ماہئ اودھ کے اسرار

ایم اے فاروقی

مچھلی دنیا بھر کے لوگوں کی مرغوب غذا ہے، بنگال اور بنگلہ دیش میں تو مچھلی کے بغیر کھانے کا تصور بھی نہیں کیا جاتا ہے،کھانا کیسا بھی ہو اس میں مچھلی کی خوشبو ضرور آنی چاہیے، ہم نے تو یہ بھی سنا ہے کہ بنگالیوں کے کھانے میں اگر مچھلی نہیں ہوتی تو وہ مچھلی بازار کی جانب برتن رکھ دیتے ہیں، ہواؤں کے دوش پر اڑتی ہوئی مچھلیوں کی خوشبو کا کوئی حصہ کھانے سے ضرور ٹکرائے گا۔ بنگلہ دیشیوں نے تو ہلسا مچھلی کو ماہئ قوم کا درجہ دے رکھا ہے۔ اہم بیماریوں میں ڈاکٹر ہر قسم کے گوشت سے پرہیز کا مشورہ دیتا ہے، لیکن مچھلی کھانے کی اجازت دے دیتا ہے-

غذائی اعتبار سے مچھلی کی اہمیت تو مسلم ہے ، لیکن تاریخی اور تہذیبی اعتبار سے مچھلی ہماری زندگی میں کس قدر رچی بسی ہے اس کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ زمین کے متعلق جو دیو مالائی عقائد ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہماری زمین کو ایک عظیم الجثہ مچھلی اپنی پشت پر لادے ہوئے ہے، مچھلی جسم کو حرکت دیتی ہے تو زلزلے پیدا ہوتے ہیں، ماضی میں مچھلی کو دنیا کے مختلف ممالک خصوصا چین، کوریا، جاپان اور ایران میں نیک شگون ، عزت و وقار، خوش حالی، نسائیت اور زرخیزی کا نشان سمجھا جاتا تھا، ستارہ شناسوں اور ماہرین علم النجوم نے نظام شمسی کے بارہ برج بنائے تو بارہویں برج کا نام حوت یعنی ماہی رکھا، اور اس کی شبیہ دو مچھلیاں بنائیں۔
ماہئ اودھ نہ صبح بنارس اور نہ شام اودھ کی طرح کوئی حسین منظرہے اور نہ ہی شب مالوہ کے مثل دل فریب موسم ہے، دراصل اس کا تعلق شاہان اودھ کے اس تمدنی جلوے سے ہے ، جو گم گشتۂ تاریخ ہوچکا ہے۔

ہندوستان میں سب سے پہلےمغلوں کے دور حکومت ۱۵۲۶۔۱۸۵۷ میں ماہی کی شبیہ کو بطور امتیازی نشان استعمال کیا گیا، ہمایوں ہندوستان پر دوبارہ بر سر اقتدار ہوا تو ایران سے ہند کا ثقافتی سفر تیز تر ہوگیا، ماہی بھی اپنی تمام تر اساطیری وسعت کے ساتھ ہم رکاب ہوئی، اور مغل تہذیب کا جز بنی۔
ماہی مراتب کے نام سے تمغۂ امتیاز دیا جانے لگا، یہ اعزاز ان کمانڈروں، سپہ سالاروں اور شاہی خاندان کے لوگوں کو دیا جاتا جو رزم گاہوں میں بڑا کارنامہ انجام دیتے، شاہی جلوس نکلتے تو یہ نشان جلوس کے آگے سیاروں میں رکھے جاتے، ماہی مراتب کا اعزاز پانے والے افراد کون کون لوگ تھےیہ تاریخ و تحقیق کا الگ موضوع ہے۔
مچھلیوں کاشہر لکھنؤ

آپ لکھنئو میں جس دروازے سے بھی داخل ہوں آپ کا استقبال دروازے کے محراب پر بنی ہوئی دو بے ہنگم سی مچھلیوں کی تصویریں کریں گی یہ مچھلیاں نہ صرف اودھی فن تعمیر کا امتیاز ہیں بلکہ سلطنت اودھ کی طاقت اور زرخیزی کی غماز ہیں، یہ دونوں مچھلیاں اودھی تہذیب کا حصہ کیسے بنیں اس کی تاریخ بھی بڑی دلچسپ ہے، اس بارے میں تاریخ اودھ کے مصنف حکیم نجم الغنی رقم طراز ہیں:
“مچھلی کی صورت یہاں رسم قدیم تھی اس وجہ سے کہ جب نواب صفدر جنگ اودھ میں داخل ہوئے تو داخلے کے وقت نظر ان کی مچھلی پر پڑی اور نیک شگون خیال کرکے اسے سکے میں رواج دیا۔ یہ بیان بعض مورخین کا ہے مگر ہم برہان الملک کے حالات ایک اور تاریخ سے لکھ چکے ہیں کہ جب برہان الملک صوبہ دار ہوکر اس ملک پر قبضہ کرنے کے لیے آئے اور گنگا کو عبور کرنے کے لیے کشتی میں سوار ہوئے تو ایک مچھلی جست کرکے ان کے دامن میں آپڑی اور نواب صاحب نے اس کو نیک شگون جان کر رکھ چھوڑا جو واجد علی شاہ تک رہی گوشت دور ہوکرہڈیاں رہ گئی تھیں“ (تاریخ اودھ جلد چہارم ص 140)
ماہی برہان المک کے لیے نیک شگون ثابت ہوئی اور وہ اودھ کی سلطنت کے بانی بنے، ۱۷۲۲ء میں وہ اودھ کے صوبہ دار کی حیثیت سے وارد ہوئے، اس وقت لکھنؤ کی کوئی سیاسی حیثیت نہ تھی، وہ محض ایک گم نام قصبہ تھا، جسے عہد اکبری کے ایک فوجی افسر شیخ عبدالرحیم بجنوری کو اکبر بادشاہ نے بطور جاگیر عطا کیا تھا، اس نے اپنے خاندان کے لیے متعدد عمارتیں بنوائیں، جن میں سے ایک پنج محل ، قلعہ اور شیخن دروازہ بھی تھا، قلعے میں بہت سے مکانات تھے، شیخ عبد الرحیم علم ماہی مراتب سے سرفراز تھا، قلعہ میں ایک مکان ایسا بھی تھا، جس میں چھبیس محرابیں تھیں ، ہر محراب پر معمار نے دو مچھلیاں بنائی تھیں، اس طرح باون مچھلیاں ہوئیں کہا جاتا ہے کہ ان مچھلیوں کی وجہ سے قلعے کا نام مچھی بھون پڑگیا، بھون یا تو قلعہ کے معنی میں ہے یا باون سے بگڑ کر بھون نام پڑگیا اس کی اولاد شیخ زادے کہلائے ۔ یہ شیخ زادے بڑے طاقت ور اور اثر و رسوخ والے تھے، اودھ کے زیادہ تر صوبے دار اسی خاندان سے بنائے جاتے، ان کے علاقے کے گیٹ پر ایک تلوار لٹکی ہوئی تھی جسے سلامی دیے بغیر کوئی اندر نہیں داخل ہو سکتا تھا، برہان المک پہلا شخص تھا جو بہانے سے اپنی فوج کے ساتھ اندر داخل ہوا اور مچھی بھون پر قبضہ کر لیا، صفدر جنگ صوبہ دار بنا تو اس نے شیخ زادوں کو سات سو ایکڑ زمین دے کر دوسری جگہ منتقل کردیا، ان کے بنائے ہوئے محلات کو اپنے قبضہ میں لے لیا اور مچھی بھون کی از سر نو تعمیر کرائی-
برہان الملک اور صفدر جنگ نے اودھ کا دارالخلافہ فیض آباد کو بنایا، اسے بسایا اور ایک بارونق شہر بنایا، اس وقت تک لکھنؤ صوبیداروں کی نظر کرم سے محروم تھا، پہلے یہ لچھمن پور پھر لکھناوتی اور آخر میں لکھنؤ بنا-

۱۷۵۴ء میں شجاع الدولہ تخت پر بیٹھا تو لکھنؤ کی قسمت جاگ اٹھی، وہ اپنا مرکز لکھنؤ منتقل کرنا چاہتا تھا، لکھنؤ دلہن کی طرح سجنے لگی، لیکن وہ لاکھ خواہش اور کوشش کے باوجود فیض آباد نہ چھوڑ سکا، کیا کرتا اپنی بیگم کی طاقت اور اثر ورسوخ سے واقف تھا وہ شاہ عالم کی منہ بولی بیٹی اور چہیتی تھی، اس کی تمنا دل ہی میں رہ گئی ۱۷۷۵ء میں وہ فیض آباد ہی میں پیوند خاک ہوا، آصف الدولة سریر آرائے سلطنت ہوا تو اس نے باپ کی نہ صرف خواہش پوری کی بلکہ اس نے ٹھان لیا کہ لکھنؤ کو وہ اتنا حسین بنائے گا کہ دلی بھی اس پر رشک کرے گی اور اسے ہنروران فن کا مرجع بناکر رہے گا، آصف الدولہ شاعر بھی تھا اور شاعروں کا قدرداں بھی تھا، تعمیرات کا شوقین تھا، اس کا بنوایا ہوا امام باڑہ آج بھی سیاحوں کے لیے دل کش ہے تعمیر کے وقت وہ مچھلیوں کی صورت بنانا نہیں بھولا۔

ایک سوال یہاں ضرور پیدا ہوتا ہے کہ ماہی مراتب کا نشان تو صرف ایک مچھلی پر مشتمل تھا، لکھنؤ تک پہنچتے پہنچتے دو مچھلیاں کیوں اور کیسے ہوگئیں؟ میرا جہاں تک اندازہ ہے ماہی لکھنؤ تک عہد اکبری میں پہنچ چکی تھی، ممکن ہے کہ گنگا عبور کرتے وقت برہان الملک کے دامن میں دو مچھلیاں آگئی ہوں، لیکن کہانی کی جڑیں یقینا کہیں ایرانی تہذیب میں پیوست تھیں، دو مچھلیاں ثنویت کا رمز بھی ہوسکتی ہیں، ایرانی قوم اور ثنویت کے تعلق سے رشید حسن خاں “ گذشتہ لکھنؤ” مولف مولانا عبد الحلیم شرر کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
“ لفظ و معنی کی ثنویت پر ایرانی قوم سے زیادہ شاید ہی کسی قوم کا ایمان ہو، یہ ثنویت ان کی زندگی کے بعض مظاہر میں بھی نظر آئے گی، ثنویت کا یہ سلسلہ دور تک پہنچتا ہے، ثنویت یعنی دہرا پن کو ان کے یہاں کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا ہے، یہ تو تہذیب اور شائستگی کی جز ہے، اودھ کی اس تہذیب میں بھی آپ ثنویت کا گہرا اثر اور عکس پائیں گے۔” ( گذشتہ لکھنئو ص19)
رشید حسن خاں کی اس رائے سے اختلاف کرنا خاصا دشوار ہے، دو مچھلیوں کی صورت گری کو ان کے نکتۂ نظر کی روشنی میں دیکھیں تو اسے بھی ہم ثنویت کا استعارہ پائیں گے۔

آصف الدولہ ( م۱۷۹۷ء) کے بعد نواب وزیر علی خاں، نواب سعادت علی خاں اور غازی الدین حیدر کے جلوس تک مچھلی اودھی تہذیب کا حصہ بن چکی تھی، ہر تعمیر میں دو مچھلیوں کی تصویریں ضرور ہوتیں، اودھ کے فن تعمیر میں نزاکت، نفاست، صناعی اور تزئین کاری تو کم ہی ہوتی لیکن نکیلے دانتوں والی بدھیئت جسیم مچھلیوں کی صورتیں عمارتوں کو پر ہیبت ضرور بنادیتیں۔
غازی الدین حیدر ۱۸۱۴ء میں تخت پر بیٹھا، برہان الملک سے سعادت علی تک رسمی طور پر ہی سہی اودھ دلی کا ایک صوبہ تھا، ۱۸۱۹ میں انگریزوں نے اپنے مفادات کے پیش نظر غازی الدین حیدر کو بادشاہ کا خطاب عطا کیا، اس سے قبل نوابین اودھ مغل حکومت کے ماتحت اور وزیر تھے یہ بندھن اگرچہ بہت کم زور تھا، لیکن اس بندھن کو توڑنے کی جرأت ابھی تک کسی صوبیدار میں نہیں ہوئی تھی، غازی الدین حیدر نے انگریزوں کی شہ ملتے ہی شاہ زمن کے لقب کے ساتھ خود مختاری کا اعلان کردیا اور مغل سلطنت سے خود کو مکمل طور سے الگ کر لیا، وہ اثنا عشری عقائد میں انتہائی پختہ تھا، بادشاہت کے اعلان کے لیے تاریخ ۱۸/ ذی الحجہ ۱۲۳۴ھ مطابق ۹/ اکتوبر ۱۸۱۹ء کا انتخاب کیا، کہا جاتا ہے کہ ۱۸/ ذی الحجہ شیعوں کے نزدیک بڑا مبارک دن ہے، اسی دن غدیر خم کے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت علی کی ولایت کی بشارت دی تھی، ابھی تک تعمیرات ہی میں مچھلیوں کا جلوہ نظر آتا تھا، یہ اودھ کا پہلا بادشاہ تھا جس نے جڑواں مچھلیوں کی تصویر سکے میں ڈھال دی، چنانچہ جلوس کے تیسرے سال جو سکے اس نے مسکوک کیے اس کے ایک طرف شاہ عالم کانام تھا دوسری طرف مچھلیوں کی تصویر اور اودھ کانام تھا،لیکن بادشاہ بننے کے بعد جو سکہ ڈھلوایا اس کے ایک طرف یہ بیت تھی:
سکہ زد بر سیم وزر از فضل رب المنن
غازی الدین حیدر عالی نسب شاہ زمن
دوسری جانب دو مچھلیوں اور دو شیروں کی تصویریں ایک دوسرے کے مقابلے میں تھیں (تاریخ اودھ جلد چہارم ص 145)

غازی الدین کا مسکوک سکہ جو 1819 میں ڈھالا گیا

غازی الدین حیدر کو وراثت میں کروڑوں روپئے ملے تھے، بے چارے نواب سعادت علی سینت سینت کر دولت جمع کرتے رہے کہتے ہیں کہ شوم طبع کا مال ٹکتا نہیں ہے، غازی الدین نے خوب لٹایا، لاکھوں کے تحائف انگریزوں کو شکر گزاری میں دیے، شاندار عمارتیں بنوائیں مبارک منزل ، شاہ منزل نجف اشرف کی نقل، قدم رسول یورپین بیگم کے لیے ولایتی محل ۔ مذھبی ایجادات کا صیغہ اپنی اسی بیگم کے حوالہ کردیا کہ وہ نت نئی مذھبی رسم کی ایجاد میں مشاق تھیں، انھوں نے اثنا عشری مذھب کو ایسی ترقی دی کہ لکھنؤ اس کا مرکز بن گیا، ان کی ایک حیرت انگیز اور انوکھی ایجاد یہ تھی کہ صحیح النسب سادات کی حسین لڑکیوں کا انتخاب کرتیں اور انھیں اپنی سرپرستی میں لے لیتیں، یہ لڑکیاں ائمہ اثنا عشر کی بیبیاں قرار دی جاتیں، ان کا نام اچھوتیاں رکھا گیا، ظاہر ہے کہ اماموں کی بیویاں تھیں تو پھر ان کو استقرار حمل بھی ہوتا اور ولادت بھی ہوتی، ولادت کی تقریبات دھوم دھام سے منائی جاتیں اور لاکھوں روپیہ اس میں صرف ہوتے۔ ( گذشتہ لکھنئو ص86)


غازی الدین حیدر کی بنوائی ہوئی عمارتوں کی محرابوں میں دو مچھلیوں کی صورت گری کا خاص دھیان دیا جاتا، اس کے امرا اور اصحاب مناصب اپنے علاقوں میں عمارتیں بنواتے تو مچھلیوں کا نقش ضرور بنواتے جو ریاست اودھ کا طرہ امتیاز تھا۔


ابھی کچھ دنوں قبل میں اپنے گاؤں پریوا نرائن پور گیا یہ بستی لکھنو سے تقریبا 150 کلو میٹر دور رائے بریلی اور الہ آباد کے درمیان ہے اس کے اطراف میں مانکپور سے الہ آباد تک کھنڈرات کا جال بچھا ہوا ہے، میں ان میں سے چند کھنڈرات کے درمیان بھٹک رہا تھا، یہ دیکھ کر سخت متعجب ہوا کہ ایک ویران اور کھنڈر بنے امام باڑہ کے کچھ دروازے اور ایک پندرہ فٹ اونچی دیوار سلامت تھی اس دیوار کے ایک محراب پر دو مچھلیوں کی صورتیں ایک مرحوم ریاست کی شان و شوکت کی گواہی دے رہی تھیں ۔


امام باڑہ ملاکہ رزاق پور میں ہے جو ہمارے گاؤں کی مشرقی جنوبی حد سے ایک کلو میٹر دور ہے اس امام باڑہ کا بچا کھچا حصہ بتلا رہا ہے کہ یہ ایک عظیم الشان عمارت تھی، اس کے دوسری طرف ایک شاہی مسجد ہے جس کے کتبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امام باڑہ اور مسجد کی تعمیر کرانے والے کا نام شیخ غلام حسین داروغہ تھا اس نے ۱۲۲۶ھ میں غازی الدین حیدر کے اعلان بادشاہت کے فورا بعد اپنے وطن میں مسجد اور امام باڑہ بنوایا۔
ملاکہ رزاق پور کی مسجد اور کنواں

مسجد کے دروازہ کے سامنے ایک بڑا پختہ کنواں ہے ، جس کی بند نالی سے پانی مسجد کے صحن میں بنے حوض جاتا تھا، حوض ختم ہوچکا ہے اس کی جگہ وضوخانہ بنادیا گیا ہے۔


شیخ غلام حسین ۱۸۰۲ میں بعہد نواب سعادت علی خاں شاہی اصطبل میں ملازم ہوا غازی الدین حیدر کے زمانے میں شاہی مطبخ کا داروغہ اور اس کا مقرب بن گیا، اپنے وطن ملاکہ رزاق پور اور اطراف میں سنچائی کے لیے کنویں ، گنگا کی معاون ندی دور ندی پر متعدد پل، مساجد اور امام باڑے بنوائے، لکھنؤ کے محلہ حسین گنج، کاٹ گنج، خیالی گنج اور فرنگی محل میں شاندار کوٹھیاں بنوالیں، نصیر الدین حیدر کے دور میں اس پر شاہی عتاب نازل ہوا اور اس کی ساری جائیداد ضبط کر لی گئی اور وہ الہ آباد کی طرف فرار ہوگیا ( پرتاپ گڈھ گزیٹیئر 1904 ص 192) لیکن علاقے کی روایات کے مطابق حکومت کے چھاپے کی خبر سن کر غلام حسین نے ہیرا پیس کر پی لیااور مرگیا ( غلام حسین کی عبرت خیز کہانی کسی اور وقت)

واجد علی شاہ کا زمانہ لکھنوی تہذیب کا کلائمکس بھی تھا اور زوال بھی، اس کا باپ نواب امجد علی اپنے دور حکومت میں لکھنؤ کو خالص مذہبی ریاست بنانے کے لیے کوشاں رہے، اتقا اور زہد کا ان پر ایسا رنگ چڑھا تھا کہ سیاست کا ہر کام قبلہ و کعبہ مجتھد صاحب کی اجازت کے بغیر نہیں کرتے، زکوة، صدقہ و خیرات میں اس طرح انھوں نے مال لٹایا کہ خزانہ خالی ہوگیا، ہنومان گڑھی اجودھیا میں انھیں کی اجازت اور ان کے صرفے سے مندر بنا، اس کے بعد ہنومان گڑھی کی عالم گیری مسجد کو ہندوؤں نے مسمار کردیا، اس کی بازیافت کے لیے مولانا امیر علی امیٹھوی کی قیادت میں ۱۸۵۵ء میں مسلمانوں نے جنگ لڑی، اودھ اور انگریزوں کی فوج نے چھ سو مسلمانوں کو تہ تیغ کردیا، پہلی بار بابری مسجد کے نمازیوں کو شہید کیا گیا ان کے بعد ۱۸۴۸ میں واجد علی بادشاہ بنے تو سال ڈیڑھ سال تو خود پر جبر کرکے مولوی بنے رہے پھر اپنی اصلی جبلت پر آگئے- فنون لطیفہ، طوائف پروری، رہس بازی ان کے شب و روز بن گئے، نسائیت پر فدا تھے، شاعر تھے اس لیے طبیعت میں نفاست، نزاکت اور خوش ذوقی تھی، جنگ جوئی کا تصور تو شجاع الدولہ کے بعد ہی معدوم ہوگیا تھا، نسائیت کو فروغ دینا زندگی کا لازمی مقصد بن گیا، عمارتوں میں بدشکل ماہی کی صورت انھیں گراں گزرتی، وقت بدل چکا تھا فنکاری واجد علی شاہ کی گھٹی میں پڑی تھی مچھلی کے پیکر کو نسائیت میں بدل دیا، بھونڈی شکل والی مچھلی کی جگہ وہ جل پری لائے جس کانچلا دھڑ تو خوب صورت مچھلی کا ہوتا لیکن اوپری حصہ کسی حسین عورت کا ہوتا۔

وہ مچھلی کی شکل آرائشی سامانوں میں نقش کروانے لگے، حقہ، پاندان، پیک دان، گلدان، چھوٹے بکس، صراحی جام حتی کہ چھوٹے ہتھیار مچھلی کی شکل کے بننے لگے، پھر اس کی ڈیزائن زیورات میں بہت مقبول ہوئی، دھات کے طرح طرح کے سامان مچھلی کے قالب میں ڈھالے جانے لگے، اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ لکھنوی تہذیب کا سب سے اہم عنصر مچھلی بن گئی


اب تو نہ وہ ماہی رہی نہ اس کے قدردان رہے، مچھلی کے نوادرات سب انگریز لوٹ کر لے گئے، تاہم میوزیم میں اس کے کچھ نمونے اب بھی مل جائیں گے، حکومت اترپردیش چوں کہ زیادہ تر اودھ کے اضلاع پر مشتمل ہے، اس لیے صوبہ کا جو لوگو (logo)
تیار کیا گیا، اس کے اوپری حصہ میں ارجن کا تیر اور کمان ہے اور نیچے دونوں طرف دو مچھلیاں ہیں، پورا لوگو اتر پردیش کی گنگا جمنی تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے۔

3
آپ کے تبصرے

3000
3 Comment threads
0 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
ھلال ھدایت

بہت ہی عمدہ اور تاریخ پر مشتمل مضمون ہے۔

ظہیر احمد نیاز احمد السلفی

بہت ہی دلچسپ اور معلومات سے بھرپور مضمون

طارق کاظمی

ماضی کی بازیافت کو بحسن وخوبی عہدِحاضر کے قارئین کے سامنے پیش کرنالائقِ تحسین ہے