ہونا جو قرآن کی تفسیر کم اور منطق و فلسفہ اور نحو و بلاغہ زیادہ نظر آتی ہیں، فراغت تک ترجمہ و تفسیر قرآن کی تعلیم مکمل نہ ہونا، حالات حاضرہ پر کسی مادہ کا نہ ہونا وغیرہ۔
الغرض نصاب تعلیم میں ایسی کتابوں کی کثرت ہے جو نہ تو مقتضائے حال کے مطابق ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نظر آتا ہے۔
اور جب مدارس اسلامیہ میں نصاب تعلیم کا یہ حال ہوگا تو پھر ان مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والوں کے اندر علمی لیاقت و صلاحیت کہاں سے پیدا ہوگی اور جید علماء کہاں سے آئیں گے؟ لہذا ضروری ہے کہ ذمہ داران مدارس اپنے یہاں رائج نصاب تعلیم کا از سر نو جائزہ لیں اور ایک ایسا جامع نصاب تیار کریں جو مقتضائے حال کے مطابق ہو، اور جس میں کسی قسم کا کوئی نقص نہ ہو۔
* مدارس اسلامیہ میں جید علماء کے فقدان کا دوسرا سبب طلبہ مدارس کا دینی تعلیم سے بے رغبتی اور اخلاص کی کمی ہے جیسا کہ آج کل دیکھا جا رہا ہے طلبہ مدارس دینی تعلیم میں مہارت و قابلیت پیدا کرنے کے بجائے عصری علوم کے پیچھے لگ جاتے ہیں، نتیجتاً کسی ایک طرف مکمل طور پر توجہ نہ دینے کی وجہ سے ان کے اندر وہ صلاحیت و قابلیت پیدا ہی نہیں ہو پاتی جس کے ذریعہ وہ مدارس اسلامیہ میں جید علماء کے فقدان کے خلا کو پر کرسکیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عصری علوم کی طرف بالکل توجہ نہ دی جائے بلکہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم پر بھی توجہ دی جائے لیکن اولیت دینی علوم ہی کو دیا جائے۔
لہذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم طلبہ پوری توجہ و لگن کے ساتھ دینی تعلیم کے حصول کے لیے کمربستہ ہوجائیں اور اپنے اندر علمی لیاقت و صلاحیت پیدا کریں تاکہ مدارس اسلامیہ میں جید علماء کے فقدان کا مداویٰ کیا جا سکے۔
# مدارس اسلامیہ میں جید علماء کے فقدان کا تیسرا سبب طلبہ مدارس کا اپنے اہداف و مقاصد کا عدم تعین ہے کیونکہ جب ایک طالب علم اپنا کوئی ہدف و مقصد مقرر کیے بغیر رسمی طور پر دینی تعلیم حاصل کرتا ہے تو پھر اس کے اندر وہ علمی لیاقت و صلاحیت اور کسی ایک فن میں تخصیص پیدا ہی نہیں ہوتی جس کے ذریعہ وہ کسی مدرسہ میں درس و تدریس کا فریضہ کماحقہ ادا کر سکے اور ایک جید عالم ہونے کا ثبوت دے سکے۔
لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ پہلے ہم اپنا ایک ہدف اور مقصد متعین کریں اور کسی ایک فن میں اپنے اندر مہارت پیدا کرنے کی کوشش کریں تاکہ جید علماء کی کمی کو دور کیا جا سکے۔
# مدارس اسلامیہ میں جید علماء کے فقدان کا ایک بڑا سبب ذمہ داران مدارس کی جانب سے علمی لیاقت، تدریسی صلاحیت اور تجربہ و مہارت سے متصف اساتذہ کرام کے بجائے ایسے مدرسین کا انتخاب کیا جانا ہے جو ان کا اپنا کوئی عزیز و رشتہ دار ہو یا پھر کم سے کم تنخواہ پر راضی ہو یا اگر یہ سب بھی نہ ہو تو پھر ان کی جی حضوری اور چاپلوسی کرنے والا ہو اور دوسرے اساتذہ و ذمہ داران کی مخبری و چغل خوری کرنے والا ہو۔
اور ظاہر سی بات ہے کہ جب کسی مدرسہ میں اساتذہ کی تقرری کا معیار اس قدر گھٹیا و پست ہو تو پھر وہاں پر ماہر و تجربہ کار علماء کا بحران نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا؟؟
لہذا ذمہ داران مدارس کے لیے ضروری ہے کہ اساتذہ کی تقرری صرف اور صرف ان کی علمی لیاقت اور تدریسی صلاحیت ہی کی بنیاد پر کریں تاکہ مدارس ایک بار پھر اپنے تابناک ماضی کی طرف لوٹ سکیں اور باصلاحیت علماء و دعاة پیدا کر سکیں۔
اسی طرح ذمہ داران مدارس کی جانب سے علمی لیاقت، تدریسی صلاحیت اور تجربہ کار و ماہرین اساتذہ کرام کی ناقدری کی جاتی ہے اور انھیں اپنی جی حضوری کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور کسی عہدہ و منصب پر تقرری کے وقت ان کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خوددار اساتذہ مدارس کو خیرباد کہہ کر کوئی دوسرا راستہ اختیار کر لیتے ہیں اور اس طرح مدارس میں جید علماء کے فقدان کی شرح میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
لہذا انتظامیہ کے لیے ضروری ہے کہ موقر علمی شخصیتوں کی قدر کریں اور اپنے مدارس میں ان کا وجود باعث خیروبرکت تصور کریں اور کسی بھی بڑے عہدے و منصب پر تقرری کے وقت ان کو ترجیح دیں۔
اس کے علاوہ اساتذہ کی تقرری کے وقت ان کی علمی لیاقت و اہلیت اور صلاحیت و تجربہ کے مطابق معقول اور وقت کے تقاضے کے مطابق مشاہرہ دینے میں بخیلی و کنجوسی اور پس و پیش سے کام لینا، ان کے بیمار ہونے کی صورت میں علاج و معالجہ کا انتظام و انصرام نہ کرنا اور ریٹائر ہونے کے بعد پینشن وغیرہ کی شکل میں کسی قسم کا تعاون نہ کرنا، یہ ساری چیزیں بھی مدارس اسلامیہ میں جید علماء کے فقدان کا ایک اہم سبب ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج بہت سارے لائق و فائق اور قابل اساتذہ اسلامی مدارس میں ان سہولیات کے نہ ہونے کی وجہ سے ان کو خیرباد کہہ دیتے ہیں اور امدادی و سرکاری مدارس کا دامن تھام کر اپنی تمام تر صلاحیتوں کو ختم کر دیتے ہیں۔
اس لیے ذمہ داران مدارس سے گذارش ہے کہ وہ محض اچھی تنخواہ اور دیگر سہولیات کےانتظام نہ کرپانے کا بہانہ بنا کر قوم کی امانت میں خیانت کرنے سے احتراز کریں اور اپنے ہاں کوئی ایسا لائحہ عمل اور قانون وضع کریں کہ جس کی بنا پر یہ کمی دور ہوسکے اور مدارس اسلامیہ ایک بار پھر اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ اہل دنیا کو سیراب کرسکیں۔
اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین
محترم محمد غفران سلفی صاحب نے ایک بڑے حساس موضوع پر گفتگو فرمائی ہے ۔دوسرے احباب کو بھی اس موضوع پر اپنے تجربات ومشاہدات سے عام لوگوں کو مستفید کرنا چاہئے۔مدارس وجامعات کے ارباب حل وعقد اس وقت تک اپنے نظام میں تبدیلی نہیں لائیں گے جب تک رائے عامہ ان کو مہمیز نہ کرے اور رائے عامہ کو بیدار کرنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ اس موضوع پر مسلسل لکھا جائے ۔الحمد للہ فری لانسر سے متعلق اہل قلم کی خاصی بڑی تعداد اس موضوع پر اپنی ایک مستقل رائے رکھتی ہے ۔بار بار لکھنے سے ان شاء… Read more »
اچھا لکھا ہے غفران صاحب آپ نے
مضمون بهت عمده اور عصر حاضر اسكا متقاضي
مدرسه كا ذمه دار اور صدر مدرس يا مسؤول تعليمات كا علم دوست سمجهدار اور امت اسلاميه كا بهي خواه اور متقي هونا بهي ضروري.
بلكه اساتذه كي تقرري بهي انهين صفات كاحامل فرد يا كوئي بورد كا هونا ضروري .
تجديد واصلاح كي سخت ضرورت بلكه دعوت وتبليغ قبل مبلغين وناصحين وبهي خواهون كي تياري ضروري .
کاش کہ ذمہ داران مدارس اس جانب توجہ دیں…