دارالحکومت دہلی میں دریائے جمنا کے کنارے واقع پرانا قلعہ ہے جس میں شیر منڈل، باؤلی اور دیگر تاریخی عمارتوں کے ساتھ ساتھ ایک پرشکوہ جامع مسجد بھی ہے جو مسجد قلعہ کہنہ کے نام سے مشہور ہے۔ سطان شیر شاہ سوری نے اپنے دورِ حکومت 1541ء میں اس کی سنگ بنیاد رکھی تھی جو نہایت ہی دلکش اور خوبصورت ہے۔ البتہ طرز تعمیر مغلوں کے طریقہ تعمیر سے بالکل جدا گانہ اور نظروں کو حیرت و استعجاب میں ڈالنے والی ہے، یہ مسجد سرخ و سفید سنگ مرمر سے تعمیر کی گئی ہے جس کی لمبائی تقریباً ساڑھے اکیاون میٹر اور چوڑائی تقریباً پندرہ میٹر ہے۔ اس میں بیک وقت 800 سے ہزار تک نمازیوں کی گنجائش ہے۔ نیز اس میں سرخ سنگ مرمر کے پانچ دروازے ہیں جن پر خوبصورت کنگورے اور بیل بوٹوں کے ساتھ قرآنی آیات منقش ہیں اور ہر دروازے کے سامنے سفید سنگ مرمر کی محراب تعمیر کی گئی ہے جس پر قرآنی آیات کندہ ہیں جو دیکھنے میں نہایت ہی خوبصورت اور دیدہ زیب ہے۔ لیکن دیگر شواہدات سے پتہ چلتا ہے کہ امامت کے لیے درمیانی محراب ہی کو استعمال کیا جاتا تھا۔ سامنے کچھ فاصلے پر مگر وسیع و عریض احاطہ کے اندر صحن میں کنواں ہے جسے آہنی جالیوں سے ڈھک دیا گیا ہے اور خوش نمائش کے لیے حوض بھی تھا جو اب محض ماضی کی یادگار کے طور پر زبوں حالی کی داستان بیان کررہا ہے۔
مسجد کے جنوبی سمت میں لکڑی کا دروازہ بھی ہے جو کہ بند ہی رہتا ہے اور اس کے ساتھ ہی مشرقی سمت میں سیڑھیاں بھی بنائی گئی ہیں جو قدرے تنگ اور اونچی ہیں۔ جبکہ شمال مغربی اور جنوب مغربی کونوں پر مخروطی شکل کی تین درجوں میں مینار جیسی ساخت بنی ہوئی ہے، اس میں ہر منزل پر تین تین طاقچے بنے ہوئے ہیں، یہ مینار چھت سے اونچی نہیں ہے بلکہ اس کا اوپری حصہ خود چھت میں تبدیل ہوجاتا ہے جس پر حفاظتی دیوار کے کنگورے بنے ہوئے ہیں۔
اس مسجد میں صرف ایک ہی گنبد ہے جو اس میں انوکھا حسن پیدا کرتا ہے۔ یہ درمیانی دروازے کے ایوان نما حصہ کے اوپر رومی طرز پر تعمیر کیا گیا ہے جس پر دو دائروی کلس بنا ہوا ہے۔ اور اس پر نہ تو چاند نصب کیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی اور چیز لیکن حالیہ دنوں میں کسی شر پسند نے اس دائروی کلس کے اوپر ترشول نصب کرکے اس کی حرمت و تقدس کو پامال کرنے اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی مذموم سعی کی ہے۔ حالانکہ یہ مسجد آثار قدیمہ کی نگرانی میں ہے اور اس کے لیے باقاعدہ گارڈ بھی متعین ہیں لیکن اس کے باوجود اس کی حرمت و تقدس کا کھلم کھلا مذاق اڑایا جارہا ہے اور اس میں نماز ادا کرنے کے علاوہ بقیہ تمام اعمال انجام دینے کی خاموش اجازت ہے جس کی جیتی جاگتی مثال اس پر نصب کیا ہوا ترشول ہے جو ان کے ناپاک عزائم کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ علاوہ ازیں دیگر امور سے شناسائی پر سوائے افسوس کے اور کچھ نہیں کرسکتے ہیں۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانان ہند بالخصوص اوقاف کمیٹی نیز مسلمانان دہلی کو اس قسم کی مساجد کی بازیابی کے لیے پوری کوشش کرنی چاہیے اور محکمہ آثار قدیمہ کے ساتھ حکومت ہند سے پر زور مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ اس پر جلد از جلد نوٹس لیں اور اس قسم کی ویران مساجد کو ان کے وارثین کے حوالے کریں تاکہ وہ اس کو آباد کرکے اس کی حرمت و تقدس کو برقرار رکھتے ہوئے اس میں پنچ وقتہ نماز کی ادائیگی کرسکیں۔ اسی میں تحفظ بھی ہے اور اسی میں بہتری بھی۔
اللہ رب العالمین توفیق دے۔ آمین
آپ کے تبصرے