تین طلاق بل کے نقصانات

ڈاکٹر عبدالکریم سلفی علیگ

بی جے پی کے ذریعہ مسلم خواتین کے حقوق کی خوب باتیں ہو رہی ہیں، مسلم بہنوں کو حق دلانے کا شور مچاتے مچاتے اصولی باتیں ہی بھول گئے اور چند ضمیر فروش مسلم خواتین کو لے کر یہ ہندی مسلم عورتوں کو انصاف دلانے کا نعرہ لگانے میں مست ہیں۔ حالانکہ اس بل کے بھیانک نقصانات صرف مسلم خواتین کو ہی جھیلنا ہے۔

بل کے نقصانات مندرجہ ذیل ہیں:
١۔ یک بارگی تین طلاق دینے والے شوہر کو تین سال کی قید،
حالانکہ اسلام نے شوہر بیوی کے طلاق کے مسائل بہت ہی واضح اور قابل قدر طریقے سے بیان کیے ہیں۔ چونکہ ہمارے بہت سارے بھائیوں نے قرآن کے خلاف جاتے ہوئے حلالہ جیسی لعنت اپنے اوپر مسلط کر لی ہے اس لیے حکومت کو مسلمانوں کے مسئلہ طلاق میں مداخلت کا موقع مل گیا ہے۔
پھر بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اپنی اپنی بیویوں کو چھوڑنے پر کتنے دن کی سزا ہے؟ یا کوئی سزا ہے ہی نہیں؟

٢۔ اس قانون کے حساب سے طلاق واقع نہیں ہوگی، اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی وہ دونوں شوہر بیوی ہی ہیں، اب اس تین سال شوہر کے جیل بندی کے دوران اس عورت کا نان و نفقہ کون برداشت کرے گا۔ کیا کوئی فنڈ حکومت نے پاس کیا ہے کہ جس سے اس عورت کی ضروریات کا انتظام ہو سکے؟
سماج میں طلاق شدہ خاتون کافی کمزور ہو جاتی ہے اس صورت میں ان کی مدد کے لیے حکومت کے پاس کون سے انتظامات ہیں؟ اس سوال پر حکومت خاموش ہے۔

٣۔ ایک بیوی کہ جس نے اپنے شوہر کو یک بارگی تین طلاق کی وجہ سے جیل بھیجوایا تھا تو کیا وہ شوہر جیل کی سزا کاٹ کر واپس آئے گا تو وہ اس بیوی کو اپنی زوجیت میں رکھے گا؟ جس بیوی کی وجہ سے کسی کی زندگی سلاخوں کے پیچھے گزرے گی وہ دوبارہ اس عورت کو قبول نہیں کر سکتا، بلکہ اس صورت میں عائلی زندگی مکمل طور پر تباہ ہو جائے گی، اس حادثے سے دو گھرانے بری طرح سے متاثر ہوں گے۔
اس صورت میں حکومت کیا رول ادا کرے گی؟ آخر اس عورت کے ساتھ انصاف ہوگا کہ ظلم؟ مزید وہ بے سہارا ہوکر در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گی کہ نہیں؟ جب حکومت کہتی ہے کہ طلاق واقع ہی نہیں تو پھر سزا کس بات کی؟

ان تمام باتوں پر غور کرنے کے بعد یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ حکومت کا یہ قانون بری طرح سے فیل ہو چکا ہے، جس میں مسلم خواتین پر ظلم کا ایک دلکش گلدستہ تیار کرکے انھیں دھوکا دینے کی خوبصورت سازش کی گئی ہے، جو کہیں سے بھی سود مند نظر نہیں آرہا۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ مسلم خواتین کے لیے قانون بنایا گیا پر کسی بھی مسلم تنظیم یا ادارے سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا بلکہ حد تو یہ کہ “مہیلا اور بال وکاس کلیان” جو کہ حکومت کے تحت چلتا ہے ان تک سے مسلم خواتین کے متعلق اتنا بڑا قانون پاس کرنے کے لیے کوئی بات چیت نہیں کی گئی۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ سرکار خواتین کے لیے کتنی فکرمند ہے اور خصوصاً مسلم خواتین کے لیے۔
پردھان سیوک اور ان کی پارٹی کو مسلم خواتین کے متعلق بہت چنتا ہے کہ وہ بے سہارا ہو جاتی ہیں، ان پر ظلم ہوتا ہے، انھیں ہم انصاف دلائیں گے۔
آئیے ذرا غور کرتے ہیں اور ٢٠١١ کے سنسز کا مطالعہ کرتے ہیں کہ اس وقت ہندوستان میں کتنی خواتین اپنے مردوں سے الگ رہتی تھیں یا انھیں الگ ہونے پر مجبور کیا گیا تھا، ان کی تعداد کتنی ہے اور اس میں مسلم خواتین کی تعداد کتنی ہے۔
٢٠١١ کے سنسز کے حساب سے دیکھا جائے تو تقریبا ٢٣ لاکھ خواتین ہیں جو کہ اپنے شوہروں سے الگ کر دی گئیں،
ان ٢٣ لاکھ میں ٢٠ لاکھ ہندو خواتین ہیں، اور تین لاکھ مسلم خواتین۔ اب سوال یہ ہے کہ بیس لاکھ ہندو خواتین کو حق دلا نہیں پارہے اور اپنی من مانی کرکے مزید مسلم خواتین کی زندگیوں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔
پہلے اپنے گھر کی خبر لو مودی جی اس کے بعد ہماری طرف توجہ دینا ویسے ہمارا اسلام تمام خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے بہت سنجیدہ ہے۔ یاد رکھیں! مسلم سماج آپ جیسے لوگوں کو پہچان چکا ہے، سیاست کی بھینٹ چڑھانے کے لیے مسلم خواتین کے نام کا استعمال کرکے ٢٠١٩ میں الیکشن جیتنے کا خواب خواب ہی رہے گا ان شاء اللہ

4
آپ کے تبصرے

3000
2 Comment threads
2 Thread replies
0 Followers
 
Most reacted comment
Hottest comment thread
3 Comment authors
newest oldest most voted
عبدالله رحمانی

ماشاء الله بہت ہی مفید مضمون نگاری ہے اللہ صاحب مضمون کو اور صلاحیتوں سے نوازے آمین

ڈاکٹر عبدالکریم سلفی علیگ

آمین
قیمتی تاثرات اور نیک خواہشات کے لیے تہ دل سے ممنون ہوں، جزاک اللہ خیرا
اسے زیادہ سے زیادہ شئیر کریں…. کیونکہ بہت سارے مسلم ہی نہیں جانتے کہ اس کے نقصانات کیا ہیں

Mohummad nasim haydar

Kuchh galati hamari bhi hai jiski bunyaad par aaj gairon ko bolneka mouka Mila hum quraan ko to many hai par uspar Amal nahi karte hamare aapsi ikhtelaf ne hamain aaj 3talaq jaise mudde par la khara Kiya hai???

ڈاکٹر عبدالکریم سلفی علیگ

کچھ نہیں بلکہ بہت زیادہ، کیونکہ ہم نے قرآن و حدیث کو اس انداز سے نہیں اپنایا جیسا اس کے اپنانے کا حق تھا