انسان کو اپنی زندگی میں گوناگوں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کی زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں اور وہ کبھی مغموم و محزون ہوتا ہے تو کبھی مسرور و مفروح، غرضیکہ اس کی زندگی میں جہاں خوشی و مسرت کے پھول کھلتے ہیں وہیں حزن وملال کے کانٹوں سے بھی اس کا واسطہ پڑتا ہے۔
اس لیے ایک انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے درد و الم کو دور کرنے، اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے، اور زندگی کی مختلف راہوں میں ہمدرد و غمگسار کے طور پر ایک دوست کا انتخاب کرے جو نہ صرف اس کی خوشیوں میں شریک ہو بلکہ وہ ہمہ وقت اس کے دوش بدوش رہے اور اس کا دست و بازو بن کر اس کے غم و الم کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر زندگی کے ہر موڑ پر اس کی صحیح رہنمائی کرکے اپنی دوستی کو بلندی کے اس مقام پر لے جائے کہ وہ ایک مثالی دوستی بن کر دوسروں کے لیے آئیڈیل بن جائے…
لیکن یہاں پر ایک سوال ذہن میں گردش کرتا ہے کہ دوست کے انتخاب کا معیار کیا ہونا چاہیے؟؟ کیا ایسے دوست کا انتخاب کرنا چاہیے جو صرف ہماری خوشی و مسرت میں شریک ہو اور مشکلات و پریشانی کے وقت اپنا رخ پھیرلے؟؟ یا پھر وہ ایسا شخص ہو جو صرف اپنے دنیاوی اغراض و مقاصد کی خاطر ہماری دوستی کوقبول کرے؟؟ یا وہ اونچے عہدہ و منصب پر فائز ہو اور امیر و کبیر لوگوں میں اس کا شمار ہوتا ہو؟؟
مذکورہ باتوں میں سے کوئی بھی بات ایک اچھے اور صالح دوست پر صادق نہیں آرہی ہے…تو پھر دوستی کا معیار کیا ہونا چاہیے؟؟
اس سلسلہ میں ادھر اھر کی باتیں کرنے کے بجائے ہمیں کتاب وسنت میں دوستی و دشمنی کا معیار تلاش کرنا چاہیے..
اللہ تعالی قرآن مجید کے اندر دوٹوک الفاظ میں دوستی کے بارے میں فرماتا ہے: “إنما وليكم الله ورسوله والذين آمنوا الذين يقيمون الصلاة ويؤتون الزكاة وهم راكعون، ومن يتول الله ورسوله والذين آمنوا فان حزب الله هم الغالبون”(المائدہ:55-56)
یہ آیت دوست کے انتخاب کے بارے میں صریح دلیل ہے کہ وہ دیندار، صالح اور شریعت کا پابند ہو۔ لہذا دنیا و آخرت کی سرخروئی کے لیے مذکورہ بنیادی صفات سے متصف دوست کا انتخاب کرنا چاہیے۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے لیے دوستی و دشمنی اور محبت و بغض کرنے کو ایمان کا سب سے مضبوط کڑا قرار دیا ہے، فرمان نبوی ہے: “أوثق عري الإيمان الموالاة في الله والمعاداة في الله والحب في الله والبغض في الله”(ذكره الألباني رحمه الله في الصحيحة و حسنه:1728)
یہ حدیث دوست کے انتخاب کے بارے میں صریح اور واضح دلیل ہے کہ محبت والفت، بغض و عداوت اور دوستی و دشمنی صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے ہونی چاہیے کیوں کہ دوستی کا یہ معیار اللہ سے محبت و قربت کا بہترین ذریعہ ہے جیسا کہ حدیث قدسی ہے: “قال الله تبارك وتعالي وجبت محبتي للمتاحبين في وللمتجالسين في وللمتزارين في وللمتباذلين في”(رواه مالك في الموطا 2744 وصححه الألباني رحمہ اللہ)
اللہ تعالی نے فرمایا کہ میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہوچکی ہے جو صرف مجھے خوش کرنے کے لیے محبت کرنے والے ہوں اور میرے لیے ہم نشین بنے ہوں اور میری رضا کے لیے ایک دوسرے کی زیارت کرنے والے ہوں اور میری خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے پر خرچ کرنے والے ہوں۔
دوست کے انتخاب میں ایک بات کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے کہ اس کا ہم نشین کن اخلاق و کردار اور عادات و اطوار کا حامل ہے کیوں کہ جس شخص کو وہ اپنا دوست بنا رہا ہے اور جس کے ساتھ وہ مصاحبت اختیار کررہا ہے اس کے منجملہ صفات کا اس پر ایک گہرا اثر پڑے گا کیونکہ صحبت کا اثر ایک یقینی امر ہے۔ اور حدیث نبوی “إنما مثل الجليس الصالح والجليس السوء كحامل المسك ونافخ الكير…..الخ.(متفق عليه) اس بات پر واضح دلیل ہے.
ایک دوسری حدیث میں دوست کے انتخاب کے وقت نہایت ہی بصارت و بصیرت سے کام لینے کی بات کہی گئی ہے، فرمان نبوی ہے: “المرء علي دين خليله فلينظر أحدكم من يخالل”(رواه أبو داؤد:4832 وحسنه الألباني) یعنی: انسان اپنے دوست کے اخلاق و عادات کا حامل ہوتا ہے لہذا تم میں سے ہر ایک کو سوچ سمجھ کر کے دوست کا انتخاب کرنا چاہیے۔
اور یہ حقیقت ہے کہ انسان کے دوست ہی اس کے تعارف اور پہچان کا ذریعہ بنتے ہیں۔ جیسا کہ شاعر کہتا ہے: “عن المرء لا تسأل واسأل عن قرينه” (ادب الدنيا:167)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: “سچے دوستوں کا انتخاب کرو اور ان کی دوستی میں زندگی بسر کرو کیونکہ آسودگی میں وہ تیری زینت ہیں اور مصیبت میں وہ تیری ڈھارس ہیں”۔ (المتاحبیین فی الله للمقدسی:31)
اور عدی بن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إذا كنت في قوم فصاحب خيارهم
ولا تصحب الأردي فتردي بالردي!!
(أدب الدنيا:167)
یعنی: جب تو لوگوں میں مل جل کر رہے تو ان میں سے بہتر شخص کو اپنا ساتھی بنا اور گھٹیا کو ہم نشین نہ بنا کیونکہ گھٹیا تجھے ہلاک کردے گا۔
اور یہ بات بالکل سچ ہے کہ اگر منتخب کیا ہوا دوست اور ساتھی با اخلاق اور نیک ہوگا تو وہ ہمیشہ اپنے دوست کا خیر خواہ ہوگا اور وہ اپنے ہم نشین کے اندر جب بھی کوئی خرابی اور اخلاقی پستی دیکھے گا تو اس سے اس کو آگاہ کردے گا اور اگر وہ اپنے فرائض و واجبات میں غفلت و سستی برتے گا تو وہ اس کو متنبہ کردے گا غرض کہ زندگی کے ہر نشیب و فراز میں وہ اس کی صحیح رہنمائی کرے گا۔
یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مومن کو اپنے بھائی کے عیوب کی نشاندہی کرنے کی بنا پر آئینہ سے تشبیہ دی ہے، فرمایا: “المؤمن مرآۃ المؤمن”(رواه أبو داؤد :4917 وحسنه الألباني)
اور ایک دوست کا اپنے دوست کے لیے آئینہ بن کر اس کی غلطیوں کی نشاندہی کرنا اسی وقت ممکن ہوگا جب کہ دوستی اور دشمنی محض اللہ کی رضا کے لیے ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان: “ورجل تحابا في الله اجتمعا عليه وتفرقا عليه” (رواه البخاري:660) ہمیشہ سامنے ہو اور تعاون علی البر کا جذبہ برابر قائم ہو۔
مذکورہ تمام نصوص سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کسی بھی شخص سے دوستی ذاتی مفاد اور دنیاوی اغراض کے لیے قطعا نہیں ہونی چاہیے اور نہ ہی یہ صرف دعا و سلام اور دعوت طعام تک محدود ہو بلکہ یہ صرف اور صرف اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے ہونی چاہیے اور اللہ کی رضا وخوشنودی اسی وقت نصیب ہوگی جب کہ ہمارے اندر ایک دوسرے کے تئیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا جذبہ پنہاں ہو اور ایک دوسرے کی غلطیوں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اللہ کے عرش کے سایہ کے نیچے جگہ پانے کی تڑپ اور تمنا ہو۔
اللہ تعالی ہمیں دوستی کے معیار کو سمجھنے اور صالح و مخلص دوست کے انتخاب کی توفیق دے۔ آمین
دوستی کا معیار…
ماشاء اللہ بہت خوب 👍بڑے خوبصورت انداز میں آپ نے الفاظ اور دلائل کو پرویا ❤️👍
خوبصورت مضمون