گیارہ دسمبر ہندوستان کی سیاسی تاریخی منظرنامہ میں کافی اہمیت حاصل کرچکا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان کی برسراقتدار جماعت بزعم خویش خود کو ناقابل تسخیر سمجھتی تھی اور کانگریس مکت بھارت کا پرزور نعرہ دیا جارہا تھا۔ ورنہ سیاست میں ایک ہفتہ بھی کافی طویل ہوتا ہے۔ مودی اور امت شاہ کی جوڑی اور ان کی انتخابی حکمت عملی نے ملک میں مخصوص طرح کی فضا کو قائم کردیا ہے، مودی نے مرکز میں آنے کے ساتھ ہی ’’کانگریس مکت بھارت‘‘ کا نعرہ دینا شروع کردیا تھا اور تسلسل کے ساتھ کامیاب بھی ہوتے جارہے تھے، اسی کا نشہ تھا کہ امت شاہ نے ایک بیان میں کہہ دیا کہ “پچاس سال تک ہندوستان میں بی جے پی کی قیادت کو کوئی ہلا نہیں سکتا”۔ خیر یہ ایک جملہ تھا بالکل اسی طرح جس طرح مودی جی نے نوٹ بندی کے وقت کہا تھا کہ ’’آپ ہمیں 60؍دنوں کا موقع دیجیے، میں آپ کو آپ کے خوابوں کا ہندوستان دوں گا‘‘۔ نوٹ بندی کے دوسال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے نہ تو خوابوں کا ہندوستان ملا اور نہ ہی خاصی بہتری نظر آئی۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذ سے عوام کی جو درگت بنی تھی اس کو چھوڑ دیجیے۔ فتحیابی کے بعد راہل گاندھی نے اپنے پریس کانفرنس میں معتدل راہ اختیارکرتے ہوئے کہا کہ’’ہم کسی سے مکت بھارت نہیں چاہتے ہیں‘‘ جس سے ان کے سیاسی مستقبل کو آنکا جاسکتا ہے۔
گیارہ دسمبر کا دن ہندوستان پاکستان میچ کی طرح لگ رہا تھا حالانکہ مجھے میچ سے دلچسپی بس اتنی ہی ہے کہ کون جیتا کون ہارا۔ سب سے دلچسپ مدھیہ پردیش کا رجحان رہا جس میں کئی بار ٹائی تو کبھی کانگریس آگے اور کبھی بی جے پی آگے۔ پورے دن کشمکش کی حالت بنی رہی آخر کار شام ہوتے ہوتے بی جے پی کے زعم و تکبر کا ٹیکرا پھوٹا اور کانگریس اقتدار پر قابض ہونے میں کامیاب رہی۔ ان تین ریاستوں کے انتخابی نتائج نے کانگریس مکت بھارت کے نعرے پر بریک لگادی ہے کیونکہ مودی کی مقبولیت کی جو ہوا چلی تھی وہ مدھیہ پردیش کے سنگلاخ چٹانوں اور راجستھان کے صحراؤں میں دب کر رہ گئی ہے جس کی صاف تصویر سب کے سامنے ہے۔ مدھیہ پردیش میں جہاں شیو راج سنگھ نے کڑی ٹکر دی اس سے ایک بات صاف ہے کہ راہل گاندھی کا جلوہ بہر صورت رنگ دکھا رہا ہے لیکن مزید محنت درکار ہے۔اسی طرح چھتیس گڑھ میں ’’اینٹی ان کم بنسی‘‘ دیکھنے کو ملی، جہاں ڈاکٹر رمن سنگھ کی گزشتہ پندرہ سالہ سرکار راہل گاندھی کے سامنے ڈھیر ہوگئی۔ علاوہ ازیں راجستھان کا اصول رہا ہے کہ وہاں کی عوام ہر پانچ سال میں الگ حکومت اور الگ چہرے کو کرسی ٔاقتدار پر براجمان کراتی ہے تاہم مودی اور امت شاہ کی حکمت عملی کے پیش نظر راہل گاندھی نے جو فتح درج کرائی ہے اسے راہل گاندھی اور کانگریس کا کارنامہ ہی کہا جائے گا ورنہ مودی کی جو آندھی چلی تھی اس میں اچھی اچھی ریاستیں ہاتھ سے جاچکی ہیں۔ ان تین ریاستوں سے مطلع صاف ہوتا نظر آرہا ہے کہ کہیں نہ کہیں ملک کی عوام بیدار ہوچکی ہے اور وہ یہ عندیہ دے رہی ہے کہ 2019 کے پارلیمانی انتخاب میں بی جے پی کو کڑی ٹکر کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ بی جے پی اور اس کے کارکنان مطلق العنانی اور تکبر کا اس طرح شکار ہوچکے تھے اور انھیں مکمل یقین ہوچلا تھا کہ مودی کے مقابلے میں کوئی لیڈر نہیں ہے لیکن جیسا کہ تیجسوی یادو نے خوب کہا ہے کہ ’’مودی کو ان کے وعدے ہی شکست دلانے کے لیے کافی ہیں‘‘۔جس کی ایک جھلک کسانوں اور مزدوروں نے دکھا دیا ہے اور وہ طلسم بھی ٹوٹ چکا ہے کہ مودی بنام کون شخص ہوگا؟
کانگریس پارٹی اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت حاصل کرسکتی ہے تاہم اسے اپنی غلطیوں کااحساس کرنا ہوگا کہ چوک کس مقام پر ہوئی ہے؟ کیونکہ غلطیوں کی شناخت کیے بغیر مستقبل کا لائحہ عمل تیار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پارلیمانی انتخاب سر پر آچکا ہے کانگریس کو تین ریاستوں میں فتحیابی کے بعد بہت زیادہ خوش ہونے کی ضرت نہیں ہے کیونکہ مجموعی طور پر مدھیہ پردیش اور راجستھان کا ووٹ شرح بی جے پی کے آس پاس ہی ہے۔ اور جیتی ہوئی ان تین ریاستوں میں 65؍پارلیمانی سیٹیں آتی ہیں جن میں سے 61؍پر فی الحال بی جے پی قبضہ جمائے ہوئے ہے۔ کانگریس نے اگر اپنے برسراقتدار ریاستوں کے منشور میں شامل وعدہ کی تکمیل کا بہترین مظاہرہ کیا تو نتائج سیکولر عوام کے حق میں آسکتے ہیں، ساتھ ہی علاقائی پارٹیوں کے مقام و مرتبہ کا خیال کرتے ہوئے ہم خیال جماعتوں کے انضمام سے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ یہ وقت کافی دانشمندی اور کمال فراخ دلی کا متقاضی ہے۔ راہل گاندھی سے ہندوستانی عوام کی کافی امیدیں وابستہ ہیں، اب ان پر منحصر ہے کہ وہ اس پر کھرے اترنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں! کیونکہ مودی میجک کمزور پڑتی جارہی ہے، عوام مخالف نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور بھی کئی پینترے وبال جان بنتے جار ہے ہیں۔ مودی کے لیے ریئر ویو گلاس (کانگریس کی سابقہ حکومتوں کو نشانہ بنانا) میں دیکھنے کا وقت ختم ہوچکا ہے، اب ساڑھے چار سال کے حساب کتاب کا دن آچکا ہے، بیان بازی اور جملے بازی سے عوام بوجھل ہوچکی ہے۔ راہل گاندھی اور کانگریس پارٹی کو اس جانب بھی توجہ برتنے کی ضرورت ہے تاکہ عوامی رجحان کو اپنے حق میں کیا جاسکے۔
خیر تین ریاستوں میں ہوئے انتخابات کے نتائج سے کانگریس میں رمق پیدا ہوئی ہے اور راہل گاندھی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ راہل گاندھی نے جو تیور گجرات، کرناٹک اور حالیہ انتخابات میں دکھایا ہے اور کسانوں، مزدوروں اور چھوٹے دکانداروں، رافیل، نوٹ بندی اور وعدوں کی تکمیل کے تئیں مودی حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہوئے مسائل اجاگر کیے ہیں اس سے یہ تو طے ہوچکا ہے کہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے ان میں پختگی آچکی ہے، وہ تپ کر کندن بن چکے ہیں۔ باوجود اس کے فی الحال سب کی نظریں قریبی پارلیمانی الیکشن سے قبل عظیم اتحاد پر ہے کہ اس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں اور سیٹوں کی تقسیم پر کس طرح اپنے اتحادیوں کو راضی کرپاتے ہیں۔
آپ کے تبصرے