بے خوف نظر آئیں، تو افسوس نہ کرنا

فیضان اسعد شعروسخن

بے خوف نظر آئیں، تو افسوس نہ کرنا

ہم بولنے لگ جائیں، تو افسوس نہ کرنا


بکھرے ہوئے موتی کو پرونے میں لگے ہیں

گر ہم بھی بکھر جائیں، تو افسوس نہ کرنا


تم اپنی نگاہوں سے پلانے پہ بضد ہو

ہم پی کے بہک جائیں، تو افسوس نہ کرنا


شیشے سا بدن لائے ہیں پتھر کی گلی میں

ٹکرا کے بکھر جائیں تو افسوس نہ کرنا


منزل کا پتہ ہی نہیں، نکلے ہیں سفر پر

گر دور نکل جائیں، تو افسوس نہ کرنا


برباد مجھے کرنے کی سازش میں لگے ہو

حالات پلٹ جائیں، تو افسوس نہ کرنا


غربت پہ ہنسی آپ کی، حیرت ہے مجھے یہ

منظر ہی بدل جائیں، تو افسوس نہ کرنا


وحشت ہے، کہیں ڈر ہے، کہیں عالمِ ہُو ہے

ہم پھر بھی جو مسکائیں، تو افسوس نہ کرنا


بچ کر کوئی نکلا نہیں، تنہائی کے ہاتھوں

اسعد بھی نہ بچ پائیں، تو افسوس نہ کرنا


آپ کے تبصرے

3000