اور مدد آگئی

عبدالکریم شاد ادبیات

حمود اب آٹھ سال کا ہو گیا تھا۔ اکلوتی اولاد کے مزے تو الگ ہی ہوتے ہیں اور وہ تو بڑی منتوں کا نتیجہ تھا سو والدین اسے بہت نازوں سے پال پوس رہے تھے، اس کی ہر خواہش پوری ہو سکے اس لیے صباغ دیر تک فیکٹری میں رہتا اور اوور ٹائم کیا کرتا تھا۔ ہر والدین کی طرح انھوں نے بھی بیٹے کے لیے بڑے بڑے سپنے دیکھے تھے، اس کو پڑھا لکھا کر بڑا آدمی بنائیں گے، اس کے لیے پیاری سی بہو لائیں گے، ایک خوبصورت گھر ہوگا جس میں نوکر چاکر اس کی جی حضوری کریں گے، جب وہ مہنگی کار سے اترے گا تو لوگ لائن میں کھڑے ہو کر اس کو سلام کریں گے، بیٹا ہمارا نام روشن کرے گا۔ ۔ ۔ نادان! حلب کے حادثے کا زخم ابھی مندمل نہیں ہوا تھا اور کیسے کیسے خواب بن رہے تھے۔

شہر غوطہ میں ان دنوں دہشت ناک خبریں سننے کو ملتی رہتی تھیں، پورا شہر ایک عجیب کیفیت میں جی رہا تھا۔ عورتوں کا دل کام پر گئے مردوں میں تو مردوں کا دل گھر کی عورتوں میں لگا رہتا تھا. نہ جانے کب کون سا دھماکہ حلب کا زخم ہرا کر دے۔ نہ جانے یہ خبریں سننے والے کب ایک خبر بن کر رہ جائیں، لوگ کفن باندھ کر گھر سے نکلتے تھے، عورتیں اور بچے سہمے سہمے سے رہتے تھے، مساجد میں دعاؤں کا سلسلہ جاری رہتا تھا، گھروں میں تسلی دینا اور خود سہم جانا مردوں کا روز کا ناٹک ہو گیا تھا، کبھی کبھی دل کرتا تھا کہ جو ہونا ہے وہ ہو کیوں نہیں جاتا، یوں تل تل مرنے سے تو بہتر ہے کہ شہید ہو جائیں۔ یوں سمجھ لیں کہ پورے شہر کو کینسر کا مرض لگ گیا تھا۔ اس ماحول میں بھی صباغ جیسے زندہ دل لوگ ہر دن کو آخری دن سمجھ کر جی رہے تھے۔

صباغ نے فیکٹری کا کام جلدی نپٹا لیا، حمود کے لیے میڈکل سے ایک ٹانک لی، رقیہ کے لیے ایک سستا ڈیزائن والا ہار خریدا، کچھ کھانے اور تفریح کے سامان لیے اور شادمان چہرے کے ساتھ گھر کی طرف بڑھا۔ اچانک اس نے ایک دھماکے کی آواز سنی اور سہم گیا، چہرہ سرخ ہو گیا اور آنکھیں غم ناک ہو گئیں، راستا تنگ ہو گیا، لوگ بس بھاگ دوڑ کر رہے تھے، چلا رہے تھے، اللہ اکبر، یا اللہ رحم کے نعرے لگا رہے تھے۔
صباغ کو کچھ سوجھ نہیں رہا تھا، کسی سے کچھ پوچھے بغیر وہ اپنے گھر کی طرف قدم بڑھانے لگا، لوگوں کے دھکوں اور دل کے گمان نے اسے ادھ مرا کر دیا تھا، اس کے پیر جیسے اس کے بس میں نہیں تھے، آنکھیں آس پاس کا منظر دیکھ کر نم ناک ہو رہی تھیں، دل ڈوبا جا رہا تھا، کوئی اپنی گود میں زخمی بچے کو لے کر بھاگ رہا تھا، کوئی ملبے تلے تڑپ رہا تھا، کوئی چیتھڑے سمیٹ رہا تھا، کوئی مدد کر رہا تھا تو کوئی گم سم کھڑا تھا، فضا میں چیخیں گونج رہی تھیں، کوئی کسی کو پہچان نہیں پا رہا تھا۔ صباغ اپنے مضطرب دل کو تھامے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا، قدم ڈگمگا رہے تھے، سوچ رہا تھا کاش! یہ خواب ہو۔ بڑی مشکل سے گھر کے پاس پہنچا جو اب کھنڈر میں تبدیل ہو چکا تھا، اس کی نظریں پاگلوں کی طرح چیزیں ہٹا ہٹا کر کچھ ڈھونڈ رہی تھیں مگر اس کے ہاتھوں میں سوائے خاک کے کچھ سما نہیں رہا تھا۔ وہ کبھی چیختا تو کبھی خاموش ہو جاتا تھا، اس کے ہوش ٹھکانے نہیں تھے، زبان لڑکھڑا رہی تھی، آنے جانے والوں کو روک کر تنگ کرتا “بھائی صاحب! آپ نے میرے بچے کو دیکھا، ارے حمود حمود، آپ کے لڑکے کے ساتھ کھیلتا تھا، بہت اچھا بیٹا تھا مرا، دبلا ہو گیا تھا، یہ دیکھو، اس کے لیے ٹانک لے کے آیا ہوں، پر وہ ہے کہاں؟ اسے تو سیر کرانے بھی لے جانا ہے۔ ۔
ارے ارے بھائی صاحب سنو نا، او، او بھائی صاحب، آپ سنیے نا ذرا، میرا بیٹا شاید مجھ سے ناراض ہو کر کہیں چلا گیا ہے، میں نے اس کو ویڈیو گیم لا کر نہیں دیا نا، آپ کو بتا کر گیا ہے کیا؟
سنیے سنیے، آپ نے میرے بیٹے کو دیکھا ہے کیا؟ کہاں چلا گیا؟ ابھی یہیں تو تھا، ارے یہیں تو تھا ابھی، کہاں گیا ہوگا؟ حمود! اے حمود! بیٹا!
رقیہ! کہاں ہو! یہ دیکھو میں تمھارے لیے کیا لایا ہوں، بہت قیمتی ہار لایا ہوں، ذرا پہن کر تو دکھاؤ، جلدی تیار ہو جاؤ، سیر کرنے نہیں جانا ہے کیا؟ ارے کہاں چلی گئی ہو؟ اچھا! تو تم دونوں ماں بیٹے میرے ساتھ لکا چھپی کھیل رہے ہو، رکو ابھی بتاتا ہوں۔ ۔ ۔”

چیخیں سناٹوں میں تبدیل ہو گئیں، فضا میں عجیب سی گھٹن تھی، صباغ نے ہوش سنبھالا، گلا خشک ہو گیا تھا، آنکھوں کے سامنے کھنڈرات اور لاشیں تھیں، ٹانک اور ہار کو دیکھ کر اس کی آنکھیں برس پڑیں، وہ جی بھر کے رویا اور روتے روتے انا للہ وانا الہ راجعون پڑھا۔
سبھی لوگ ایک طرف کو جا رہے تھے سو وہ بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ راستے میں ایک ایسا علاقہ ملا جو بمباری سے بچا ہوا تھا، وہاں سب نے ڈیرا جمایا اور سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچاتے رہے، رد عمل میں انھیں ڈھیر ساری دعائیں ملیں، کچھ فیسبکی آنسو بہے، ٹویٹر پہ ‘شام جل رہا ہے’ کا ٹرینڈ بھی چلا، واٹس ایپ ان کے ویڈیوز سے بھر گئے، لوگ غم ناک ہو کر ایک دوسرے کا رونا رونے لگے۔ انھوں نے سمجھا کہ وہ کامیاب ہو گئے، سوچ رہے تھے کوئی نہ کوئی مدد تو آتی ہی ہوگی۔ ۔ اور مدد آ گئی، ایک دھماکے نے ان کا سارا دکھ دور کردیا۔ ہمیشہ کے لیے!

آپ کے تبصرے

3000