مولانا بدرالدین اجمل قاسمی صاحب نے اپنے افکار و خیالات کا جو اظہار پارلیمنٹ میں کیا اور دل کی بھڑاس نکالی وہ فطری تھا اور ہر متعصب، تنگ دل اور قلت برداشت رکھنے والے کی زبان سے نکل سکتا تھا اور نکلا۔ اس کے ردعمل میں سلفی نوجوان مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہوئے اور مذمت کی، سوشل میڈیا کے توسظ سے معافی مانگنے پر مجبور کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انھوں نے رات ہی میں یہ کہتے ہوئے معافی مانگی کہ “سبقت لسانی” سے سرزد ہوا عمل ہے اس میں ان کے افکار و نظریات کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے دس سال پارلیمنٹ میں اور پندرہ سال سیاست میں گزارا ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ خیر سبقت لسانی میں نکلا بلکہ کہا گیا پورا ایک صفحہ جو پارلیمنٹ کی طرف سے آیا اور نشان زدہ ہے سوشل میڈیا میں گردش کررہا ہے، کوئی نرا پاگل بھی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ یہ عمل سبقت لسانی میں ہوا ہے۔ اب جبکہ مولانا نے سلفی نوجوانی کے دباؤ میں آکر معافی مانگتے ہوئے عذر پیش کردیا ہے تو سلفی حضرات کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ اسے قبول کریں۔ تاہم یہ بات انھوں نے کسی مسلکی اسٹیج اور پروگرام سے نہیں کہی تھی ورنہ کوئی اس پر اتنا دھیان بھی نہیں دیتا کیونکہ آئے دن الزام تراشی، جواب اور جواب الجواب چلتے رہتے ہیں، پارلیمنٹ ہاؤس میں کہی گئی یہ بات جتنی سخت تھی اس سے کہیں زیادہ سلفی عقیدے سے وابستہ افراد کے دل میں تیر ونشتر کی طرح چبھ گئی اور فطری امر ہے کہ تکلیف ہو۔
اب جبکہ مولانا نے معافی نامہ اور اعتذاری ویڈیو جاری کردیا ہے بہت سے غیر سلفی بھائیوں کو یہ کہتے اور لکھتے سنا جارہا ہے کہ سب سے پہلے انہی لوگوں نے مولانا کا تعاقب کیا اور انھیں مجبور کیا کہ سلفیوں کے بارے میں کہی گئی بات واپس لیں، معذرت پیش کریں اور معافی مانگیں۔ انہی لوگوں کے دباؤ میں مولانا نے معافی مانگی ہے۔ وہ ایسا اس لیے کہہ رہے ہیں تاکہ خفت کو ہلکا کرسکیں اب ہم اس کو کھسیانی بلی کمبھا نوچے والی بات ہی کہیں گے نا ورنہ اسی پلیٹ فارم پر ہم لوگ بھی لکھتے رہے اور رات ڈیڑھ بجے تک کسی نے کچھ نہیں لکھا اور ناہی جواب دیا۔ ہاں جب مولانا نے معذرت نامہ لکھ کر وائرل کیا تو ایسے برق رفتاری سے لے اڑے جیسے گاؤں کی خبری لال عورتیں۔ اگر مان لیا جائے کہ انھوں نے دباؤ بنایا تو اس کے شواہد کہیں دیکھنے کو کیوں نہیں ملے یا مخفی کیوں ہیں ابھی تک، کسی بڑی جماعتی شخص نے کیوں نہیں نوٹس لیا۔ یہ ان کا دیرینہ رویہ رہا ہے کہ کوئی کام ہوجانے کے بعد اپنے نام کرنے میں لپک پڑتے ہیں اور یوں ادھر ادھر ڈینگیں مارتے ہیں مانو انہی نے انجام دیا ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں کہ جس میں انھوں نے کچھ نہیں کیا اور مسجد تعمیر ہوگئی تو آہستہ آہستہ ہتھیا لیے بلکہ اسی طرح اس معاملہ میں بھی ان لوگوں نے یہی کام کیا۔
اگر ان کی بات میں سچائی ہے تو ابھی تک کیوں نہیں ان کی مقتدرشخصیات کی طرف سے ابھی تک کوئی تردیدی بیان آیا، اتحاد و اتفاق کے نعروں والی آوازیں کہاں دب کر رہ گئیں، کیوں جمعتیں خاموش رہیں۔ سوشل میڈیا سے سلفی نوجوانوں نے مذمتی بیان جاری کیے اور مولانا بدرالدین اجمل قاسمی صاحب کے آفس سے رابطہ کرکے مذمتی احتجاج درج کروائے جس کا اثر ہے کہ انھیں راتوں رات معافی مانگنی پڑی اور پھر نہار منہ ویڈیو بنوائی۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ آپ چادر تان کر سورہے ہیں لیکن اچانک بیدار ہوں اور پھر وائٹ پیپر لے کر میدان میں کود پڑیں بالکل ایسا ہی ہوا جب رات میں ڈیڑھ بجے کے آس پاس مولانا نے اردو لیٹر ہیڈ پر معافی نامہ جاری کیا تب ہر طرف سے اسی لیٹر کی مانو برسات شروع ہوگئی ہو اور مینڈھک کود رہے ہوں۔ مولانا نے جو کالا کارنامہ انجام دیا اس کے لیے معافی بھی مانگ لی ہے لیکن دل میں جو زخم لگایا مندمل ہوتے وقت لگے گا۔ اور آپ چاہے جتنا چیخ چلا لیں لیکن یہ خفت مٹا نہیں سکتے ہیں۔کیونکہ کوئی بہت معمولی غلطی نہیں تھی کہ قلم کو پنسل اور محترمہ لیکھی کو لیکھا کہہ دیا ہو۔ دیر رات تک فیس بک پر ہم سب آپ کے ساتھ کا انتظار کرتے رہے لیکن ہر طرف ہی خاموشی اکا دکا کو چھوڑ کر۔ اندازہ ہوا کہ خاموشی اسی لیے رہی کہ کیا پتہ مولانا سنتے بھی ہیں یا ٹھیٹھی لگالیتے اور بےجا ندامت ہم کیوں برداشت کریں، جیسا کہ اب کہا جارہا ہے کہ اگر معافی نہ مانگتے تو یہ سلفی ان کا کیا بگاڑ لیتے۔ جو بگڑتا وہ تو وقت ہی بتاتا لیکن مولانا کی معصومیت پر قربان جائیں!!
مولانا نے دانستہ کہی بات کو سبقت لسانی کہتے ہوئے معافی مانگ لی ہے اس لیے سلفی احباب کا طریقہ یہی ہونا چاہیے کہ درگزر سے کام لیں، گناہ تو بڑا تھا اور بھری محفل میں تھپڑ مارا ہے لیکن کیا کر سکتے ہیں، کوئی غصہ پر قابو نہ پاسکے اور برسوں کی کدورت بھری محفل میں انڈیل دے تو ہمارا کیا بگڑتا ہے۔ کہا جاتا ہے نا کہ آدمی کے اخلاق وکردار کا اندازہ اس کی زبان سے لگایا جاتا ہے اور وہ ہمارے سامنے ہے۔ سلفی احباب سے عرض ہے کہ اپنا احتجاج ڈھنگ سے جاری رکھیں۔ وسطیت کا مظاہرہ کریں نہ کہ اوروں کی طرح سطحیت کا، یہی ہمارا رویہ ہے اور ہمیں اسی پر قائم رہنا ہے۔ اپنے غیر سلفی بھائیوں سے کہنا ہے کہ مزید نشتربازی نہ کریں تو بہتر ہے اور ہتھیانے اور قبضیانے کی پالیسی ترک کردیں کیونکہ اک نہ دن راز کھلتا ہے اور سربازار نیلامی ہوتی ہے۔
آپ کے تبصرے